اسد کہانی: پرانے گھر کا نقشہ
میری امّی کی خوبصورت ترین یادوں میں گرمیوں کے وہ دن بھی شامل ہیں جو انہوں نے اپنے گاؤں میں گزارے تھے۔ ہر سال گرمیوں کی دوپہر میں وہ گاؤں میں گزرے ان دنوں کے بارے میں ایک کہانی ضرور دہراتی ہیں۔
کہانی بھی کیا بس وہ اپنے پرانے گھر کا نقشہ سا کھینچتی ہیں اور اپنے حال پر افسوس کرتی ہیں۔ لاہور میں جب جون جولائی میں غضب کی گرمی پڑتی ہے اور پہلی منزل کا گھر تنور کی طرح تپتا ہے تو انہیں بھلوال کے قریب تین چک شمالی میں اپنا کچا مکان یاد آتا ہے، جو اب کچا نہیں رہا۔
انہیں یاد آتا ہے کہ گرمیوں میں دوپہر گزارنے کے لیئے سب لوگ موٹی دیواروں والے اندھیرے کمروں میں جمع ہو جاتے تھے، خربوزے کھاتے تھے اور بڑوں کی باتیں سنتے تھے۔ یہ سب میں بچپن سے کئی بار سن چکا ہوں بلکہ ہر سال ہی سنتا ہوں لیکن ہمیشہ یہ سن کر ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے۔
گاؤں کے گزرے دن وہ اس وقت بھی یاد کرتی تھیں جب لاہور والے گھر میں گرمی سے نمٹنے کے لیئے صرف چھت کا پنکھا تھا اور فرش پر پانی کا چھڑکاؤ کر کے حِدّت کم کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ پھر گھر میں ایئر کولر آگئے اور اب ان کی جگہ اے سی لے چکا ہے لیکن ان کی یاد اپنی جگہ قائم ہے اور شاید شدید ہوتی جا رہی ہے۔
مجھے ہر گزرتے سال کے ساتھ امی کے ذہن میں بسا ہوا گاؤں کا نقشہ۔۔۔۔۔لگتا ہے۔
کچھ برس پہلے تک لاہور میں گرمیوں میں بھری دوپہر میں سڑک پر چلتے، بس سٹاپ پر کھڑے، خبروں کی تلاش میں سرکاری دفاتر میں آتے جاتے اور ٹھنڈے کمروں سے اٹھ کر اے سی سے نکلنے والی گرم ہوا کے آگے سے گزرتے ہوئے ایک ہی سوال ذہن میں اٹھتا تھا کہ آیا یہ عمارات موسم کی سختی سے بچانے کے لیئے بنی ہیں یا میں اضافے کے لیئے۔ ہر طرف کنکریٹ، سڑک پر دہکتا تارکول، گاڑیوں کا سمندر اور ان سے نکلتا دھواں اور ایسی نئی عمارات جن میں شیشے کا بے دریغ استعمال کیا گیا ہو۔ ان ایئر کنڈیشنڈ یخ بستہ عمارتوں میں داخل ہوتے ہوئے بھی ڈر لگتا تھا کہ واپسی پر گرمی کے تھپیڑوں کی شدت کئی گنا بڑھی ہوئی معلوم ہوگی۔ اس پر ترقیاتی منصوبوں کے نام پر سکڑتے ہوئے سبزہ زار۔ سب گرمی جذب کرنے کے لوازمات۔
گرمی کا یہ موسم پہلے تو مئی سے شروع ہو کر اگست تک چلتا تھا لیکن اب جھلسنے کا یہ عمل اپریل سے لے کر اکتوبر تک چلتا ہے۔
دن بھر کی گرمی کھا کر اور چھوٹی چھوٹی ہائس ویگنوں میں سفر کر کے جب میں گھر جاتا تھا تو مٹی کی موٹی دیواروں والے کچے مکان کی قدر واضح ہو چکی ہوتی۔ ایک ایسا مکان جو گرمی جذب کرنے کی بجائے اس سے تحفظ فراہم کرتا تھا۔
ان حالات میں زیادہ اچھنبے کی بات نہیں کہ آج کل پاکستان جس کو فون کرو وہ ایک ہی بات کرتا ہے کہ گرمی بہت ہے۔ میرا جواب ظاہر ہے یہی ہو سکتا ہے کہ گرمی تو ہر برس اس موسم میں ہوتی ہے۔ لیکن لوگ زور دیتے ہیں کہ اس برس پہلے سے بہت زیادہ ہے۔ شاید اگلے برس اس سے بھی زیادہ ہو۔
تبصرےتبصرہ کریں
meri ammi to her achay buray mosam mai apne bombay ko hamesha yad krti hai chahay garmi ho ya nahi, ab pakistan mai garmi nahi parti ab Allah direct jahhanum ki garam hawaon ka rukh yahan ker deta hai keh akhirat mai to jalna hi hai uske liye tayyari puri honi chaiye, wese kachi mitti ke ghar bauhat thanday hotay hain iska andaza pichle saal peshawar swat mai hua tha
hona to ye chahiye tha k hum ac ki thandak mein baith ker gaon ki chahon ko bhool jate.laiken aisa is liye nahi hota k ac wale band kamron mein baith ker ghutan ka ehsas hota hai.woh tazgi ka ehsas kahan jo gaon k darakhton ki chahon mein hota tha. phir purani yadon ka bhi apna maza hai.
اسد صاحب ما ضی ہميشہ سے بہت حسين ہوا کرتا ہے امی کوجو خوبصورتی مٹی کي موٹی موٹی ديواروں کويادوں کے پردوں سے نکال کر ديکھنے ،ان بيتے ہو ۓ لمحوں کو پھرسے دوہرا نے ميں ملتی ہو گی ميں جانتی ہوں اس خوشی کو ،اس خو بصور تي کو، کہ روزرات کو ايسی ہی خوبصورت يا دوں کو دوہرا تی ہوں ،وہ وقت جس ميں کم سہو لتوں کے باو جود پا نچ بہن بھا ئيوں کاسا تھ ہوتے ہو ۓ بھی بڑا سکھ تھا بہت ٹھنڈک تھی ،کسی چيزکی کمی ہونے کے باو جود نا ہی ماں باپ نے کبھی اس کمی کو محسوس ہو نے ديا تھا ا ور نا ہی ہميں کبھی کوئ کمی محسوس ہو تی تھي،ليکن آج ائر کنڈ يشنڈ کمروں ميں رہتے ہو ۓ بھی بچوں کو کو ئ نا کو ئ کمی کی شکايت ہی رہتی ہے ،شايد آج دنيا سے قناعت کا خاتمہ ہو گيا ہے ہم لوگ شکر گزار نہيں رہے،معمو لی سي تکليف بھی پہا ڑسي معلوم ہوتي ہے اور ہم واويلا شروع کر ديتے ہيں ،اور خود کو دنيا کا مظلوم ترين انسان سمجھنے لگتے ہيں ضرورت اس بات کي ہے کہ ہميں اپنے بچوں کو آساۂشيں دينے کے ساتھ ساتھ يہ بھي سکھاناہو گا کہ اصل ميں راحت اور سکون صرف اور صرف سادگی ميں ہے ،اسد صاحب آپ نے خود کہا کہ پا کستان ميں شديد گرمی کے بعدصرف پنکھا ہونے کابھي اپنا ہی سکھ تھاجو آج لوگوں کو ائر کنڈ يشنڈ ميں بھی محسو س نہيں ہوتاورنہ واقعتآ موسم کی تلخي،گرمی اور شدت آج بھی ويسی ہی ہے جيسی ہمارے،آپ کے ياہمارے آپ کے ماں باپ کے بچپن ميں تھی ،زيادتی گرمی ميں نہيں ہوئ برداشت کم ہو ئ ہے ہماري، اور کچھ نہيں ،نخرہ زيادہ کرتے ہيں ہم لوگ شايد يہ بھی کو ئ فيشن ہے ،دعائيں،
شاہدہ اکرم
گرميوں کے مزے اگلے پچاس برس اندر بالکل ہی ناپيد ہونےکو ہيں اسلۓ بہترآنے والوں واسطے نا قابل يقين لکھتے جايں_ہاں بھائي اج کون بھلايہ مانيگا کہ پشاور ميں گرميوں کی دوپہرٹھنڈي ہوا کرتی تھي_ اب تو سوات چترال بھی گرم ہوکرگۓ ہيں_سناہے کينيڈا ميں موسم گرما ايک دن پہلے شروع ہونے لگا ہے يعني يہ کہ دنيا بتدريج گرم سے گرم ترہونے کو ہے يخ بستہ ٹھنڈی دوزخ کا خاتمہ ہونے کو ہے_گرم علاقوں کےلوگ اب مزيد تيزی سے بچے دينےلگيںگےوسائل ميں کمی سے غربت اور امراض ميں اضافہ ہوگا جو زيست کو مشکل تر کر دےگا_ہاں بھائی يہ توسب جانتے ہيں__روز اخبارات ريڈيؤ اور ٹئ وي پر ديکھاسنا اور پڑھا جا ر ہا ہے مگراب خداوند کی مرضی کو بندہ کيا ٹا لے گا؟بچے زيادہ ہونگے تو امت بڑھے گی جہاد کريں گے فتح نصرت ملےگي حق کاپرچم سربلند ہوگا _ _ _(ہمارےہاں گرمي ميں اضافہ پر اوسط عوامی ضمير کا يہ بيان 60 کی دہائی ميںزبان زدعام رہا جوايوب خان گورنمنٹ کوگرانے کے بعد بتدريج پاکستان کودولخت کرتااج ہمارے عوامی نمائندؤں کا مشترکہ مسلک و موقف ہے سرکاری ملازمين جن کو ناسمجھے کم فہم نوکر شاہی اور اسٹيبلشمنٹ کہہ کر رد کرتے رہتے اب اپنی ابداری کھوے حکومتوں کے لۓ طويل المياد منصوبہ بندی کرنے کے قابل نہيں_سب کے سب تاک ميں ہيں کہ کسی طور مغربی ممالک ميں بس ليں_ڈاکڑاورپروفيسر تک رخصت لۓ ديار غير ميں ٹيکسی چلاۓ خوش ہيں_ايسےميں کون مائی کالعل جديد ترين نظريات کو خاطر ميں لاے اور موسم کی گرمی ميں اضافے کی شرح گرانے کے گناکبيرہ کا مرتکب ہو)
I like your story, even though i never lived in a vilage in pakistan but i agree with your thoughts..
Brother Assad
Asslamo Alikum
Main app say 100% itefaq kerta hoon keh iss waqt hum kuch ziadda hi nazuk mizaj ho chukay hain, werna asi bhi koi baat nahi , main abhi bhi aik Gaon main rehta hoon aur jo kuch app ne likha wo sab theek hai aur aaj bhi Electricity band honay ki soorat main hum wohee herbay istamal kertay hain, aur waqee garmmi mehsoos hi nahi hotti maggar jo logh shehron main reh rahay hain wo tho... Allah muaff karay,
g janab is ko hi global warming khatey hain
Salam,insan kisi haal mein bhi khush nahin rehta,tamam mumlat koo apney hath main lena chahta hai ,lekin uss koo apni bechargi ka zara bher ehsas nai,,,agar sardi ho tho bachra chall uthta hai ke hai sardi, agar thodi si garmi par jaye tho ,,,chilana shuru kar daita hai ke haye garmi,,,,,Asad bhai bauhatt khoob.
واہ اسد صاحب واہ! آپ نے تو ہميں بچپن ميں گزری گرميوں کی سونی دوپہريں ياد دلاديں جب گھر والوں کو سوتا چھوڑ کر ميں گھر سے نکلتا تھا۔ دوپہر کے بکھرے سناٹے ميں چلتی لُو اور اس ميں اُڑتے کسی اخبار کے پھٹے ٹکڑے يا چند سوکھے پتوں کے سواء کہيں کوئی بندہ بشر دکھائی نہ پڑتا۔ ہاں دور کسی پيپل کی چوٹی پہ بيٹھی چيل کی لہراتی سيٹی ضرور سنائی ديتی تھی جس کی بے ساختہ ياد اب بھی کبھی کبھی گرميوں کی دوپہر ميں دل ميں اک ہوک اُٹھا ديتی ہے ۔ کچے گھروں کی ٹھنڈک کو تو اب آپ اپنی يادوں ہی ميں ڈھونڈتے رہیۓ !
Hum desi logon ko kahin chain nahi hay! Kachchay ghar main ahsas-e-ghurbat daman-gir rahta hay to pakkay ghar bana kar wohi stone age yad ati hay! Pakistan main reh kar 'bahar' janay ki pari rehti hay aur bahar aajain to phir des ki gallian yaadon ka daman nahi chortin.
A very important issue presented in a very simple and brilliant way. We must realize that such developmental activities are not the only way to heaven............infact,these are leading to the destruction of our common future!!!!Best Regards
Jawaria
Asad Sb App jis jaga ab rahta hain app ko to Pakistan walo ki Baat Hamakat Mahsoos hoti hogi.halakah app khud yahan rah kar gay hain.Yadeen to Khair yadeen hoti hain.Garmi har musam main hi hoti hay .ab agar purana loog (Bazurgo) say Pooch lain to kahta hain yeh garmian to kuch nahi hain.pahla iss say bhi ziyada hoti thi.
Sab say pahlay salam phir wohi mara purana palsafa kay bhai batain bee hoo gaee lakin koon hay joo kuch koshish kar raha hay mahool say sekney ki main kaam kaaj kay silslay main diyaar gair main skunat pazeer hoon bhalay say yah logh apnay nahin lakin in kee kuch achi batain too saab say karnii chahiyan in logoon nain mahool koo khusgawar rakhnay kay liya apnay har shahar kay irdgrid itnay darakhat lagain hain kaay shaeed in koo count kenra bhi mushkal hoo gaa haan. aikroon oor muraboon main gina jaa sakta hay aur yeh logh iss kay liyaa koshish bhi kartay hain in loggoon nain vote ki takat say aik aisi party koo haqumat di jiss kaa maqsad hi Green peace hai aur party kaa nam bhi Green hi hai, tho bhai hum nein konsi aisi himat ki?
اسد بھائی آپ نے بالکل صحيح فرمايا آسائشات نے ہميں کافی آرام طلب بنا ديا ہےـ
صحن ميں نيم کے پيڑ پہ چڑيوں کے جاگنے کا شور ، صبح صادق نماز پڑھتے ہی مکھن نکالنے کے ليئے چٹوری ميں مداھنی سے دھی کے بلونےکی آواز ، مکئی يا باجرے کی روٹی پہ بھوری بھينس کے مکھن کاتازا پيڑہ اور رات کے بچے ساگ کے ساتھ لسّی کا کٹورا ، کچہ دير سستانے کے لئيے ہل چھوڑ کر "نے'' منہ ميں دبائے حقہ گڑگڑاتے کسان ، چلچلاتي دھوپ ميں ٹاہليوں( شيشم) کے جھنڈ ميں گرم دوپہر کو بولتے جھينگر ، کيکر کے تنے سے چپکے چھپکلے ، سخت دوپہر ميں بيری کے درختوں کے ساتھ چلتی کچی راہگزر پہ ايک آدھ راہي کا گزرنا ، ڈيرے پہ گرمي سے پھنکارتيں بھينسيں ، کپڑے سے ڈھکی چنگير ميں گاؤں کے تندور (تنور) کي پکي تازہ روٹيوں کي بھيني بھيني خوشبو اور سالن ،دال، سبزي، اچار، چٹني اور ساتھ لسي کا دور ،گھروں کے کچے صحنوں پہ پاني کے چھڑکاؤ سے اٹھتی مٹي کي سوندھي سوندھی خوشبو ، گھڑونچی پہ پڑے گھڑے ، بالٹي ميں ٹھنڈے پانی ميں رکھے آم ، بوڑھے پيپل کے نيچے رہٹ (کنويں) پہ گھومتے بيل اورٹھنڈے پانی کی دور تک جاتی کھالی ، ڈيزل انجن پہ چلتی آتا پيسنے کی چکی کی ايک خاص تسلسل سے آتی مخصوص آواز ، گاؤں کی بھٹی سے بھنوائے مکئی کے دانے اور گڑ ، شام ڈھلے کشتي اور کبڈی کے مقابلے ، کچے گھروں سے اٹھتا دہواں ، گھروں اور ڈيروں کو واپس لوٹتے ڈھور ڈنگر ، ارد گرد کے کھيتوں سے ”شب خون،، مار کر حاصل کیے گیے ٹھنڈا کرنے کی خاطر کھالے ميں کپڑے ميں باندھ کر لٹکائے گئے تربوزـ الغرض کوئی کيا کيا بتائے زندگی بڑی ظالم شئے کا نام ہے يہ صرف آگے بڑھنے کا نام ہے پيچھے مڑ کر ديکھنے والے پتھر کے ہو کر رہ جاتے ہيں۔ شايد ايسے ہی کسی موقعے کے لئيے ناصر کاظمی نے کہا تھا
کچھ اس ادا سے دکھايا ہے تيری ياد نے دل
وہ لہر سی جو رگ و پے ميں تھی پلٹ آئی
خبر نہيں وہ ميرے ہمسفر کہاں پہنچے
کہ راہگزر تو ميرے ساتھ ہی پلٹ آئی
جاويد گوندل
بارسيلونا ، اسپين
aoa,
hum baad may anaay walee generation ka lia kia choor ker jayengaaay ??
اسد صاحب اپنے خيالات کا اظہار کر توچکي ہوں ليکن جاويد گوندل صا حب کي آراپڑھ کر دل چاہا کہ آپ سے کچھ شئر کروں جاويدصاحب آپ کی باتيں يا يادداشتيں مزہ دے گئيں اور خاص طور پر نا صر کاظمی کے اشعار نےدل موہ ليا اورناجانے کيا بات ہے اس طرح کي با تيں پڑھ کر اسی دورميں جينے کو دل چا ہتا ہے واپس اس وقت ميں آنے کودل نہيں چا ہتاشايد وہی بات ہے کہ ماضی بہت خوبصورت لگتا ہے اور کم از کم مجھے ماضي کوسوچنا بہت اچھا لگتاہے وجہ اس کی شايد يہ رہی ہو گی کہ ماضی ہم گزارچکے ہوتے ہيں جبکہ آنےوالےوقت کوکس نے ديکھا ہے يا شايد انسان نا شکرا ہے۔
۔۔ اسد بھائ درست فرمايا آپ نے ! گرمی تو ايک عالمی مسئلہ ہوتا جا رہا اب ديکھيں برطانيہ کتنا گرم ہوگيا ہے کہ مجھے پورٹيبل اے سی لينا پڑگيا اور بھئ اس اے سی عادت بھی عجب ہے اور بچپن کی عاديتيں اسے چھوٹتی بھی تو نہيں کيا کيا جاۓ ! جب بھی امی سے کہتا ہوں کہ ميں آپ کو ديکھنے آجاؤں تو ان کو اپنے گورے بيٹے کے رنگ کی فکر لگ جاتی ہے اور کہتی ہيں کہ بہت گرمی پڑرہی ہے ابھی نہ آؤ ۔ ماں ہيں نہ آخر ! جبکہ ميں سيروتفريح کے لۓ کتنے ہی گرم ممالک امي کو گرمي کا بتاۓ بغيرہوکر آگيا مگر ہميشہ اے سی ميں رہا بھلے وہ ہوٹل ہو يا گاڑی ! کيا کريں گرمی سے بچنا بھی تو ضروری ہے کيونکہ امی کی خاص ہدايت ہے !
دعا گو
سيد رضا
برطانيہ
شاہدہ بہن!
مجھے خوشی ہوئی کہ ميری باتيں آپکو آپکے ماضی کی ياد دلا گئيں -اور ميرے لکھنے کا انداز آپکو پسند آيا-
اور ماضی کے خوبصورت لگنے کی ايک وجہ اور بھی ہے کہ تعليم ، روزگار يا خاندانی اذدواجی وجوہات سے ہم لوگ پاکستان سے نکل گئے مگر پاکستان ہمارے اندر پہلے سے زيادہ بس گيا - بس يوں کہہ ليں کہ پاکستان سے ہم نکل گئے مگر پاکستان کو ہم اپنے اندر سے نا نکال سکے - يہ ميری ذاتی رائے ہے ـ
بہر صورت آپکی تعريفی رائے کا شکريہ ـ
جاويد گوندل
بارسلونا ، اسپين
يقين کيجے کہ آپ نے واقعی سہانہ سمان باندہ ديا۔ نہ بھولنے والی يادوں کے ئنچے کہلا دیے ہيں اور اس پر گوندل صاحب کی منظر کشی کرنا نہلے پہ دہلے والا معاملہ ہے۔
ہمارے والد محترم پاکسثان ائير فورس سے تعلق رکھتے تھے۔ ہم بھی ان کے ساتھ ہی رہتے مگر جب گرميوں کی چھٹيوں ميں گاؤں جانے کا اتفاق ہوتا تو خوشی سے جھوم جاتے۔ گھر والوں کے علاوہ پورے گاؤں کی آنکھوں کا تارہ ہوتے۔ کيا مجال کے کبھی کسی کے ماتھے پر شکن آئی ہو۔ راتوں کو چھتوں پر بستروں پر قبضہ، ساتھ ملی چھتوں پر بھاگنا اور ’لوکن ميٹی‘ کھيلنا۔ چاندنی راتوں ميں کوکلا چھپاکي اور باندر کیلا جيسے کھيل کھيلنا۔ مگر آج کے دور ميں يہ چيزيں ناپيد ہوتی جا رہی ہيں۔ اب تو ميڈيا نے سب کو بے حد مصروف کر دیا ہے۔ بچوں کے پاس بڑوں کو اب تو سلام کرنے کا بھی وقت ہی نہيں رہا۔ ہماری روايات و اقدار سب برباد ہوتی جا رہی ہيں۔