آخر کتنی دولت کافی
پاکستانی سابق کرکٹ کپتان سلمان بٹ نے لندن کی عدالت میں اپنے خلاف بدعنوانی کے مقدمے کی سماعت کے دوران ایک دن عدالت کو بتایا کہ انہوں نے اپنے سات سالہ کرکٹ کیریئر میں تقریباً پندرہ کروڑ روپے کمائے۔
سلمان بٹ کی یہ وہ کمائی ہے جس پر انہوں نے ٹیکس ادا کیا۔
محمد آصف نے بھی کم و بیش اتنی بلکہ اس سے بھی زیادہ کرکٹ کھیل رکھی ہے اور ایک سٹار ہونے کے ناطے یقیناً اس سے زیادہ کمائی بھی کی ہو گی۔
محمد عامر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کرکٹ کی حالیہ تاریخ میں اہم دریافت تھے اور ایک بہت روشن مستقبل ان کا منتظر تھا۔
اتنے روپے کیا بہت نہیں ہوتے؟ اور وہ بھی جب آپ ہنستے کھیلتے کما لیں۔ اور مزید کمانے کی صلاحیت اور امکانات بھی بہت ہوں۔
یہ بات میری سمجھ میں تو نہیں آتی کہ پھر ان کرکٹرز کو کیا پڑی تھی کہ وہ ناجائز ذرائع سے بھی دولت کمانے کی کوشش کرتے؟
آخر کتنی دولت کافی ہوتی ہے؟
تبصرےتبصرہ کریں
پیسہ جتنا بھی ہو ناکافی ہے، بس انسان کا ضمیر زندہ ہوناا چاہیے
کم سے کم اتنا کے آپ اپنا بیچا ہوا ضمیر کریدنے کی ناکام کوشش کر سکیں،
لالچ بری بلا ہے
یہ تو ہر کسی کا اپنا پیمانہ ہے کہ کتنی دولت اس کی خواہشات پوری اور ذہن کو تسلی دے سکتی ہے۔ ضروریات پوری کرنے کے لیے مطلوب دولت کا تو یہاں سوال ہی نہیں، یہ تو اس سے آگے کا معاملہ اور آگے تو پھر دولت کمانے کی کوئی حد ہے نہ ہی مناسب مقدار کا تعین ہے۔ لیکن یہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ جائز کمائی ہو۔
بھائی روپے کمانے کی یہ حسرت غالب کی اس شعر کی مانند ہے کہ، ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے - بہُت نکلے مرے ارماں پھر بھی کم نکلے- زیادہ سے زیادہ ذخیرہ اندوزی اور رازق پر بھروسہ کی عدم موجودگی ایسے کام کرواتی ہے-
میرے خیال میں بات دولت کی گنتی کی نہیں بلکہ رویہ و تربیت کی ہے۔
اگر ان کو مناسب تربیت اور رویہ دیا جاتا تو دو وقت کی روٹی پر بھی اکتفا کر لیتے، لیکن قصور ہمارے معاشرے میں پنپنے والے رویوں کا بھی ہے جس میں دولت کماؤ چاہے کوئی بھی طریقہ کیوں نہ اپنایا جائے حالانکہ یہ دین و دنیا دونوں کے اصولوں کے منافی ہے۔
اچھا تو تب ہوتا جب ہمارے ادارے ان کو سزا دیتے اس طرح امید کی جا سکتی تھی کہ بہتری آئے لیکن غیر ملکی کارروائی سے یہی سوچا جا سکتا ہے کہ غلطی سے پکڑے گئے
آداب
انتہا عشق کی نہ ہوس کی کوئی
دیکھنا یہ ہے کہ حد کون کہاں کھینچتا ہے
فراز
یہ اچھا ہوا کہ انہیں مجرم قراردیا گیا اور انہیں سزا ملے گی۔ میرا دل ہے کہ انہیں عمر قید کی سزا دی جائے۔
اتنی دولت تو اکثر لوگ ساری عمر نہيں کما سکتے ـ کبھی کبھی انسان لالچ ميں اتنا اندھا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی ساری عمر اور آخرت تباہ کر ديتا ہےـ يہ بات ان لوگوں کو شايد اب جا کر سمجھ ميں آئی ہو مگر اب شايد بہت دير ہو چکی ہے ـ
حضرت علی (ع) کا قول ہے.
انسان کو دو چیزوں نے هلاک کردیاـ ایک لالچ دوسرا فخر کی طلب.
پیسے اتنے ہی کافی ہیں جتنے قبر میں لے جا سکیں
جس ملک کے بڑے ہی چور ہوں، اس ملک کے چھوٹے اور کر بھی کيا سکتے ہيں- صاف کون ہے؟
دولت کی ہوس ہو تو فررعون کا خزانہ بھی ناکافی ہوتا ہے- دولت کمانے کا آسان طريقہ جب ايک فون کال پر دستياب ہو تو کہاں قومی وقار اور کہاں جائز ناجائز سب پيچھے چھوڑ ديا جاتا ہے- اب انہيں اس بات کا يقين بھی نہيں ہوتا کہ شايد انہيں پھر يہ موقع نہ مل سکے- يہی وہ عناصر ہوتے ہيں جو ايسے کھلاڑيوں کو سب کچھ کر لينے پر اکساتے ہيں - ابھی تو يہ صرف ايک ميچ کا رکارڈ ہے- اور ميچوں کا حساب نکاليں تو بہت سے راز پردائے سيميں پر ابھر آئيں گے- اور بڑے بڑے نام منہ چھپاتے پھريں گے- اسی حوالے سے کچھ کھلاڑيوں کے اہل خانہ بھی متاثر ہوئے- گھروں پر حملے ہوئے تھے
کچھ بھی ھوا ليکن نام پآکستان ھمارے ملک کا بدنام ھوا
یہ سوال کہ کتنی دولت کافی ہوتی ہے، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا مالکان، اخباری مالکان، سائبر میڈیا چلانے والوں اور ان کے کارندوں یعنی اینکر پرسنز، رپورٹرز، ریسرچرز اور کالم نگاروں سے بھی پوچھا جانا چاہیے۔ شکریہ
ان تینوں نے بدعنوانی اور بددیانتی کا ارتکاب کیا لہٰذا اس سے بھی سخت سزا ملنی چاہیے تھی۔ جب تک سزا کا نظام سخت نہیں ہو گا، لوگ ہر چیز کو مذاق سمجھتے رہیں گے اور عبرت نہیں پکڑیں گے۔ جہاں تک دولت کا تعلق ہے تو کم پیسے سے بھی خوش رہا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ذہنی غلامی اتنی زیادہ ہے کہ ہر شخص زیادہ سے زیادہ پیسے کما کر خود کو ایک ایسے طبقے کی صف میں لا کھڑا کرنا چاہتا ہے جس میں اس کی عزت و احترام ہو اور دوسرے اس کے سامنے غلاموں کی طرح ہاتھ باندھے کھڑے ہوں۔ جب تک ہمارے حکمران ماؤ زے تنگ کی طرح کھدر اور عوامی لباس نہیں پہنیں گے اور اپنے ہاتھوں سے اپنا کام نہیں کریں گے، قوم کے گلے میں اسی طرح کی غلامی کا طوق اور لعنت پڑی رہے گی۔
دولت کبھی بھی کافی نہی ہوتي حضرت علی رضی اللہ فرماتے ہيں ”ژندگی کوضرورت ميں رکھو خواہشات کی طرف نہ لے جا~و ضرورت فقيروں کی بھی پوری ھوتی ہے اور خواھشات بادشاھوں کی بھی رہ جاتی ہيں”