قذافی سٹئڈیم کے نام کا معاملہ
کیا قذافی کے زوال اور ہلاکت کے بعد لاہور کے سٹیڈیم کا نام بدل لینا چاہیے؟
فیس بُک پر جاری بحث پر بہت لوگوں نے اس رائے کا اظہار کیا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ یہ بالکل مناسب بات نہیں ہے۔
قذافی سٹیڈیم ہماری زندگیوں اور یاد داشت کا حصہ ہے۔ تاریخ کا حصہ ہے۔ اور تاریخ کو ہمیں اپنی سیاست یا ذاتیات کی بنا پر نہیں بدلنا چاہیے۔
بہت برس پہلے کراچی میں وکٹوریا روڈ کا نام بدل کر عبداللہ ہارون روڈ رکھ دیا گیا لیکن بہت سے کراچی والے ابھی بھی اس کو وکٹوریا روڈ ہی کہتے ہیں اور زیب النسا روڈ کو ایلفی (یعنی ایلفانسٹن سٹریٹ) ۔(ویسے یہ زیب النسا تھیں کون؟ کسی کراچی والے کو تو شائد ہی علم ہوکہ یہ کراچی کی ایک سوشلائٹ صحافی تھیں )
کچھ برس پہلے مری کے قریب معروف سکول لارنس کالج کا نام بدل کر 'پائنز کالج' رکھ دیا گیا تھا کیونکہ شاید لارنس صاحب برطانوی راج کے ایک ظالم افسر ہوتے تھے۔ سکول کے ہاؤسز کے ناموں کو بھی سابق کے بجائے مغل باداشاہوں پر رکھ دیا گیا تھا۔ لیکن کیا سابق پرنسپلوں کا سکول سے تعلق رہا تھا یا کہ مغل بادشاہوں کا؟
قذافی چالیس برس تک لیبیا پر حکمرانی کرتا رہا اور بڑے مظالم کا ذمہ دار بھی رہا لیکن یہ بات طے ہے کہ اس نے امریکی اور مغربی طاقتوں کا اڈٹ کر مقابلہ کیا اور بہت سی ایسی تنظیموں کی حمایت کی جو آمریت کے خلاف لڑ رہی تھیں۔ وہ مشکل وقتوں میں پاکستان کا دوست بھی رہا۔
تاریخ اس پر جو بھی فیصلہ کرے، سیاست کی وجہ سے ہمارے سٹیڈیم کا نام نہیں بدلنا چاہیے۔
کیا نواب شاہ کا نام بےنظیرآباد کرنا چاہیے تھا یا ڈرگ روڈ کو شاہراہ فیصل رکھنا چاہیے تھا؟
فاتح سیاساتدانوں کو شہروں اور سڑکوں اور عوامی مقامات کے نام تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ تاریخ مقدس ہے۔
آپ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
تبصرےتبصرہ کریں
مجھے آپ کے گراں قدر خیالات سے کُلی طور پر اتفاق ہے کہ نہ صرف قذافی سٹیڈیم کا نام نہیں بدلا جانا چاہیے بلکہ شہروں، سڑکوں، چوراہوں، باغات اور عوامی مقامات کے نام تبدیل کرنے کی اجازت ہرگز نہیں ہونی چاہیے کہ ایسا کرنا بلواسطہ یا بلاواسطہ یا دونوں طرح سے دن دھاڑے تاریخ کو مسخ کرنے کے کھاتے میں آتا ہے۔ مقامات کے نام بدلنے کو جُرم شمار کیا جانا چاہیے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکمرانوں، ایم پی اے اور ایم این اے کو مقامات کے نام بدلنے سے کیا مل جاتا ہے؟ انہیں یہ معلوم نہیں کہ مقامات اور پارٹی کا نام بدل دینے سے حقیقت اور ‘بنیادی فطرت‘ نہیں بدل سکتی۔ ‘آئی جے آئی‘ سے ‘مسلم لیگ‘ نام رکھ لینے سے یہ پارٹی جناح کی مسلم لیگ نہیں بن جائے گی اور اسی طرح ‘مہاجر قومی موومنٹ’ سے ‘متحدہ قومی موومنٹ’ کا سفر کر لینے سے کراچی دنیا بھر میں امن و امان کیٹیگری میں ‘مثالی شہر’ نہیں بن جائے گا۔ مقامات و سڑکوں و شہروں کے تاریخی و حقیقی ناموں کو بدلنا تاریخی بد دیانتی ہے اور یہ کسی مہذب اور حقیقت پسند ملک و قوم کا شیوہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ محکمہ آثارِ قدیمہ بھی مقامات کے نام بدلنے میں برابر کا ذمہ دار ہے۔ ۔
اسی کے لیے تو کہا جاتا ہے کہ نام ميں کيا رکھا ہے۔ ہمارے ہاں يہ روايت ہے کہ ہم نام بدلنے کے شوقين و ماہر واقع ہوئے ہيں۔ ليکن کيا کيا جائے کہ جس طرح آپ نے درست نشاندہی کی ہے لوگ پرانے ناموں کو ہی ترجيح ديتے ہيں۔مثلا” لائل پور کو آج بھی لوگ اسی نام سے پکارتے ہيں۔ ايک مشہور کالم نگار تو ہميشہ اپنی جنم بھومی کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کو لائل پور ہی لکھتے ہيں ۔فيصل آباد نئی نسل کو تو معلوم ہے مگر اس کا نام شاہ فيصل سعودی عرب والے کی عقيدت ميں رکھا گيا ہے کسی کسی کو معلوم ہے۔ اسی طرح منٹگمڑی ساہيوال کا معاملہ ہے۔ايمان کی حرارت والے تو ہری پور،ايبٹ آباد،جيکب آباد وغيرہ کا نام بھی بدلنے کے چکر ميں رہتے ہيں۔مقامی سطح پر آپ نے سڑکوں کے نام تو لکھے ہيں ليکن علاقوں کے نہيں مثلا” لالو کھيت کو لياقت آباد اور گولی مار کو گلبہار کا نام ديا گيا مگر عوام الناس کی زبان پر پرانے و مشہور نام ہی چڑھے ہوئے ہيں۔ بندر روڈ آج بھی بر سر عام ہے۔کچھ عرصہ قبل نمائش چورنگی کو علامہ شاہ احمد نورانی کے چاہنے والوں نے ان کے نام سے منسب کيا مگر آج بھی لوگ اس کو نمائش چورنگی کے نام سے ہی جانتے پہچانتے اور پکارتے ہيں۔نيو ٹاؤن چورنگی کو مفتی شامزئی کے نام سے بدل ديا گيا مگر حال جوں کا توں ہے۔اس سے آگے گرومندر کا علاقہ ہے سانحہ بابری مسجد کے بعد اس کا نام بابری چوک طے کيا گيا مگر يہ عوام کی زبان و ذہنوں ميں گھر نہ کر سکا ۔لہذاء بات ٹھيک ہی معلوم ہوتی و دل کو بھاتی ہے کہ نام ميں کيا رکھا ہے!
یہ ایک انتہائی غلط روایت ہے کہ ہمارے حکم ران تاریخی ناموں کو بدل کر تاریخ مسخ کر رہے ہیں۔ جس نے جو کارنامہ انجام دیا ہے یا کسی نے ہسپتال بنایا ہے، سکول، کالج یا یونی ورسٹی بنائی ہے، اگر ابتداء ہی میں وہ ادارہ اسی شخصیت کے نام سے منسوب ہے تو ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم ان ناموں کو تبدیل کریں۔ زرداری کو ایک نیا شہر بسانا چاہئے تھا اور اسی کا نام بے نظیر آباد رکھنا چاہئے تھا۔ اس طرح اگر قذافی سٹیڈیم قذافی کے نام سے منسوب کیا گیا ہے تو اسے برقرار رکھنا چاہئے کہ قذافی نے واقعی بعض مشکل حالات میں پاکستان کی دل کھول کر مدد کی ہے۔ خصوصاً ایٹم بم بنانے کے حوالے سے ان کی مالی امداد تو ہمیں فراموش نہیں کرنی چاہئے۔ ہم دراصل ایسی قوم ہیں جو چڑھتے سورج کی پجاری ہیں۔
اگر قدافی سٹیڈیم کا نام بدلہ گیا تو میں لاہور پریس کلب کے سامنے احتجاج کروں گا
محترمہ، تبصرہ تو آپ نے بلاگ کی آخری سطور ميں آپ نے خود ہی نہايت صائب کر ديا ہے کہ `تاريخ مقدس ہے` ـ اگرچہ ناموں کی تبديلی کی عِلت بالخصُوص پاکستان پيپلز پارٹی کے ذوالفقارعلی بھٹو مرحوم کے بعد کے پيروکاروں کا خاصہ ہے، تاہم اميد ہے کہ موجودہ پارٹی قائدين اس `قومی امانت` ميں يہ سوچ کر خيانت نہيں کريں گے کہ مرحوم سابق صدر قذافی، ذوالفقار علی بھٹو اور مرحومہ بيگم نصرت بھٹو کے قريبی معتمد اور`فيملی فرينڈ` رہ چکے ہيںـ اللہ ہمارے حکمرانوں کو توفيق دے کہ تاريخ `صحيح سالم` حالت ميں اگلی نسل کو منتقل کريں۔
جی ہاں نام نهیں بدلنا چاهیے
اس قذافی اسٹیڈیم کا ہی نهیں
بلکه کسی بھی ہسپتال ائر پورٹ یا شہر یا گلی سڑک کا نام بدلنے کی بجائے چاہے که
جس کسی کو نام کی تختی لگوانے کا شوق ہو
وه ایک نیا ہسپتال ، ائر پورٹ یا شہر یا گلی سڑک بنوا کر اس پر اپناے نام کی تختی لگوا لے
کل تک میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ یہ نام بدل دینا چاہے مگر آپ صحیح کہ رہی ہیں ایسی ہی ترامیم سے تاریخ مسخ اور حقائق توڑے مروڑے جاتے ہیں - آپ کا شکریہ کہ آپ نے سوچنے کا الگ زاویہ دکھایا
کم ظرف ھیں وہ لوگ جو ایسا سوچتے ھیں قدافی نے مغربی دنیا کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ْ قدافی سٹیڈیم کا نام تبدیل کرنے سے قدافی کا قد تاریخ میں چھوٹا نہیں ہو گا البتہ ھم پاکستانیوں کا قد دنیاے عالم میں ضرور چھوٹا نظر آے گا
سادہ الفاظ ميں پوچھيں تو بالکل بھی نہيں کرنا چاہےے
یقیناََ مقامات اور جگہوں کے ناموں کی تبدیلی تاریخ کو مسخ کرکے رکھ دے گی، اور اس کا کوئی متبادل فائدہ بھی نہیں ھوگا۔ کیوں کہ اگر یہ رجحان اسی طرح جاری رھا اور ھر وقت کے حکمران سڑکوں ، چوراھوں اور دوسرے مقامات کے نام اپنے یا اپنی پسندیدہ شخصیات کے ناموں پر رکھتے چلے جائیں گے تو کچھ ھی سالوں بعد تاریخ ایک مذاق کا نام بن کر رہ جائے گا اور انسانیت گم راہ ھو جائے گی۔
اس طرح اگر ہم نام بدلتے رہیں گے تو کل ہمیں اپنے شہر صوبے اور یہاں تک کہ اپنے ملک کے نام کا بھی پتہ نہیں ہوگا کہ آج میرے ملک کا کیا نام ہے کیونکہ ہر روز دنیا کا کوئی فرد الگ سا سوچ دکھائی دیتا ہے۔ آج کا ہیرو کل کا زیرو، نام تبدیل ۔کارنامے اچھے یا برے سب ختم ۔ کل کسی کو آج کا بندہ پسند نہیں اس کے رکھے ہوئے ناموں کو تبدیل کرے گا تو یہ ایک مزاق بن کے رہے گا۔اس طرح تو کل کوئی کہے گا مجھے پاکستان کا نام بے مقصد یا یہ کسی نا معقول بندے نے رکھا ہے اس کو کیا حق کہ میرے ملک کا نام رکھے وغیرہ وغیرہ ۔ ۔ ۔ مقصد یہ کہ اللہ کے واسطے پورے ملک کا تو جو حالت کیا سب کے سامنے اب یہ نام تو رہنے دو تاکہ اس آڑ میں کل کسی اور کو کوئی اور جراءت کرنے کا جواز نہ ملے ۔قذافی جیسا بھی تھا اس کا نام بہر حال بہت اچھا ہے نام میں تو کوئی مسئلہ بالکل بھی نہیں۔
صد فيصد درست فرمايا - تاريخی مقامات اور شاہراؤں کے نام بدلنا قطعی جرم شمار ہونا چاہيۓ-
قذافی اسڈيم کا نام بدلی کرنے کا کوئي فائيدہ نيہيں ہے
قذافی سٹیڈیم کا نام فوری طور پر بدل دینا چاہیے،قذافی ظالم ہی نہیں اسلام اور پاکستان دشمن بھی تھا۔اس کا نام کسی اچھی جگہ نہیں آنا چاہیے نہ لینا چاہیے۔اس سے برے لوگوں کو بھی عبرت ہو گی۔
اس حکومت کے ہوتے ہوے نام نہ ہی تبديل ہو تو بہتر ہے ورنہ پھر بھٹو شہيد لگ جائے گا نام کے ساتھ...
میں آپ سے سو فیصد متفق ہوں۔۔۔۔
ميں بھی آپ سے متفق ہوں. قذافی گراؤنڈ کا نام تبديل نہيں ہونا چاہيے.قذافی کئی طريقوں نے پاکستان کی مدد کي. اور وہ ہماری جوہری منصوبوں کے لیے رقم فراہم کي. کوئی فرق نہيں پڑتا کہ وہ مر چکا ہے ۔
قذافی اسٹیڈیم کا نام تبدیل نہیں کیا جانا چاہیے۔ جہاں تک بات ہے سڑکوں اور علاقوں کی تو ہر فاتح پرانے حاکم کی تاریخ کو مٹانے کے لیے ایسا کرتا ہے۔ ویسے وہ اگر پرانے نام کو بدلے نہ تو اس کے اپنے نام پر تو کچھ نہیں ہوگا نا۔
ابھی چند سال بعدفيصل آباد کا نام بھی تبديل کرنا پڑے گا
جی جناب کرتوت بدلو نام نا کہ نام
بدلنا تو خير نہيں چاھئيے ليکن ذرا ان ناموں کی شان نذول کو بھی ذھن ميں رکھنا ہوگا وہ وجوہات ہی اتنی فضول ہيں کہ جن کی وجہ سے يہ نام چنے گئے ہم لوگ تاريخ کو مٹا دينے کے ويسے پرانے عادی ہيں ہميں ماضی اور تاريخ کا فی کچوکے لگاتی ہے
نام بدلنے سے قدافی کا قد چھوٹا نہیں ہوگا، ایسا کرنے سے آنے والی نسل بدلنے والوں کو بھی نہیں چھوڑیگی .کیونکہ "جیسے کرنی ویسے بھرنی " مشہور مہاوره ہے اردو کا.
میرا نہیں خیال کہ قذافی سٹیڈیم کا نام بدلنے کی ضرورت ہے۔ قذافی آمریت کے خلاف ایک جنگجو کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنے ذہنی خلفشار کی وجہ سے وہ آخری عشروں میں خود بھی ایک آمر بن گیا۔ علاوہ ازیں قذافی کا قتل بذات خود ایک پراسرار اور سنگین جرم ہے جس کی انکوائری ہونی چاہیے۔ اور آخر میں ایک بار پھر کہوں گا کہ قذافی سٹیڈیم کا نام تبدیل کرنا غیر مناسب ہو گا۔
اس نے پاکستان کی کافی مدد کی تھی . اگر ہم نام تبدیل کریں تو ہم احسان فراموش قوم ہوں گے.