دنیا کے لیے مثال
دو تین برس پہلے چودہ گست کے موقع پر ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں پاکستان کے جشن آزادی کے موقع پر ایک تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔
چھوٹے سے سٹیڈیم میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں سینکڑوں پاکستانی شریک تھے۔ ناروے کی اس وقت کی وزیرخزانہ مہمان خصوصی تھیں۔
میں اپنے عزیزوں کے ساتھ سٹیج سے خاصی دور بیٹھا سوچ رہا تھا کہ کاش پہلے معلوم ہوتا تو وقت لے کر وزیرخزانہ کا انٹرویو کر لیتا۔ اس خواہش کا اظہار میں نے اپنے کزن سے بھی کیا۔ میری بات سن کر وہیں موجود ایک پاکستانی نے کہا یہ تو کوئی بڑی بات نہیں وزیر خزانہ کو یہیں بلا لیتے ہیں۔
وہ صاحب بغیر کسی روک ٹوک کے سیدھے سٹیج کے قریب گئے اور وزیر خزانہ تک ایک پرچی پہنچا دی۔ تقریب کے اختتام پر وزیر خزانہ نے ان سے مسئلہ دریافت کیا اور معلوم پڑنے پر ان کے ساتھ ہی ہماری طرف آ گئیں۔ انہوں نے خود ہی مجھ سے پوچھ لیا کہ آپ ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا اور تین چار سوالات کا مختصر کر ڈالا۔
آخری سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں کے اتنی بڑی تعداد میں اوسلو میں آباد ہونے سے ان کو سب سے بڑا فرق یہ پڑا تھا کہ اپنی انتخابی مہم انہوں نے کھاریاں سے شروع کی تھی۔
اس کے بعد وہ بڑے اطمینان کے ساتھ لوگوں سے ہاتھ ملاتی، ان کے تصاویر بنواتی اپنی گاڑی تک چلی گئیں۔ نہ کوئی پروٹوکول، نہ سکیورٹی اور نہ کوئی بڑے عہدیدار اور چھوٹے عہدیدار کا فرق۔
یہ ایک مثال ہے اس کھلے معاشرے کی جس کو بچانے کا عہد ناروے کے وزیر اعظم نے جمعہ کو دو بڑے حملوں کے بعد کیا۔ ایک صحافی نے جمعہ کو ہی اس کھلے معاشرے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ناروے میں ناقابل یقین حد تک کھلا معاشرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ناروے میں سیاستدان اور امراء عام لوگوں میں اس طرح آزادی سے گھومتے پھرتے ہیں جس کی مثال دنیا بھر میں کم ہی ملتی ہے۔ وہاں کم لوگوں کے پتے اور فون نمبر خفیہ ہوتے ہیں اور وہاں سیاستدان اپنے ٹیلی فون نمبر اپنے کارڈ پر شائع کرواتے ہیں۔
صحافی کے مطابق باہر کی دنیا کو شاید یہ انداز معصومانہ لگے لیکن ناروے کے لوگ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ دنیا میں ایسے رہا جا سکتا ہے۔ دیکھیں اس حملے کے بعد ان کا رویہ بدلتا ہے یا نہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
دوسروں کے گھروں میں لگی آگ پر خاموش تماشائیوں کو بھی کبھی حادثات کا شکار ہونا پڑجاتا ہے۔
ايک پر امن مثالی مملکت کے ليۓ ہر فرد کے پاس زندگی کی بنيادی اشياء کا ہونا ضروری ہے جس ميں رہائش،خوراک،ادويات اور گاڑی وغيرہ۔چونکہ ناروے، سويٹزر لينڈ اور چند اور ممالک يعنی برونائی وغيرہ ميں ہر فرد خوشحال ہے اس ليۓ سيکورٹی کی پرواہ نہ کرنا کوئی حيرت والی بات نہيں۔اگر تمام سہولتيں کسی قوم کو مل جائيں تو نظريات يا فرقہ بازی ميں پڑنے کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے۔
جس ملک ميں درجہ حرارت پچاس ڈگری سينٹی گريڈ تک جائے اور بجلی کی مسلسل لوڈشيڈنگ ہو اور برساتی مينڈکوں کی طرح آبادی بڑھے اور نظرياتی اور فرقہ پرست مگر مچھ اور ان کے دوست خود غرض سياستدان آپس کی بندر بانٹ کو اہميت ديں تو وہاں امن آپ خواب ميں بھی نہيں ديکھ سکتے کيونکہ جب خواب آنے کا وقت ہوتا ہے تو بجلی چلی جاتی ہے۔
حکام کا يہ کھلا انداز قريباً ہر مغربی ملک کا خاصہ ہے۔ مجھے باقی ممالک کا تو پتہ نہيں مگر امريکہ ميں عوام ميں اور کسی حاکم يا کسی بڑے افسر ميں فرق کرنا مشکل ہے ـ يہاں نوکر اور چپڑاسی کا تصور نہيں۔ ماتحت ہو افسر اپنے دفاتر کے کام خود کرتے ہيں اور کافی کے ليۓ خود ہی جاتے ہيں۔ ميں نے خود ديکھا کہ بڑے سے بڑا افسر بھی اپنا ليپ ٹاپ يا دوسرا سامان اٹھائے جا رہے ہوتے ہيں ـ گھروں ميں نوکر رکھنے کا رواج نہيں ہے ـ آپ اپنے سے اوپر کے افسر يا انچارج کو اسکا نام ليکر پکارتے ہو۔ ايک بار اپنے انچارج کو سر کہہ کر پکارا تو پاس آکر شکايتی انداز ميں اپنا تعارف دوبارہ کر کے کہا کہ تم جھے ميرا نام ليکر پکارو اور شکريہ کہہ کر ہمارے ساتھ کام ميں جت گيا۔
بڑے سے بڑا عہدے دار چھٹی کے دن يا جب بھی موقع ملے اپنے لان کی گھاس خود کاٹتا ہے اور کوئی بھی کام اپنے ہاتھ سے کرنے کو عار نہيں سمجھا جاتا ۔ کوئی بھی اہلکار پہلے تو کام کو کسی وجہ سے ليٹ نہيں کرتا مگر اگر کسی وجہ سے تھوڑی دير ہوجائے تو اسکے ليۓ معافی مانگنے ميں دير نہيں کرتا اور کبھی تو اس کوتاہی کے ليۓ آپ کو کسی طرح کا فائدہ بھی ديا جاتا ہے۔
پيدل چلنے والا سڑک پار کرنے ميں پہل کا حق رکھتا ہے اور گاڑی والا گاڑی روک کر مسکراہٹ کے ساتھ آپکو جانے کا اشارہ کرے گا۔ اسکے علاوہ صفائی کی يہ حالت ہے کہ بوٹ پالش نہيں کرنے پڑتے۔ کوئی کوڑا يا کوئی بھی فاضل چيز راستے ميں يا سڑک پر نہيں پھينکتا اسے کوڑا دان ميں پھينکا جاتا ہے يا پھر لفافے ميں بند کرکے اپنے گھريلو کوڑے دان ميں ڈالا جاتا ہے ـ يہ تو بہت مختصر سی باتيں ہيں ـ ميں اکثر سوچتا ہوں کيا يہ سب ہمارے پيارے ملک ميں آئندہ آنے والی دو چار صديوں ميں ممکن نظر آتا ہے؟ ہمارے وزير اور اوپر والے تو خير انکی بات ہی نہ کريں کيا کوئی کسی ادارے کا معمولی افسر يا کلرک بغير چپڑاسی اور نوکر کے کام کرنے کے لائق ہيں؟ يہ لوگ تو جتنے ہي پروٹوکول، رشوت خوری اور جھوٹ بولنے کے ليۓ ہيں۔
دنیا کو شاید یہ انداز معصومانہ لگے لیکن ناروے کے لوگ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ دنیا میں ایسے رہا جا سکتا ہے۔ اسد علی صاحب! آپ کی تحریر سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے۔ لیکن آندرے بیرنگ بریوک نے بظاہر جس کامیابی کے ساتھ اس قدرانسانیت سوز ون مین شو کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے بعد نارویجنز کی یہ سوچ بچگانہ معلوم ہوتی ہے کہ ان کا معاشرہ مثالی ہے۔
کیونکہ مثالی معاشرے کو بچانے کیلئے اقدامات کرنے چاہیئے تھیں جو اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ نہیں کیے گئے۔ لیکن بظاہر ون مین شو کے پس پردہ میرے ذاتی خیال میں کافی سارے عناصر ملوث ہیں۔ اس کو دہشت گردی سے کسی طور جدا نہیں سمجھنا چاہیئے کیونکہ نارویجن فوجیں افغانستان میں ان قوتوں کے خلاف برسرپیکار ہیں جو جنوبی ایشیاء میں امریکی تسلط کے خلاف کسی نہ کسی طرح بندوق اٹھائے ہوئے ہیں۔ اور یہ قوتیں کسی نہ کسی طریقے سے ان اتحادی ممالک کو نشانہ بناتے رہے ہیں ماضی قریب میں متعدد واقعات اس بات کی شاہد ہیں۔
لہٰذاء اب دیکھنا یہ ہے کہ اس حملے کے پیچھے کیااور کون کون سے عوامل کارفرما ہیں۔ یہ فیصلہ وقت کرے گا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کا حامی وناصر ہو۔
تخريبکاری دنيا کی کسی بھی خطے ميں ہو جس ميں بےگناہ جانوں کا اطلاف ہو قابل نفرت اور قابل سزا ۔ ناروے جيسا کھلے معاشرے کے قيام کی جدوجہد پوری دنيا کو مل کر کرنی چاہيے۔ ہر طبقہ اس دھشت گردی کی پر زور مذمت کرتا ہے اور مجرمين کو قرار واقعی عبرت ناک سزادی جائے کہ عبرت ہو۔
پوری دنيا ميں امن و آمان کی مشترکہ کوششيں بشمول اسلامی ممالک کرنے کے ٹھوس اقدامات ہونے چاہيے تاکہ کسی رياست ميں بيرونی مداخلت کا خاتمہ ہو۔ کشمير، فلسطين اور عراق افغانستان ميں لوگوں کو حقوق مل سکيں اور نفرتيں ختم ہوں۔
خوب کہا، گل بادشاہ