بگلا پکڑنا آسان نہیں !
ایک عقل مند نے دوسرے عقل مند سے پوچھا کہ بگلا زندہ پکڑنے کی موثر ترکیب کیا ہے۔
پہلے عقلمند نے کہا بہت ہی آسان ہے۔جب آپ بگلا دیکھیں تو کہنیوں کے بل رینگتے رینگتے ایک لمبا چکر کاٹ کر بگلے کے پیچھے پہنچیں تاکہ وہ ہوشیار نا ہوجائے۔ قریب پہنچتے ہی بگلے کے سر پر موم رکھ دیں۔موم سورج کی روشنی سے پگھل کر بگلے کی آنکھوں میں چلا جائے گا جس کے بعد وہ کچھ نہیں دیکھ پائےگا اور بے بس ہوجائے گا۔بس یہی وقت ہے کہ آپ اسے گردن سے زندہ پکڑ لیں۔
دوسرے عقلمند نے کہا کہ یار بات تو تمہاری ٹھیک ہے لیکن اگر میں بگلے کے قریب پہنچ ہی جاتا ہوں تو پھر سر پے موم کیوں رکھوں ۔سیدھے سیدھے اس کی گردن ہی کیوں نا پکڑ لوں۔
پہلے عقل مند نے کہا کہ اس طرح تو کوئی بھی کرسکتا ہے۔استادی تو یہ ہے کہ آپ موم سر پے رکھ کے بگلا پکڑ کے دکھائیں تاکہ آپ کی واہ واہ ہوجائے۔۔۔
بالاخر پیپلز پارٹی نے کشمیر اسمبلی کے لئے کراچی کی دو مخصوص نشستوں کو ایم کیو ایم کے لئے چھوڑ دیا۔ یہی کام دو ہفتے کے دوران منہ سے شعلے اگلنے کے کرتب ، ڈیڑھ سو کے لگ بھگ افراد کی ہلاکت اور اربوں روپے کے کاروباری نقصان سے پہلے بھی ہوسکتا تھا۔لیکن پھر استاد کون مانتا!!
تبصرےتبصرہ کریں
وسعت صاحب يہ صرف پاکستان کی کہانی نہيں يہ تو ساری دنيا کی کہانی ہے۔ ہر جگہ يہی ہوتا ہے، ہوتا آيا ہے اور ہوتا رہےگا۔ ہندوستان ميں بھی تو يہی ہوتا ہے۔ معمولی بات مگر استادی کے لیے اتنے پنگے کيے جاتے ہيں کہ خدا کی پناہ۔ بگلا بھگت کا محاورہ تو خوب سنا تھا مگر آپ نے بگلا پکڑنے کا ہنر بھی سکھا ديا۔ اللہ عمر دراز کرے اور يوں ہی چست رکھے تاکہ آپ کے قلم سے چست چست تحريريں ايسے ہی نکلتی رہيں۔
سارا "پاور" کا کھیل ہے۔ ہر کوئی "پاور" میں رہنا چاہتا ہے۔ نقصان صرف غریب عوام کا ہو رہا ہے۔ عوام کا کسی کو احساس نہیں، سب کو بس اپنی حکمرانی کی پڑی ہوئی ہے۔ اللہ ان سب کو ہدایت دے۔ آمین
بالکل درست کہا آپ نے وسعت صاحب۔
بہت خوب فرمایا آپ نے وسعت صاحب۔ آپ نے تو دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔
ہاں بھئی صحیح بات ہے۔ استاد بننا بھی ضروری ہے اور استاد جیسا نظر آنا بھی۔
پارٹی کوئی بھی ہو، ان حلقوں ميں کشميريوں نے کون سے ووٹ ڈال لينا تھے؟ ميرے حساب سے تو پاکستان کی ان بارہ نشستوں پر براہ راست انتخابات کي بجائے متناسب نمائندگی کے تحت ہوں تاکہ ہميں افسوس تو نہ ہو کہ ہميں ووٹ نہيں ڈالنے ديا گيا۔
حکومت کا تو شروع دن سے یہی وتیرہ رہا ہے کہ کوئی کام تب تک ٹھیک نہیں کرنا جب تک عوام سڑکوں پر نہ آ جائے۔ آپ نے بہت اچھی مثال دی ہے۔
یہ ہے تو حقیقت مگر بہت کڑوی حقیقت ہے۔ آخر کیوں ہمارے حکمران عوام کی فکر نہیں کرتے؟
یہ پاکستان ہے پیارے۔ بس دیکھتے جائیے ہوتا ہے کیا۔
میں آپ کی بات سے متفق ہوں۔
آپ نے بہت خوب وضاحت پیش کی ہے۔
آپ کچھ بھی فرمائیے لیکن اس میں کچھ شک نہیں کہ زرداری میکا ولی کے پرنس کا روپ کامیابی سے دھار رہے ہیں۔ ایک تو بی بی سی اردو کا تجزیہ ہی لے لیں جس میں پی پی نے کمشنری نظام بحال کر کے نہ صرف اندرون سندھ اپنا وعدہ پورا کر دیا بلکہ ایم کیو ایم کو روز بروز ناراض ہو کر مان جانے والے بھی ثابت کرنے کی کوشش کی۔ حضرت زرداری یہ جان چکے ہیں کہ پوری پاکستانی قوم "شارٹ ٹرم میموری لاس" کا شکار ہے۔
وسعت بھائی۔ بہت اعلٰی! مجھے امید ہے کہ ہماری حکومت اس سے کچھ سبق بھی سیکھے گی۔
بہت خوب۔ استاد تو آخر استاد ہوتا ہے
وسعت اللہ خان صاحب بہت اچھا لکھتے ہیں۔ مجھے ان کے لکھے ہوئے تمام بلاگ بہت پسند ہیں۔ یہ بلاگ بھی بہترین ہے۔
جناب وسعت اللہ خان صاحب۔ آپ بھی بھولے بادشاہ ہیں۔ بھئی پاکستان کی آبادی خصوصاً کراچی کی آبادی بہت بڑھ گئی ہے۔ اگر حکومت اور ایم کیو ایم سیدھے گردن سے ہی بگلے پکڑنے لگے تو بڑھتی آبادی پر کیسے کنٹرول ہو؟ مختلف طریقوں سے آبادی کو کنٹرول کرنا /کم کرنا ہے؟ ان لوگوں کو یہ طریقہ آسان لگتاہے۔
بہت خوبصورت لکھا ہے۔
ایسی واہ واہ ہمارے لوگوں کو لے ڈوبےگی۔ سیاسی قلابازیاں مارنے میں سب ماہر ہیں۔ جو اتنے لوگ مر گئے اس "گورکھ دھندے" میں، ان کا کیا ؟؟؟؟؟
وسعت اللہ خان صاحب، ایک سادہ سی حکایت کے ذریعے، جس خوب صورتی سے آپ نے ایک سنجیدہ مسئلے کی جانب اشارہ کیا ہے، وہ قابل تعریف ہے اور جہاں تک مذکورہ مسئلے کا تعلق ہے، ماضی میں بھی ہم ایسی کئی کربناک مثالیں دیکھ چکے ہیں۔ بدقسمتی سے یہاں اساتذہ کی زیادتی اور شاگردوں کا قحط ہے۔ ویسے محمد عبیر خان کا آبادی کنٹرول کرنے والا نکتہ بھی دل چسپ ہے۔
بگلا پکڑنا تو واقعی آسان نہیں لیکن غیر اعلانیہ بتی جانے والے ملک میں تبصرہ لکھ کر بی بی سی اردو ڈاٹ کام کو بھیج دینا تو "کشمیر" فتح کرنے سے بھی قطعاً کم نہیں۔
پی پی پی کا تو ایک ہی موٹو ہے۔
روٹی، کپڑا اور مکان
یہ مل گیا عوام کو تو اپنی کیسی دوکان؟