مجھے آزادی نہیں چاہیئے
آج کل کے حالات کو دیکھتے ہوئے میرا آزادی اور جمہوریت سے ایمان اٹھتا جا رہا ہے۔
آزادیاں ہتھوں برباد یارو
ہوئے تُسی وی او
ہوئے اسی وی آں
لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے
روئے تسی وی او
روئے اسی وی آں
یہ استاد دامن نے بہت پہلے لکھا تھا۔ لیکن آج مجھے یہ پہلے سے زیادہ یاد آ رہا ہے۔ روز بروز میرا آزادی اور جمہوریت کا تصور بدلتا یا یوں کہیں کہ بگڑتا جا رہا ہے۔ بگڑتا اس لیئے کہہ رہا ہوں کہ ایسا کہنا ’پولیٹیکلی کریکٹ‘ نہیں ہے اور ہو سکتا ہے کہ مجھے بکا ہوا، ڈرپوک، غیر جمہوری یا بھگوڑا سمجھا جائے۔
اگر مجھے ڈرپوک یا غیر جمہوری کہنے سے بچے، عورتیں یا نوجوانوں کی زندگیاں بچتی ہیں تو مجھے ہر روز لاکھ مرتبہ یہ کہہ لیں۔ مجھے منظور ہے۔
آج کل آزادی اور جمہوریت کے نام پر جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے اسے دیکھ کر میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ مجھے یہ نہیں چاہیئے۔ ہو سکتا ہے پہلے بھی اسی طرح ہی ہوتا ہو۔ مگر مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا۔
آپ اسے میری بزدلی کہیں یا میرا بچپنا یا اسے میرے دماغ کا خلل ہی کہیں، پر میں آزادی اور جمہوریت کے تصوارت سے دور ہوتا جا رہا ہوں۔ یہ نہیں کہ مجھے غلامی اچھی لگتی ہے۔ پر آزادی کی اتنی بڑی قیمت مجھی منظور نہیں اور آزادی چاہیئے ہی کیوں۔ کیا ہے اس میں۔
پاکستان اور انڈیا آزاد ہوئے۔ لاکھوں جانیں گئیں۔ کشمیر کی آزادی کی جنگ آج بھی جاری ہے اور اس کی قیمت ان ماؤں کو دینی پڑ رہی ہے جو نو ماہ بچوں کو گود میں رکھتی ہیں۔ ان ماں اور باپ کو دینی پڑ رہی ہے جو بیس اکیس سال اپنے سپوت کو لاڈ پیار سے پالتے ہیں اور آخر وہ سیکیورٹی فورسز یا کسی دوسرے جہادی کی گولی کا نشانہ بن جاتا ہے۔
اب مجھے بتائیں کہ ممبئی میں ٹرینوں میں سفر کرنے والے بیچارے لوگوں کا کیا قصور تھا کہ ان پر اس طرح کی موت لاگو کی گئی۔ ان کے ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال بھاگنے والے لواحقین کا کیا قصور ہے کہ وہ اپنے پیاروں کو زندہ یا مردہ ڈھونڈ رہے ہیں۔
کیا فلسطین میں پیدا ہونے والے ہر بچے کا مقدر اسرائیلی فوج کے ہاتھوں موت ہے۔ کیا جب سب ہلاک ہو جائیں گے تو آزادی ملے گی، کیا اس آزادی کا کوئی فائدہ ہو گا۔ کیا ماؤں کو ان کے بچے واپس مل جائیں گے۔
کتنی ہلاکتوں کے بعد عراق میں جمہوریت آئے گی۔ ہزار، دو ہزار، لاکھ، دس لاکھ۔ کیا جب سب عراقی مر جائیں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ آزادی کی جنگ کی سمت کیا ہے۔ بڑے جمہوریت کے نام پر چھوٹوں کا حق کیوں چھینتے ہیں۔
کیا اسلام کو مغربی طاقتوں سے آزاد کروانے والے جہادی لاکھوں بے بس نہتے اور غریب لوگوں کے خون سے ہولی کھیل کر اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے اور کہاں کا اسلام۔ ان کی جنگ کیا ہے، کس سے ہے اور کیوں ہے۔ عراق کے بھرے بازار میں بم پھاڑنے سے اسلام، آزادی اور جمہوریت کیسے حاصل ہو گی، کیسے آزاد ہو گی؟
ممبئی کی ٹرینوں میں بم رکھنے والوں نے پتہ نہیں یہ کیوں کیا۔ انہیں آزادی چاہیئے تھی یا جمہوریت یا وہ اپنا ہی کوئی اور سکور برابر کرنا چاہتے تھے۔ ان کا جو بھی مقصد تھا کیا دو سو سے زائد معصوم افراد کی موت سے وہ حل ہو جائے گا؟ یہ دو سو اموات ہزاروں بنیں گی اور سلسلہ چلتا رہے گا۔
اگر کسی بھی آزادی، جمہوریت یا کسی اور مقصد کے لیئے معصوم انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنا ضروری ہے تو میں اس سے اچھا غلام رہنا ہی پسند کروں گا۔
پتہ نہیں لوگوں کو مردہ جسم دیکھنے کا شوق کیوں ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
app nay sahee waqt per Arbae Aktiyar ko janjora hay, iss main koi sakh nahee hay poori duniya main katlo garit ka aik bazar garm hay, Israiel nay zulmo situm ka bazar garam ker rakha hay, isee tarah, Drafoor aur Africa main kia kooch nahee ho raha aur pher appna bare sageer to humaisha hee iss ki lapait main raha hay.
This is the way this world is,"kare koi aur bhare koi". However, there is great need for finding the root casue of all that is happening with rational and wisdom, without blind-folded efforts, which can be seen in the case of Israel and America and India also.
New world order must not be implemented with murder of masses and humanity otherwise our next generation will never forgive us on this act of barbarisms. Before this new world order is imposed few decades ago we are great peace and harmony. While the distribution of resources must be equal among all nations to overcome any imitated terrorist act for new world order agenda with cruel intentions from world powers and there agents working for disgrace of religions and humanity .
AAP KI BAAT THEIK HAI LEHKIN ISS MAIN ZIYADA KAISOOR AMEER MULKOON KA HAI AUR TARAIQEE YAFTAH MULKOON KA HAI WO MUSILMANOON KAI MASLAI HAAL KUIN NEHI KERWATAI
Ap bilkul sahi kehte hain kia faida esi aazadi ka , azadi k nam per bhi masoom logo ki janey zaya or jamhoriyat k nam per bhi , jamhoriyat or azadi nam hai apne weapons bechne ka ager sab acha ho jaye to dukane kese chalengi , konsa mulk apne million dollars defence per save karega, masom ghareeb log hi nishane bante hain , Iman sirf Allah per rakhen jamhoriyat ho ya azadi sabka nazla masoom logo per hi girna hai , jeene k liye nahi ab to murne k liye jeena hai
ZULM RAHAY OR AMAN BHE HO ?
AAP KAY SUB SAWALOON KA JAWAB SIRF OOPER KEE LINE MAIN HAI . AGER AAP DUNYA MAIN AMANN CHAHTAY HAIN TOO ZULAM KO KHATTAM KER DAIN WARNA AMAN NAHIN HO GA.
کوئی جنت کمانے کے واسطے اور کوئي دولت کمانے کے واسطے قتل کر رہا ہے۔ اپنی ذات کے اندر رہتے ہوئے ہم سب کو يہ ديکھنا ہے کہ ہم نے کتنا انصاف کرنا ہے اپنے ساتھ اور دوسروں کے ساتھ۔ اپنی ذات سے نکل کر بس يہی دعا ہے کہ جلد از جلد قيامت آ جائے اور سب کو اپنا حساب دينا پڑے۔
bazahir dukhi ho kar aap ne wesa hi weblog likha hai jaisa ke bbc chahta hai or is ke baqi kai weblog nawes likhte rahe hain,sari takleef aap ko jihad larne walon ki hai,kia aap ko asl mujrim ke jo america hai israel hai or america ka paltoo england hai ke karname nazar nahi aayte?kia aaj muslim dunya may marne wale masoom afraad ki zimme dari in ke alawa kisi or par aati hai,or india ya aisi hi kisi jagah par yehi log masoom afraad ko nahi marwate ta ke in par se musalmano ki tawajju ha te or musaman or hindu ya sikh aapas may hi larte rahain.hosh ke nakhun lijiye,apne aap ko itna sasta farokht nahi kijiye aise faltoo weblogs likh likh kar.a
Yaar arif tum na yahan rehtay ho na tum nay wapis ana hai .tum tu rehtay hi kisi kay country main ho.tum apni azadi ki baat maat kia karo.
چند دن ھوئے ميں انگريزی بی بی سی سن رھا تھا ايک ايفريقن فری لانسر کے تبصرے نے مجھے کچھ سوچنے پر مجبور کرديا۔ اختصار ميں کہوں تو وہ صاحب کہتے ھيں کہ جب سے برٹش حکمران ھمارے ملک سے نکالے گۓ ھيں غربت افلاس، بدعنوانيوں، قبائلی جھگڑوں، اور ديگر بيشمار سماجی برائيوں نے تو گويا ادھر ڈيرے جما ليے ہيں۔ اگر يہی آزادی ھے تو شايد ميرے ملک کے بانی اور وہ تمام لوگ جو برٹش حکومت کے خلاف دن رات ايک ھوے تھے۔ آج پچاس برس بعد اپنی اس غلطی پر يقيناً شرمندہ ھوتے اور خواھش کرتے کہ وہ غلامي اس آزادي سے بہرحال بہتر تھي۔ اگر ميں غلطی پر نہيں تو غالباً وہ زيمبيا کا فری لانسر تھا۔ ديانتداری سے کام ليا جائے تو تقريباً وہ تمام ممالک جہاں سے يہ برٹش نکالے گئے ھيں اب انہيں ياد کرتے ھيں اور ان کے پيچھے پيچھے انہی کے ملکوں ميں جا بستے ھيں۔ ميں کبھی سوچتا ھوں کہ اگر قائد اعظم آج زندہ ھوتے تو وہ بھی لندن ميں کہيں رہائش پذير ھوتے۔
Yes you are absolutely right.It is just unbeleivable that how some can do like this.So hard to see these faces.The religion do not allow to do this.
Democracy or Dictatorship, both have side effects and by-evils. In one, killing is condemned,, in the other it's perfectly legal. In one, accountability is encouraged, in the other accountability is non-existent. Today's democratic values are confronting a new wave, and that is, "My-way or No-way." And some of us give it a religious coating. Take your pick for the lessor of two evils.
Azadi aik bohat badi nemat hay hazrat Umar Bin Khatab ne aek sahabi ko dant tey huwey farmaya keh app nein logho ko ghulam kyun banaya hai jab keh wo azad paida hoye hain? kahne ka matlab ye hai har admi ko apne jayez hookook ke liye larne ka haq hay maghar behy gunah logho ko marna bhot zulm hay
واہ رے واہ آزادی کی جدوجہد کرنےوالے جہادی تو ياد رہے پر اپنے مرشد امريکہ کی آزادی کی جدوجہد کا ذکر بھول گئے۔ چلو ہم ياد دلا ديں کہ عراق اور افغانستان ميں لاشوں کے انبار جہاديوں کی کارستانی نہيں، آپ کے آقا و پير و مرشد امريکہ و برطانيہ کا طريقہ آّزادی ہے۔ زندگی کی قيد سے آزاد کو آزاد وطن کی کيا ضرورت؟ سب کو آزادی مفت ميں بانٹ رہے ہيں اور پھر ہم جيسے بے وطنوں کو آزاد وطن کی قيمت کا کيا پتہ۔ غنی خان (پشتو کے مشہور شاعر) کے شعر کا ترجمہ ہے ’اگر دار ہو تو دار اگر نار ہو تو نار مگر ہو اپنا اختيار تو جنت ہے ۔۔۔ ہم بے اختيار اس کی قيمت کيا جانيں‘۔
مگر ایسا ہوتا نہیں، آج کے دور میں صرف ایسا خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ آج دنیا کے نقشے پر کتنے اسلامی ملک ہیں ؟ کون سا ایسا اسلامی ملک ہے جس میں اس طرح کی مثالی حکومت ہے۔’آزادی‘ صرف نام کی حد تک کی باتیں رہی ہیں، آزادی کے نام پر حقیقت میں حکمرانوں کے چہرے تبدیل ہوئے باقی سب وہی رہا ہے۔ پاکستان کو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا۔ لیکن کون سی ایسی بات ہے جو آج ہمیں ہندوستان سے مختلف کرتی ہے۔ کیا ہم اپنے ہی گھروں میں اپنے گھر کی چھت کے نیچے ڈر ڈر کر زندگی نہیں جی رہے۔ اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے ملک میں گوروں کے بنائے ہوئے قوانین آج تک چل رہے ہین، نام ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان، یہ کون سی اور کیسی اسلامی جمہو ریہ اور آزادی ہے۔ ہم اپنے ضمیر کو کب تک دھوکہ دیتے رہینگے۔
Marnay or maarnay may farq hota hay,aap log kyu dono ko aik saath milathay hain ,aap nahi jaanthay keh aik jihadi kio bundook otatha hay ,kia us ko apnay gher mein aaraam kernay ka showk nahi hota,kia usey yeh huq nahi k woh apni merzi se jiye or marey.yehi zalim kuwatein hoti hain jo unhain aisa kernay per majboor kerdeti hain,mein aap se pooctha hoon keh jab aap ke saath bhi wahi ho jo in jihadio k mawo behno baitio k saath ho raha hai tho aap chup chaap seh laingay.is zindage se tho mout behtur hay bhai.Aap log kio dono ko aik tarazo se toltey hain,Ab taq pori dunia may kis jihadi ne kisi k mulk per qubza kia hay,,Kis jihadi taqut ne oil per kubza kia hay,Kis jihadi takut ne Usama ko hawala kernay ka demand kerkay poora afghanistan ko lasho ka dair banya hai.Phir aap ka zameer kio murda hojatha hay janaab..For God sake zameer faroshia bund kerdho ae mosulmano ALLAh k wasthay
عارف صاحب آزادی کا دوسرا نام طاقت ہے ، جو کمزور ہيں وہ آزاد نہيں ہيں آزاد صرف طاقتور ہوتا ہے اور آزادی صرف طاقت کے ذريعے حاصل کی جاسکتی ہے۔ جہاں تک بےگناہ لوگوں کی ہلاکت کی بات ہے تو آج کی دنيا ميں ميرے اور آپ سميت کوئی بھی بےگناہ نہيں ہے کيونکہ کروڑوں امريکی اپنے گھروں کے آرام دہ TV ROOM ميں بيٹھ کر لاکھوں ٹن بارود افغانستان عراق پر گرتے ہوئے ديکھتے ہيں اور ان کو ايک لمحہ کيليئے بھی حقيقی احساس نہيں ہوتا کہ يہ جو ہماری حکومت ان ممالک پر بارود گرا رہی ہے اس سے کتنے معصوم لوگ مارے جارہے ہيں اور افغانی اور عراقی عوام پر کيا گزر رہی ہے۔ يہی قصور اسرائيل اور انڈيا کے عوام کا اور ہم سب کا بھی ہے کہ ہم اپنے گھروں ميں بيٹھ کر ظلم ہوتا ديکھتے ہيں ليکن مطمئن ہيں کہ ہمارا گھر آگ سے بچا ہوا ہے۔
Baja farmaya aap nay. laikin sub logoon ko sirf muslim dehshat gardi he kiyoon nazar aatte hay, india yeh kesay keh sakta hay keh yeh sub pakistan ka kiya dhara hay. kaya india main aazadi kay naam par aur tehreekain naheen chal raheen? aur phir all world main kaheen bhi kuch ho uss main pakistan ko he kiyoon shamil samjha jata hay , aakhir yeh Propaganda kiyoon? kabhi iis par bhi kuch keh lia jay to koi harj to naheen, israil aaj bhi aazdi kay naam par zulam kay pahar toor raha hay, ̳ kay saf-haat par he parha tha keh america main yeh khabrain garm hain india par yeh hamla , india ke iqtasadi taraqi ke waja say hoa hay kiyonkeh pakistan ko indians ki iqtasadi taraqi khatakti hay. koi batlao keh hum batlain kaya, ? kehna yeh hay keh sirf aik pehloo par he nazar na dalee jay balkeh har pehloo ka bhi doosra pehloo hota uss par bhi nazar zaroor dalee jay aur Newton's Third Law of Motion to sub ko yaad he hoga...........................
Very right, But these words have no value, unless people like you are able to apprcach English media, Try to publish your words on English Media where a common reader can read your coloumn. But you , me and all of us know it very well that things like that are not for English media, am i right?
عارف بھائی آپ کی تحرير پڑھ کر آنکھيں نم ہو گئيں۔ نہ جانے ہم لوگ کس سمت ميں جا رہے ہيں۔ ليکن ہر عمل کا رد عمل بھی ايک فطری بات ہے۔ يہ بھی ايک حقيقت ہے کہ آزادی قربانی مانگتی ہے۔ ليکن معصوم لوگوں کی جان لينا يہ کيسی آزادی کی مانگ ہے؟ آزادی کی جنگ لڑو ضرور لڑو ليکن معصوموں کی جان لے کر نہيں۔ يہ تو کھلی دہشت گردی ہے۔ آج جو کچھ دنيا ميں ہو رہا ہے اسے ديکھ کر واقعی
’ آنکھيں بھيگ جاتی ہيں ‘
نصرت فتح علی خاں صاحب کی غزل ياد آ رہی ہے
اس دنيا کے غم جانے کب ہوں گے کم
جينے والوں کو سزا ’ بے جرم خطا‘
کيسے ڈھائے ہيں ستم ـــــ جانے کب ہوں گے کم
آپ کا کہنا درست ہے اور ہميں آزادی کا درست مفہوم سمجھنا نہايت ضروری ہے کيونکہ مکمل علم کے بغير آزادی کو سمجھا نہيں جاسکتا اور بے علمی يا کم علمی کے سبب وہی ہوگا جس کا آپ نے ذکر فرمايا ہے ۔۔ مگر ہميں يہ بھی ياد رکھنا چاہيئے کہ آزادی ايک نعمت ہے اور اس کا احساس اس کے چھن جانے کے بعد ہی ہوسکتا ہے اس لئے آزادی کی قدر کريں ۔ خدا ہميں توفيق دے ۔
دعا گو
سيد رضا
برطانيہ
Aapka kehna bilkul theek hai, Per baraysagheer ki azadi ka bunyadi masla kya tha? Kiun zarorat paish aai thi uss waqat aik alehda mulk ki. aap dahshat gardi ko aazadi ki jang ke sath nahi jorr saktay, Iraq mein loug murr rahe hein to kiun marr rahe hein? wo Isi lye ke unko America ki Ghulami manzoor nahi. Chand dahshat gard garouhon ne mil ker saray azadi ke matlab ka hi satya naas ker diya hai.
My dear Shamim sahib
Nations sacrifices for freedom. Freedom is not a cake that some one will offer. It is hard to obtain and harder to maintain.Muslim nation lacks the leadership , higher education and technology.Untill we get these three things this undirected struggle would continue.Only justice can stop it and presently world is not ready to do justice with muslims. Please write why justice is not being done with muslims.
ایسا کرنے والے لوگ ظالم ہیں لیکن آپ نے بہت سی باتوں کو مکس بھی کر دیا ہے اور آغاز سے ہی مسلمانوں کو قصور وار سمجھ کر چل رہے ہیں اور یہ ہی تو کرنے والے لوگ چاہتے ہیں۔کہ صیح کام کرنے والے بھی ہماری نظروں سے گر جائیں اورہمیں اتنا د بایا جائے کہ ان کی مار بھی ہمیں ہماری ہی غلطیوں کی وجہ سے نظر آے۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ آپ ظالم کے سامنے لیٹ جائیں گے تووہ آپ کو چھوڑ دے گا تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔اگر ضیاءالحق روس کو افغانستان میں نہ روکتا تو آج بلوچستان کیلئے ؒلڑائی ہو رہی ہوتی اور اگر عراق میں امریکہ کے دانت کھٹے نہ ہوتے تو وہ کب کا ایران و شام پر حملہ کر چکا ہوتا اور اگر آپ انڈیا کو کشمیر ڈش میں رکھ کر بھی دے دیں تو بھی وہ " گجرات" والا حال آپ کا کرے گا۔
اسرائیل کی سرحدیں تو ان کے نقشے میں مدینے کے 1400 سال پہلے والے یہودی قبائل تک ہیں۔
آپ کا کیا خیال ہے جب گولی ہی کھانی لکھی ہو تو سینے پر کھانی چائیے یا پیٹھ پر ؟
جب تک انسان اپنی خواہشات کی غلامی ميں رہے گا تب تک بيرونی آزادی کا کوئی فا ئيدہ نہيں مذہب انسان کو خواہشات کی غلامی سے پہلے نجات کا حکم ديتا ہے - سيدھی سی بات ھے جب ہم خواہشات کی غلامی سے نجات حا صل کرليں گے تو دوسروں کی بيرونی آزادی کا بھی خيال کريں گے ورنہ تو بظاہر آزاد ملک اور قو ميں بھی آزاد نہيں ہيں بلکہ ذيادہ فساد پھیلاتی ہيں-
Shahida aunty kaha hain ap? Apke tabsra ka intezar hai!
جب ادارے اپنا وقار کھوديں اور قوميں آزادی کے انتظار ميں تيسری اور چوتھی غلام نسل جوان کرنے لگيں پھر يہی کچھ ہوتا ہے۔ جب انصاف مانگنے سے ملے تو پھر چھينا ہی جاتا ہے۔ آزادی کے بارے میس آپ کی بات اچھی مگر غلام نسل کے کرب کو بھی سمجھيئے۔ جب طيارے آن واحد ميں بستی برباد کر جائيں تو مجبور و محکوم لوگوں کو بھی راستہ سوجھائی ديتا ہے۔ آپ کے پاس کوئی راستہ ہو تو بتائيں۔
جناب عارف شميم صاحب کچھ اور بھی عرض کرنا چاہتا ہوں ۔
انسان مجبور بھی ہے ۔ وہ آزاد بھی ہے ۔ نہ اس کی مجبوری اس کی آزادی کو سلب کرتی ہے اور نہ ہی اس کی آزادی اس کی مجبوريوں کا ازالہ کر سکتي ہے ـ انسان بہ يک وقت آزاد بھی ہے اور مجبور بھی ـ اگر آزاد ہوتا تو پھر حساب کتاب کون کرتا اور مجبور ہوتا تو حساب کتاب اور جزاوسزا کا سوال کيوں پيدا ہوتا ۔۔۔
انسان کی مجبوری اس کی آزادی کو گھيرے ہوئے ہے اور اس کی آزادی اسے عبديت کے تقاضوں کو پورا کرنے کا تقاضہ کرتی ہے ۔ چونکہ آزاد ہے اس لئے اس کے اوپر ذمہ داريوں کا بوجھ ہے اور اس سے اخلاقی تقاضے وابستہ ہيں ۔
۔۔۔ ليکن يہ آزادی خدا کی دی ہوئی نعمت ہے اور اس نعمت کے بارے ميں وہ جوابدہ ہے اور ۔۔ انسان کو يہ ياد رکھنا ہے کہ وہ خدا کا ’ آزاد کردہ غلام‘ ہے ۔
نياز مند
سيد رضا
برطانيہ
شميم بھا ئی جس دکھ کو آپ نے محسوس کيا اور اس دکھ کو ہم سب نے شیئر کيا۔ يہ ايک ايسادکھ ہے جس نےآج ہر انسان کا دل ہلا دياہوا ہے۔ فرق صرف يہ ہے کہ ہم اس دکھ کو صرف محسوس کر کے رہ جاتے ہيں اورکچھ کرنہيں پا تے جبکہ آپ کے پاس قلم کی وہ طا قت ہے اور وسائل ہيں جن کو بروۓ کار لا کر آپ اپنی آواز دنيا تک پہنچا سکتے ہيں۔ اس طرح کی با تيں کرنے سے شميم بھائی ہم کوئی انسانيت کي خدمت نا کر رہے ہيں اور نا ہی کر سکتے ہيں۔ يہ سب صرف زبانی جمع خرچ ہے اورہم اور آپ بے دريغ يہ خرچا کر رہے ہيں۔ جانے والے چلے گئے خواہ اپنی مر ضی سے گئے، آزادی کے جنون ميں گئے يا زبردستی اس آگ ميں جھونک دیئے گئے، ليکن سچ تويہ ہے کہ آج دنيا کے کسي بھی کو نے، کسی بھی ملک، کسي بھي خطے ميں ناہی کوئی آزادي ہے نا ہی کوئی جمہوريت ہے اور نا ہی کوئی شخص آ زاد ہے۔ ايک نظر ديکھيں توجو لوگ بہت خوشحا ل اور مادر پدر آزاد ملکو ں کے باسی دکھائی ديتے ہيں اندر سے وہ بھي اتنے ہی غير جمہور ی ہيں۔ کيونکہ آزادي کامطلب کہيں بھی يہ نہيں جو آپ نے لکھا۔ صرف ہمارے ناموں کے ساتھ ہمارے ملکوں کے نام آزاد لکھے ہوئے ہيں۔ پھر بھی اس غير يقينی سی، غير محفوظ اور ناقابل يقين آزادی ميں بھي ايک سکون ہے۔ رہی بات کہ کشمير ہو، فلسطين ہو، يا کوئی بھی اورملک ہم اور آپ سب جانتے ہيں کہ اس سب کے پيچھے کون ہے ، کون يہ سب کررہا ہے کروا رہا ہے۔ آپ خود بتائيں کون اپنی خوشی سے طبعی موت کے علاوہ ايسی ناگہانی موت کا آرزومند ہو گا ۔ کون اچانک ہی سڑک پرجاتے ہوئے بم کی نظر ہونا چا ہے گا ، کوئی بھی نہيں، تو پھر بتائيں کيا کر يں آپ نے جب اتنا جائزہ ليا ہے توکوئی حل بھي بتاياہوتا۔ کيونکہ يہ دکھ ايسا ہے جس نے ہرايک کے دل پر ہاتھ ڈالاہے۔ صرف اس دکھ کي نشاندہی سے کيا ہو گا کہ يہ سب کچھ توآج ہر کوئی جانتاہے۔ بات تو جب ہے کہ اس مرگ انبوہ ميں کوئی تو يد عيسی رکھتا ہو جو تن مردہ ميں جان ڈالنے کا يارا رکھتا ہو، يا ان زندوں کي زندگی کی ضمانت ہو جو زندہ تو ہيں ليکن صرف آتي جاتي سانسوں کي حد تک، پھر بھی اميد پر دنيا قائم ہے اورہم اس کي امت سے تعلق رکھتے ہيں جو اس بات پر يقين رکھتے ہيں کہ جو وقت مقرر ہے اس سے زيادہ نا کوئی جيا ہے اور نا ہی ہم اس حقيقت کو تبديل کر سکتے ہيں۔ دعا پر يقين رکھيں اور دوا بھی جاری رکھيں کہ دوا اور دعا دونوں کو قبول کرنے والی ذات وہی ہے۔ وہي سب سے بہتر وکيل ہے سو اسی سے طلب کريں۔ مع السلام
شاہدہ اکرم
Aap ko kaise confirm howa ke ye dhmake azaadi aur jamhoriat ke naam pur jehaadi kar rahain hain.
I mean how can you be so sure that these blasts are the acts of freedom fighter? I think saying so is the result of lack of vision and wisdom on your part.
Arif Sb, Jok kuch bhi app nay likha hay yeh tu sarasar Islam kay khilaf likha hay. Kiya Islam asa Sabaq dita hay?Agar Afghansitan, Pakistan, Iraq aur Lebanon main horahay tu ye Islam Ijazat dey raha hay. Islam kabhi bhi tashdud nahi sikhta. Sirf akhuwat ka dars deta hay. App ko tu azadi kiqadar hi nahi hay. azadi ka aik sans ghulami ki zindgi sa behtar hay.
عارف شميم صاحب!
ايک بات تو بتائيں کہ بی بی سی اردو سروس پہ لکھنے والے يکے بعد ديگرے اردو پڑھنے والوں کو اسلام ، پاکستان ، جمہوريت اور اب آزادی جيسے آدرش ، الہامی نعمت سے الرجک اور برگشتہ کرنے کی شعوری يا لا شعوری کوششيں کيوں کرتے ھيں؟ کيا بی بی سی کی يہ نوازش صرف اردو پڑھنے والے مسلم قارئين کے ساتھ روا ہے يا ديگر مسلم زبانوں کی سروس ميں بھی يہی پاليسی کارفرما ہے؟۔
ميں نہيں سمجھتا کہ آپ جيسا صاحب علم آزادی اور جہوريت جيسی نعمت کے بارے ميں مشکوک ہو۔ امريکی و برطانوی غاصبانہ قبضے کيخلاف عراقی عوام کی جدو جہد ، اسرائيلی ننگی جارحيت کے شکار مظلوم فلسطينی عوام اور گزشتہ انسسٹھ سالوں سے بھارتی فوجوں کی بربريت کا نشانہ بننے والے مجبور کشميريوں کو آپ نے ايک ہی سانس ميں ممبئی ميں دھماکے کرنے والےدہشت گردوں کی صف ميں لا کھڑا کيا ہے ـ آپ نے ارشاد فرمايا ہے کہ ’ کشمیر کی آزادی کی قیمت ان ماؤں کو دینی پڑ رہی ہے جو نو ماہ بچوں کو گود میں رکھتی ہيں‘ تو جب سولہويں اور سترھويں صدی ميں برطانيہ سازش اور فوجی طاقت سے افريقہ اور ايشيا کے ممالک کو اپنی نوآبادي ميں بدل رہا تھا توتب ان ممالک ميں بيجھے جانے والے انگريز فوجی اور سورما ؤں کو کيا انگريز ماؤں نے نو ماہ تک اپنے پيٹ ميں نہيں رکھا تھا؟ حالانکہ وہ انگريز سپاہی دوسری قوموں کو غلام کرنے نکلے تھے جو بجائے خود ايک قبيح فعل ہے۔ برسوں پہلے بی بی سی پہ ’دی شيڈوؤ آف دی اسلام‘ يا ملتے جلتے نام کی ايک ڈاکومنٹری فلم ميں ايک کشميری ماں نے بتايا تھا کہ مجھے اپنےتين جوان بيٹوں کی يکے بعد ديگرے شہادت کا دکھ نہيں بلکہ ہنوز کشمير کی غلامی کا دکھ ہے وہ مائيں تو اپنے بيٹوں کي شہادت پہ فخر کرتي ہيں پھر کشميری ماؤں کے لئيے آپکا يہ درد کيا معنی رکھتا ہے؟ـ
کشمير، فلسطين اور عراق پہ قابض بالترتيب بھارتی ، اسرائيلی اور امريکہ و برطانيہ افواج اور ان کا نہتے لوگوں پہ روا ظلم و ستم تو آپ نے نہايت نا انصافی سے سرے سے گول ہی کرديا ہےـ
کيا ہے اچھا ہوتا اگر آپ ممبئی دہماکوں کی ہلاکتوں( جسکی ہم بھی مذمت کرتے ہيں) کے ذکر کے ساتھ امام بری اسلام آباد ، سيالکوٹ ، ملتان ، ہنگو اور کراچی بم دہماکوں ميں مارے جانے والے سينکڑوں بلکہ ہزاروں پاکستانيوں (جو تعداد ميں بہر حال ممبئی ميں مارے جانے والوں سے زيادہ ہيں) کا بھی دکر کيا ہوتا ـ جبکہ دبی زبان ميں سب نے کہنا شروع کرديا ہے کہ کشمير ڈائيلاگ پروسيس کو ناکام کرنے کيلئيے يہ دہماکے ماضی کيطرع خود بھارتی ايجينسيو ں نے کرائے ہيں ۔
آزادی قائم ہے تو ايک دن ہم اپنا معاشرہ بھی درست کرليں گے اور جمہوريت اور علم و انصاف کے ذریعے پاکستان وہ طاقت اور عزت بھی حاصل کر لے گاجو زندہ اور آزاد قوموں کا خاصہ ہے اور خدا نخواستہ اگر آزادی ہی نا رہے تو باقی باتيں خواب ہو جايا کرتی ہيں۔
بہرحال ہم لوگ اپنی ترکيب ميں خاص ہيں اور آپکی اسطرع کی تحريروں سے ہم ميں احساس کمتری کی بجائے ہماری قوتِ مدافعت ميں اضافہ ہوگا۔
دعا گو
جاويد گوندل بارسيلونا اسپين
اب مما لک کو دہشت گردی جيسے گڈے سےکھيلنے کی عادت پڑ رہی ہے اور اس کی آڑ ميں سب اپبے گندے کپڑے دھو رہے ہيں۔ حالاں کے اگر کشمير کے مسئلے کو حل ہونا ھوتا تو کسی حيلے کی ضرورت نھيں تھی۔ آپ کو اپنے محلے کی دکان کا وہ بورڈ تو یاد ھوگا کہ کشمير کی آزادی تک ادھار بند ہے۔
شمیم بھائی
آزادی بہت پیارا لفظ چنا آج آپ نے، لیکن افسوس کہ ہم ایک بہت بڑی غلط فہمی میں زندگی گزار رہے ہیں کہ ہم آزاد ہیں۔ یقین کریں ہم سے تو وہ کشمیر اور فلسطین کے لوگ بہتر ہیں جو کم سے کم آزادی کے لیے اپنی جانیں دے رہے ہیں اور یہاں کیا ہو رہا ہے۔ بے وجہ ایک دوسرے کی جانیں لی جاتی ہیں۔ ہم لوگوں کا ایک ہی علاج ہے جو ماؤزے تگ نے چین میں کیا تھا۔ ا س کے علاوہ باتیں جتنی بھی کر لیں ہم اب بربادی کے اس دھانے پر ہیں جس سے واپس آنا بہت مشکل ہے۔ ہم تو خود آزاد نہیں اور ہمارے حکمران باتیں کرتے ہیں کشمیر کی آزادی کا افسوس۔۔۔ افسوس۔۔۔ افسوس۔۔۔ کاش میں امریکہ یا یورپ میں پیدا ہوا ہوتا کاش ۔۔۔ کاش ۔۔۔ کاش ۔۔۔
کل ميں نے ايک تبصرہ کيا تھا کہ اگر ھمارے ملک کے باني قائد اعظم حيات ھوتے تو کہيں لندن ميں مزے کر رہتے ھوتے۔ مجھے خيال آيا کہ کيا يہ ممکن ھے کہ ھمارے تمام قومی اور صوبائ اسمبلييوں کے اراکان اپنے درست اثاثوں کے ھمراہ اپنی دوسری شہريت کا بھی اعلان کريں۔ کچھ عرصہ سے اگر ميں امريکہ کی حراکات سے خوش نہيں تو ميرے اپنے مذھب کے لوگ بھی مجھے اور تمام عالم کو اتنے پيارے مذھب کی کوئی اچھی مثال نہيں دے پائے۔
Dajjal Ka arooj kareeb hai, uskey shaitaan insani shakal ma duniya par tabahi phela rahey hien, yeh sab uski amad key liye ground bana rahey hien, yeh waqt takreerin , lectures or philosphy jharney ka nahi hai, apna eman mazboot karo, or Allah se panha mango, or akhrat ki tayyari karo, Allah hum sab ka hafiz-o-nasir ho.
جناب عارف صاحب ايک واقعہ اس عنوان کے حوالے سے نظر سے گزارا تھا ۔ سوچا کيوں نہ آپ کو بھی سنا دوں ۔
ہوا يوں کہ ايک شخص نے حضرت علی سے پوچھا کہ ۔۔ انسان کتنا مختار ہے اور کتنا مجبور ؟
آپ نے اس شخص سے کہا ۔۔ اپنا ايک پاؤں اٹھاؤ اس نے فوراً اٹھا ليا۔ آپ نے کہا اب دوسرا پاؤں اٹھاؤ وہ کہنے لگا يہ نہيں ہوسکے گا۔
حضرت علی نے کہا ۔۔ بس انسان اتنا ہی مختار اور اتنا ہی مجبور۔
غور فرمايا آپ نے ؟
طالبِ دعا
سيد رضا
برطانيہ
ثنا بچے آپ کی يادآوری کا شکريہ۔ دير سے تبصرہ کر نے کي وجہ يہ ہے کہ ہاؤس وائف ہوں گھر کے بھی کام ہوتے ہيں۔ يہ تو بچپن کا شوق ہے اور شوق کے لئے ٹائم تو نکالنا پڑ تا ہے۔ اچھا لگا کہ کوئی منتظر ہو۔ موضوع اتنا گھمبير تھا اور شميم بھائی کا انداز کچھ اتنا دل گداز تھا کہ آرا نا دينا ممکن ہی نہيں تھا ،دعاؤں ميں ياد رکھيں۔
مع السلام
شاہدہ اکرم
Plz do highligh it too, where the government is dominant, so called private independent media is hiding this fact
you should surely publish it so that people can know the true face of reality
Assalam alekum, shahida aunty mai hamesha apke tabsiray blogs se pehle parh leti hon :) mujhe bahut ache lagte hain ap isi tarah hamesha likha karen, apke liye bahut saari duai.