یاد کا کوئی وقت نہیں ہوتا
یہ بابا راجہ کی کہانی ہے۔ وہ ضلع گجرات میں لالہ موسیٰ کے قریب گاؤں گورسیاں میں شاید موچیوں کے گھر میں پیدا ہوئے۔ وہ سرونٹ کوارٹر میں رہے، ہر چھوٹے بڑے کو انہوں نے صاحب کہہ کر بلایا، زیادہ تر نیچے ہی بیٹھے اور اکثر خوش اور مطمئن ہی نظر آئے۔
بابا نے نوجوانی میں اسی گاؤں کے ایک زمیندار گھر کے پڑھے لکھے رکن کے پاس کام شروع کر دیا جو ضلعی انتظامیہ میں مختلف عہدوں پر رہے۔ بابا آخری وقت تک اسی خاندان کے ساتھ سرگودھا میں رہے۔
بابا کو فوت ہوئے کئی برس بیت چکے ہیں۔ انہوں نے تقریباً پچھتر برس کی عمر پائی۔ انہیں گورسیاں میں ان کے عزیز و اقارب اور بہت
سے اعلیٰ حسب نسب والے زمینداروں کی موجودگی میں دفن کر دیا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ امی نے مجھے صبح جگا کر بتایا کہ سرگودھا سے فون آیا ہے کہ بابا راجہ فوت ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنازے پر پہنچنا ضروری ہے نہیں تو بہت برا لگےگا۔
بابا راجہ کی تدفین کے وقت لوگ ان کی زمین، موسم اور فصلوں کے بارے میں معلومات کی بات کر رہے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ کچھ مہمان سرگودھا آتے تو سرونٹ کوارٹر کے برآمدے میں بابا جی سے ملتے اور کچھ تو وہیں ان کے پاس ہی حقہ منگوا لیتے۔ زمیندار ماحول میں اپنی اس طرح عزت کروانا معمولی بات نہیں تھی۔
وہ سرونٹ کوارٹر میں رہے، ہر چھوٹے بڑے کو انہوں نے صاحب کہہ کر بلایا، زیادہ تر نیچے ہی بیٹھے۔ وہ اکثر خوش اور مطمئن ہی نظر آئے۔ بادی النظر میں مجھے وہ کبھی کسی سے مرعوب یا نالاں نہیں دکھائی دیئے اور شاید ان کو یاد کرنے کی یہ ایک بڑی وجہ ہے۔
بابا راجہ ان پڑھ تھے۔ ان کے بیٹے صادق نے شاید مڈل یا میٹرک پاس کیا تھا اور پوتا مہدی خان وفات کے وقت بی اے کا طالب علم تھا۔ میں نے بابا اور صادق کو کئی بار مہدی کی تعلیمی پیش رفت کے بارے میں بات کرتے سنا۔ ایک بار صادق نے مجھے فخر کے ساتھ مہدی کا مڈل کے امتحان کا نتیجہ بھی دکھایا۔
بابا جی کا جواں سالہ پوتا مہدی خان اچانک فوت ہوگیا۔ اس کے غالباً دو سال بعد اس کا باپ اور بابا کا اکلوتا بیٹا صادق جو سرگودھا میں چونگی محرر تھا دنیا سے چلا گیا۔ بابا جی ان دونوں کے بعد کئی برس زندہ رہے۔ انہوں نے یہ وقت بڑے حوصلے سے اور خاموشی کے ساتھ گزارا۔
بابا جی کی حیثیت میرے ننیہال میں ایک بزرگ جیسی ہی تھی۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا بابا جی جانوروں کا خیال رکھتے تھے اور روٹیاں پکانے کے ساتھ ساتھ گھر کے کچھ دورسے کام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ گاؤں بھی جاتے اور وہاں کے کچھ معاملات پر بھی نظر رکھتے۔
ایک کام جو بابا راجہ نے باقاعدگی سے کیا وہ تھا خبرنامہ سننا۔ سب کو معلوم تھا کہ ٹھیک نو بجے بابا جی ٹی وی والے کمرے میں داخل ہوں گے اور تیس منٹ کے بعد خبریں سن کر واپس چلے جائیں گے۔ کبھی کبھار اس دوران کوئی بچہ ٹی وی کو چھیڑنا چاہتا تو اس کو بتا دیا جاتا کہ باباجی خبریں سن رہے ہیں۔
خاندان کے بچوں سے انہیں خاص اُنس تھا اور ان میں وہ ہمیشہ مقبول رہے۔ میں نے ان کی کمر پر بچپن میں بہت سواری کی۔ وہ مجھے اور میرے بہن بھائیوں کو عید پر عیدی بھی دیتے اور کبھی ہم میں سے کوئی ہچکچاتا تو ابّو ہماری پریشانی بھانپتے ہوئے کہتے کہ لے لو۔
اس وقت میں بہت چھوٹا تھا جب گرمیوں کی ایک خاموش دوپہر کو پھٹے ہوئے کپڑوں میں ننگے پاؤں ایک شخص دوڑتا ہوا گھر میں داخل ہو گیا۔ بابا جی باہر ہی موجود تھے انہیں دور پولیس والے نظر آتے ہی معاملہ سمجھ میں آ گیا اور انہوں نے پسینے میں شرابور اس حواس باختہ شخص کو کیلے کے درختوں میں چھپا دیا۔ اتنے میں پولیس آ گئی۔ بابا نے مسکراتے ہوئے انہیں سلام کیا اور ان کے آنے کی وجہ پوچھی۔ اس سے پہلے کہ وہ باباجی کی باتوں میں آتے چھپا ہوا شخص باہر نکل آیا۔ پولیس نے کچھ دور جا کر اسے دبوچ لیا اور اس کے ننگے پیروں پر مارنا شروع کر دیا۔ بابا جی اتنے میں اپنے کمرے میں چلے گئے۔
باباجی نے میرے خالو کے ساتھ صوبے کے مختلف اضلاع میں قیام کیا اور کچھ مشہور سیاسی اور مذہبی شخصیات سے بھی ملے۔ وہ ان لوگوں کے کمیوں سے ملےاور ان کے پاس نوکروں کی زبان سے ملنے والی معلومات بھی تھیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جب میں نے چاہا کہ ان کی یاداشتوں کو ریکارڈ کروں وہ موجود نہیں تھے۔
ہاں مگر کسی کو یاد کرنے یا اس کا ذکر کرنے کا کوئی وقت نہیں ہوتا۔
تبصرےتبصرہ کریں
تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد
اسد صاحب بابا راجہ کی کہانی صرف ایک انسان کی کہانی نہیں، ایس بہت سی کہانیاں ہمارے ارد گرد زنگی کے ہر موڑ پر نظر آتی ہیں جن میں سے کچھ کو ہم نظر انداز نہیں کر پاتے۔
آپ نے اچھا کیا جو بابا راجہ کو ان کے جانے کے بعد ان کے اچھے رویوں سمیت یاد کیا۔ یاداشتوں کو درج کرن لینا اچھی بات ہے اور کسی کو اس کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی یار کر لینا اور بھی اچھا ہے۔۔ اے کاش کے ہمارے جانے کے بعدہمیں بھی کوئی اچھے طریقے سے یاد کرے اور اچھے نام سے پکارے۔
محترم اسد علی صاحب ، با با راجہ کی کہانی پڑھ کر مجھے يہ شعر ياد آگيا ۔۔
اپنی تو وہ مثال کہ جيسے کوئی درخت
دنيا کو چھاؤں بخش کے خود دھوپ ميں جلے
۔۔۔ خدا مغفرت فرمائے
ميں تو کہتا ہوں کہ عجب ہی ہے يادِ رفتگاں کا جنوں کيونکہ ۔۔
ياد کا کوئی وقت نہيں ہوتا ۔۔ يا ۔۔ ہوتا ہے !؟
يار اسد بھائی بہت بور کہاني لکھی ہے آپ نے- نہ صرف کہاني بور ہے بلکہ الفاظ کے بے ترتيب انتخاب نے اس تحرير کو مزيد بدمزہ کرديا ہے- اچھا بھلا موڈ غارت ہوگيا۔
اسد علی تمہارا بلاگ پڑھ کر ايسا لگا کے واقعی کچھ ياديں انمول ہوتی ہيں۔ زبان کی سادگی تمھاری تحرير کو مزيد خوبصورت بناديتی ہے۔ لندن ميں رہتے ہوئے بابا راجہ کو ياد کرنا معمولی بات نہيں۔
مجھے یہ کہانی بہت پسند آئی ہے۔ کاش میری زندگی بھی بابا راجہ کی طرح سادہ ہوتی۔ اسد آپ کی اگلی تحریر کا انتظار رہے گا۔
اسد بھائی مجھے جناب عبدالہادی حيراں کی حيرانی اور بوريت کی شکايت پر تعجب نہيں ۔ ايسا کہيں کہيں ہے ۔۔ مگر ميں اسے آپ کی اجتہادی غلطی سمجھتا ہوں پھر آپ تو جانتے ہی ہيں کہ ھم نے اجتہادی غلطيوں ہی سے کس کس غلط کو کيسا کيسا صحيح ثابت کرديا ہے ۔
اپنا بہت خيال رکھۓ گا۔
دعا گو
اپ تو کہتے ہیں کہ یاد کرنے کا کوءی وقت نہیں ہوتا مگر میرے خیال میں تو اب کسی کو یاد کرنے کا "وقت"ہی نہیں ہوتا۔
تھی فکر کٹےگی شب ہجر کیوں کر؟
لطف یہ ہے مجھے یاد نہ ایا کوئی
یار تم انگلینڈ سے کیا پاکستان آ گئے۔ براہ مہربانی انگلینڈ اور وہاں کے لوگوں کے بارے میں لکھو۔ او کے۔ ان کہانیوں کے لیئے وسعت اللہ خان ہے نا۔ میری بات سمجھے۔
معاشرے کے بااثر لوگ، سرمایہ دار اور وڈیرے ہمیشہ سے یہی کرتے رہے ہیں۔ وہ تعلیمی اور معاشی لحاظ سے کمزور انسانوں کو معمولی سا فائدہ پہنچا کر ان لوگوں کی غلامی کا سلسلہ صدیوں تک چلاتے ہیں تاوقت کے ان میں کوئی انقلابی پیدا ہو جائے۔ اسدُ علی صاحب شاید آپ کی یہ کاوش کئی فرعونوں کی اصلاح کا باعث بن جائے۔ جذاک اللہ خیر۔
بابا راجہ جیسے لوگ ہمیشہ ید رہتے ہیں۔ بیچارے اکیلے آئے دنیا میں ، اکیلے رہ گئے اور اکیلے ہی چلے گیے۔ لیکن آجکل کون کسے یاد کرتا ہے؟ ہر کوئی اپنی اپنی زندگی میں مگن ہے۔ بابا راجہ جیسے لوگوں کو یاد نہیں کیا جاتا کیونکہ میرے نزدیک یاد انہیں کیا جاتا ہے جنہیں بھول جائے انسان۔
عاليہ جی شکريا آپ کا فو ن آيا کوشش کر رہی ھوں ديکھو کيا ہوگا ليکن کافی مشکل لگا کو شش جاری ر کھوں گی۔
شکر يہ
بھئ بلاگ کا عنوان تو بہت اچھا ہے ليکن انداز تحرير اور الفاظ کا انتخاب بہت غير ميعاری تھا۔
بہت پيارے انداز سے حق ادا کر ديا ہے ان سب کا جو ہندوستانی تہذيب کی لکھت سے بھگوان کے پاؤں قرار پائے ہيں۔ صدياں بيت گئيں ان کا کردارنہيں بدلا۔انگلش ادب ميں صنعتی انقلاب کے بعد جب فرد ايسے استحصال سے آزاد ہوا توکئی لکھاريوں نے پرانے سماج کی ياديں لکھيں۔ ہمارے ہاں اسلام کا ظہور قبائلی دور ميں ہوا جس کے بعد اگلي صدی ميں جاگيرداری کو دوام ملا جو مسلمان آج تک دل سےلگائے ہوئے ہيں۔ خدا جانے يہ جمود ہميں کہاں لے چھوڑے گا۔ فدا فدا
اسد صاحب بابا جی کی زندگی کا بہت خوبصورت خاکہ کھینچا آپ نے۔ بہت خوبصورت۔
اسد صاحب بابا راجہ کو اس کی زندگی میں کیوں یاد نہیں کیا؟
وہ چلا بھی گيا ہے تو نہ کھولو آنکھيں
ابھي محسوس کیئے جاؤ رفاقت اس کی
Asad sahab, aap hey iss blog ney mujhey bhi kissi ki yaad dilaa di. meri zindagi mein bhi aik aisey hi baba ji they jo rehtey to hamrey ghar mein they magar wo kaam sarey mahley ke kartey they. un ka bhi duniya mein koie nahie tha. mughau yaad hei wo aik road hadsey mein foat ho gaye they aur hamein ahanak hi haerann or gamgein chor gaye. Allah Tala un ki magfaret farmaie. Aameen