ایمسٹرڈیم، سرگودھا، ڈیلف اور گجرات
میں جب بھی کسی کو بتاتا ہوں کہ سرگودھا، منڈی سے گجرات کا سفر ہالینڈ کی سیر سے زیادہ خوبصورت ہے تو وہ ہنس پڑتا ہے۔ انہیں میری بات سمجھ نہیں آتی اور مجھے ان کی۔
ابھی کل ہی جدہ سے ایک عزیز نےفون پر یورپ کی سیر کے بارے میں مشورے چاہے۔ انہوں نے دو بار کا ذکر کیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ ہالینڈ اگر کیلنڈروں پر ٹیولپ کے پھولوں کی تصویروں کے چکر میں جانا ہے تو وہ موسم بہار میں صرف چند ہفتوں کے لیے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہمارے پاس لمبی بات کا وقت نہیں تھا ورنہ میں انہیں اپنے ہالینڈ کے سفر کے بارے میں ضرور بتاتا۔
مجھے یاد ہے جب میں پہلی بار ایمسٹرڈیم کے لیے روانہ ہوا تو لندن سے ٹیک آف کے کچھ دیر بعد ہی ٹیولپ کے نظارے دیکھنے کے لیے کھڑکی سے چپک گیا تھا۔ میری مایوسی کی اس وقت انتہا ہو گئی جب جہاز ایمسٹرڈیم کے ہوائی اڈے پر اتر گیا اور کیلنڈروں پر دیکھی ہوئی تصاویر جیسا ایک بھی منظر نہیں ملا۔ ہالینڈ پہنچ کر معلوم ہوا کہ ٹیولپ کے نظاروں کے لیے مخصوص تاریخوں کے درمیان ہالینڈ آنا ضروری ہے۔
مجھے ایمسٹرڈیم، روٹرڈیم، دی ہیگ، ڈیلف اور دیگر شہروں کے درمیان سفر میں کبھی رنگ نظر نہیں آئے جو میرے لیے ہمیشہ سے ہالینڈ کی شناخت تھے۔ بلکہ بلجیئم سے ہالینڈ تک ایک ہی رنگ چلتا گیا۔ نہروں کا جال اور کہیں کہیں پن چکیاں بہرحال ضرور دکھائی دیتی رہیں۔
مقصد کسی ایک علاقہ کو دوسرے سے بہتر ثابت کرنا نہیں۔ ساری زمین ایک ہی خالق کی بنائی ہوئی ہے۔ عین ممکن ہے کہ زیادہ لوگوں کو ہالینڈ اور بیلجیم گجرات، منڈی اور سرگودھا سے زیادہ ہی خوبصورت لگتے ہوں اور شاید ہوں بھی بلکہ مجھے خود بھی وہاں کے کئی پہلو زیادہ اچھے لگے لیکن میرا سوال تو صرف یہ ہے کہ لوگوں کو ، منڈی، کے سفر کا فرانس بیلجیم ہالینڈ کے سفر سے موازنہ ناقابل یقین یا مضحکہ خیز کیوں لگتا ہے؟
تبصرےتبصرہ کریں
اسد صاحب کے کالم نے وطن کی کیا بلکہ اپنے شہر کی یاد تازہ کر دی۔ اگرچہ میں نے ایمسٹرڈیم دیکھا تو نہیں مگر سرگودھا سے تو اچھا ہی ہوگا۔ سرگودھا سے منڈي کی سڑک بننے سے پہلے ٹوٹ جاتی ہے اس کے ارد گرد کے مناظر دیکھنے کا موقع ہی نہين ملتا ويسے جرمنی مين اپنے شھر کی تعریف سن کر خوشی ہوئی۔
سيدھی سی بات ہے جی
دور کے ڈھول سہانےاور
گھر کی مرغی دال برابر۔
محترم اسد چوہدری صاحب اسلام وعليکم گزشتہ عيد مبارک- ويسے تو گھر کی مرغی دال برابر ہوتی ہی ہے خدا نے سرگودھا، منڈی بہاؤالدين تا گجرات کے راستے ميں حسن قدرت اسی حساب سے بھرا جس حساب سے ہالينڈ سے جرمنی اور ليگزمبرگ يا سوزرلينڈ وغيرہ ميں تقسيم کيا آپ سرگودھا تا منڈی يا گجرات تا سگودھا سفر کريں تو آپکو مالٹے کنو کے پھولوں پھلوں سے لدے اشجار نظر آئيں گے ورنہ گندم يا چاول کے خشبو بکھيرتے کھيت کہيں نیلے اودھے اودھے پيلے پيلے پيرہن پھول کہ جيسے پرياں قطار اندر قطار- آپ کيا کريں جہاں کنول کو کميّاں دا پھل ياں کھمبيوں کو پد پيرے کہا جائے جہاں پارکوں اور کھتوں کی جگہ چھاؤنياں پلازے يا ويرانی کے اسباب پھلائے جائيں۔ يہی خطہ تھا جسے اقبال نے سارے جہاں سے اچھا کہا تھا-ہم نے تو اسے بد صورت خود بنايا ہے خير انديش مياں آصف محمود واشنگٹن امريکہ
میں بالکل اتفاق کرتا ہوں۔ پاکستان اور یورپ کے دیہات کے موازنے میں ہنسنے والی کیا بات ہے؟میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں پاکستان کے کئی دیہاتی علاقوں کا دنیا کے کسی بھی علءاقے میں دیہاتی علاقوں سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
میں نے جب آسٹریلیا کی سیر کے بعد وہاں کا پاکستان کے کچھ علاقوں سے مقابلہ کیا تو مجھے بھی ایسے ہی رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔
محترمی و مکرمی اسد بھائی
اسلام عليکم ! آپ نے بہت ہی خوبصررت موضوع کا انتخاب کيا ہے - ميں تو يہ کہتا ہوں کہ جتنا قدرتی خوبصورت اپنا پاکستان ہے اس کے مقابلے ميں کوئی بھی نہيں ہے - اگر آپ ميرے چکوال آئيں اور يہاں پر کلرکہار ،کٹاس راج ، اور چواسيدنشاہ کے قدرتی مناظر ديکھيں تو آپ حيران ہو جائيں - اور يہاں کلر کہار سے ايک ديدہ زيب پہاڑی سلسلہ شروع ہوتا ہے جو کہ خوشاب تک جاتا ہے جس ميں ايک ’کٹھہ‘ کی بہت مشہورپہاڑی ہے - جتنی قدرتی خو بصورتی يہاں کی وادی ’سون سکيسر‘ ميں ہے اتنی شايد سوئزرلينڈ کی واديوں ميں بھی نہ ہو - ہمارے پہاڑ سب سے خوبصورت ہيں ہماری واديوں کا کوئی مقابلہ نہيں ہے - اور ہمارے دريا بھی منفرد - غرض پاکستان کا کسی بھی ملک سے مقابلہ نہيں کيا جا سکتا ، بس کمی ہے تو صرف ديکھ بھال کی - ہم لوگ اپنے ملک پاکستان کو گندہ کرنے ميں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہيں - کيا ہم اس کو مزيد خوبصورت نہيں بنا سکتے ، يہ لمحہ فکريہ ہے -
چودھری صاحب نہ ميں نے ايمسٹرڈيم ديکھا ہے اور نہ ہی گجرات اس کے باوجود يہ دعوے سے کہ سکتا ہوں کہ بر صغير جنت نظير ہے -اور يہ بات صديوں پہلے اورنگزيب عالمگير کہہ گئے ہيں-
سجاد الحسنين -حيدرآباد دکن
لوگوں کو گجرات، منڈی، سرگودھا کے سفر کا فرانس بیلجیم ہالینڈ کے سفر سے موازنہ ناقابل یقین یا مضحکہ خیز کیوں لگتا ہے؟
اس ليے کہ اس زمين نے ہزاروں لوگوں کو جہالت اور خاندانی دشمنيوں کے نام پہ نگل ليا ہے- يہاں کی فصلوں اور باغوں کی آبياری اس ليے کی جاتی رہی ہے کہ دشمنيوں کی فصل کو پروان چڑھايا جاسکے-اس خطے ميں خاندانی دشمنيوں کی بھينٹ چڑھنے والوں کی تعداد انڈو پاک کی تين جنگوں ميں دونوں طرف مرنے يا شہيد ہونے والوں سے کہيں زيادہ ہے- کيا بيلجيم اور ہالينڈ ميں پکی فصلوں کو آگ لگائی جاتی ہے؟
مجھے تو يہ موازنہ ہولناک لگتا ہے- زمينی خوبصورتی کا موازنہ تو شايد مضحکہ خيز نہيں ليکن جہالت اور علم کا موازنہ مضحکہ خيز ضرور ہے- کشمير کو آپ سوٹزر لينڈ سے خوبصورت کہہ سکتے ہيں ليکن سوٹزر لينڈ کے پانيوں ميں آپکو انسانی لاشيں تيرتی نظر نہيں آئيں گي-
اسدصاحب بات شروع کی ٹيولپ سے اور جا پہنچے سرگودھا اور گجرات ،يہ بھی کسی کسی کا کام ہوا کرتا ہے اور ايک بات بتاؤں آپ کو آپ کی تحرير اب اُن تحريروں ميں شمار ہو نے لگی ہے يا کم از کم مجھے کچھ ايسا لگنے لگا ہے کہ صرف ايک لائين پڑھنے کے بعد پلٹ کر ديکھنا پڑتا ہے کہ لکھنے والا وہی ہے نا جو ہم سمجھ رہے ہيں يعنی اب آپ کے لکھنے کا اپنا الگ انداز ہے جو دوسروں سے ممتاز کرتا ہے آپ کے ہر بلاگ ميں وطن سے دُور رہتے ہُوئے بھی وطن سے بھر پور محبت کی جو جھلک ملتی ہے وہی آپ کی تحريروں کو دوسروں سے جُدا کرتی ہے گو حقيقت ميں سرگودھا اور ہالينڈ کے درميان بھائی لوگوں کو کوئی مماثلت نظر نہيں آئے گی ليکن گورو داس مان کا ايک گانا تھا
دل ہونا چاہی دا جوان
عمراں وچ کی رکھيا
يعنی ہميں اپنا مُلک پيارا ہے تو ہم اُس کو کسی بھی چيز سے مماثل کر سکتے ہيں بس ذرا حالات نے رنگوں ميں جان نہيں رہنے دی ہوئی ورنہ
اپنے وطن ميں سب کچھ ہے پيارے والی بات غلط نہيں ہے ،بس ديکھنے والی نظر ہونی چاہيۓ اور اتفاق ہے کہ ہميں يہ نظر وطن سے دُور جا کر ہی نصيب ہوتی ہے ورنہ تو واقعی ساری زمين ايک ہی خالق کی تخليق کی ہوئی ہے جيسے لاہور سے پنڈی جاتے ہوئے راستے کے دونوں طرف ريڑھے ،ٹھيلے ،اور لہلہاتے ہُوئے کھيت ايک دلکش نظارہ پيش کرتے ہيں کم از کم ہميں تو يہ بہت اچھا لگتا ہے وجہ شايد زمين کی اور مٹی کی کشش رہی ہو گی کہ اپنی چيز تو بہر حال اپنی ہی ہوتی ہے اور پياری بھی لگتی ہے اب وہ ہالينڈ ہو يا گجرات خوبصورتی آنکھ ميں ہوتی ہے اور ظاہر ہے ٹيولپ اپنی جگہ اور سرسوں کے کھيت اور اُن کی خوبصورتی کا انداز اپنی جگہ ہے نا يہی بات ،لوگوں کو مضحکہ خيز لگتا ہے تو لگے
پسند اپنی اپنی ،خيال اپنا اپنا
دعائيں
شاہدہ اکرم
چودھری صاحب، دعوٰي دلچسپ ہے اور آپ کےمُشاہدے پراعتبار بھي ... چُنانچہ اگلےسفر پاکستان کےلیے ’سرگودھا تاگُجرات براستہ منڈی ‘... نوٹ کرليا ہے - اب ايمسٹرڈيم بازی لےجاتا ہے يا سرگودھا ، منڈی اورگُجرات ... جا کر ديکھناہی پڑےگا !