پاکستان یا غائبستان
یہ وہ ملک ہے جو غائب بھی ہے حاضر بھی۔ جہاں جو جائے وہ غائب ہو جاتا ہے۔ ازغیبی قوتیں عرف ’حساس ادارے‘ اتنے حساس ہیں کہ کل انہوں نے ’عشق کی شادی‘ کرنیوالے جوڑ ے کو بھی غائب کردیا کیونکہ گھر سے بھاگ کر آنیوالی لڑکی کسی کرنل کی بیٹی ہے۔ یعنی کہ آئي ایس آئی اب لوگوں کی ازدواجی زندگي پر بھی کنٹرول کرنے لگي ہے!
وڈیرے ہیں کہ کھیت مزدور منو بھیل کے گھر والوں کو نو برس سے غائب کیے ہوئے ہیں۔ منو بھیل کے گھر والے برآمد کرنے کیلیے جانیوالا جو پولیس ڈی آئی جی وڈیروں کے پیچھے گیا وہ معطل کیے جانیکے بعد گھر میں نظر بند کردیا گیا کیونکہ پولیس کو بھی وہاں وڈیروں کا کھیت مزدور بننا پڑتا ہے وگرنہ بنو سلیم اللہ خان۔ واہ رے پاکستان! انصاف غائب داد رسی غائب۔ یہ ان کا ملک ہے جو غائب پر ایمان لائے۔
غائبات پر مکمل کنٹرول،جادو ٹونہ ختم پروفیسر پچاسی سالہ سنیاسی باوا۔ باوے کو ہم چالیس سال سے ابھی تک ’پچاسی سالہ‘ دیکھتے آئے۔ باوا نہ ہوا پاکستان کے سدا بہار گیارہ سالہ منصوبہ باز فوجی حکمران ہوئے کہ جنکی وردی ہر دفعہ مزید پانچ سال کا اضافہ چاہتی ہے۔ شاید کراچی کے بچپن میں ناظم آباد سے سینٹ پیٹرکس اسکول جاتے ہوئے صدر کی دیواروں پر ایسی تحریر پرویز مشرف نے بھی پڑھی ہوگی۔ وردی والا خود کو اپنے ہاتھ سے پھول لگاتا ہے توسیعِ معیاد کرتا ہے اور کہتا ہے ’جا بیٹا مزید پانچ سال کیلیے کرسی پر جما رہے۔‘ پاکستان میں جمہوریت تو وہ دھوبن ہے جو صرف وردی پر لگے خون کے دھبے دھونے کیلیے بلائی جاتی ہے۔ وردی صاف مائی، جھموریت کا پتہ صاف اور ہم جیسے بیٹے جمورے: دھوبی کے کتے نہ گھر کے نہ گھاٹ کے۔
’قاتل گم، مقتول گم وارادت گم
شہر شہر اے ہر دم بڑھتے شہر بتا
کس طرف ہے منہ تمہارا کس طرف ہے دم
جو بھی تم کو ڈھونڈھنے نکلے ہوجائے وہ گم‘
تبصرےتبصرہ کریں
حسن بھائی یہ ملک فوج کا ہے۔ اگر ایک آرمی افسر کے بیٹی ایک سویلین سے شادی کرتی ہے تو آئی ایس آئی کو قومی مفاد کی خاطر مداخلت تو کرنی پڑے گی۔
محترم حسن مجتبٰی صاحب جيتے رہيے۔ کيا حقيقت پر مبنی تحرير اور صلاح عام
ہے ياران نقطہ دان کيلئے۔ صدام حسين کو کٹھ پتلی حکومت کی عدالت سے
ملنے والی سزا بھی ہمارے چارہ گروں کی آنکھ نہ کھولے تو پھر کيا کيا جائے۔ اب تو غائب کرنے والوں کے ہاتھوں سے ان ہی کے ريٹائرڈ عملے کے فرد خانہ بھی محفوظ نہیں رہے۔ کہيں نقشہ عالم سے غائبستان ہی گم نہ ہو جائے کہ قائداعظم کا کچھ احسان 70 ميں باقی رہ گيا تھا۔
شکر ہے اس پروردگار کا جس نے آپ کو اور مجھے پیدا کیا۔ پہلی مرتبہ آپ کی کسی بات سے اتفاق ہوا ہے۔
پتہ نہیں یہ قوم غائب کو چھوڑ کر حاضر پر کب ایمان لائے گی۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا غائب کا علم رکھنے والے قوم کو بیوقوف بناتے رہیں گے اور آپ آرٹیکل لکھتے رہیں گے۔
آخر یہ افواج غائب کیوں نہیں ہوتیں۔
محترم حسن مجتبٰی صاحب ، آداب و التماسِ دعا
اللہ اپنی رحمت نازل کرے چودھری رحمت علی پر جنہوں نے نيک نيتی سے اس ملک کا نام پاکستان رکھا مگر ہم نے اسے امريکستان، جنرلستان اور نجانے کتنے اور تان بنا ديا۔ آپ کی غائبستان کی اصطلاح ايک دلچسپ اضافہ ہے۔
زباں ملی بھی کس وقت بے زبانوں کو
سنانے کے لئے جب کوئی داستاں نہ رہی
مُلتمسِ دُعا
سيد رضا
عرض يہ ہے کہ آپ نے بہت ہی خوبصورت بلاگ لکھا ہے۔ يقين کريں کہ ميں خود ايک صحافی ہوں مگر ہر وقت خدشہ لگا رہتا ہے کہ کہيں اللہ نہ کرے کہ جس طرح اس سال اب تک تین صحافی جانوں کا نذرانہ پيش کر چکے ہيں اور درجنوں صحافيوں کو صرف سبق سکھايا گيا ہے۔ پھر جس انداز ميں شہريوں کو غائب کيا جاتا ہے اور کوئی اتا پتہ بھی نہيں چلتا۔ يہ انتہائی افسوسناک پہلو ہے اور صرف شک کی بنياد پر شہريوں کو حراساں کرنا کہاں کا اصول ہے۔ يہاں تک کہ سال ہا سال گھر والوں کو بھی کچھ خبر نہيں ہوتی جو کہ اس سے بھی بڑا اور درد ناک عذاب ہوتا ہے۔
حسن بھائی بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ ذرا آہستہ کوئی آ رہا ہے، کہیں ہم بھی تو غائب نہ ہو۔۔۔۔
حسن صاحب يہ طاقتيں نظروں سے اوجھل نہيں۔ اصل مسئلہ يہ ہے کہ نظريں بند ہيں اور جس دن عوام کی آنکھيں کھل گئيں تو اس دن نظر نہ آنے والے يہ بھوت خود ايسے غائب ہوں گے کہ پھر شايد صدام کی طرح انھيں صفائی کا بھی موقع نہ ملے۔
معلوم نہیں غائب کرنے کا تکلف کیوں کیا جاتا ہے۔ یہاں تو دن دہاڑے لوگوں کو بمباری کر کے مار دیا جاتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اگر وہ چاہیں توچوک میں کھڑا کر کے گولی مار دیں۔ ملک ان کا ہے اور صدر ان کا ہے، سویلین تو جانور ہیں۔
جناب اس ميں ہمارا اپنا قصور بھی تو برابر کا ہے کہ جب بھی کوئی فوجی حکومت آتی ہے تو يہ ہم لوگ ہی ہوتے ہيں جو اس کے حق ميں نعرے لگاتے ہيں اور اس سے اميد باندھ ليتے ہيں۔
آپ کے سب اعتراض بجا سہی مگر بات پر غور کریں کہ پاکستان ہے کیا :
جغرافیائی حد بندی پر مشتمل خطہ۔ فوج، قانون یا تمام پاکستانی گریبان میں جھانکنا بہت آسان سہی مگر جھانک کر دوبارہ سر اٹھانا مشکل ضرور ہے۔
بہتری غائب رہنے ميں ہی ہے، حاظر رہنے کی قيمت بہت زيادہ ہے۔
حسن بھائی کیا کمال لکھا ہے آپ نے۔ میں آپ کی ان تمام باتوں سے اتفاق کرتا ہوں اور ان باتوں کو کڑوی حقیست سمجھتا ہوں ان لوگوں کے لیے جنہیں ایسی باتیں جلد ہضم نہیں ہوتیں۔ حسن بھائی ہمیشہ سلامت رہو۔