شکریہ! لیکن کس کا
بی بی سی کے صحافی اور وزیرستان سے رپورٹنگ کرنے والے ہمارے ساتھی دلاور خان وزیر تقریباً ایک دن لاپتہ رہنے کے بعد واپس دفتر پہنچ گئے ہیں۔
دلاور کے واپس آنے کی جتنی خوشی ان کے اہلِ خانہ کو ہو گی شاید بی بی سی میں ان کے ساتھیوں کو بھی اتنی ہی ہوئی ہو۔ خصوصاً اسلام آباد میں ہمارے نامہ نگاروں کو جو پچھلے چوبیس گھنٹوں سے دلاور کے متعلق کوئی بھی سراغ حاصل کرنے کے لیے کوشاں تھے۔
خیر ہم سب بہت خوش ہیں اور شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں ۔ بس اس وقت مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ کس کا شکریہ ادا کروں کیوں کہ جن حضرات نے یہ نیک فیصلہ کیا ان کے متعلق تو ابھی تک پتہ ہی نہیں چلا۔
دوسری بات جس پر میں تھوڑا سا پریشان تھا وہ یہ تھا کہ دلاور کو بازیاب لکھوں، واپس پہنچا دیے گئے لکھوں کہ رہا لکھوں۔ کیونکہ ان کو تو جنگل میں چھوڑ دیا گیا تھا اور وہ خود ہی کسی نہ کسی طرح بی بی سی کے دفتر پہنچ گئے ہیں۔
جو بھی ہو ’نامعلوم‘ افراد کو دلاور کے لیے ہم سب کی طرف سے شکریہ۔
تبصرےتبصرہ کریں
جناب عارف شميم صاحب جيسا کہ ميں نے آپ کے پہلے بلاگ ميں لکھا تھا يہ سب آپ حضرات کی انتھک جدوجہد اور احتجاج سے پُر تحريروں اور ان تمام افراد کی دعاؤں کا نتيجہ ہے جو ايک دھڑکتا ہوا دل رکھتے ہيں ۔ سب سے بڑھ کر دلاور خان بھائی کے اہلِ خانہ کی دردمند اور کرب سے بھری دعاؤں کا ثمر ہے۔
بی بی سی کے تمام دوستوں کودلاور بھائی کی رہائی مبارک۔
مسٹر شمیم
زیادہ باتیں نا کرو ورنہ تم بھی پکڑے جاؤ گے ،شاید تمھارے لیے کو ئی کچھ نا کرے
جیسے حیات اللہ کو ہم بھول گئے ،دلاور مبارک ہو ،تم یوسف کی طرح قید ہو ئے ، بے جرم اور باہر آکر ہیرو بن گئے، لیکن دیکھنا کہیں اپنے علاقے میں ہی نا مارے جاؤ اور خبر لگے کہ خاندانی دشمنی، نامعلوم افراد کے ہاتھوں، مخبری کے الزام میں ،یا ۔۔۔ دلاور جنگل میں رہا نہیں ہوا ۔ ہم سب جنگل میں رہ رہے ہیں جہاں سڑکیں وسیع ،عمارتیں بلند ہو گئیں لیکن تہذیب ،تمدن ،اخلاق،کردار انسانیت اخلاص ،مروت یہاں سے ہزاروں میل کی مسافت پر واقع ہے ۔یہاں بہروپیے ہیں جو اخباروں میں ،ٹی وی چینلوں میں خود کو نمایاں کر نے کے لیے نظر آتے ہیں ،کاش ہم جنگل میں ہو تے اور جنگلی درندوں سے صرف اتنا ہی سیکھ لیتے کہ جنگل کی بھی کچھ حدود وقیود ہو تی ہے۔
پاکستان زندہ باد ،عدلیہ زندہ باد ،صحافت زندہ باد ، چور لٹیرے زندہ باد ، ریاست کے اندر ریاستیں زندہ باد ، تخریب کار زندہ ، فرقہ پرست ،شرپسند زندہ باد ، حکومتی پالیسیاں زندہ باد ،باجوڑ میں دہشت گردوں کی ہلاکت زندہ باد۔اب شاید مجھ جیسا چھوٹا سا جرنلسٹ جس کے دامن پر ابھی ہی صحافی ہونے کا داغ لگا ہے ،زندہ رہ سکتا ہے ۔ مجھے زندگی دے دو میں کچھ دیر زندہ رہنا چاہتا ہوں۔
دلاور کو اغوا کرنے والے بااثر ’لوگ‘ ہیں جسے چاہے اور جب چاہیں لے جائیں اور جب چاہے چھوڑ دیں ۔کون کہتا ہے صحافت آزاد ہے ۔ میں صحافی ہوں۔ ہم صحافی مجرموں کے خلاف لکھتے ہوئے نہیں گھبراتے مگر ’ان‘ کے خلاف کچھ بھی سچ لکھتے ہوئے سو بار سوچنا پڑتا ہے اور اکثر تو ان کے خلاف لکھا ہوا چھپتا یا نشر ہی نہیں ہوتا ۔خدارا مثبت تنقید اور سچ سننے کا حوصلہ پیدا کریں یا پھر ایسا کام نہ کریں جو خبروں کا موضوع بنے۔ایم امجد، کوئٹہ
عارف شميم صاحب صدر صاحب کا شکريہ ادا کرديجيے کون تھا؟ کس نے کيا؟ کيوں کيا؟ يہ سب باتيں اب کوئی معنی نہيں رکھتيں۔ وہ کہتے ہيں نا کہ چور مچائے شور تو کل ايوان ميں جو بھی شور مچنا ہوگا مچ جائےگا۔
سجادالحسنين۔ حيدرآباد، دکن
شميم بھائی دلاور صاحب آگئے واقعی جتنی خوشی کردہ يا نا کردہ گناہوں کی سزا کے کاٹنے کی ہوتی ہے اُتنی بلکہ اُس سے بھی کہيں زيادہ ہم سب کو اور اُن کے لوا حقين کو ہو رہی ہو گی۔ شکريہ کسی کا بھی نا ادا کريں صرف اُس ربّ العزّت کا ادا کريں جس نے اُس دُشمن کے دل ميں رحم ڈالا اور ايک گھر کو گھر کا چراغ نصيب ہو گيا۔ دعا ہے کہ وہ سب کو ايسی آزمائشوں سے بچائے اور اپنی حفظ و امان ميں رکھے۔ ميری ماں سی کے لیے دُعا کی اشاعت کے لیے بھی بہت شکر گزار ہوں۔ اللہ آپ سب پر اپنی رحمتيں بنائے رکھے۔ شکريہ
دعاؤں ميں ياد رکھيے گا۔
جنگل سے اٹھايا تھا تو جنگل ميں ہی چھوڑنا تھا- ويسے آپکو اپنے قلم کا شکريہ ادا کرنا چاہيے کيونکہ آج کل جس کے بارے ميں لکھتا ہے وہ فوراّ رہا ہوجاتا ہے۔ واپس، رہا يا بازياب لکھنے کی بجائے ان کو حاضر لکھنا گرائمر کے لحاظ سے زيادہ درست ہے کيونکہ غائب کا متضاد حاضر ہوتا ہے۔
عارف شميم صاحب آپکو اور سب لوگوں کو مبارک۔ مگر مچھ کے منہ سے سلامت لوٹنا آپ کی وجہ ہی سے ممکن ہوا۔ اسلام آباد سے لندن اور آپکے پڑھنے سننے اور لکھنے والوں کی محنت اور دعاؤں سے يا اغوا کرنے والوں کو اپنی اگلی کارروائی سے پہلے ہی اپنی مسٹيک کا اندازہ ہو گيا۔ آپ سے اور ڈان سميت تمام زندہ ضمير صحافيوں سے درخاست ہے کہ ديا جلائے رکھنا سحر ہونے ميں نجانے کتنی دير باقی ہے۔ گھر والو جاگتے رہنا اگلے وار سے ہوشيار۔
سبوخ سيد زندہ باد۔ سبوخ جيو جی بھر کے۔
سبوخ آپ نے ٹھيک کہا، آپ نے جنگل کے قانون کی بات کی تو مجھے ياد آيا کہ سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے۔
خداوندا جليل و معتبر ، دانا و بينا منصف و اکبر
ہمارے شہر ميں اب
جنگلوں ہی کاکوئی دستور نافذ کر۔
کالی رات، کالا قانون، کالے لوگ۔ کالا ملک، کالا دہندا ۔ نجانے روشن دن کب نکلے گا۔
۔محترم عارف شميم صاحب اسلام عليکم
يوں تو سنتے ہيں زمانے ميں ہيں ہزاروں عارف،
پر حقيقت ميں کوئي عارف ہے تو شميم عارف
ان حکومتی لوگوں کو اپنے اختيارات اور عمر اصغر خان کے انجام کا پتہ ہے۔ تمام وزيروں مشيروں کے وارے نيارے ہی حقائق چھپانے اور جھوٹ بولنے کے سبب ہيں۔ جہاں منتخب حکمران آئين عدليہ انتظاميہ اليکشن کمیشن سب اپنے کارہائے ذمہ داری سے ادا کرنے سے قاصر ہوں تو کون ہے جو خفيہ ہاتھوں اور ان کے آلہ کاروں کو بے نقاب کرے۔ آکاش بيليں تو ہوسٹ درخت کو سکھا کر ہی خم ہوتی ہيں۔ ہيں کواکب کچھ نظر آتے ہيں کچھ
ديتے ہيں دھوکہ يہ بازی گر کھلا۔
دلاور کی رہائی بلکہ فوری رہائی کا ہم سب کو یقین تھا کیونکہ ان کی پشت پر بی بی سی جیسا ادارہ تھا۔ اگر پاکستانی صحافی اپنے قلم کی طاقت کا ادراک کرتے ہوئے ظلم کے سامنے ڈٹ جائیں تو شاید کسی نادیدہ ہاتھ کو بھی ان کے ساتھ ایسا سلوک روا کرنے کی جرات نہ ہو، ہاں اگر سب اپنے اپنے خانوں میں بٹے رہ کر اپنی اپنی جان کی سلامتی ہی میں راضی رہیں تو یہ سلسلہ ابھی رکنے والا نہیں۔ زندہ باد بی بی سی۔
يہ وقت بتائے گا کہ کس کا شکريہ ادا کرنا ہے يا پھر دلاور کی خاموشي۔
مشرف کو الزام نہ ديں اس ميں اتنی جرات نہیں کہ ايک شخص جو باہر کے نشرياتی ادارے سے وابستہ ہے اس کو کچھ کر سکے جب تک اس کو آڈر نا کيا جائے۔
شکريہ ان کا ادا کريں جو ڈورياں ہلا رہے ہيں۔ ميں تو اللہ کا شکر گذار ہوں کہ وہی ہماری جانوں کا مالک ہے۔
جناب عارف شمیم صاحب
آپ سب لوگوں کی فوری طور پر کوششوں اور خدا کی خاص رحمت کا نتیجہ ہے کہ ایک ساتھی سلامت واپس آگیا ہے۔ میرے دفتر میں تمام لوگوں نے ایک پاکستانی صحافی کی رھائی پر بہت مبارک باد دی تو محسوس ہوا کہ جس آزادی سے یہاں بیٹھ کر لکھ رہے ہیں اس کی کتنی قیمت ادا کر رہے ہیں یہ ہمارے دوست۔
مگر افسوس اس بات کا کہ پاکستان کے زیادہ اخبارات ان واقعات کی رپورٹنگ شائع کرتے ہوئے کیوں جگہ کی کمی کا استعمال اور مانیٹرنگ ڈیسک کا سہارہ لیتے ہیں۔
جناب شميم صاحب
کيا کہنا اپ کی طاقت کا۔ اک صحافی اغوا ہوا اور کہرام مچ گيا اور ايک دن بعد رہا بھی ہو گيا مگر ملک کو اغوا ہوئے سات سال ہو گئے کسی نے ذکر کيا نہ احتجاج کيا اور نہ ہي اغواکنندہ کے بارے ميں کوئی بات چلي۔ ہاں البتہ لوگ جوک در جوک اس گروہ ميں شامل ہوتے گئے۔ آپ کو نہيں لگتا کہ اس مغوئی کے بارے ميں بھی کچھ کہنا چاہیے۔ خير اس کاميابی پر آپ مبارک باد کے مستحق ہيں۔
صاحبو شور کیوں مچا رکھا ہے۔ آج شاید دلاور اسلیے زندہ ہے کہ باقی عبرت حاصل کریں۔ ورنہ زور آور کا ہاتھ کس نے روکا۔ دیدہ دلیری کی انتہا دیکھیں جس نے اینٹ سے اینٹ بجا دی اسکو داد دیتے رہے اور ایک بے ثبوت الزام کے لیے اب ایک غیر متزلزل امداد کی یقین دہانی۔
اوے دنیا والو کیا اب بھی کسی کانے دجال کا انتظار ہے۔
محترمي و مکري عارف شميم صاحب
محترم دلاور بھا ئي کا سن کر بہت افسوس ہوا اور حقيقت يہ ہے کہ پاکستان ميں آزادی اظہار محض ايک دکھلاوہ ہے۔ پاکستان ميں 2006ء صحافيوں کيلئے بہت بھاری ثابت ہوا۔ تين صحافی جانوں کی قربانی دے گئے جبکہ درجنوں قيد و بند کی صعوبتيں برداشت کر رہے ہيں۔ اور کئی ايک خفيہ سيکورٹی اہلکاروں کے تشدد کا نشانہ بنے ہيں - عالمی برادری کو يقينا پا کستان کے ان حالات کا خصوصی نوٹس لينا ہو گا، چونکہ اگر يہی حالات رہے تو پھر پاکستان ميں حق کی آواز بلند کرنے والا نہيں رہے گا، سب کی آوازيں بند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کسی کومال کےذريعےاورکسی کودھونس کےذريعے۔ اللہ خير کرے۔
جی ہاں آپ نے درست فرمايا کہ بابت ان کی واپسی کيا تحرير کيا جاوے۔ آيا کہ چھوڑ دئيے گئے مفت ميں يا پيسے لے کر يا خود ہي رضا کارانہ طور سے لوٹ آئے ہيں۔ يہ مرحلہ ان کي صحافی، مراسلہ نگار يا نمائندہ کےطور پہچان کرانے سے بھی کٹھن ہے اور ميرے نزديک جرنلزم کی دنيا ميں يہ تماشہ اس وقت تک لگا رہے گا جب تک پروفشنل ازم کی بنياد پر تسليم شدہ اور سنيارٹی کا پاس کرتے ہوئے ضابطہ اخلاق کے پابندصحافی سامنے نہيں آتے۔ ويسے تو مسجد کے لاؤڈ سپيکر سے اور گلی ميں ڈول پيٹنے والے سب صحافی قرار پاتے ہيں۔