نہیں رِیساں شہر لاہور دیاں
لاہور میں چند روز قبل میں اپنے دو پرانے وکیل دوستوں کے ساتھ لبرٹی ماکیٹ کھانا کھانے گیا۔ ان میں سے ایک نے جاننا چاہا کہ مجھے لاہورمیں ’ویسٹرن لُک’(مغرب کی جھلک) نظر آتی ہے یا نہیں۔
اب پلازے بننے، بتیاں لگنے، نئی گاڑیوں کے نظر آنے اور لڑکے لڑکیوں کے فیشن کرنے کا نام تو مغرب نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ جس سڑک پر یہاں کاروں کا چلنا مشکل ہے اس سے کم چوڑی سڑک پر لندن میں ڈبل ڈیکر بسیں دوڑتی ہیں۔ لاہور میں تو اب پیدل چلنا مشکل ہے۔ اس طرح مشرق اور مغرب کے بارے میں بات چیت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
اس دن کے بعد سے اب تک یہاں کی ٹریفک کے تجربے کے بعد میرا تاثر یہ ہے کہ بد تمیزی کو اگر کوئی نیا نام دیا جائے تو وہ لاہور کی ٹریفک ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا سڑک پر گاڑی چلانے والے ہر شخص کو ہے اور سب بہت تنگ ہیں۔ یہ کسی مغرب پلٹ آدمی کا روایتی تبصرہ نہیں بلکہ گھر آنے والے دوستوں کی حالت دیکھ کر پیدا ہونے والا تاثر ہے۔ ایک دوست نے چیرنگ کراس سے روانہ ہوتے ہوئے فون کیا، پھر تقریباً دو گھنٹے میں وہ گھر پہنچا اور آتے ہی اس نے کہا کہ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ راستے میں وہ کہیں گاڑی روک کر ریلیکس کر لے۔ مجھے بتایا گیا کہ لبرٹی میں بعض اوقات اتنا رش ہوتا ہے کہ لوگ رکشہ سے اتر کر ایک دکان سے فارغ ہو کر واپس آ جاتے ہیں اور وہ وہیں کھڑا ملتا ہے۔
ایک روز میں اور وسعت اللہ خان مال روڈ پر رکشے میں سفر کر رہے تھے کہ ڈرائیور نے پہلے تو گورنر ہاؤس کے سامنے سرخ بتی پر اشارہ کاٹنے کی کوشش کی اور پھر ٹریفک کانسٹیبل کے روکنے پر اسے اچھی خاصی سنا دیں۔ رکشہ ڈرائیور کا موقف تھا کہ وہ چالیس سال گورنر ہاؤس میں ملازم رہا ہے اور اگر اس نے ایک اشارہ توڑ ہی دیا ہے تو کون سی قیامت آ گئی۔ اس نے شیشے میں ہم دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ کوئی موٹرسائیکل والا ہوتا تو وہ اس کانسٹیبل کو ایک ’لپڑ’ لگاتا، ’رکشہ دیکھ کر اس نے روکنے کی جرات کی’۔ رکشہ ڈرائیور کو بے عزتی کا خاصا شدید احساس تھا اور منزل پر پہنچنے تک بڑبڑاتا رہا کہ ایک اشارہ توڑنے سے کیا فرق پڑتا ہے اور یہ کہ اگر وہ موٹرسائیکل پر ہوتا تو ٹریفک کانسٹیبل کے ساتھ کیا سلوک کرتا۔