’ٹینشن نہیں لینے کا‘
کسی کو معاف کرنا کتنا مشکل کام ہوتا ہے۔
لیکن کسی کومعاف نہ کرنا کتنا غیر ضروری اور خود کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ اس بات پر میں اس وقت اس لیے غور کر رہی ہوں کہ میں نے دیکھا ہے کہ روز بروز میری خفگفی اور شکایتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
کہیں بھی کسی شخص کی بات اچھی نہ لگی تو بُرا مان لیتی ہوں۔ بُڑبُڑاتی ہوئی
اس شخص پر تنقید کرتی ہوں اور بعد میں مجھے اس کے بارے میں سوچ کر بھی آتا ہے۔ لیکن اب مجھے اندازہ ہو رہا ہے کہ اس میں نقصان صرف میرا ہی ہوتا ہے۔ بلڈ پریشر میرا بڑھتا ہے، وقت میرا ہی ضائع ہوتا ہے اور ٹینشن سے صحت میری ہی خراب ہوتی ہے۔
منفی سوچ رکھنا خاصا آسان ہوتا ہے لیکن مثبت طریقے سے ہر چیز سے نمٹنے کے لیے آپ کو اپنی سوچ میںلانی ہوتی ہے۔ میرے دل میں بہت سے لوگوں کی فہرست ہے جن سے میں ناراض ہوں یا جن کے رویے سے مجھے دکھ ہوا ہے لیکن شاید اب اس سب کو بھول جانا چاہیے۔ ان لوگوں میں میری وہ رشتہ دار ہیں جنہوں نے دو سال پہلے مجھ سے پیسے تو مانگ لیے لیکن آج تک انہیں واپس کرنے کا کوئی ذکر نہیں کیا ، وہ سابق دوست ہیں جنہوں نے مشکل وقت میں ہم سے منہ موڑ لیا، وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے یا جنہوں نے جھوٹ بولا ۔۔۔وغیرہ وغیرہ
لیکن اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان لوگوں کے بارے میں سوچنے سے میں اپنی زندگی خراب نہیں کروں گی۔ ہر شخص مختلف ہوتا، اگر آپ لوگوں کو پہچاننا شروع کر دیں تو آپ ایسی باتوں سے بچ سکتے ہیں۔ مثلا" پاگل اور لڑاکا قسم کے افراد سے آپ انتہائی تمیز سے اور بہت میٹھے لہجے میں بات کریں۔ بے وفا قسم کے لوگوں سے آپ بیشک ملیں لیکن ان سے کوئی توقعات نہ رکھیں، کوئی آپ سے تلخ لہجے میں بات کرے یا اچھی طرح سے نہ پیش آئے تو یہ بات دل میں نہ رکھیں بلکہ یہ سوچیں کہ شاید اس شخص کی کوئی اپنی مجبوریاں یا پریشانیاں ہوں۔
مختصر یہ کہ ماضی کے واقعات پر غم کرتے ہوئے زندگی نہ گزاریں بلکہ آگے کا سوچیں اور اچھا سوچیں۔ یہ ہے وہ سبق جو میں اپنے آپ کو سکھانے کو کوشش کر رہی ہوں۔ بقول فلمی کردار :’ٹینشن نہیں لینے کا‘۔
تبصرےتبصرہ کریں
عنبر جي، جی آياں نوں ،اتنے دن کہاں غائب رہيں اور اب آئی ہيں تو خفگيوں کا بنڈل ساتھ لائی ہيں کيوں بہنا ايسا کيوں؟ گو باتيں آپ کی سب کی سب ايسی دل کو لگی ہيں ميڈم نُور جہاں کے گانے کی طرح ٹھاہ کرکے کہ دل نے احتراماْ تھوڑی دير کے لۓ خاموشی اختيار کر لی ہے کہ ايسا ہی ہوتا ہے اور ہو رہا ہے آج کل بلکہ ميرا تو بے اختيار دل کسی سے بھی ٹھيک ٹھاک پنگا کرنے کو ہو جاتا ہے اور بہت چھوٹی سی بھی بات پر دل واويلا کرنا شروع ہو جاتا ہے ليکن بہت تھوڑی سی دير کے لۓ ،اور جب کُچھ دير کے بعد يا اگلے دن سوچتی ہوں تو خود پر شديد غُصّہ آتا ہے کہ يہ تو کوئی ايسی توپ قسم کی بات نہيں تھی جس پر اتنا بہت کُچھ کيا جاتا اور پھر ايسے ميں آرام سے ميں سامنے والے سے معافی مانگ ليتی ہوں چھوٹے بڑے کی تخصيص کۓ بغير اور دل پُر سکون ہو جاتا ہے۔ يہی نُسخہ ہو سکے تو آپ بھی آزما ديکھيں دُنيا بھری ہُوئی ہے ہر طرح کے لوگوں سے اور ہمارے جيسے توقعات کے پُجاريوں سے بھی سو اگر جينا ہے اور خود کو بلڈ پريشر کے ہائی ناہونے دينے سے اور ٹينشن سے بچانا بھی ہے تو درگُزر کريں اور حتی الامکان خود کو پتھر کا کرليں ورنہ بہنا جی جينا کرنا مُشکل ترين کام ہو جاۓ گا کہ لوگ بے وفا بھی ہوں گے ، توقعات بھی پوری نہيں کريں گے اور فضول ترين باتيں کر کے دل بھی توڑيں گے نا صرف توڑيں گے بلکہ توڑ کر بُھول بھال بھی جائيں گے ايسے ميں خوامخواہ اپنے کو دُکھی کرنے کا کيا فائدہ ، ميرا بھی ايک آرٹيکل بی بی سی ميں چھپا تھا ،’ڈپريشن آج کا مسئلہ`اگر بی بی سی والے اس ميں اُس کا لنک ديں تو ميری آرا زيادہ واضح ہو جائے گي، بہر حال بقول آپ کے اور مُنا بھائی ٹينشن نہيں لينے کا کے اصول پر عمل کريں اور خوش رہيں،جيتی رہيں کہ دُنيا ہنسنے والوں کی ساتھی ہے ہم جيسے بسورنے والوں کے بسورنے پر خود ہنس ديتی ہے کيا سمجھيں ؟
شايد کے تيرے دل ميں اُتر جاۓ ميری بات
خير انديش
شاہدہ اکرم
ہمیشہ کی طرح بہت اچھے۔۔۔
کچھ سمجھ نہیں آئی آپ کیا کہنا چاہتی ہیں۔
عنبر خيری صاحبہ مذاق مذاق ميں آپ نے لاکھ پتے کی بات کہی ہے-آگے کا سوچنے سے کہيں زيادہ اچھا سوچنا ضروری ہوتا ہے -اميد کہ آپ کا يہ عزم مصمم بھی ہوگا اور صحت مند بھی -
خيرانديش ---سجادالحسنين-حيدرآباد دکن
ٹنشن نہيں لينے کا پڑھا۔ بہت اچھا فيصلہ کيا آپ نے اور آپ کے تجربات نے آپ کو عمدہ سوچنے کا موقعہ فراہم کيا۔ ميرے ساتھ بھی ماضی ميں کچھ ايسا ہی ہوا۔ کافی دير بعد سمجھ ميں آيا۔ اب توماضي سوچتے ہوئے بھی سخت کوفت ہوتی ہے۔ بہرحال آپ اپنےگرد و نواح ميں نظر ڈاليں تو آپ کافی لوگوں کو اپنا ہم خيال پائیں گی۔ شاہدہ اکرم صاحبۂ نے تبصرہ کيا جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ايسے تجربات سب کے ساتھ ہی گزرتے ہیں۔ عقلمند وہی ہے جو جلد سمجھ جائے۔
محترم بہن اسلام عليکم
انگريزی ميں غصہ کرنے والے کو کہا جاتا ہے کہ کہ فلاں شخص يا ميں خود پاگل ہو گيا ہوں(He/She is mad)
آپ نے بہت اچھے طريقہ سے ہميں سمجھايا ہے۔-
آپ کو اور باقی سب کو بھی ٹينشن نہیں لينا۔-
تبصرہ .......؟ نہيں نہيں ٹينشن نہيں لينے کا - بولا نا
عنبر خيری جی آداب!
جب ہم دوسروں پر تنقيد کرنا چھوڑ ديں گے اور دوسروں سے توقعات وابسطہ نہيں کريں گے اور دوسروں کی بجاۓ خود اچھا بنے کی کوشش کريں گے اور اپنا رويہ پراميد رکھيں گے يقين مانۓ بہت سکون کی زندگی جينے کو ملے گي- اور ہاں گلے شکووں سے اجتناب کرنے سے بھی بہت سکون ملتا ہے- پھر بھی دل کی بھڑاس نکالنی ہو تو ايک کاغذ لےکر اس پر اس آدمی کو ايک خط لکھيں اور جو من ميں اچھا برا آۓ لکھ ماريں جب خط ختم کريں تو يہ ديکھ ليں کہ کچھ رہ تو نہيں گيا لکھنے سے۔تب تک آپ کا غصہ جاتا رہے گا اور پھر بے شک اس خط کو پھاڑ کے جلا ہی ديں کيونکہ تب اس ضرورت ہی نہ رہے گی اس طرح سانپ بھی مر جاۓ گا اور لاٹھی بھی آئندہ کے ليۓ بچ رہے گي- آزمائش شرط ہے-
اللہ آپ کو جزاۓ خير دے. جو آپ نے اتنا اچھا بلاگ لکھا۔ ويسے ڈاکٹرحضرات آپ سے بہت ناراض ہونگے کہ آپ نے لوگوں کے بلڈ پريشر کو فری ميں کنٹرول کرنا جو سکھا ديا۔پبلک خوش اور ڈاکٹر ناراض۔
محترمہ عنبر خيری صاحبہ اسلام عليکم! آپ نے ايک مرتبہ پھر خوبصورت بلاگ لکھ کر آواز حق بلند کی۔ جہاں تک بات ٹينشن کی ہے تو آج کے دور ميں ہر شخص اس ميں مبتلا ہے۔ بعض لوگ مالی طور پر بہت مضبوط ہوتے مگر وہ بھی کسی نہ کسی ٹينشن ميں مبتلا ہوتے ہيں اور کچھ لوگ ايسے بھی ہوتے ہيں جو کہ دوسروں کو ٹينشن ديکر خوش ہوتے ہيں اور بعض اوقات چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھ پرٹے ہيں اور پھر بات لمبی ہو جاتی ہے - اور يوں زخمی اور قتل تک پہنچ جاتے ہيں۔ اور جب اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے تو اس وقت تک بہت دير ہو چکی ہوتی ہے - اگر ہم تھوڑا سا تحمل کر ليں تو ان تمام مسائل پر قابو پايا جا سکتا ہے - اللہ تعالی ہمارے حال پر رحم کرے -
يہ بات سچ ہے کہ انسان کو ہر طرح کے کھٹن اور مشکل حالات پيش آتے ہيں ليکن ہميں ان تمام حالات کو احسن طريقے سے ہينڈل لر لينا چاہيے، نہ کہ سر پٹخ کر ماريں، دنيا وسیع ہے اس ميں بے وفاوں اور نہ ہی وفاداروں کی کمی ہے بس بات يہ کہ ہميں وفا داروں اور دغابازوں ميں تميز کرلينا ہوگا تو معاملات سنبھل سکتے ہيں۔ دل بڑا ہونا چاہيے ليکن ہميں دل کی سرحدوں کی حفاظت بھی اچھی طرح سے کرلينی چاہيے کہ ان ميں چور داخل نہ ہوسکيں کيونکہ وہ اندر کی امن کو بگاڑ کر رکھ ديتے ہيں اگر خوش اسلوبی سے معاملات طے نہيں کيے گئے تو اس ميں دکھ ، پريشانی کے علاوہ معاملات طوالت اختيار کر ليتے ہيں۔
کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ کتاب حقیقت کا عکس ہوتی ہے لیکن حقیقت کے برعکس ہوتی ہے
عنبر جی! آپ کی باتیں تو بہت اچھی ہیں لیکن اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ یہ قابل عمل نہیں ہیں
یہ تو مان لیا کہ بے وفا سے وفا کی امید نہ رکھییں اور بے مروت انسانوں سے مروت کی آس نہ لگاءیں لیکن کیا کریں ان لوگوں کا جن پہ انسان بھروسہ کرتا ہے اور ان کی وفا کا دم بھرتا ہے اگر وہی زندگی کے کسی اہم موڑ پر ساتھ چھوڑ دیں۔ اور پھر انسان کو ٹینشن نہ ہو؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ویسے یہ احساسات ،یہ دکھ ، یہ غم اور سب فکریں اللہ کی نعمتیں ہیں۔ اگر یہ نہ ہوں تو پھر کوئی کسی سے واسطہ ہی نہ رکھے ، کسی کا دکھ ہی نہ سمجھ سکے،
کسی کے غم کا احساس ہی نہ کر سکے۔
احساس والے ہی احساس کرتے ہیں۔
غم آشنا ہی کسی کا غم سمجھ سکتے ہیں۔
ٹینشن آشنا ہی کسی کی ٹینشن کی ٹینشن لے سکتے ہیں۔
میں تو یہ کہوں گا کہ ٹینشن لینے کا نہیں ٹینشن کا احساس کرنے کا‘
بات يہ کہ ٹينشن نہ لينا آج کے انسان کے بس ميں کہاں ہے- کئ لوگوں کا تو کام ہی ٹينشن دينا ہے - تو ايسے ميں کوئی کہاں بچ سکتا ہے ٹينشن سے -آج کل تو امريکہ ہی تيل اور ديگر کئ مذموم مقاصد کے لئے جنگيں چھيڑ کر ٹينشن کا سبب بنا ہوا ہے- اگر آپ ہمارے ملک ميں ہوں تو ہر محکمہ ہی لوگوں کو ٹنشن دے رہا ہے-