بدتمیزی یا لاپرواہی؟
مجھے لگتا ہے کہ آج کل تمیز سکھانے کی روایت کچھ ختم ہی ہو گئی ہے۔
پہلے گھر میں بھی بچوں اور نوجوانوں کو کچھ طور طریقے سکھائے جاتے تھے اور سکول میں بھی، لیکن آج کل نہ والدین اور نہ ہی سکول ایسی کوئی تکلیف کرتے ہیں۔
مثلاً یہ کہ آج کل بڑوں اور جوانوں میں کوئی تفریق نہیں کی جاتی۔ کوئی بڑا کمرے میں داخل ہوتا ہے تو بچے عموماً اسی طرح صوفے یا کرسی پر پڑے رہتے ہیں۔ نشست سے کھڑے ہو کر احترام دکھانا تو دور کی بات سلام بھی شائد نہیں کر پاتے۔
برطانیہ میں تو بہت ہی کم ایسے سکول رہ گئے ہیں جن میں بچوں کو یہ سکھایا جائے کہ جب کوئی استاد یا مہمان کلاس میں داخل ہو تو آپ کو نشست سے اٹھ کر ان سے سلام دعا کرنی ہے۔ پاکستان کے سکولوں میں اب تک یہ روایت قائم ہے لیکن ایسا کرنا کلاس روم تک محدود رہتا ہے کیونک نوجوانوں کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ ہے کہ آپ اٹھ کر کسی کے آنے کا نوٹس لیں اور اس سے مخاطب ہوں۔
اسی طرح بچوں کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ اگر سیڑھیوں پر آپ کے سامنے سے کوئی اتر یا چڑھ رہا ہو تو تمیز کی بات یہ ہوتی ہے کہ آپ رُک کر انہیں راستہ دیں یہ نہیں کہ آپ چلتے چلے جائیں۔
یہ کوئی فرسودہ روایات نہیں ہیں، محض کچھ ایسے چھوٹے چھوٹے اشارے ہیں جن کے ذریعے آپ کا اظہار کرتے ہیں۔
بزرگوں کا احترام، مہمانوں کا خیال، دوست احباب سے تمیز سے پیش آنا۔۔۔ یہ سب ایسی باتیں ہیں جنہیں سیکھنا اور ان پر عمل کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ ایک عادت بن جائیں۔
جو ہمیں بچپن میں سکھا دیا جاتا ہے وہ ہمارے کام آجاتا ہے لیکن ساتھ ساتھ ہر عمر میں اپنے طور طریقوں کی اصلاح کرتے رہنا بھی ہمارا فرض ہے۔
آج کل کے نوجوان اگر ہمیں تمیز تہذیب سے محروم معلوم ہوتے ہیں تو قصور نوجوان نسل کا نہیں، قصور ہمارا ہے کہ ہم ان تمیز کے طور طریقوں کی اہمیت بھول کر اپنے بچوں کو ان کی تربیت نہیں دیتے۔
آپ کا کیا خیال ہے؟
تبصرےتبصرہ کریں
محترم اور پياری بہن عنبر صاحبہ
ايک اور اہم معاشرتی مسلہ کو اٹھانے پر شکريہ-
اصل ميں يہ نوجوانوں کی خرابی ان کی بچپن کی تربيت کے سبب ہوتی ہے- پاکستان کی بات چھوڑيں وہاں کے حکمران سياست دان سب ہی کے رنگ نرالے ہيں-
اٹھا کر پھينک دو باہر گلی ميں
نئی تہزيب کے انڈے ہيں گندے-
آپ اپنا خيال رکھيے گا آپ کا
دعا گو عاجز بھائی
مياں آصف محمود
واشنگٹن
پہلی مر تبھ مثبت کالم پڑھنے کو ملا ہے تو اچھا لگا
عنبر صاحبہ اسلام عليکم ! آپ نے بڑ ي اچھي بات کی ہے کسی کو تہذ يب سيکھنی ہو تو پاکستان جا ۓ سو فيصد صيح لکھا ہے ؛ آ ج بھيا س پر ھم کو فخر ہے ۔ پا کستان پر فخر ہے۔
اس طرف توجہ دلوانے کا شکريہ! يہ آجکل کا سلگتا ہوا اور اہم مسلہ ہے جسے عموما ہر سطح پر نظر اندار کيا جارہا ہے اس کے نتيجہ ميں جو حالات سر اٹھا رہے ہيں وہ سب کے سامنے ہيں۔وہ دن گۓ جب تعليمی درسگاہوں اور گھرانوں ميں عمدہ اخلاقی قدروں پر مبنی اور کردار سازی کی حامل تعليم و تربيت پر زور ديا جاتا تھا۔آپ نے تو اذان دے دی ہماری طرف سے يہ اضافہ قبول کريں شايدکہ تيرے دل ميں اتر جاۓ يہ بات!
محترمہ عنبر خيری صاحبہ
بچہ نيک ہو يا بد، کريڈٹ والدين کو جاتا ہے جنہوں نےتربيت کی ہے ليکن باشعور ہونے پر اصلاح کا خود ذمہ دار ہے - بہتري کا يہ عمل بقيہ تمام عمر قائم رکھا جا سکتا ہے کہ خوش اخلاقي کبھی ' آؤٹ آف ڈيٹ ' نہيں ہوتی - دُور مت جايۓ - اِنہي صفحات پر برطانيہ سےايک مستقل قاري کي انتہائي شيريں اور متواضع تحريرآپ کي نگاہ سے بھي گزرتي ہوگي - بيان کے حُسن اور نفاست کے علاوہ ، اُن کا عجز و انکسار دلوں کو چھُو ليتا ہے - غيرحاضر ہوجائيں تو لوگ کمي محسوس کرتے ہيں -
ايسی مثاليں دل پہ اثر کرتي ہيں اور احساسِ شفقت و مہرباني ہوتا ہے -
دعا و سلام کے ساتھ
رضا
شکريہ اپ کے دئيے گۓ لنکس خصوصا بوسنيا نےمجھے ميرے ماضی سے جوڑا 1979 ميں يوگوسلاويہ ميں زير تعليم تھاتب چار سو کيا تميزمجبت بھائی چارے امن کا لا جواب دور ہوا کرتا تھا تب کوئی سوچ بھی نہيں سکتا تھا کہ دس سال بعد يہاں بدتميزی کا کبھی ختم نہ ہونے والا طوفان امڈ اےگا مسلمانوں کی ابادی کو قتل عام سے مٹاتے اسکی تعداد خلاف کے عہد تک لا گھٹا دی جاے گی اور ساری باتميز دنيا تماشا ديکھتی رہے گی يہاں تک کہ بوسنيا کي بدنصيبی يورپ ميں يہوديوں کے خلاف مظالم کو بھی بھولا دےگی اہ انسان بھلا کب با تميز رہا ہے؟ کبھی اس بارے لکھيۓ گا ریپ کی شکار خواتين کا پے درپے جانوروں کے ہاتھ حالت ريپ ميں اموات۔افسوس۔ميں نے ساہٹ پر جا کرانکی زبان ميں تحرير ای ميل ميں اپکا حوالہ بھي ديا اس پر شکريہ
آپ نے ایک اہم موضوع پر بات کی ہے ۔ تاہم مجھے جناب آصف محمود سے اختلاف ہے۔ جیسے آپ نے تسلیم کیا ہے کہ یہ نوجوان نسل کی نہیں بلکہ ان کے والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ انہیں تمیز سکھائی جائے لیکن یہاں پاکستان کے سیاستدانوں کو کوسنا کیا قرین انصاف ہے ؟ یہ وہی بات ہوئی نا کہ اپنا غصہ کسی اور پر اُتارنا۔ سیاستدانوں کو ان کے اعمال کےلیے بے شک مورد الزام ٹہھرایا جائے لیکن کم از کم اپنے خانگی مسائل کےلیے انہیں تو الزام مت دیں !
ٹھیک لکھا آپ نے۔ قصور بچوں کا کم اور والدین اور اساتذہ کا زیادہ ہے۔ پاکستان میں سرکاری سکولوں میں کسی حد تک تربیت کی رسم باقی ہے بالخصوص چھوٹے شہروں میں۔ باقی کے حالات یہاں بھی کافی خراب ہو چکے ہیں ۔
ہائيں عنبر کيا کُچھ نہيں ياد دلا ديا آپ کے اس بلاگ نے وہ پُرانے دن ،وہ بزرگوں سے شرم و حيا اور ادب وآداب، جن کا آج کل بالکُل فُقدان ہو گيا ہے نئ نسل ميں، اور اب اگر ان بچوں کو وہ باتيں بتائ جائيں کہ امّی ابو کے سامنے آنکھ اُٹھانے کی بھی مجال نہيں تھی تو بہت حيران ہو کر ايسے ہماری شکليں ديکھتے ہيں جيسے کو ئ لطيفہ سُنا ديا ہو گو يہ پکی بات ہے کہ امّی ابو نے کوئ بہت زيادہ سختی نہيں کی ہوئ تھی ليکن نا جانے کيا بات تھی خود بخود ہی ايک لحاظ سا تھا ايک پردہ سا تھا جو واقعی ہماری اپنی ہی وجہ سے ہی تھا ہميں خود رشتوں کا احترام تھا ليکن امّی اور ابو ہم سے جس دُلار سے پيش آتے تھے اُس کے باوجود ہم اپنی حد نہيں بُھولتے تھے آج ہم بھی اور بچے بھی ماں باپ کو دوستوں کی طرح ٹريٹ کرتے ہيں اور ہر بات دوستوں کی طرح کہہ جاتے ہيں،ايک طرح سے ديکھا جاۓ تو يہ ايک عجيب بات ضرور ہے ليکن بعض اوقات ہم بھی اپنے بچوں سے وہ باتيں تک کر جاتے ہيں جو شايد ہماری کبھی ہمّت نا ہوتی اپنے والدين سے کرنے کی شرم و حيا کی وجہ سے ليکن آج کی نسل کے ساتھ بيٹھ کر اُن باتوں کو شيئر کرنا بھی شايد وقت کی ضرورت ہے ميں اپنی بيٹی کے ساتھ ہر بات شيئر کرتی ہوں بالکُل اُسی طرح جيسے اپنی امّی کے ساتھ کرتی تھی ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کيونکہ مُجھے کہيں کُچھ ايسا لگتا ہے کہ ماؤں کو بيٹيوں کے ساتھ اتنا دوستانہ روّ يہ ضرور رکھنا چاہيۓ کہ ہر بات بنا کہے سمجھ جائيں جبکہ ہمارے وقت ميں ہم ايسی عجيب و غريب سٹوپڈ سي حرکتيں صرف اس وجہ سے کر جايا کرتے تھے کيونکہ عقل ماشاء اللہ کُچھ بہت ہی وافر مقدار ميں تھي(يہ ہمارا خيال تھا کسی اور کا ہرگز نہيں)جو کہ بالکُل ہی خالی کھوپڑی والی ہوتی تھيں ،رہی بات يہ کہ ادب وآداب کا سلسلہ موقوف ہو گيا ہے تو واقعی آج کے بچے ايسے ہی ہيں جيسا کہ عنبر آپ نے لکھا اور آپ کی يہ بات بھی سو فيصد سچ ہے کہ اس ميں سارا قصور ہمارا يعنی بڑوں کا ہی ہے ليکن پھر بھی ہمارے بچے يقين مانيۓ آج بھی مُجھے لگتا ہے بہتر ہيں کہ اُن کی ہر بات ميں معصوميّت ضرور ہوتی ہے اور پھر يہ سب کُچھ صرف اور صرف گھر سے شروع ہو کر گھر تک ہی کی بات ہے کہ ماں کی گود ہی اصل تربيّت گاہ ہوتی ہے سو بچے جو کُچھ بھی ہوتے ہيں وہ گھر کی تربيّت کا نتيجہ ہوتا ہے اور جو کُچھ بھی وہ گھر ميں ديکھتے ہيں تھوڑا بہت نا سہی کُچھ نا کُچھ اُس کا اثر ضرور قبول کرتے ہيں اور جو آج کل ہو رہا ہے وہ تھوڑے بہت فرق سے ہميں بھی قبول کرنا ہوگا کيونکہ اب وہ دور نہيں ہے اور شايد اسی کو جينريشن گيپ کا نام ديا جاتا ہے آپ اس کو بدتميزی کہہ ليں يا لا پرواہی ہم اس کو بچپنا بھی کہہ سکتے ہيں اور آپ يقين کريں کُچھ باتيں انسان وقت سے ہی سيکھتا ہے دعا يہ ہونی چاہيۓ کہ سيکھنے کے اس عمل ميں بہت دير نا ہو جاۓ ،آ مين
دعاؤں ميں ياد رکھيۓ گا
دعا گو
شاہدہ اکرم
محترمہ عنبر خيری صاحبہ اسلام عليکم! کے بعد آپ کا توجہ دلاؤ بلاگ پڑھا اور دل کو بہت ہی اچھا لگا ، سائنس ٹيکنالوجی کی اس ترقی نے انسانوں کو بھی مشين بنا ديا ہے - اور حالات يہ ہو چکے ہيں کہ کسی کو کسی کيلئے فری وقت ہی نہيں ہے ہر طرف مادہ پرستی کا دوردورہ ہے -لوگ پيسے کے پيچھے بھاگ رہے ہيں اور پيسہ ان کے آگے ہے -نہ کسی کو اتنا خيال ہے کہ اتنے پيسے کا کيا کريں گے آخر ميں تو چند گز زمين ہی چاہيئے ناں -پہلے وقتوں ميں لوگ گاؤں ميں رات کو بيٹھک لگايا کرتے تھے مگر اب ٹی وی ، وی سی آر اور سی ڈی پلير نے انکی جگہ لے لی ہے - اب تو لوگ سلام بھی مطلب کا ديتے ہيں - اخلاقيات تو تقريبا ختم ہو چکی ہيں -
محترمہ عنبر خيری صاحبہ ، آداب
کافی دنوں کے بعد آپ کی بزم ميں حاضری دے رہا ہوں۔
آپ نے انتہائ متوازن انداز سے معاشرے ميں اس بڑھتی ہوئ خرابی کا ذکر کيا ۔۔ ضرورت اندر سے اچھا بننے اور اندر سے تميز دار بننے کی ہے ۔ ناکہ محض ٰ ٰ نظريۂ ضرورت ٰ ٰ کے تحت اچھا بنا جاۓ ۔ يعنی ڈر و خوف سے يا خوشامد ميں ۔۔ کيونکہ کمالِ عبادت بھی يہی ہے کہ وہ دوزخ کے خوف سے يا جنت کی لالچ ميں نہ کی جاۓ بلکہ اس فکر کہ ساتھ کی جاۓ کے بس خدا ہی لائقِ عبادت ہے ۔
نيک اخلاق کو ميں ايک اچھی عادت نہيں ايک عبادت سمجھتا ہوں کيونکہ عادت تو بس عادت ہے اس ميں ثواب کا پہلو نہيں نکلتا جبکہ اگر آپ اچھا کام عبادت سمجھ کر کريں گے تو اس ميں ثواب بھی ہے اور جزا بھی ہے ۔ حضرت علی کا نيک کردار کے حوالے سے قول ہے کہ ۔۔
ٰ ٰ زندہ رہو ايسے کہ لوگ تم سے ملنے کے ’ مُشتاق رہيں اور اگر مرجاؤ تو تم پر روئيں
مجھے اچھا لگتا ہے جب آپ کے قريبی لوگ ہر وقت آپ کو اپنی دعاؤں ميں ياد رکھتے ہيں بلکہ يہ کہوں کہ دعا دينے کے بہانے ڈھونڈتے ہيں تو بے جا نہ ہوگا ۔
بس خداۓ بزرگ و برتر سے يہی دعا ہے کہ ۔
تيری بخششوں ميں ہے سروری عطا ہو مجھے بھی قلندری
جو اٹھے تو دستِ دعا لگے مجھے ايسا دستِ سوال دے
اسی طرح معاشرے کی خرابيوں کی نشاندہی فرماتی رہيں يقيناً يہ ايک صالح عمل ہے ۔ خدا آپ کی مدد فرماۓ ۔
بندۂ حقير
سيد رضا
” زندہ رہو ايسے کہ لوگ تم سے ملنے کے مشتاق رہيں اور مر جاؤ تو تم پر روئيں ” -
ملاحظہ فرمايا آپ نے ، عنبر خيری صاحبہ ؟ ميں نے غلط تو نہيں کہا تھا -
رضاصاحب بخير واپسی ہو گئ اُميد ہے کام کا بوجھ بھی ہلکا ہو گيا ہوگا،اُميد ہے عريضۃ بيٹی اور بھابھی بھی بخير ہوں گی آپ کے معلوماتی اور دعائيہ تبصروں سے دلی سکون ملتا ہے اُميدہے بازو کی تکليف بھی رفع ہو چُکی ہوگی ، بی بی سی کے توسط سے ثنا بچے آپ کی بھی خيريت دريافت کرنا چاہتی تھی کہيں پيا ديس تو نہيں سدھار گئيں بنا پيشگی اطلاع کے ،دعا گو ہوں سب بہن بھائ خيرو عافيت سے رہيں ہميشہ ،پليز اس کو ذاتی پيغام ہی نا سمجھا جاۓ اور جگہ دے کر شکريے کا موقع ديا جاۓ
خير انديش
شاہدہ اکرم
محترمہ شاہدہ اکرم صاحبہ ، ايسی سچی يادآوری کے لۓ مشکور ہوں اور جيسا کہ ميں نے اپنے تبصرے ميں لکھا تھا يہ بس آپ جيسے محبت کرنے والوں کی دعائيں ہيں کہ بخيريت ہوں ۔ خدا کے شکرسے بازو ٹھيک ہوگيا ہے ۔ عريضہ بٹيا ماشااللہ سے اچھی ہيں اور خوش ہيں کيونکہ دو ماہ قبل ان کی چھوٹی بہن آمنہ نے ہمارے گھر کو مزيد رونق بخشی ہے ۔ميری اہليہ بھی اچھی ہيں اور سلام کہتی ہيں ۔
بس ايسے ہی اپنی دعاؤں ميں ياد رکھيں ، کيونکہ ميں مسلسل طالبِ دعا ہوں۔ اپنا خيال رکھيۓ گا ۔
عنبر صاحبہ ، ميں اس مختصر سے پيغام کي اشاعت کے لۓ شکر گزار ہوں گا ۔
نياز مند
سيد رضا
جواب آں غزل کے طور پر عنبر جی کہيں آپ ناراض ہی نا ہو جائيں کہ ہم اپنی ذاتی پيغام رسانيوں کے لۓ اس فورم کو استعمال کر رہے ہيں تو بہنا جی ايسی کوئ بات نہيں ہے اصل ميں اس فورم سے جُڑے ہونے کی وجہ سے ہم سب لوگ آپس ميں اتنے قريب آگۓ ہيں کہ ايک بہن يا بھائ کی خوشی ،غمي، موجودگی يا غير موجودگی کو باقی سب محسوس کرتے ہيں ايسے ميں رضا بھائ آپ کی زندگی کی ايک اتنی خوبصورت خوشی کے موقعے پر مبارکباد ديناميں اپنا حق سمجھتی ہوں ،آمنہ بيٹی کی آمد پر آپ دونوں کو اور عريضہ بچے کو بہنا کی بہت بہت مبارکباد قبول ہو ،اللہ کی رحمت کی آمد کی نويد کی مبارک ہو ،جس کے لۓ اللہ کے رسول نے يہ بشارت دی ہے کہ دو بيٹيوں کو پال پو س کر اچھی پرورش کرنے والا قيامت کے دن ميرے اتنے قريب ہو گا جيسے يہ دو اُنگلياں اور شہادت کی اُنگلی اور اُس کے ساتھ کی انگلی کا اشارہ کيا گيا،آپ توعلم والے ہيں مُجھ سے بہتر جانتے ہيں ايک بار پھر مبارکباد اور عنبر جی کا شکريہ جس نے آپ کا اور ميرا پيغام شائع کر ديا اور شايد يہ بھی جگہ پا جاۓ،شکريہ
دعاگو
شاہدہ اکرم
کافی اچھی پوسٹ ہے۔ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں ہی سے اندازہ ہوتا ہے کی آپ جس شخص سے بات کر رہے ہیں، اس کا خاندانی پس منظر کس طرح کا ہے۔ ایک اور بات جو آج کل کافی محسوس کی ہے وہ یہ کہ آج کے بچے حد سے زیادہ منہ پھٹ ہو گئے ہیں، ٹھیک ہے کہ حق گوئی اور صاف گقئی اچھی صفات ہیں، مگر ہمارے بچے صاف گوئی اور منہ پھٹ ہونے کے درمیانی فرق کو بھول ہیں، یا انہیں اس بات کی تربیت ہی نہیں دی گئی۔ اگر کوئی بزرگ ٹوک بھی دے تو دھڑلے سے جواب آتا ہے، ہم نے جو محسوس کیا کہہ دیا، منافقت ہم سے نہیں ہو سکتی، کوئی انہیں منافقت اور بدتمیزی میں امتیاز برتتنا تو سکھلائے۔۔۔۔
اللہ حافظ
صبا سید