اچھا ہی ہوا
میری ماں مجھے بتاتی ہے کہ جب میں دو ڈھائی برس کا تھا اور کسی ایسی چیز یا کھلونے کے لئے مچل جاتا جسے میری ماں فوری طور پر مہیا نہیں کرسکتی تھی تو میں گھر کے فرش پر یا بازار میں سڑک پر لوٹنیاں لگانی شروع کردیتا اور ماں کو بلیک میل کرنے کے لئے پوری طاقت لگا کے چیخیں مارتا تھا۔
ایسے موقع پر ماں مجھے یوں نظرانداز کرتی جیسے میں ہوں ہی نہیں۔چنانچہ میں روتے روتے یا تو سوجاتا یا پھر میری توجہ کہیں اور بٹ جاتی۔
یہ بات مجھے یوں یاد آئی کہ ایم ایم اے نے سیاسی فرش پر لوٹنیاں لگانے اور چیخ و پکار کے بعد پھر سے اسمبلی میں جانا شروع کردیا ہے اور سب کچھ ویسے ہی ہوگیا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
یہ حال دیکھ کر میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اچھا ہی ہوا جو اب سے ہزار برس پہلے پارلیمانی نظامِ سیاست نہ ہوا۔ وگرنہ لوگ حضرت خواجہ معین الدین چشتی، حضرت داتا گنج بخش، نظام الدین اولیا، بہاؤ الدین زکریا، شاہ لطیف، سچل، سلطان باہو، مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور سید احمد شہید جیسی ہستیوں پر الیکشن لڑنے کے لئے بے پناہ دباؤ ڈالتے اور اگر یہ اولیا اور مشائخ علاؤ الدین خلجی، شیرشاہ سوری، بلبن، اکبر یا اورنگ زیب کی پارلیمنٹ کے رکن بن جاتے تو اپنے دور کے قاضی حسین احمد اور مولانا فضل الرحمان کہلاتے۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترم وسعت اللہ خان صاحب ، آداب
جناب آپ نے بڑی ہی خوبصورتی سے اپني کمسنی کي اور سياستدانوں کي بزرگي کي لوٹنيوں کا ذکر فرمايا۔ کيا ابھی بھی آپ والدہ کو بليک ميل کرنے کے لیے لوٹنياں لگاتے ہيں؟ شايد نہيں کيونکہ اب آپ بڑے ہوگئے ہيں اور سياستداں تو آپ ہيں نہيں۔ آخر ہمارے بزرگ سياستدان کب بڑے ہوں گے !؟
اپنا اور اپنی والدہ کا خيال رکھۓ گا۔
نيازمند
سيد رضا
وسعت اللہ خان صاحب، خدا آپکے سر پر والدہ کا سايہ قائم رکھے اور آپ کو انکی خدمت کا موقعہ ديئے رکھے۔ آپ تو سو جاتے اور اپنا مطالبہ بھول جاتے تھے۔ آپ کی والدہ محترمہ نے تو آپ کے ٹسوں کی پرواہ کی يا نہ کی، يہ حضرات تو لالی پاپ ليکر بھی بمشکل اگلے مطالبے تک باز رہتے ہيں ورنہ کوئی نيا تنازعہ کھڑا کر ديتے ہيں اور اگلے لالی پاپ تک روں روں۔
کیا خوب تجزیہ کیا ہے آپ نے وسعت اللہ خان، پڑھ کر مارے ہنسی کے برا حال ہو رہا ھے
وسعت بھائی، آپ کے ان بلاگز کی وجہ سے اسلام خطرے میں ہے۔ بس مولویوں کا اسلام آباد رہے، باقی سب خیر ہے۔
مار ليں جگتيں، آپ کي ڈيوٹی جو ٹہري۔ اب مولوی حضرات اتنے بھی بھولے نہيں کہ ھر بار وھی کريں جو بی بی سی چاھتی ھو۔
بہت ہے خوبصورت تبصرہ ہے۔ آخر ملاؤں کا فراڈ کب تک ہم کو ٹارچر کرتا رہے گا۔
بلاگ اچھا ہے مگر یہ سیدھے سادھے پاکستانی کب سمجھیں گے۔
وسعت بھائی اس بلاگ سے جہاں آپ کے بچپن کی رُوداد کا پتہ چلا وہيں يہ بھی ثابت ہوگيا کہ کچھ باتيں يا محاورے جو بڑوں سے سُنے تھے وہ کيسے اور کتنے سچے ہيں۔ بچہ اگر کوئی ضد پکڑ لے تو مُشکل ہي بُھول پاتا ہے۔ آپ ذرا کچھ شريف قسم کے بچے تھے کہ دو چار لوٹياں لگا کر اور امي کي عدم توجہ کے باعث اپني ضد موقوف کر ديتے تھے ليکن يہ ہمارے سياست دان بے چارے بھي اپني ضد پر لوٹ پوٹ ہوکر خود ہي چُپ چاپ اپني آنے والي جگہ پر آ گئے، يعني بے چاروں کو پتہ چل گيا کہ ان تلوں ميں تيل نہيں سو جو ہے اُسي کو غنيمت سمجھو کہ اسي ميں عقل مندي ہے۔ مزہ آيا يہ پڑھ کر۔ ہر بچے کا بچپن تقريباْ ايک سا ہی ہوتا ہے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ليکن اس کا کيا کريں کہ کُچھ لوگوں کا بچپن آ کر جانے کا نام ہی نہيں ليتا،اور شکر بلکہ صد شکر کہ ہزار سال پہلے ايسی حرکتيں نہيں ہوتی تھيں جو آج کے دور ميں عوام اور خواص دونوں کو الگ الگ قسم کی تکليفوں سے دوچار کرتی ہيں، اپنا خيال رکھيئے گا
دعا گو
شاہدہ اکرم
مجھے تو يوں لگتا ہے کہ اپوزيشن بھی حکومت کا ایک حصہ ہے جو صرف بيرون ملک طاقتوں کی مرضی اور منشاء کے وقت اپوزيشن کی رکاوٹ دکھا کر ريٹس بڑھاتی ہے۔ پھر جب قيمت ٹھيک ٹھاک لگ جاتی ہے تو اپوزيشن بھی خاموش ہو جاتی ہے اور پھر بيرونی طاقتوں کے کام چل پڑتے ہيں۔
مولوی اور فوجی اقتدار کا چسکا کبھی نہيں چھوڑيں گے۔
وسعت بھائی کچھ کہہ لیں لیکن مولویوں کے ووٹ بینک پر کوئی فرق نہیں پڑنا۔
وسعت اللہ صاحب، جن کندھوں پہ سوار ہو کے يہ حضرات پارليمان پہنچتے ہيں جب انہيں پارليمان کا وقت اور سرمايہ يوں برباد ہوتا نظر نہيں آتا تو ہميں کيا اعتراض ہو سکتا ہے۔ منتخب عوامي نمائندے ہيں۔
ہماری سياسی تاريخ ميں ملا ملٹری الائنس ہر فوجی آمر کا ہتھيار رہے ہيں۔ جرنل ايوب ہو جرنل يحيٰی ہو، جرنل ضيا الحق يا کہ جرنل مشرف سب نے انہی کی بيساکھيوں کے سہارے اپنے اقتدار کو مستحکم کيا۔
آپ اپنا خيال رکھيئے گا۔
آپ کے کالم پڑھ کر لگتا نہیں کہ آپ بچپن میں اتنے ضدی تھے۔
وسعت صاحب آپ نے بہت ہی اچھا بلاگ تحریر کیا ہے۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
واہ وسعت بھائی کیا بات ہے۔ آپ نے دل خوش کر دیا ہے۔ مزہ آ گیا۔ سب کے سب صرف اقتدار کے بھوکے ہیں۔ اس سے بہتر ہے کہ جو حاضر وقت حکمران ہے وہی رہے۔ جس کو چیخنا ہے چیختا رہے۔
ایم ایم اے نے اسمبلی سے استعفٰی نہ دے کر اچھا کیا ہے ورنہ حکومت کے لیے میدان خالی رہ جاتا۔ میرا خیال ہے حکومت چاہتی تھی کہ ایم ایم اے استعفٰی دے دے۔
بہت برا ہوا۔ عوام کا اعتماد دینی جماعتوں سے اٹھ گیا۔
مولوی استعفے ديں يا اسمبلی ميں بيٹھیں اس ميں ملک اور عوام کا برا بھلا کچھ نہيں۔ پاکستان ميں سياست، حکومت وقت کی ہو يا اپوزيسن کی وہ مکمل طور پر ذاتی مفادات کے گرد گومتی ہے۔ لہذا ايم ايم اے نے جو کچھ کيا وہ عين پاکستانی طرز سياست کے مطابق ہے اور اس معا ملے کو نہ پہلے اہميت ديتے تھے نہ اب۔