سیاسی بیان بازی، دانشوری اور ہمت
پچھلے دو ہفتوں میں وکیلوں نے جس طرح سڑکوں پر نکل کر ڈنڈے اور آنسو گیس کے گولے کھائے ہیں، اس کے لیے وہ ہمت چاہیے جو کافی عرصے سے مارکیٹ میں شارٹ رہی ہے۔
سیاسی بیان بازی اور دانشوری آسان کام ہے لیکن جمہوریت کے لیے باہر نکل کر اپنے ہاتھ پیر تُڑوانے کے لیے خاصا دل گُردہ چاہیے۔
پھٹے ہوئے سروں سے بہتا خون، کالے کوٹ پہنے نعرے لگاتے، مارچ کرتے پاکستانی وکلاء کی تصویریں امریکہ کے سرکردہ اخباروں میں بھی نمایاں طور پر شائع ہوئیں۔ اداریے اور کالم بھی چھپ رہے ہیں۔ ایک بار پھر فردِ واحد کی طرزِ حکمرانی پر پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔
لیکن مغربی میڈیا میں یہ سب کُچھ حُبِ علی میں نہیں بغضِ ماویہ کا نتیجہ ہے۔ بعض امریکی اخبارات کو ضرور احتجاج کرتے زخمی وکلاء سے ہمدردی ہوئی ہوگی۔ لیکن امریکہ کی اولین ترجیح خطے میں اپنے سکیورٹی مفادات کا تحفظ ہے جس کے لیے پاکستان کے کمانڈو صدر کو مسلسل تنقید کے ذریعےکسی حد تک دباؤ میں رکھنا امریکی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ واشنگٹن میں امریکی حکومت کے اہلکار خاصے پُرامید ہیں کہ مشرف صاحب کو موجودہ عدالتی تنازع سے کوئی فوری خطرہ نہیں اور وہ حالات پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
مطلب یہ کہ ’جنرل صاحب! جیسے چاہیں پاکستان کو چلائیں، بس ذرا افغانستان کے معاملے میں ڈنڈی نہ ماریں۔ باقی ہمارے لیے آپ سے بڑھ کر کون؟‘
تبصرےتبصرہ کریں
جی شاہ زيب صاحب بجا فرمايا آپ نے سڑکوں پر اترنے کے لیے جگر چاہيے ہوتا ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ يہ وہی امريکی ميڈيا ہے جو طالبان اور صدام کو ہٹانے کے لیے امريکہ کی جانب سے کی گئی فوجی کارروائيوں پر چپ سادھ رکھی تھی اور فلسطين ميں منتخبہ حکومت کو ہٹانے کے لیے کونڈو ليزا رائس جب ايڑی چوٹی کا زور لگا رہی تھيں تب بھی انہيں سانپ سونگھ گيا تھا اور تو اور صدام کے خلاف عاجلانہ عدالتی کارروائی پر جب انسانی حقوق کی تنظيميں تشويش ظاہر کررہی تھيں تو انہيں چپ لگ گئی تھی اور آج پاکستان سياسی بحران سے دوچار ہے لوگ فوجی حکومت کے خلاف مسلسل سڑکوں پر ہيں اور امريکہ بہادر کے کانوں پر جوں بھی نہيں رينگتی۔ ميڈيا کی خاموشی مجرمانہ نہيں بلکہ منظم لگتی ہے اور ويسے بھی امريکی حکام مفادات کو ہر چيز پر مقدم رکھتے ہيں۔ آپ کا گوانتا نامو کا سفر اور فوج کا آپ لوگوں کے ساتھ رويہ اس کی تازہ ترين مثال ہی کہلائےگی مگر شاہ زيب صاحب آپ نے بتايا نہيں کہ گوانتا نامو کے اندر کے راز کيا ہيں !
پاکستان کے حالات اور امريکہ کی خاموشی يہ دو ايسی ہی چيزيں ہيں جو متضاد نہيں کہلائیں گی۔
خير انديش سجادالحسنين حيدرآباد دکن
محترم جیلانی صاحب
جس بہادری سے آپ عدو کے چہرہ سے نقاب کشائی کرتے ہيں وہ قابل ستائيش ہے۔
وکلا قائد اعظم لياقت علی خان ذوالفقار علی بھٹو اور بہت سے تاريخ راہوں ميں مرنے والے ہی وہ اثاثہ ہيں جن پر ہميں فخر ہے۔
چمن کو جب بھی لہو کی ضرورت پڑی سب سے پہلے ہماری گردن کٹی
ديکھ لو آج کہتے ہيں اہل ہوس يہ ہمارا وطن ہے تمہارا نہيں
ہمارے حکمران تب پچھتاتے ہيں جب چڑياں کھيت چگ چکی ہوتی ہيں۔
جب 71 ميں امريکہ ان کو نہ بچا سکا تو اب کيا بچائيں گے؟ مگر خاک ہو جائيں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
آپ اپنا خيال رکھيے گا
دعا گو عاجز
مياں آصف محمود
واشنگٹن
رياست ہاے متحدہ امريکہ
مسلم دنيا کے ڈکٹيٹر ہوں يا لاطيني امريکہ کے فوجي آمر، دنيا کی اعلٰي ترين يونيورسٹياں، تحقيقي ادارے اور تھنک ٹينک رکھنے والے اس عظيم ملک پر حيرت ہوتی ہے کہ قومی مفاد کے نام پر ايسے ناپسنديدہ لوگوں کي حمايت کر کے سوائے پشيمانی اور عالمگير مذمت کے اسےکيا حاصل ہوتا ہے۔
شاہ زیب جیلانی صاحب آپ نے کیا خوب میرے دل کی بات کہی ہے۔ میں آکثر اپنے دوستوں میں بیٹھ کر یہی جملہ کہا کرتا ہوں یعنی’امریکہ کی اولین ترجیح خطے میں اپنے سکیورٹی مفادات کا تحفظ ہے جس کے لیے پاکستان کے کمانڈو صدر کو مسلسل تنقید کے ذریعےکسی حد تک دباؤ میں رکھنا امریکی حکمتِ عملی کا حصہ ہے‘۔
خدا را جنرل پرویز صاحب کو بھی ذرا سیکورٹی والے ایک لمحہ کے لئے خالی کر دیں تا کہ انہیں بھی اپنے عقل و فہم سے کچھ کچھ سمجھنے کا موقع ملے۔