| بلاگز | اگلا بلاگ >>

اکیلے تم اکیلے ہم

اصناف:

عارف شمیم | 2007-04-11 ،16:18

مجھے نہیں معلوم یہ تناسب پاکستان میں کیا ہے لیکن برطانیہ میں ’سنگل پیرنٹ فیملی‘ یا ماں یا باپ میں سے کسی ایک کے اکیلے بچے پالنے کا تناسب پاکستانی نژاد خاندانوں میں 13 فیصد بتایا گیا ہے۔
family203_bbc.jpg

یہ برطانیہ میں رہنے والے بھارتی نژاد افراد سے تین فیصد زیادہ (ان کا 10 فیصد ہے، اور بنگلہ دیشیوں سے ایک فیصد زیادہ ہے۔ بنگلہ دیشیوں میں یہ تناسب 12 فیصد ہے۔ یہ تعداد کیریبیائی گھرانوں میں سب سے زیادہ یعنی 46 فیصد اور دوسرے افریقی گھرانوں میں 36 فیصد ہے۔

حکومت کی طرف سے کرائے گئے اس اس طرح کے دس میں سے نو خاندانوں کو ماں ہی پال رہی ہوتی ہے۔ جو بچے اپنے حقیقی باپ کے بغیر پلتے ہیں ان میں جرائم کرنے کا، تعلیم نامکمل چھوڑ دینے کا تناسب زیادہ ہوتا ہے اور یہ لوگ نسبتاً زیادہ بے روز گار رہتے ہیں۔

آخر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اکیلی ماں یا باپ کو بچے پالنے کے لیے لمبے اوقات کام کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے بھی بچے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔

مجھے معلوم ہے کہ مغرب میں پارٹنر چھوڑنے یا بدلنے کا رواج زیادہ ہے، مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ یہاں کی زندگی زیادہ سخت ہے اور انسان تھک جاتا ہے۔ لیکن جو بات مجھے سمجھ نہیں آئی وہ پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کی اپنے ہمسائیوں سے زیادہ شرح ہے۔ میں جتنا بھی سوچتا ہوں اتنا زیادہ الجھ جاتا ہوں اور اتنا ہی زیادہ پیار مجھے اپنے بچوں سے ہونے لگتا ہے۔

اگرچہ استاد دامن نے یہ کسی اور موقعے کے لیے کہا تھا مگر پھر بھی اس وقت یہ شعر یاد آ رہا ہے۔

آزادیاں ہتھوں برباد یارو، ہوئے تسی وی او، ہوئے اسی وی آں
لالی اکھیاں دی پئی دس دی اے، روئے تسی وی او، روئے اسی وی آں

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 17:26 2007-04-11 ,Sajjadul Hasnain :

    شميم بھائی
    آپ کا يہ بلاگ اچھوتا بھی ہے اور انوکھا بھی۔ يہ سچ ہے کہ مغرب ميں پارٹنر چھوڑنے کا رحجان عام ہوچلا ہے مگر اس سے زيادہ تشويشناک مشرقيوں ميں اس وباء کا سرايت کرجانا ہے اس کی وجہ کيا ہوسکتی ہے ؟ بے چينی، بے سکونی، عدم تحفظ يا پھر لو ميريج۔ حيدرآباد کے اردو اخبار روزنامہ سياست کے سنڈے ايڈيشن ميں ماہر نفسيات ڈاکٹر مجيد خان کا کالم پابندی سے چھپتا ہے۔ اس کالم ميں ڈاکٹر صاحب نے اين آر آئی مسلمانوں کو خصوصاً امريکہ و برطانيہ ميں قيام پزير مسلمانوں اور ان کے يہاں يعني ديس ميں رہنے والے رشتے داروں خاص کر ماں باپ بيوی بچوں کو فوکس کيا ہے اور اس سے پيدا ہونے والے خطرناک نفسياتی اور سماجی مسائل کا وہ پابندی سے احاطہ کرتے ہيں۔ انہوں نے وہاں زندگی کی سختيوں سے کہيں زيادہ ان مسائل کو اس کا ذمہ دار قرار ديا ہے جو انہيں مذہب سے دور کرنےکا باعث بنتے ہيں۔ مجيد خان کوئی ملا نہيں بلکہ وہ ايک روشن خيال اور ماڈرن شخص ہيں اس کے باوجود انہوں نے آج کے پر آشوب دور ميں مذہبی قربت کو ان تمام نفسياتی مسائل کا واحد حل قرار ديا ہے۔ وہ يہ نہيں چاہتے کہ آپ لمبی سی داڑھی رکھ کے مسجد ہی کے ہو رہيں بلکہ وہ يہ چاہتے ہيں کہ آپ نمازوں کی پابندی کريں، اسلامی لٹريچر کا مطالعہ کريں اور قرآن پاک کی تلاوت کو اپنا معمول بنائيں۔ اس کے ساتھ انہوں نے اعتدال پسندی کا بھی مشورہ ديا ہے۔ ايک ماہر نفسيات کی زبان سے اس طرح کی باتيں عجيب لگتی ضرور ہيں مگر دل کو بھی لگتی ہيں۔ رہی بات ہندوستان کے مقابلے پاکستان کے زيادہ تناسب کی تو عموما ديکھا يہ گيا ہے کہ پاکستانی ہندوستان کے مقابلے مشرقی کم ہيں يا ہوسکتا ہے کوئی اور معاشرتی خامی رہی ہو بہر حال موضوع اہم ہے اسے سنجيدگی سے ليا جانا ہوگا ورنہ ہم مشرقی کہيں آنے والی نسل کے مجرم نہ بن جائيں۔
    خير انديش سجادالحسنين، حيدرآباد دکن

  • 2. 19:29 2007-04-11 ,وحيد :

    شميم صاحب -
    آپ کا بلاگ اور استاد دامن کا شعر پڑھ کر مجھ کو بھی کچھ ياد آيا۔ کہنے والے بلکہ کہنے والي نے جس موقع کيلۓ کہا اہل دل يقينناً جانتے ھيں۔ ’رانجھا رانجھا کر دی ميں آپ ہی رانجھا ھوئی‘
    يہ مصرعہ آپکے بلاگ يا استاد دامن کے شعر سے کيا اور کتنی مطابقت رکھتا ھے؟ فيصلہ آپ پر يا ديگر قارئين پر۔

  • 3. 19:51 2007-04-11 ,امجد عزیز :

    ہمارے عزت ماٰب صدر جنرل پرویز مشرف یہی روشن خیالی پاکستان میں بھی لانا چاہتے ہیں۔ دیکھیں کہ کب پاکستان میں خاندانی نظام کا بیڑہ ’پار‘ ہوتا ہے اور یہاں بھی سنگل پیرنٹ چائلڈ کی ’بہار‘ آتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف، تحفظ حقوق نسواں بل اور روشن خیالی کی جے ہو۔

  • 4. 20:51 2007-04-11 ,Mian Asif Mahmood,MD-U.S.A :

    محترم بھائی عارف شميم صاحب
    اسلام و عليکم
    يہ فرق ہونا شايد ہمارے اقتصادی اور معاشرتی حالات کے کمزور ہونے کی سبب ہوا ہے۔ غير مستحکم سياسی نظام اور فوج کی موجودگی ميں بد گمانياں بھی اس ميں اضافہ کا موجب ہيں۔
    وسدياں گوليں دی واج وچ سوئے تسی وی نہی تے سوئے اسی وی نہيں

  • 5. 20:52 2007-04-11 ,حسن عسکری اسلام آباد :

    اسلام نے تو پارٹنر بدلنے والوں کا علاج بھی بتايا ہے کہ عدل قائم کرکےايک سے زيادہ شادياں کر لو اور پہلي بيوي بچوں سے ذرہ بھر غفلت نہ برتو ورنہ تمہارے بيوی بچے تباہ ہو جائيں گے۔ مغربی تہذيب نے اس نسخہ الہی کو ٹھکرا کر گندگی کو اپنا ليا يعنی حلال ايک سے زيادہ پر پابندی مگر حرام جتنے مرضی کرتے جاؤ۔ جب يہ حال ہو گا تو پارٹنر تو نفسياتی مريض بنے گا ہی اور اولاد تو جرائم پيشہ ہوگی۔ رہی بات نماز روزہ کی اس سے اللہ کو فائدہ نہيں پہنچتا بلکہ عبادت گذار ہی کو قلبی سکون اور پازيٹو انرجی ملتی ہے۔ مغرب نے روحانيت کو بھی ديس نکالا کر ديا يہ ہی تہذيبوں کی جنگ ہے جسے کچھ لوگ روشن خيالی کا نام دے کر کنفيوژن پھیلاتے رہتے ہيں۔ اللہ کرے اسلام روشن خيالوں اور لٹھ برداروں کے چنگل سے آزاد ہو۔

  • 6. 21:59 2007-04-11 ,سرفرازسيال :

    کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گيا۔
    اپنی تہذيب ، مذہب اور اقدار سے دور ہو کر برطانوی پاکستانی اپنی اولادوں کو اس سوسائٹی ميں گم کر چکے ہيں۔ کسی حادثے سے بڑھ کے سانحہ يہ ہوا ہے کہ گورے برطانوی انہيں اپنی سوسائٹی کا حصہ ماننے کو تيار نہيں۔ اسی لیے اس سروے ميں انہيں پاکستانی کہا گيا حالانکہ اکثريت دو چار بار ہی پاکستان گئی ہو گی۔

  • 7. 22:54 2007-04-11 ,سيد رضا ، برطانيہ :

    محترم عاررف شميم صاحب ، آداب
    انتہائی اہم موضوع پر آپ نے اختصار کے ساتھ بيدار گفتگو فرمائی ہے ۔
    کہيں نہ آخری جھونکا ہو مٹتے رشتوں کا
    يہ درمياں سے نکلتا ہوا سا کچھ تو ہے
    خدا تمام رشتوں کو پيار و محبت کے بندھن ميں باندھ کے رکھے ۔ ميں سمجھ نہيں پاتا کہ کيا رشتہ اتنا نازک بھی ہو سکتا ہے کہ جنشِ قلم سے ٹوٹ جائے چند لفظوں کی ادائيگی سے شکست کھا جائے ۔ دور جانے سے يکسر محو ہوجائے يا پاس رہ کے بھی ميلوں کے فاصلے پيدا کردے۔ کيسے ممکن ہے يہ !؟ کيا وجوہات ہو سکتی ہيں کيا الميہ ہو سکتا ہے !؟ جب کہ يہ ايک محض رشتہ ہی نہيں ايک وعدہ ہے ، ايک جذبہ ہے ، ايک تعلقِ خاص ہے ، ايک نسل نہيں کئ نسلوں کا امين ہے ۔ آخر لوگ امانت ميں خيانت کيسے کرسکتے ہيں !؟
    وہ ٹوٹتے ہوۓ رشتوں کا حُسنِ آخر تھا
    کہ چپ سی لگ گئی دونوں کو بات کرتے ہوئے
    دعا ہے کہ خدا ہميں جذبات ميں ضبط و تحمل اور ٹھہراؤ کی کيفيت عطا فرماۓ ۔
    دعا گو
    سيد رضا

  • 8. 4:14 2007-04-12 ,Anonymous :

    عارف صاحب
    آگے بھی چليں کب تک ان گھسٹے پٹے شعروں کا سہارا لے کر کالم سياہ کرتے رھيں گے۔ آپ کی گاڑی کھدے ميں پھنس گئی ہے۔ ہمت کر کے نکلنے کی کوشش کريں۔

  • 9. 7:44 2007-04-12 ,Muhammad Imran Asif :

    محترم حسن عسکری اسلام آباد سے لکھتے ہيں کہ ’اسلام نے تو پارٹنر بدلنے والوں کا علاج بھی بتايا ہے کہ عدل قائم کرکےايک سے زيادہ شادياں کر لو‘۔ يہ علاج بقول آپ کے اسلام نے مرد کے ليے بتايا ہے، تو عو رت کے ليے آپ کے اسلام نے کيا علاج بتايا ھے؟ يا عورت پاؤں کی جوتي؟

  • 10. 8:48 2007-04-12 ,اسماء :

    جناب سجاد صاحب کے تبصرے سے مکمل اتفاق ہے سوائے ايک پوائنٹ ُلو ميرجُ کے۔ جناب آپ کو پتہ ھی ھو گا کہ برطانيہ ميں ہی پاکستانيوں کا تناسب ہی دوسروں کی نسبت زيادہ ہے کہ جو اپنے بچوں کی ُفورسڈ ميرجُ کرتے ہيں۔

  • 11. 11:28 2007-04-12 ,ريحان ساجد :

    جناب عارف صاحب
    آداب ۔ آپ کو يہ معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہيے تھی کہ ايسا کيوں ہے۔ آپ کے ايک قاری اپنے تبصرے ميں’سنگل پيرنٹ فيمليز‘ اور ’سنگل مدر چلڈرن‘ کی اصطلاحوں کو آپس ميں گڈمڈ کر رہے تھے۔ ميرے خيال ميں اسکی وجہ بقول آپ کے ايک قاری ’روشن خيالي‘ يا مغريبيت نہيں بلکہ معاشی اور معاشرتی ہيں۔ پاکستان کے ان علاقوں ميں جہاں عورتيں تعليم يافتہ اور معاشی طور پر آزاد (محتاج نہيں) وہاں شرح طلاق زيادہ ہے يا دوسرے لفظوں ميں سنگل پيرنٹ فيملی زيادہ ہيں۔ مغرب مخالف حضرات خدارا اسکا ذمہ دار تعليم کو نہ ٹھرايے گا۔ ويسے بہت سی عورتيں خانداني، معاشرتی اور معاشی مجبوريوں کے تحت يا بچوں کی خاطر جن حالات ميں (پاکستان ميں) خاوندوں کے ساتھ رہ رہی ہے وہ بھی ايک غير اسلامی اور ہندوانہ طرز معاشرت ہے۔ جہاں تک برطانيہ يا مغرب ميں پاکستانيوں ميں سنگل فيملی کا نسبتا زيادہ پايا جانے کی وجوہات ہیں وہ يہ ہيں
    1- آج سے چاليس پچا س برس قبل ان ملکوں ميں نقل مکانی کرنے والے غير تعليم يافتہ آج بھی چاليس پچا س برس قبل کے دور ميں رہ رہے جبکہ ان کے بچے آج کے دور ميں رہ رہے ہيں۔ 2 - زبردستی کی شادياں خصوصاُ لڑکيوں کی شادياں پاکستان امپورٹڈ لڑکوں سے وغيرہ وغيرہ
    آخرميں ناقدين مغرب سے يہ گذارش کرنا چاہوں گا کہ جب بھی وہ کسی بھی مسئلے پر مغربی معاشرے پر تنقيد يا اس کا پاکستانی معاشرے سے تقابلی موازنہ کريں تو اپنے بھی اعدادوشمار بھی پيش کيا کريں۔ ريحان ساجد،
    آسٹريليا

  • 12. 14:08 2007-04-12 ,shahidaakram :

    عارف شميم بھائی ہميشہ کی طرح يہ بلاگ بھی کُچھ نئے سوچ کے در وا کر گيا ہے۔ يقين کريں آپ کی سروے رپورٹ کو پڑھ کر بہت اعتماد سے آگے پڑھنا شروع کيا کہ اب آپ يقينی طور پر يہ خُوش خبری ديں گے کہ ہمارے مُلک ميں يہ تعداد اللہ کے فضل سے کافی حوصلہ افزا ہے ليکن ہميشہ کی طرح يہاں بھی ہم بازی مار گۓ يعنی صرف دُوسروں کی آنکھوں کی لالی اب آہستہ آہستہ ہماری آنکھوں ميں مُنتقل ہو چُکی ہے يا ہو رہی ہے۔ جبھی تو اب ہمارے ہاں بھی خواہ کسی بھی وجہ سے ہو ايک اکيلا بندہ يا بندی ہی دو بندوں کو تفويض کيا گيا فريضہ انجام دينے پر مجبُور ہے۔ فطرت نے جب يہ کام دو انسانوں کی ذمّہ داری بنائی ہے تو وہ کونسے عوامل ہيں جو ان حالات کو جنم ديتے ہيں۔ اب حالات جو بھی رہے ہوں سجاد صاحب آپ کی راۓ کُچھ اس قدر دل کے قريب ہے کہ اور کوئی بات کہنے کے لۓ ہے ہی نہيں کہ ہمارا مزہب دين فطرت ہے اور ہماری رہنُمائ کے لۓ کافی ہے۔ کاش کہ ہم اس پر عمل کرنے کا سوچيں اور صرف سوچيں نہيں يقين بھی کريں۔
    دعاگو
    شاہدہ اکرم

̳ iD

̳ navigation

̳ © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔