| بلاگز | اگلا بلاگ >>

کاش ایسا ہوتا۔۔۔۔

حسن مجتییٰ | 2007-09-01 ،12:45

کسی نے کہا کہ کیا ایسا نہیں ہو سکتا تھا کہ ملک کے دونوں سابق وزرائے اعظم جن کے پاس ’ھذا من فضل ربی‘ تو بہت ہے، ایک طیارہ چارٹر کرواتے جسے ’پاکستان کی طرف پرواز جمہوریت‘ یا ’ فلائیٹ آف ڈیموکریسی ٹو پاکستان‘ کا نام دیکر ایک ساتھ وطن واپسی کا اعلان کرتے۔ اگر خواہشیں مربّے کھانے والے گھوڑے ہوتے تو سارے بھکاری سرے یا سرور محل میں رہ رہے ہوتے لیکن کاش ایسا ہوتا۔۔۔
benazir_nawaz_155.jpg

سندھی میں کہتے ہیں مریم کا منہ اک طرف تو ٹنڈو اللہ یار دوسری طرف ہے۔ یہی کہاوت میاں اور بی بی پر بھی صادق آتی ہے۔ دونوں ملک میں جمہوریت کی بحالی کا دعویٰ کرتے ہیں، ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کے بھاشن دیتے ہیں لیکن ایک وھیل اور دوسری ڈیل پر ہے۔

اگر وہ پرواز جمہوریت نامی چارٹرڈ طیارے پر ساتھ سوار ہو کر پاکستان کے کسی بھی ائيرپورٹ پر جاکر اتریں تو پھر اپریل انیس سو چھیاسی کا نقشہ بن جائے۔ لیکن تب نواز شریف تو پنجاب کے وزیر اعلٰی اور بینظیر بھٹو جلاوطنی سے پاکستان کی کوری اکینو بن کر آئی تھیں۔

کیا کبھی آنگ سوانگ سوچی نے بھی برما کے جرنیلوں سے مفاہمت کی ٹھانی۔
کیا اب بینظیر بھٹو کل کے نواز شریف اور آج کا نواز شریف کل کی بینظیر بھٹو بنے ہوئے ہیں؟ میں نے ایک پل سوچا۔

وکلاء کی تحریک نے جو تلاطم پیدا کیا ہوا ہے اس پر اب کتنے بھی بند باندھنے کی کوشش کی جائے پر لگتا ہے کہ اس سیلابی ریلے میں جو کمبل ہے وہ پاکستان کے جنرلوں کو نہیں چھوڑ رہا۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 14:07 2007-09-01 ,ظہيرچغتائی :

    يہ دونوں اگر ساتھ بھی آ رہے ہوتے تب بھی آپ نے پاکستان کے ان دو مقبول ليڈروں کی مخالفت کے کوئی دوسرے بہانے تراش لينے تھے۔ باہر بيٹھ کر جمہوريت کے تو آپ بھی تو صرف بھاشن ہي ديتے ہيں۔ عملی طور پر آپ کو پتہ ہے کہ فوج کی سياسی امور ميں مداخلت کی مخالفت اپنی شامت کو دعوت دينے کے مترادف ہے؟ بھٹو جيسے ليڈر کو پھانسی پر چڑھا ديا گيا، کوئی بولا، کچھ ہوا؟ مسلمان ملکوں ميں جمہوريت وغيرہ نہيں آنی کيونکہ ہمارا مزاج اس کا عادی ہی نہيں۔ آپ بس خود بھی جھوٹے خواب ديکھتے رہيں اور ہميں بھی يہ خواب دکھاتے رہييے، ہونا کچھ نہيں۔

  • 2. 14:51 2007-09-01 ,Mian Asif Mahmood,MD-U.S.A :

    آپ کا لکھنا تھا يا اتفاق کے بينظير صاحبہ جال ميں پھنستے پھنستے بچ گئيں۔ خدا سياستدانوں کو ميثاق جمہوريت يا اس سے بہتر پر متحد کريں۔ عوام کی قربانياں رنگ لائيں۔ 73 کا آئين اصل صورت ميں بحال ہو۔ شکريہ۔ خدا کرے آپ جلد از مہربانی فرماتے رہيں۔
    دعا گو
    مياں آصف محمود
    ميری لينڈ
    امريکہ

  • 3. 14:58 2007-09-01 ,مجیب الرحمن منصور.خیرپور :

    حسن مجتبی صاحب آپ نے بہت گہری بات کی ہے۔ ان سیاستدانوں کا ایک رچ ہے ہی نہیں۔ پھر بھی یہ پہلو بہر حال بہتر ہے کہ میاں صاحب اور صاحبہ دونوں موجودہ ڈکٹیٹر کو بھگانے پر تقریباً متفق ہیں۔

  • 4. 21:10 2007-09-01 ,سيد رضا ، برطانيہ :

    محترم حسن مجتبي صاحب ، آداب
    عجيب لوگ ہيں ہم اہلِ اعتبار کتنے بد نصيب لوگ ہيں۔ جو رات جاگنے کی تھی وہ ساری رات
    خواب ديکھ ديکھ کر گزارتے رہے۔ جو نام بھولنے کا تھا اس ايک نام کوگلی گلی پکارتے رہے
    جو کھيل جيتنے کا تھا وہ کھيل ہارتے رہے
    عجيب لوگ ہيں ہم اہلِ اعتبار کتنے بدنصيب لوگ ہيں
    نيازمند
    سيد رضا

  • 5. 13:38 2007-09-02 ,ammar yasir :

    جی حسن جی! وھیل ڈیل سب کچھ اقتدار میں اپنے حصے کی کوششیں ہیں۔ یہ دونوں چاہے اکٹھے آجائیں یا الگ الگ میری محکوم قوم کے نصیب میں شاید ویلفیئر ریاست نہیں ہے۔ کل مشرف صاحب کہہ رہے تھے کہ ’ ہم عوام کو دس ہزار وظیفہ تو نہیں دے سکتے‘ تے پھر بابو، بابی اور وردی میں یہی چلتا رہے گا۔
    جہاں سچ ناں چلے وہاں جھوٹ سہی
    جہاں حق نہ ملے وہاں لوٹ سہی

  • 6. 13:50 2007-09-02 ,جميل روم :

    آپ کو جس کام کے لے رکھا ہوا ہے وھ کرتے رہو۔۔۔

  • 7. 16:29 2007-09-02 ,Dr Alfred Charles :

    حسن بھائي! کسی حد تک دونوں ليڈروں کے پاس عوامی حمايت و تائيد تو ہے مگر ہمت نہيں۔ دونوں امارات، سعودی عرب، لندن جيسے علاقوں ميں محض جيل کی سختيوں و صعبتوں سے بچنے کے ليے مقيم ہيں۔ صرف اقتدار ميں شراکت کے لیے جنرلوں سے ڈيل کر کے چند سيٹوں کی ڈھيل چاہتے ہيں۔ ان دونوں کے کارکنان اور عوام ان کی جملہ حرکات کی بنا پر ان سے مايوس ہو کر بدظن ہو رہے ہيں۔ ميرے خيال ميں اس تيز رفتار اور سرگرم ميڈيا کے دور ميں يہ گھاٹے کا سودا معلوم ہوتا ہے۔ اگر ان کی کوئی بات بن بھی گئی تو مشرف نے اپنے مقاصد کے حصول کے ليے موجودہ اسمبلياں نہيں توڑيں مگر انکی اسمبليوں سے ووٹ ليکر ايک مرتبہ پھر کرپشن کے الزامات لگا کر چلتا کرديں گے اور اقتدار انجوائے کرتے رہيں گے۔

  • 8. 13:54 2007-09-03 ,mooda tay patas :

    سب بےکار ہے۔ کوئی نہيں آئے گا۔ جو ہے وہ بھی نہيں رہے گا۔

  • 9. 17:47 2007-09-03 ,سید احمد :

    ایسے حالات میں مشتاق احمد یوسفی نے اپنی کتاب آب گم میں کیا خوب لکھا تھا کہ۔۔۔

    جیسے اور دور گزر جاتے ہیں، یہ دور بھی گزر گیا۔ لیکن کچھ لوگ ایسے خوف زدہ اور چڑھتے سورج کی پرستش کے اتنے عادی ہو گئے تھے کہ سورج ڈوبنے کے بعد بھی سجدے میں پڑے رہے کہ نہ جانے پھر کب اور کدھر سے نکل آئے۔ کبھی کسی نے کولی بھر کے زبردستی کھڑا کرنا چاہا بھی تو معلوم ہوا کہ کھڑے نہیں ہوسکتے۔ جوڑ بند سب اکڑ کر رہ گئے ہیں۔ اور اب وہ اپنے تمام معمولات اور فرائضِ منصبی حالتِ سجود میں ادا کرنے کے عادی و خوگر ہوگئے ہیں۔

    یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا۔

̳ iD

̳ navigation

̳ © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔