دن کو عید، رات شام غریباں
اس دن یہ کیسا کراچی تھا۔ یہ کیسی زندگی تھی جسکا دن بینظیر کا جلوس اور رات خودکش بمبار کی تھی۔ دن کو عید اور رات شام غریباں تھی۔
ایسے لگتا تھا جیسے سب کچھ فلم کیطرح چل رہا ہو۔ ایک ایسی فلم جو آدھی خوشی کی ہو اور وقفے کے بعد باقی غم و اندوہ کی اور دہشت کی۔ اس رات میں مین ہیٹن سے ایک تھیٹر میں ذوالفقار علی بھٹو کے آخری دنوں اور بقول ڈرامے والوں کے، ’بینظیر کے موجودہ حالات پر‘ ایک پلے، جو وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے طارق علی کے ڈرامے ’چیتا اور لومڑی‘ سے ماخوذ کر کے بنایا ہے، دیکھ کر آیا تھا اور آکر ’آج‘ ٹی وی پر ہُک اپ ہو کر بیٹھ گیا۔
’خوشی کے جلوس میں غم ساتھ ساتھ دبے پاؤں چلتا رہتا ہے‘ قراۃ العین حیدر نے کہا تھا۔
جب تھیٹر کے اندھیرے ہال میں نظر نیم روشن اسٹیج پر پڑی تو ٹیلیفون پر بینظیر بھٹو (اداکارہ گیتا ریڈی) اور جنرل پرویز مشرف (اداکار رمیز منصف) کو ایک دوسرے سے بڑی بے تکلفی سے بات چیت کرتے دکھایا گیا۔ بینظیر جنرل سے انکی ای میل کا جواب نہ دینے کی شکایت کر رہی تھی۔ پھر ان دونوں نے ایک دوسرے کو اپنا کمپیوٹر کنیکٹڈ نہ رکھنے کا طعنہ دیا۔ چوبیس سالہ بینظیر کو ایک امریکی صحافی سے فلرٹ کرتے بھی دکھایا گیا ہے۔
اس ڈرامے میں جنرل مشرف اور جنرل ضیاء الحق کا رول ادا کرنے والا ایک ہی اداکار ہے۔ یہ کتنا پاکستان کی تاریخ سے ملتا جلتا ہے کہ دو کردار ایک ہی اداکار۔ ڈرامے کے سامعین میں جاوید جبار بھی تھے۔ میں نے سوچا یہ شخص بھی کیا کیریکٹر ہیں جنہوں نے تین جکمرانوں کے وزیر ہوکر بابنائيں بھگتائيں۔ ضیاء، بینظیر اور پھر مشرف!
واپسی پر میرے دوست نے مجھ سے کہا ’ڈکٹیٹرشپ کی دو اقسام ہیں: ’ایک فوجی ڈکٹیٹر شپ اور دوسری مذہبی انتہاپسندی کی ڈکٹیٹرشپ‘۔
میرے لیاری کے ایک دوست نے مجھ سے کہا ’بینظیر کے گرد مرنے والے زیادہ تر لیاری کے تھے‘۔ پھر اس نے کہا ’جنرل جب میدان میں ہوتے ہیں تو سپاہی سب سے زیادہ مرتے ہیں۔‘
نہتے، نعرے مارتے، ناچتے، گاتے، ہنستے، خوشیاں مناتے جیالے، دنیا نے دیکھا کہ وہ کراچي کی تاریک راہوں پر رقص کرتے جگنوؤں کیطرح آئے اور قتل ہوئے۔ کیا اس سارے خونی ڈرامے کا اسکرپٹ صرف دو تین ریٹائرڈ یا حاضر سروس جنرلوں نے لکھا ہوگا؟