| بلاگز | اگلا بلاگ >>

میں بالکل جِت گیا سی

وسعت اللہ خان | 2008-02-23 ،12:16

مسلم لیگ قاف نامی ایک تنظیم کے صدر چوہدری پرویز الہی نے کہا ہے کہ انکی جماعت نے اٹھارہ فروری کو کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے چالیس فیصد لئے ہیں جو پیپلز پارٹی سمیت کسی بھی سیاسی جماعت سے زیادہ ہیں لیکن ہر حلقے کی انفرادی سیاست کے سبب وہ اکثریت حاصل نہ کرسکے۔
blo_shujat_pervez203.jpg

لگتا ہے چوہدری پرویز الہی اٹھارہ فروری کی شام سے اس بابے میں تبدیل ہوگئے ہیں جو دیوانی مقدمہ ہارنے کے بعد کچہری کے باہر ملنے والے ہر شخص کو بہانے بہانے سے بازو پکڑ پکڑ کر بتاتا ہے ’اوجی میں بالکل جت گیا سی۔۔۔ جج نے وی سر ہلا دتا سی۔۔۔ پر میرے ای وکیل نے اخیر چ ۔۔۔۔‘

اب چوہدری برادران کے پاس کیلکو لیٹر بھی ہے اور وقت بھی اور جمع تفریق کے بعد فراغت کاٹنے کے لئے سائیکل کا ایک ناکارہ ٹائر بھی جسے جب چاہیں ڈنڈے سے گلیوں اور سڑکوں پر گھما گھما کر بوریت دور کی جاسکتی ہے۔ بہت سے فارغ بچے اسی طرح ٹیم پاس کرتے ہیں۔۔۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 13:10 2008-02-23 ,مجیب الرحمن منصور :

    کیا کیا نہ کیا تم نے پاکستان کی مقدس سرزمین میں چوھدری جی؟ شرم تم کو مگر نہیں آتی جو بدمعاشی، ظلم،خیانت، لوٹ مار، جھوٹ، مہنگائی، نہتوں کا خون، معیشت کی تباہی، امریکیوں سے وفاداری اور غریبوں کو خود کشی پر مجبور کرنے کے بعد یہ لمبے چوڑے دعوے کرتے پھر رہے ہو کہ ہم جیت گئے۔

  • 2. 14:16 2008-02-23 ,تنوير عارف :

    کاغذ چننا بھی وقت گذارنے کے لیے اچھا مشغلہ ہے۔

  • 3. 14:48 2008-02-23 ,ڈاکٹر سرفراز :

    وسعت صاحب، آپ اچھی بھلی مدلل باتيں لکھا کرتے ہيں مگر آج اتنی غير مدلل بات کيوں لکھ دی۔ بھلا جو ٹائر پنکچر ہو چکا ہو اسے ڈنڈے کے ساتھ کيسے کھيلا جا سکتا ہے۔

  • 4. 21:01 2008-02-24 ,Victor Bhana :

    آداب عرض! آپ کی بات تو ہے ’بات سے بات‘، ليکن ميں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ آزما سکوں کہ ميری بات بھی کو ئی سنتا ہے يا نہیں، کيونکہ جب بھی لکھتا ہوں تو جواب آتا ہے ’سروس ناٹ اويلايبل‘۔ سياسی پارٹيوں ميں ہار جيت تو ہوتی ہے۔ کسی کا ٹائر پنکچر تو کسی کا نہ جانے کيا۔ کچھ کھو ديا اس سياست میں اور نتيجہ جو سامنے آيا تو پتہ چلا کہ ہم تو حکومت ہی بنا نہيں سکتے۔ ہاں! يہ کہہ دينا کہ ’میں تے جت گيا سي‘، دوسری بات ہے۔ اس وقت کی بڑی مشکل يہ ہے کہ حکومت کون اور کيسے بنائے؟ شطرنج کی چال چل کر دکھائيے۔ شکريہ

  • 5. 9:47 2008-02-25 ,محمد اعجاز الحق :

    کیا اہلِ ہنر کیا اہلِ شرف، سب ٹکڑے ردی کاغذ کے
    اس دور میں ہے وہ شخص بڑا جو روز خبر میں رہتا ہے

  • 6. 11:11 2008-02-25 ,شاہدہ اکرام :

    وُسعت بھائی آپ کيُوں دل پر لے رہے ہيں۔ ’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں ميں‘۔ اب وہ ناکارہ سائيکل کا پہيہ چلائيں يا کوئی اور چيز، اصل بات تو يہ ہے کہ سائيکل پنکچر ہو چُکی ہے اور کسی کام کی نہيں رہی۔ اب مُلکی مفاد کے لیے درد جاگتا ہے تو بےشک جاگے، عوام بھی جاگ چُکی ہے جس کا نمُونہ چوہدری برادران ديکھ رہے ہيں۔ خير انديش۔

  • 7. 11:16 2008-02-25 ,سفير اللہ :

    بچے پنکچر شدہ ٹائر سے ہی کھیلتے ہیں سرفراز !صاحب

  • 8. 11:43 2008-02-25 ,نجيب الرحمان سائکو :

    خاں صاحب، آپ کے بلاگ ميں جب ٹائر کے ناکارہ ہونے کا پڑھا تو مجھے اپنا بچپن ياد آگيا۔ ميں کوئی لگ بھگ سات آٹھ سال کا ہوا کرتا تھا۔ جمعہ کے دن سکول سے چھٹي ہوتي تھي تو ايک روپيہ في گھنٹہ کے حساب سے کرائے پر سائيکل لے کر خوب سڑکيں ناپتا تھا۔ بعض دفعہ سائيکل پنکچر ہوجاتی تھي، تب ميں نے يہ کرنا کہ جونہی کرائے کی سائيکل کا ايک گھنٹہ پورا ہونے ميں چند منٹ باقی رہ جاتے تو پنکچر شدہ ٹائر ميں پمپ سے ہوا بھر کر ٹائر کو ظاہری طور پر چنگا بھلا کر ديتا اور فوراً سائيکل والے کی دوکان پر جاتا تو وہ سائيکل کو ٹھونک بجا کر ديکھتا کہ کہيں کوئی گڑبڑ تو نہيں، جب چيکنگ مکمل ہوجاتی تو وہ شخص اوقات کار کا رجسٹر کھولتا اور ميرے نام کے آگے سائيکل کی واپسی کا ٹائم لکھتا اور ’او کے‘ کر ديتا۔ اس طرح ميں واپس گھر آجاتا اور ٹائر کے پنکچر ہونے کے اضافی واجبات دينے سے بچ جاتا۔ واہ جی واہ! کيا زمانہ تھا وہ، اب تو بس ياديں ہی رہ گئی ہيں۔ ’کرو گے ياد تو ہر بات۔۔۔‘

  • 9. 12:06 2008-02-25 ,سجادالحسنين حيدرآباد دکن :

    وسعت بھائی، ہر ہارنے والا يہی بولتا ہے آپ کيوں خواہ مخواہ ٹنشن ليتے ہو۔ ہماری رياست ميں بھی جب چندرا بابو نائيڈو کی جماعت تلگو ديشم بری طرح سے ہاری تھی تو بابو کا بھی بالکل ايسا ہی بيان تھا جيسا کہ پرويز صاحب نے ديا ہے۔ آپ کے لئے شايد يہ بات دلچسپ ہو کہ بابو کی پارٹی کا نشان بھی سائيکل ہی تھا۔ آپ يہ بات بھی بخوبی جانتے ہونگے کے کانگريس کے يو پی اے اتحاد سے پہلے بي جے پي کي قيادت والي جماعت اين ڈی اے جب انتخابات جيت کر حکومت سازی کے لیے پريشان تھی تب بابو کی تلگو ديشم کا موقف کنگ ميکر کا تھا اور تقريبا نو سال تک اسی موقف کے باعث تلگو ديشم نے بہتی گنگا ميں خوب ہاتھ دھوئے تھے مگر واہ ری قسمت کہ جب انتخابات آئے تو گجرات فيکٹر کی بدولت یہی اتحاد بابو کو ايسی جگہ غرقاب کر گیا جہاں پانی کم تھا۔
    خير انديش۔

  • 10. 13:14 2008-02-25 ,ہارون :

    بڑے مزاقيا ہيں آپ!

  • 11. 15:08 2008-02-25 ,جاويد گوندل :

    اگر اجازت ہو تو کچھ عرض کروں؟ ہمیں آپ سے بہت سے گلے شکوے تھے، مگر بی بی سی پہ آپ کی اردو تحرير، ’ُیور ایکسیلنسی‘ کچھ عرض کروں، پڑھکر دل جھوم اُٹھا۔ اس کے ليے آپکو تہہ دل سے مبارک باد کہتا ہوں۔ بار ِديگر قصہ اس بابے کا جو دیوانی مقدمہ ہارنے کے بعد کچہری کے باہر ملنے والے ہر شخص کو بہانے سے بازو پکڑ کر بتاتا ہے ’اوجی میں بالکل جت گیا سی۔۔۔ ‘عرض ہے کہ بابے بيچارے نے تو شايد مقدمہ جيتنے کے ليے کوئی تردد کيا ہوگا، زيرِ مقدمہ اراضی کو حاصل کرنے کے ليے کوشش کی ہوگی، مگر ميری ذاتی رائے ميں چودہری برادران کے تو کبھی تصور ميں بھی نہيں رہا ہوگا کہ ايک دن وہ پاکستان کے وزيرِاعظم اور ملک کے سب سے بڑی آبادی والے صوبے کے حکمران ہونگے۔ چودھري برادران کي طرح کی سياسی سوجھ بوجھ اور بصيرت تحصيل اور برداری کی سطح تک تو اڑان بھر سکتی ہے مگر پاکستان جيسے اتنے بڑے ملک کے حاکم ِ مطلق بن جانا تو ان کے خواب و خيال ميں بھی نہيں رہا ہوگا اور يہ آئندہ کے تاريخ دانوں کی تحقيق کے ليے ايک بہت بڑا چيلنج بنا رہے گا۔ اب يہ الگ بات ہے کہ ميرے ايک جاننے والے ق ليگ قبيلے کو مسلمانوں کي تاريخ ميں بغير کسي اہليت کے حکمران بن جانے کےفطرت کے اتفاقی حادثات ميں سے ايک قرار ديتے ہيں اور اس ضمن ميں اور مثالوں کے علاوہ ہندوستان ميں محمد شاہ کی حکمرانی کی بھی مثال ديتے ہيں کہ جس نےدلی پہ حملہ آور نادر شاہ کو زور آور سمجھتے ہوئے دلی کے دروازے نادر شاہ کے ليے کھول دئيے تھے۔ اس ليے ميں ذاتی طور پہ يہ سمجھتا ہوں کہ ماضی ميں چودہری برادران اور قبيلہ قاف کو مختلف اتفاقات کی وجہ سے توقعات سے بڑھ کر اقتدار ملا اور چھوٹے برتن ميں زيادہ پڑ جانے کی وجہ سے يہ عوامی توقعات پہ پورا اترنا تو کجا بلکہ نشہِ اقتدار ميں جو داستانيں يہ رقم کر گئے ہيں اور جسکا نتيجہ 2008 کے اليکشن ميں سب کے سامنے ہے ان داستانوں کو کون سميٹے گا؟ جو وسائل کی بندر بانٹ سے شروع ہو کر پُر اسرار طور پہ لاپتہ ہوجانے والے افراد کے عزيزواقارب کے کرب و اذيت، لال مسجد، اکبر بگٹي، کراچي کے قتلِ عام کي مجرمانہ حکومتی چھوٹ، شوگر، آّٹا، پانی بجلی اور انگنت بحران، منافع بخش قومی اداروں کی مشکوک نجکاري، شوکت عزيز کی امپورٹيڈ ترقی کے نتيجے ميں غريب آدمی کے منہ سے نوالہ چھن جانا، ميڈيا پہ پابندی، عدليہ کو پابندِ سلاسل کرنا، پڑھا لکھا پنجاب وغيرہ پہ مشتمل يہ انگنت داستانيں جو پاکستان کی تايخ کا شرمناک ترين باب رقم کر گئی ہیں۔ يہ پٹواری کو بادشاہ بنانے کا نتيجہ ہے اور اب جبکہ پٹواری کو دوبارہ بادشاہ سے پٹواری بنا ديا گيا ہے تو بھلا پٹواری کو کيا غم ہوگا؟ غيرت اور حميت کے حامل لوگ ايسے حالات ميں تو جان دے ديتے ہيں يا کم ازکم لمبے عرصے کے لئيے اپنا منہ سب سے چھپا ليتے ہيں جبکہ کہ قبيلہ قاف ميں يہ صفت مفقود ہے۔ آپ ديکھئيے گا بے شک کوئی انہيں نہ پوچھے بلائے پھر بھی يہ برادران اور قبيلہ قاف اس طرح مضحکہ خيز بيان بازی کے بل بوتے پہ ميڈيا میں ’اِن‘ رہنے کی کوشش کرتا رہيگا کہ عوام نے تو انہیں’ُآؤٹ‘ کر ديا ہے۔ اس ليے ميری رائے ميں ديوانی مقدمہ ہار جانے والے بابے کا غم قيبلہ قاف اور چوہدری برادران سے سوا ہے ، زيادہ ہے۔
    خير انديش
    جاويد گوندل، بارسيلونا، اسپين

  • 12. 15:41 2008-02-25 ,میاں آصف محمود :

    وسعت اللہ خان صاحب
    آپ تحرير ہميشہ ہی معياری ہوتی ہے۔ پر کيا کيا جائے کہ:
    پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہيرے کا جگر
    مردِ ناداں پر کلام ِ نرم و نازک بے اثر

  • 13. 17:18 2008-02-25 ,انجم :

    چھڈو جي! مٹی پاؤ چوہدرياں تے

  • 14. 7:43 2008-02-26 ,bella :

    بہت اچھا مشورہ ہے۔ میرے خیال میں اپنے باقی دوستوں کو بھی اس میں شامل کرنا چاہیے۔ جیسے کہ شیخ رشید۔

  • 15. 12:59 2008-02-26 ,وسيم :

    محترم سائکو صاحب کا تبصرہ پڑھ کے وسعت صاحب کے بور بلاگ کی بوريت دور ہو گئی ہے-

̳ iD

̳ navigation

̳ © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔