کیانی، ارباب اور قبرستانی سفارتکاری
دیکھا آپ نے جو میں نے دیکھا؟ وزیر اعظم ہاؤس میں بریفنگ کے موقع پر نہ آرمی چیف اشقاق پرویز کیانی ٹوپی پہنے ہوئے تھے اور نہ ہی انہوں نے نو منتخب وزیر اعظم کو سیلوٹ کیا لیکن حکمران پی پی پی اور اسکے اتحادی خوش ہیں کہ فوج نے پارلیمان کی بالادستی تسلیم کرلی۔
اور اسی پارلیمانی بالادستی کا بھرپور مظاہرہ پی پی پی کے جیالوں نے سندھ اسبملی میں کیا جب انہوں نے سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم پر جسمانی اور ذہنی تشدد کیا، اس حد تک کہ وہ اپنی رکنیت کا حلف نہیں اٹھا سکے۔ اس طرح سندھ میں پی پی پی کے رہنماؤں اور جیالوں نے صوبے میں کل کے اس ’پبلک اینیمی نمبر ون‘ کو حمکران پی پی پی کی سیاسی انتقام پسندی کی پہلی ’بوہنی‘ (کسی بھی بیوپاری کا پہلا گاہک ) بنادیا۔ جیالے، جو اپنے ہی وزیر اعلیٰ کو تھپڑ مار دینے کی شہرت رکھتے ہیں۔
سندھ کی پارلیمان نے جو دوسرا کام کیا، وہ وسطی سندھ کے لوگوں کو بینظیر بھٹو کے نام کے خلاف کرنے کی کوشش ہے۔ یعنی کہ صدیوں، سالوں سے شہر اور ضلع نواب شاہ کا نام تبدیل کر کے ’بینظیر بھٹو‘ رکھ دیا۔
وہ نواب شاہ ضلع جو ماسٹر چندر کے گیتوں اور کئي کہانیوں ناولوں میں تھا اب اسکا نام تبدیل کردیاگیا۔ ’آصف بھائي، قبرستانی اپنی کمال کی‘۔ بقول میرے ایک دوست ’گریویارڈ ڈپلومیسی‘ یا (قبرستانی سفارتکاری ) کرنے میں وہ اپنے آبائی ضلع اور شہر سے بھی نہ چوکتے ہوئے ایک تیر سے دو شکار کر گئے۔ دوسرا شکار وہ اپنے روایتی مقامی مخالفین شاہوں کو کر گئے جن کے بڑے سید نواب شاہ پر شہر اور ضلع کا نام تھا۔
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!
تبصرےتبصرہ کریں
حسن بھائي! زيادہ دير خوش ہونے کی ضرورت نہيں کہ ايک فوجی سربراہ چل کر وزيراعظم کے پاس گئے اور اتحاديوں کو بريفنگ دي۔ جہاں تک ارباب صاحب کی پہلے پٹائی اور اب ٹھکائی کی بات ہے تو يہ مکافات عمل ہے۔ زبان بہت کچھ کرواتی ہے۔ ارباب صاحب کو اندازہ ہوگيا ہوگا کہ اشٹيبلشمنٹ چڑھتے سورج کی پجاری ہوتی ہے۔ اب ان کو خيال آرہا ہوگا کہ کاش وہ کسی کم ہی سہی مگر عوامی پارٹی سے منسلک ہوتے تو ان کے ساتھ ايسا نازيبا و ناروا سلوک نہ ہوتا۔ جہاں تک زرداري کا قبروں پر حاضری وفاتحہ خوانی کا تعلق ہے تو ان کی اپنی پارٹی کے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ ان کو يہ توفيق نہ ہوئی کہ وہ ان کے مزاروں پر حاضری ديں جنہوں نے پارٹی کے ليے جان قربان کی۔۔۔
جناب حسن صاحب گزارش ہے کہ آصف صاحب نے سندھ میں تو ايک تير سے دو شکار کر ليے ہیں ليکن مرکز میں ججوں کے معاملے ميں چاليس تير چلا کر بھی ايک شکار ہوتا نظر نہیں آ رہا۔۔۔
بہت خوب حسن بھائی! میں تو پہلے ہی سمجھ گیا تھا کہ آپ کی نظر ذرا ہٹ کر ہی ہوگی۔ آپ نے آرمی چیف کی ٹوپی اور چھڑی پر جو نطر رکھی۔۔۔ اس نظر پر لاکھوں سلام۔ رہے بےچارے پی پی پی کے جیالے تو رہیے آگے ہوتا کیا ہے۔
حسن صاحب آداب، بہت ڈھونڈھنے سے بھي اس بلاگ میں کوئی مقصديت نظر نہیں آئي۔ اتنے اچھے رائٹر سے يہ توقع نہيں تھی کہ تحرير کو محض چٹپٹا بنانے کے شوق میں اس میں ذاتيات کا مسالحہ ڈالے گا۔ پتہ نہیں يہ کیسی خرابی ہے جو ساری تحرير تعصب سے بھری ہوئی ہے۔
ایک تو آپ کے بلاگ پر تبصرہ کرنا میرے لیے بہت ہی مشکل ہوتا ہے کہ کئی دفعہ آپ کی سائٹ اس کو قبول ہی نہیں کرتی۔
لکھو جی لکھو! جو بھی برا کرے اس پر لکھو۔۔۔
یہی صحافت ہے ۔۔۔
حسن جی ٹوپی کا کيا مسئلہ ہوگيا، يہ تو عموماً احترام کے ليے اتاری جاتی ہے، خلوص کے اظہار کے ليے بدلی جاتی ہے اور کسی کو پھنسانے کے ليے پہنا بھی دی جاتی ہے۔ ويسے عام محاورے ميں ٹوپی گھمائی بھی جاتی ہے۔۔ جانے آپ نے ٹوپی نہ پہننے کو منفی علامت کيوں جانا؟ پھر آپ نے نواب شاہ کا نام بدلنے کو بھي ’ٹوپي‘ سمجھ ليا حالانکہ نواب خاندان کبھی بھی زرداريوں کا رقيب نہيں رہا ہے۔ البتہ ارباب رحيم کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ نامناسب ہے مگر غير متوقع نہيں۔ ميرا خيال ہے ارباب صاحب کو کچھ روز اسمبلی اور جيالوں سے دور رہنا چاہيے تھا۔ سندھ ميں ان کے خلاف جذبات نہايت شديد ہيں اور پھر ارباب صاحب تو پاکستان کے چيف جسٹس بھی نہيں ہيں۔ ان کے خلاف چارج شيٹ پيش کرنا تو بہت آسان کام ہے۔۔۔
جيالے نئی حکومت کے پہلے دن سے جس اخلاق کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہ انہی کا خاصہ ہے۔
’جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے‘
واہ ری ’ٹین پرسنٹ‘ جمہوريت۔
حسن بھائی سلام
سب سے پہلے تو میں تاجدار عادل کا یہ شعر آپ کی نذر کرتا ہوں :
تم بھی دیکھو جو ہم نے دیکھا ہے
شعر میں اک نیا تماشا ہے
اور یہاں تماشوں کا سلسلہ تو بہت پہلے شروع ہو چکا تھا۔ ہماری پارلیمانی تاریخ تو ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ کرسیوں سے مار کھا کھا کر ایک سپیکر ادھ موا بھی یہیں ہوا۔ شہزادی کوثر گیلانی سے مخالف شخص کے چہرے پر سیاہی بھی تو انہی ایوانوں میں پھینکی گئی تھی۔۔ اور سپیکر کو گالیاں دیے جانے کا واقعہ بھی تو یہیں رونما ہوا تھا۔ رہے جیالے تو وہ تو رہنماوں کے اشارے کے منتظر ہوتے ہیں، اور پھر خود ارباب رحیم کی وہ ’بولیاں‘ کیوں کر بھلانے کے لائق ہیں جو انہوں نے مشرف کی ’شیری‘ میں عام کر رکھی تھیں۔۔۔ اسی لیے کہتے ہیں بولنے سے پہلے تولنا چاہیے۔۔۔ آپ نے ہمیشہ سلگتے ہوئے موضوع پر ہاتھ ڈالا۔۔۔ مبارک باد!
خاور چودھری
اب تو آپ کے بلاگز کا کوئی بھی مطلب نہیں ہوتا۔۔