اوبرے گاردو اور ساؤ پالو
لندن سے رت جگے سمیت بارہ گھنٹے کی پرواز کے باوجود اشتیاق تو ایمیزن جانے کا ہے اور خوب ہے لیکن ساؤ پالو کے گورولہوس انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر اترتے ہی دل خوش ہوگیا۔
برازیل معاشی ترقی میں چین اور بھارت کے اگر برابر نہیں تو کچھ زیادہ پیچھے بھی نہیں ہے۔ لگا کہ اپنے ہی ملک میں آگئے ہیں۔ وہی بدنظمی اور آپا دھاپی جو لاہور، کراچی، دلی یا ممبئی کے ہوائی اڈوں پر دیکھی جاسکتی ہے۔ ہوائی اڈے پر سامان حاصل کرنا ہو یا کسٹم کا مرحلہ طے کرنا ہو، بہت بہت لمبی لمبی قطاریں جو ہر تھوڑی دیر بعد قطار سے ہجوم بن جاتی تھی، گھر کا سا مزہ دے رہی تھیں۔ اور جب ہندوستانیوں اور پاکستانیوں جیسی شکلوں والے برازیلی قطاریں توڑنے پر جھگڑتے ہیں تو اپنوں جیسا پیار بھرا غصہ ہی آتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ بہت جلدی پرتگالی میں شکریہ اور جوابی شکریہ سیکھ لیا ہے۔ یار زندہ صحبت باقی۔ اوبرے گاردو۔
تبصرےتبصرہ کریں
خير مقدم ہے آپ کا کاشف قمر صاحب۔ زہے نصيب۔ نيا انداز اور نئے لکھنے والے۔ ميرا مطلب ہے کہ ميں نے آپ کو پہلی بار پڑھا ہے۔ خير سے کوئی ساتھ آٹھ سال سے ميں بہ پابندی اس ويب سائٹ کا مطالعہ کرتا آ رہا ہوں مگر شايد آپ کو پہلی بار پڑھا ہے۔ بہرحال ’آپ آئے، بہار آئی‘! چلیے ايک اور نيا انداز ہمیں پڑھنے کو مل گيا ہے۔ بچپن ميں کسی ميگزين ميں اميزن کی سير پڑھی تھی، گويا آپ نے بچپن کی ياد دلا دی ہے۔ خدا کرے زور قلم اور زيادہ۔۔۔
برازیل بڑا دلچسپ ملک ہے۔ یہاں کے لوگ بڑے گرم جوش ہوتے ہیں، خاص طور پر خواتین۔ باقی احتیاط ہی کریں برازیل بھی پاکستان ہی کی طرح ہے سیکورٹی کے معاملے میں۔۔۔
سمجھ نہیں سکا، کیا لکھا ہے آپ نے؟ سفر نامہ؟
جی کاشف قمر برازيل تو واقعی اپنے ديش جيسا ہی ہے۔ بڑے زندہ دل اور تعاون کرنے والے لوگ ہيں۔ بس انگريزی سے نہيں لگتی ليکن وہاں اشاروں کی زبان کی پھی بڑی پريکٹس ہو جاتی ہے۔ ميں جنوری 2008 ميں گيا تھا۔ کچھ دوست بھی بنا ليے ہيں۔ ريو ڈی جنيرو بھی ايک تاريخی شہر ہے، گو کوئی بھی برازيل کو بہت انجواے کرسکتا ہے۔ اوبرے گاردو!
اور کاشف بھائی اپنے دوستوں کو پاکستان آنے کی دعوت ضرور دیجیے گا۔ اللہ کرے پاکستان کے حالات ٹھیک ہو جائیں۔