موسم، مستی اور موج
کل کا دن سارے کا سارا سویرے سے رات گئے تک سفر میں گزرا لیکن ایمیزن میں صبح کا منظر دیکھ کر ساری کلفت دور ہوگئی۔
۔ اس وقت تیز بارش ہورہی ہے اور دوم نیستور کے اوپری عشرے کے ایک کونے سے یہ سطور لکھی جا رہی ہیں۔ قدرت کی اس صناعی کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ بھی ہوا کہ ایمیزن کی بربادی صرف ماحول کے لیے ہی تباہ کن نہیں ہوگی بلکہ آنے والی نسلیں بھی اس خوبصورت تخلیق سے محروم کر دی جائیں گی جو اپنی مثال آپ ہے۔ اس وقت صبح کے پونے سات بجے ہیں اور بارش اس قدر تیز ہے کہ دوم نیستور کا سفر جاری نہیں رہ سکتا لہٰذا اس کو جنگل کے ساتھ لگا کے کھڑا کر دیا گیا۔ ہم میں سے کچھ موسم ، مستی اور موج میلے کے ہاتھوں مغلوب ہیں اور بارش میں نہاتے زور زور سے کچھ الاپنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں گو بارش کے شور میں ان کی آواز کا زور کچھ زیادہ ہے نہیں۔ تھوڑی دیر میں ہمیں ایمیزن کے جنگل میں ایک ایسی جگہ جانا ہے جسے 'ریزور' قرار دیا جا چکا ہے یعنی جنگل کا وہ حصہ جہاں درخت کاٹنا قابل سزا جرم ہے۔ لگ بھگ تین سو لوگ محفوظ قرار دیے گئے جنگل کے اس حصے میں رہتے ہیں اور حکومت ان کو محض اس جگہ رہنے لیکن درخت نہ کاٹنے کے پیسے دیتی ہے۔ دیکھیے اگر بارش نے جانے دیا تو مزید کیا تفصیل پتہ چلتی ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
ميں آپکا والہانہ پن سمجھ سکتا ہوں کہ ميں نے يہ جنت سانیس سو بانوے ميں ديکھی تھی اور اب تک ميرا دل وہيں کہيں پڑا ہے۔
’بارش تھی لگا تار تو يوں گرد تھی مفقود
جسطرح مئےناب سے دُھل جاتے ہيں کينے‘
ايسے قارئين کےليۓ جو کتابوں کي بجائے صرف فلميں ديکھتے ہيں، حفظ ماتقدم کے طور پر ترجمہ حاضر ہے تاکہ وہ ڈکشنري ديکھنے کي زحمت سے محفوظ رہيں:
’مسلسل و تيز بارش سے گرد يوں ختم ہوجاتي ہے جيسے خالص شراب دل سے بُغض وعناد اور کينے کو دھو ديتي ہے‘۔
کاشف قمر صاحب ياد بخير۔ ہمارے خطے ميں بھی کبھی وادی جنت نظير يعنی سوات ميں جنگلات کے درخت کاٹنا سختی سے ممنوع تھا اور چاروں جانب فطری ہريالی ہی ہريالی تھی ليکن جب ٹمبر مافيا نے يہاں پنجے گاڑے تو ہرا بھرا جنگل اجاڑ ہوگيا۔ اب مزيد حالات اس قدر سنگين انداز ميں خراب ہوئے ہیں کہ يہ پرامن خطہ دہشت گردوں کی آماجگاہ ميں تبديل ہوگيا ہے۔ جانے کس کی نظر لگ گئی کہ اب يہاں کشت و خون کا ابليسی رقص جاری ہے۔ آپ نے تو ايسے حسين علاقے ميں سياحت کا سفر بلا خوف و خطر اختيار کر رکھا ہے جبکہ یہاں سياحت دم توڑ رہی ہے جس کا کوئی بروقت علاج معالجہ يا ترياق نہيں۔
درخت نہ کاٹنے کے حکومت پيسے ديتی ہے اور رہائش بھی، واہ۔ ذرا سادی اردو لکھيں تاکہ سب سمجھ آئے، بارش سے ياد آيا کہ ادھر تو بارش کی دعا ہم لوگ خوب دل اور دماغ لگا کر کرتے رہتے ہيں ليکن بارش ميں الاپنے کی غلطی کبھی نہيں کرتے کہيں اوپر سے بارش کی جگہ پتھر نہ آنے لگ جائيں۔ ويسے بلاگ کے ساتھ جہاں کا ذکر ہو اس جگہ کی تصوير بھی ہونی چاہيۓ تاکہ دلچسپی بڑھے۔۔۔۔۔؟
کاشف صا حب، آپ بھی ہماری طرح کے چٹےان پڑھ لگتا ہیں؟
کیا کہنا قدرت کے نظاروں کا، میرا دل کر رہا ہے کہ کاش میں بھی آپ کے ساتھ وہاں ہوتا۔
آداب ! کاشف صاحب لگتا ہے قارئين کی تنقيد رنگ لا رہی ہے۔ آج کی قسط ميں تو آپ نے کمال قلم کاری سے سفر کا حق ادا کر ديا ہے۔ شکر ہے وہاں کی حکومت اپنے(پاکستاني) محکمہ جنگلات کے اہل کاروں کی طرح بجاۓ تخفظ کرنےکے، کاٹنے کے دام نہيں ديتی اور نہ ہی وہاں سندھ کے جنگلات کی طرح ڈاکوؤں کی کميں گاہيں ہيں ورنہ نہ ہوتا ايميزن يا جو ہوتا وہاں ڈاکوؤں کا راج تو آپ يا آپ جيسے لوگ بھلا وہاں جاتے ہی کيوں؟ اور ہاں بارش سے پوچھ لينا نماز استسقاء پاکستان ميں ہوتی ہے تو تو يہاں کيوں؟؟؟؟
مخلص