تکبیر امن پرندے کو
الٹی گنتی تو 'بقول امیتاو گھوش' اس دن شروع ہو چکی تھی جب پہلے شاعر وزیر اعظم اٹل بہاری باجپئي نے اور پھر 'جواب در آں غزل' کے مصداق نواز شریف حکومت نے بھی وسیع تباہی کے سازوں اور سامانوں کا اہتمام کر ہی ڈالا۔ دھماکہ جواب دھماکہ کی تخلیق۔۔۔
اس سے صرف ایک دن پہلے بینظیر بھٹو نے بھی اپنے تب کے حریف اور پھر بعد کے بھائی نواز شریف کی جانب اپنی چوڑیاں توڑ کر پھینکیں اور اسے 'مرد انگی' کا طعنہ دیتے ہوئے بھارت کے جواب میں دھماکے پر اکسایا تھا۔
برصغیر میں فوجی آمروں، ایمٹی دھماکوں اور ایٹمی جنگ کے خطروں سے زیادہ کوئی لچر فلم ہو ہی نہیں سکتی۔ لچر بات یہ بھی ہے کہ بھارت نے ایسے بم کو 'سمائلنگ بدھا' کا نام دیا، پاکستان نے اپنے بم کو 'اسلامی بم' کہا اور نواز شریف حکومت اور پارٹی نے اس دن کو 'یوم تکبیر' قرار دیا۔
واقعی امن کے پرندے اور ہمارے بچوں کے مستقبل کو 'تکبیر' ڈالنے کا دن۔
یہ تو کوئی چاغی اور پوکھرن کے چرواہوں سے پوچھے کہ ان کے پہاڑ اور صحراؤں کے رنگ موت کے رنگوں میں کیسے بدلے؟ یا پھر ہیروشمیا اور ناگاساکی کے حملوں میں بچے ہوئے لوگوں سے۔ مگر اسلام آباد اور لاہور کی اشرافیہ کے کوٹھے، کوٹھیوں کے ڈرائنگ روموں میں ریڈیو ایکٹو زدہ چاغی کے پہاڑوں کے جھوٹے سچے پتھر 'قومی سووینیئر' کے طور پر آج بھی سجے ہوئے ہوں گے۔
میرے ایک دوست کہتے ہیں 'ہتھیار تو لوگوں کی حفاظت کے لیے ہوتے ہیں لیکن ہماری قوم ہے کہ اپنے ہتھیار کی حفاظت کررہی ہے۔ امریکہ میں اردو کی ایک اچھی شاعرہ قانع ادا کا اک شعر ہے:
'اس نے کہا تھا دنیا کتنی اچھی ہے
میں نےکہا تھا جب تک نہ ہتھیار چلے'
بالکل جان لینن کے اس گیت کی طرح 'ہم بس اتنا کہہ رہے ہیں کہ امن کو ایک موقع ملنا چاہیے' یا جیسے ایک سندھی صوفی نے کہا:
'چاغی اور پوکھران پر حملہ
اللہ اور بھگوان پر حملہ'
لیکن توپخانوں اور بارود خانوں میں امن کے پرندوں کے بول کون سنتا ہے۔ دھماکہ خیز لیڈروں، ایمٹی نشے میں غلطاں جنریلوں اور سمگلر سائسندانوں نے کانوں میں کپاس ڈالی ہوئي تھی۔ کسی سیانے نے کہا: 'ہم ایسے فقیر ٹھہرے کہ جس کے ایک ہاتھ میں پستول اور دوسرے میں کشکول ہے'۔
تبصرےتبصرہ کریں
جناب آج کل کے دور میں اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ضروری ہو گیا ہے۔
قصائی کو روٹی کی اور نانبائی کو گوشت کی ضرورت ہوتی ہے گويا دونوں ايک دوسرے کيلۓ لازم وملزوم ہيں، دونوں ايک دوسرے کی ضرورتيں پوری کرتے ہيں لہذا ان کے درميان اچھے اور خوشگوار تعلقات کا ہونا اشد ضروی ہے۔ چند لمحات کيلۓ فرض کرليتے ہيں کہ قصائی ايک آزاد ملک ہے اور اسی طرح نانبائی ايک دوسرا آزاد و خود مختار ملک اور ان کے درميان گوشت کے ٹکڑوں اور روٹيوں کے تبادلے کی شرح کا تعين بجائے محبت، انسانيت اور اخلاقي اقدار کے اسلحہ چلانے کی مہارت نے کرنا ہے تو اس صورتِ حال ميں ان کے درميان اچھے تعلقات کے قائم رہنے کا اللہ ہی حافظ ہے۔ يہ حتمی بات ہے کہ جب تک چار پايوں والی مخلوق باہمی تعاون، محبت اور رواداری کو اسلحہ اور امارت کی جگہ پر نہيں بٹھاتی تب تک اس مخلوق کے سروں پر تباہی کا بادل چھايا رہے گا۔ دنيا ميں خوشی کا بيج بونے کيلیے قاتل مشينوں (جوہری ہتھيار، آتشيں اسلحہ) کو جو کہ فصلوں کی نسبت لاشوں کے انبار لگاتی ہيں،ختم کرنا ہوگا، بصورت ديگر خداحافظ جاندار مخلوقات۔۔۔۔
’ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کرديا ہے نوع انسان کو
اخوت کا بياں ہوجا محبت کي زباں ہوجا‘
کالم کے آغاز میں دونوں ملکوں بھارت اور پاکستان کو پکڑا اور آخر میں سارا زور پاکستان پر لگادیا۔ آپ کی کیا مجبوری ہے کہ پاکستان کو برا بھلا کہنا ہے؟
سلام! کیا کریں، آج کل سب کا زور پاکستان پر ہی نکل رہا ہے۔
انڈيا پاکستان ايک ہی جيسے دو ملک ہیں۔ بس انڈيا زيادہ پرامن ہے۔ میں اب بھی جب ہل پارک جاتی ہوں تو غوری ميزائیل کے ماڈل کو ديکھ کر يہی سوچتی ہوں کہ کشکول ہر ايک کے ہاتھ میں پکڑوانے کا ذمہ دار يہي ہے۔ ايٹمی دھماکوں کے بعد تو جس نے کبھی زندگی میں کشکول نہیں پکڑے تھے وہ بھی ہاتھ پھيلانے پر مجبور ہوگئے اور جس نے کروائے اور عوام کو ٹوپی پہنائی جذباتی تقرير کر کے انکے تو چہرے اپنے ڈرائنگ روم جتنے چوڑے اور مزيد سرخ و سفيد ہوگئے، ’ہيئر‘ آگئے سٹائل سميت۔ ليکن ہم عوام ليڈر بھی تو اسے ہی کہتے ہیں اور نعرہ تکبير تو ہر قصائی لگاتا ہے، چاہے انسان کے لیے ہو يا جانور۔۔۔ بس اخلاص اور خوف خدا نہیں!
ماشااللہ بہت اچھا لکھا ہے، مگر پاکستان کے یوم تکبیر پر ہی کیوں؟ بھارت کے یوم ’تکبر‘ پر آپ کہیں امن کی فاختائیں پکڑنے تو نہیں گئے تھے کہ انہیں یوم تکبیر پر تکبیر پڑھ کر پاکستان کے نام کی قربانی دیں گے۔۔؟ واہ رے آپ کی ’غیر جانبداری‘ ۔۔ اور ہاں اس نے صحیح کہا تھا ’اس نے کہا تھا دنیا کتنی اچھی ہے، میں نےکہا تھا جب تک نہ ہتھیار چلے‘۔۔۔ اب دنیا کو برا کس نے بنایا۔۔۔ پہلے ہتھیار چلانے والے نے یا پھر ڈھال بنانے والے نے؟؟
مُنير نيازی نے ٹھيک ہی تو کہا تھا:
’کُجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کُجھ ساہنُوں مرن دا شوق وی سي!‘
آخر آپ پاکستان کی مخالفت ثابت کر کے کس کو خوش کرنا چاہتے ہیں؟ابتدا تو دونوں سے کی مگر سارا زور پاکستان پر لگا دیا۔ اللہ ہی آپ پر رحم کرے۔
حسن مجتبي صاحب سے درخواست ہےکہ جاگ جائيں زمانہ بدل گيا ہے
’تم تو مقتل انساں سے گزر کر آئے
ہم سے تو ٹوٹا ہوا پتہ بھی نہ ديکھا جائے‘
آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں مگر پلیز ہمارے سائنس دانوں پر الزام نہ لگائیں۔۔۔
امن ايک خواب ہے اور بھارت کا بم ايک حقيقت۔ لاکھ نفرت سہی بارود سے پر ايٹم بم کا جواب ايٹم بم ہی ہو سکتا ہے کيونکہ کچھ لوگ اگر بھارت میں حکمران بنے تو دو منٹ میں ايٹم بم پھينک دينگے پاکستان پر۔ امن کتابوں میں ملتا پر زندگی ’کنٹريز اينڈ باؤنڈريز‘ میں گزارنی پڑتی ہے۔
امن کا پرندہ تو مدت ہوئی اڑ چکا! اب اسے چاہے ’يوم تکبير‘ قرار ديں يا ’يوم تدبير‘ اور يا پھر ’ تقدير کا ڈنڈا‘۔۔۔
آداب! پاکستان کي جوہری اسلحہ اور ميزائل کي صلاحيت پر انگلي اٹھانے والے يہ کيوں بھول جاتے ہيں کہ لحد کی رہائش مشکل سہی مگر مردے کی تو مجبوری ہوتی ہے کے مصداق پاکستان کی بقا وسالميت کے لیے کسی بھی قيمت پر اس کے لیے اس صلاحيت کے حصول کو ناگزير بنا ديا گيا تھا۔ ہم پر مسلط کی گئی ماضی کی جنگيں اور ہمارے ايٹمی دھماکوں سے کچھ روز پہلے تک بھارت سرکار کے لب ولہجہ نے ہی محترمہ بےنظير مرحومہ جيسی معتدل اور مغرب نواز شخصيت کو چوڑياں نوازشريف صاحب کی طرف پھينکنے پر مجبور کيا تھا۔ ويسے بھی جوہری ہتھياروں ميں اب اتنی جدت پيدا کی گئی ہے کہ اسکے ايک ہی بار کے استعمال سے ماضی کے برعکس شہروں کے شہر ہی نہيں، کئي ممالک بلکہ شايد دنيا ہی تباہ ہو سکتی ہے تو ايک پاکستان ہی کے ہتھياروں پر اتنی تشويش ’چہ معنی دارد؟‘ دنيا کو محفوظ بنانا ہی مقصود ہو تو ساری دنيا کو کيمياوی و حياتياتی ہتھياروں سے ايک دم فلٹر کيا جانا ضروری ہے۔ مخلص
حسن آپ ’اینٹی پاکستان‘ ہیں۔۔
حسن مجتبی صاحب آپ نے کبھی اس ملک کے بارے میں کچھ لکھا ہے جس نے جوہری اسلحہ کا استعمال کیا؟ آپ کا تعصب آپ کے الفاظ میں صاف نظر آتا ہے۔۔۔
ہمیں فخر ہے کہ حسن اب بھی ہمارے ملک کی مردہ عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جنگ لاحاصل عمل ہے۔۔۔
کالم کے آغاز میں دونوں ملکوں بھارت اور پاکستان کو پکڑا اور آخر میں سارا زور پاکستان پر لگا دیا۔ آپ کی کیا مجبوری ہے کہ پاکستان کو برا بھلا کہنا ہے؟
حسن صاحب اگر پاکستان نے برا کيا تو آپ يہاں کيوں ہیں؟ شرم آپ کو مگر نہیں آتی!