مشرف، یوسف اور مجرا
عبداللہ یوسف کے پیچھے ایک ہنگامہ بپا ہے۔ تنقید اور احتجاج کے تیر تفنگ ہیں۔
عبداللہ یوسف نے میڈم نورجہان کے گانے 'سانوں نہر والے پل تے بلا کے' پر ایک تقریب میں ڈانس کیا جو حال ہی میں 'یو ٹیوب' پر ایک ویڈیو کی صورت میں جاری ہوا ہے۔ مردوں کے سماج میں ایک مرد کا رقص بھائي لوگوں کو بہت ناگوار گزرا ہے۔
چند منٹوں کے لیے بھول جائيے کہ عبداللہ یوسف پاکستان میں وفاقی روینیو بورڈ کے چیئرمین ہیں اور جس تقریب میں انہوں نے ڈانس کیا وہاں مشرف اور شوکت عزیز جیسے حکمران بھی موجود تھے جن کے سامنے یہ پاکستان کی نوکر شاہی کے ایک سینئر رکن امراؤ جان ادا بنے ہوئے تھے۔ آپ یہ کہنے میں بجا ہونگے کہ 'جب روم جل رہا تھا تو نیرو بنسی بجا رہا تھا'!
لیکن اگر آپ میری اور میرے دوست افتی نسیم کی آنکھ سے 'یو ٹیوب' کی یہ وڈیو دیکھیں تو اس تقریب میں موجود مشرف، یوسف اور اس کے ڈانس پر فدا ہوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ تقریب کس قسم کی تھی اور وہاں موجود لوگوں کے اصل موڈ کیا ہونگے! لیکن سینئر بیورو کریٹ عبداللہ یوسف جب مشرف کو ڈانس کے لیے ہاتھ پکڑ کر لے آتے ہیں تو کمیرے آف کیے جاتے ہیں۔
بس یہیں سے منافقت شروع ہوتی ہے ہمارے حکمرانوں، ملک اور عوام کی۔ کوئی مجھے بتا رہا تھا کہ جنرل مشرف 'چھیاں چھیاں' پر بڑا اچھا ڈانس کرتے ہیں۔ لیکن سب اب تک آف کیمرہ ہے۔
لیکن مجھے داد دینا پڑتی ہے یو ٹیوب کے ساتھ عبداللہ یوسف کی جو ملاؤں اور جنریلوں کے ملک میں ایسی تصویر بنے ہوئے ہیں! یو ٹیوب نے اس وی وی آئی پی مجرے کو عوامی بنادیا ہے۔ ورنہ ایک ایسا ملک جہاں ایک وزیر اعلی کو فقط اس لیے ہٹایا گیا تھا کہ ہر شب وہ 'ڈریگ' یا زنانہ لباس پہن کر رقص پارٹیاں کیا کرتے تھے وہاں عبد اللہ یوسف ایک نیا ایڈیشن ہیں اگر چہ انکا یہ ناچ یار منانے کی بجائے وڈی تے اصلی سرکار مناون ہی لگتا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
فرق پڑتا ہے صحيح قيادت سے۔ صحيح فيصلوں سے۔ بات تو احساس کی ہے۔ ہم نوکری پکّی کرنے کے ليے کچھ بھی کر سکتے ہیں، يہ تو ايک ادنٰی سا مظاہرہ تھا۔ ملک جل رہا ہے اور يہ مجرے کر اور ديکھ رہے ہیں۔ يا الٰہی ہمیں اس آزمائش سے نکال لے۔۔۔
ارباب اختيار شرم کرو۔۔۔
پاکستان کی يہ بدقسمتی ہے کہ ہميشہ يہاں اشٹيبلشمنٹ والے حکمرانوں اور حکمران امريکہ کے سامنے ناچ کر اپنا الو سيدھا کرتے رہے۔۔۔
مجرا کی جگہ اگر آپ ڈانس لکھ ديتے تو بہتر تھا۔ ويسے برائی ہی کيا ہے ڈانس کرنے ميں اور جس طرح مرد حضرات بہتر ’کُکس‘ ہوتے ہيں خواتين کے مقابلے ميں، اسی طرح ڈانسر بھی بہترين ہوتے ہيں۔ عبداللہ يوسف تو واقعی چيتا نکلے۔ اپنے ملک سے سچی محبت کرتے ہيں تبھی تو نورجہاں کے گانے پر شروع ہوگئے! کيمرے مشرف کی فرمائش پر بند اس لیے ہوئے کيونکہ ماڈريشن کے مارے ہیں لبرل انسان اور ڈانس کرتے ہیں ’بيڑی جلائی لے‘، ’بلو رانی‘ پر اور شايد کيمرا بھی ان کے سٹيپس برداشت نہ کر پاتا، ہم تو پھر بھی عوام ہيں بھلا برا کہہ کر ديکھتے ليکن بڑے شوق سے!
جانے وہ وزیر اعلی کون تھے جن کو فقط اس لیے ہٹایا گیا تھا کہ ہر شب وہ ’ڈریگ‘ یا زنانہ لباس پہن کر رقص پارٹیاں کیا کرتے تھے؟
غالباً بابا بُلہے شاہ نے کہا تھا:
’کنجری بنياں، ميری ذات نہ گھٹدی
مينوں نچ کے يار مناون دے !‘
جوکچھ ہو رہا ہے بہت شرم کی بات ہے۔ ہم دنيا کو تماشا دکھا رہے ہیں۔۔۔
کچھ عوام کا بھی حق ہے، یار کبھی ہمیں بھی جھلک دکھلاؤ!
بندر اور ڈُگڈُگی کا ’بچہ جمُورا‘ کا تماشہ بھی تو يہی ہوتا ہے۔ ـ
بہت اچھے عبداللہ یوسف! آپ کی جرات کی داد دینی پڑے گی۔