یہ کیسی دوستی
پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لاین سٹیٹ ہے اور گذشتہ سات برسوں میں اس مہم میں جتنا اسکا خون بہا ہے اور جتنی اسکی سبکی ہوئ ہے اسکا اندازہ صرف اور صرف ان لوگوں کو ہے جو قبایلی علاقوں میں اب آسمان کی جانب ٹکٹکی لگاۓ بیٹھے رہتے ہیں کہ کوئئ اور ڈرون ان پر مزایل نہ گراۓ۔
ہزاروں اپنی زندگی سے محروم ہوگۓ ہیں ہزاروں زخمی علاج معالجے کو ترس رہے ہیں۔ اور جو زندہ ہیں ان میں لاکھوں اپنے گھر بار چھوڑ کر جاۓ پناہ کی تلاش میں در در بھٹک رہے ہیں۔
دہشت گردی کی یہ جنگ تو افغانستان میں طالبان کے خلاف لڑی جانی تھی مگر اسکا محور تبدیل ہوکر پاکستان کے قبایل علاقے بن گۓ جہاں اتحادی فوج کے مطابق القایدہ اور ان کے حامیوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔
یہ بات کوئی ماننے کے لۓ تیار نہیں کہ امریکی ڈرون حکومت پاکستان کی اجازت کے بغیرقبایلی علاقوں پر میزایل گر ارہے ہیں البتہ حکومت کو اپنے لوگوں سے سچ کہنے میں شاید شرم آتی ہے اسلۓ کہ بعض امور پر اب خود اسے کوئی کنٹرول نہیں رہا۔
سن سنتالیس کی آزادی کے بعد جب بھارت اور پاکستان دو بڑی طاقتوں کی جھولی میں پڑے بھارت نے بڑی چالاکی سے اپنے آپ کو روس کے قریب رکھکر بھی اپنی جڑیں مظبوط کردیں پاکستان ایسا نہیں کرسکا اور امریکی مداخلت اور اثرو رسوخ میں اتنا غرق ہواکہ بعض مرتبہ گمان ہوتا ہے کہ کہیں یہ اسکی اکیاون ریاست تو نہیں۔
جب جنرل مشرف نے ناین الیون کے بعدامریکہ کا ساتھ دینے کا اعلان کیا بعض مبصرین نے اس وقت کہا تھا کہ جنرل نے ایک بڑا داو کھیلا کیونکہ بھارت اس جنگ میں امریکہ کا مکمل ساتھ دینا چاہتا تھا تاکہ وہ اسکی بدولت کشمیر میں ہونے والی ملیٹینسی کا پاکستان سے اپنا پچھلاحساب برابر کر سکے مگر مشرف نے حالات کو سمجھ کے اس جنگ کا رخ تبدیل کردیا۔
سات سال گذرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ مشرف نے جو داو کھیلا اس میں پاکستان خود پھنس گیا اور ایسا پھنسا کہ عالمی ادارے چیخ چیخ کر اب کہنے لگے ہیں کہ پاکستان دنیا کا سب سے خطرناک ملک بن گیا ہے۔
پاکستان کو خطرناک بنانے کے پھچے کیا حکمت عملی ہے اور اسکے جوہری اثاثے کو محفوظ بنانے کے کیا اقدامات کۓ جارہے ہیں اس پر اندازہ کرنا کوئی مشکل نہیں مگر موجودہ حالات میں جو بات عجیب لگتی ہے وہ یہ کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان جوہری ٹیکنالوجی سے لے کر سیاسی امور تک کے معاملات میں دوستی عروج کو پہنچی ہے اور پاکستان کو چند ٹکے دیکرپہلے بہلایا جارہا ہے پھر دہشتگردی کے خلاف اسکی کوششوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے عالمی ادارے کے عملے کو ملک سے نکالا جارہا ہے ملک کو "وار زون" قرار دیا جارہا ہے تجارت برباد ہورہی ہے لوگ گھبراۓ اور سہمتے جارہے ہیں۔
اس پر ستم یہ کہ پاکستانی حکمران کہتے ہوۓ تھکتے نہیں کہ امریکہ پاکستان کا دوست ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
نعيمہ بہن
آپ کی تحرير پڑھ کر ہر لفظ پر يوں لگا کہ گويا يہ بھی ميرے دل ميں تھا-
دعا گو
مياں آصف محمود
جس جس نے بی امريکہ سے دوستی کی اس کا حشر يہی ہوا
محترمہ باجی صاحبہ، یہ تو امریکا کی دوغلا پن ہے۔ بجائے پاکستان کے آپ کو امریکہ کے متعلق لکھنا چاہیے۔
ہوئے تم دوست جس کے
دشمن اسکا آسماں کيوں ہو
اور
دوست نے وہ کام کيا ہے دشمن نہ کرے کوئی
السلامُ عليکُم
نعيمہ جی سب سے پہلے آپ کو اور بی بی سی کے سب بلاگرز ،جُملہ قارئين ، لِکھاريوں اور عملے کو عيد مُبارک اور اُس کے بعد صرف ايک بات کہُوں گی کہ جب کسی بھيڑيے کو بھيڑوں کا رکھوالا بنا ديا جاۓ تو ايسا ہی ہُوا کرتا ہے جيسا اِس وقت پاکستان کے ساتھ ہو رہا ہے اور اپنے طور پر جب اپنی پاليسيوں ميں ايسی تراميم کی جاتی ہيں تو سزا اوّل و آخر عام عوام کو ہی بُھگتنی پڑتی ہے بڑے شہ تو صاف بچ کر نِکل ہی جايا کرتے ہيں کبھی لندن ،کبھی دُوبئ اور کبھی کہيں اور سو ايسے ميں جو قابُو آۓ وہ عوام ہی ہے نا سو ڈيزی کٹر ہوں يا ڈرون سے گِراۓ جانے والے ميزائيل ہم پھر بھی کہے جائيں گے پاک امريکہ دوستی زندہ باد جبکہ وہاں نا دوستی ہے اور نا ہی دوستی کوزِندہ رکھنے کی کوئ خواہش ،بقول آپ کے چند ٹکے دے کر بہلايا جا رہا ہے اور واقعی اللہ نا کرے کہيں ہم اکياونويں رياست تو نہيں بن گۓ
بچوں سا ايک شعر ہے کسی بچے سے ہی سُنا تھا
کيا شرمِندگی سی شرمِندگی ہے
يہ بھی کوئ زِندگی ہے
السلامُ عليکُم
نعيمہ جی سب سے پہلے آپ کو اور بی بی سی کے سب بلاگرز ،جُملہ قارئين ، لِکھاريوں اور عملے کو عيد مُبارک اور اُس کے بعد صرف ايک بات کہُوں گی کہ جب کسی بھيڑيے کو بھيڑوں کا رکھوالا بنا ديا جائے تو ايسا ہی ہُوا کرتا ہے جيسا اِس وقت پاکستان کے ساتھ ہو رہا ہے اور اپنے طور پر جب اپنی پاليسيوں ميں ايسی تراميم کی جاتی ہيں تو سزا اوّل و آخر عام عوام کو ہی بُھگتنی پڑتی ہے بڑے شہ تو صاف بچ کر نِکل ہی جايا کرتے ہيں کبھی لندن ،کبھی دُبئی اور کبھی کہيں اور سو ايسے ميں جو قابُو آئے وہ عوام ہی ہے نا سو ڈيزی کٹر ہوں يا ڈرون سے گِرائے جانے والے ميزائيل ہم پھر بھی کہے جائيں گے پاک امريکہ دوستی زندہ باد جبکہ وہاں نا دوستی ہے اور نا ہی دوستی کوزِندہ رکھنے کی کوئی خواہش ،بقول آپ کے چند ٹکے دے کر بہلايا جا رہا ہے اور واقعی اللہ نا کرے کہيں ہم اکياونويں رياست تو نہيں بن گۓ
بچوں سا ايک شعر ہے کسی بچے سے ہی سُنا تھا
کيا شرمِندگی سی شرمِندگی ہے
يہ بھی کوئی زِندگی ہے
آپ کا بہت بحت شکريہ کہ آپ نے 9\11 کو ہونے والے سانحے کے بارے ميں تاريخی حالات کی ياد دہانی کرائی ـ يہ سچ ہے کہ اس وقت بھارت عملی طور پر ہر اس طريقے سے امريکی سامراج کی مدد کے لۓ پوری طرح تيار تھا جس سے اس کو فائدہ اور پاکستان اور کشمير کے پاکستانی موقف کو نقصان ہوتا ۔ صدر جعلی بھٹو ماضی ميں مياں برادران کی خوشنودی کے لۓ راگ الاپتے رہے ہيں کہ مشرف کے جانے سے ہی قبءلی علاقوں کے حالات ٹھيک ہوں گے ۔ آپ نے اپنے ابتدائی تبصرے ميں بالکل ٹھيک فرمايا کہ ايسا ممکن نہيں کہ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے اس ميں حکومت کی مرضی شامل نہ ہو ۔ يہ ظالم اور خود غرض حکمران بزدل ہی نہيں بلکہ بےشرم بھی ہيں ۔ جو شخص اپنی شريک حيات کو منظر سے ہٹا سکتا ہے اس کے لۓ عام آدمی چيونٹی سے بھی بدتر ہے ـ خدا نہ کرے کہ ملک کی سالميت کو نقصان ہو ـ مگر ہميں يہ نہيں بھولنا چاہیے کہ ريت ميں منہ چھپانے سے شتر مرغ کی جان نہيں بچتی ۔ زرداري، مياں برادرن ، اور بھٹو صاحبان سے دست بستہ التجا ہے کہ خدا اور اس کے رسول ص کا واسطہ بہت لوٹ چکے بہت فتل و غارت مچوا چکے تم سب کو بھی مرنا ہے ۔ عذاب قبر کو ياد کرو اورڈرو آنے والے وقت سے اور اس مفلوک الحال قوم اس کے حال پہ اور اللہ کے حوالے چھوڑ دو ـ
آپ کا بہت بحت شکريہ کہ آپ نے 9\11 کو ہونے والے سانحے کے بارے ميں تاريخی حالات کی ياد دہانی کرائ ـ يہ سچ ہے کہ اس وقت بھارت عملی طور پر ہر اس طريقے سے امريکی سامراج کی مدد کے لۓ پوری طرح تيار تھا جس سے اس کو فاءدہ اور پاکستان اور کشمير کے پاکستانی موقف کو نقصان ہوتا ۔ آپ نے اپنے ابتدائ تبصرے ميں بالکل ٹھيک فرمايا کہ ايسا ممکن نہيں کہ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے اس ميں حکومت کی مرضی شامل نہ ہو ۔ يہ ظالم اور خود غرض حکمران بزدل ہی نہيں بلکہ بےشرم بھی ہيں ۔ خدا نہ کرے کہ ملک کی سالميت کو نقصان ہو ـ مگر ہميں يہ نہيں بھولنا چاہۓ کہ ريت ميں منہ چھپانے سے شتر مرغ کی جان نہيں بچتی ۔ زرداري، مياں برادرن ، اور بھٹو صاحبان سے دست بستہ التجا ہے کہ خدا اور اس کے رسول ص کا واسطہ بہت لوٹ چکے بہت فتل و غارت مچوا چکے تم سب کو بھی مرنا ہے ۔ عذاب قبر کو ياد کرو اورڈرو آنے والے وقت سے اور اس مفلوک الحال قوم اس کے حال پہ اور اللہ کے حوالے چھوڑ دو ـ
بلکل ٹھيک مگر انہيں کون نظريہ بھٹو بتاہے کہ يہ سفيد ہاتھی ہمارے نہيں ہيں .
موجودہ حالات کی وجوہات جاننے کےلۓ بہت زيادہ ريسرچ کی ضرورت ہی نہيں ہے - نااہل` کم تعليم يافتہ اور ذاتی مفادات کی ہوس کا شکار قيادت اور عوام سے جو نتاۂج متوقع ہوسکتے ہيں وہی نتاۂج حاصل ہو رہے ہيں-
خوب کہا
کیسی دوستی اور کہاں کی دوستی۔۔۔۔۔۔
ہجوم بھی کبھی کسی کا دوست ہوا ہے، پاکستان اس وقت ایک ہجوم ہی تو ہے، کیا عوام اور کیا حکمران، میرا تو یقین کامل ہے کہ موجودہ حکومت پاکستان کی واحد منتخب جمہوری حکومت ہے جس میں شامل تمام کرتا دھرتا ایک سے بڑھ کر ایک مسخرے، جھوٹے، مکار اور بے حیا ہیں، ایسے لوگوں کو امریکہ جیسی سپر پاور تو کیا، افغانستان جیسا ملک بھی اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنا چاہے تو بڑے آرام سے کر سکتا ہے، بس مناسب قیمت لگانے کی دیر ہے، یہ نہ تو پاکستانی ہیں نہ ان کو پاکستانیوں سے کوئی رشتہ، یہ بھی دن دیکھنا تھے کہ جنرل ضیاءکے ذاتی ملازم مشیر مداخلہ کے ہاتھ میں پیپلزپارٹی کی ڈور تھما دی جائے گی۔۔۔۔ ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا۔۔۔۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
عبدالستار زاہد چودھری۔۔۔ لاہور
بھارت امريکہ جوہری معاہدہ پر پاکستان کا امريکہ سے شکوہ يا ردِعمل کچھ يوں بھی بيان کيا جاسکتا ہے بقول ليجنڈ سپر سٹار سنگر لتا منگيشکر:
'اگر بيوفا تجھ کو پہچان جاتے
خدا کی قسم ہم محبت نہ کرتے
جو معلوم ہوتا يہ انجامِ الفت
تو دل کو لگانے کی جرآت نہ کرتے
جسے پُھول سمجھا وہی خار نکلا
تيری طرح جھوٹا تيرا پيار نکلا
جو اٹھ جاتے پہلے ہی آنکھوں سے پردے
تو بھولے سے بھی ہم تو الفت نہ کرتے
ميرا دل تھا شيشہ ہوا چُور ايسا
کہ اب لاکھ جوڑو تو جُڑ نہ سکے گا
تو پتھر کا بُت ہے پتہ گر يہ ہوتا
تو دل کو ٹوٹنے کي شکايت نہ کرتے
اگر بيوفا تجھ کو پہچان جاتے
خدا کی قسم ہم محبت نہ کرتے '