'میں طالب ہوں'
اس وقت میرے پاس ایک خط ہے جو پاکستان کے ایک شہری نے حکومتِ پاکستان کو مخاطب کر کے لکھا ہے۔ خط میں اس شخص کا کرب اور غصہ تو صاف عیاں ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کی بے بسی بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ خط کا عنوان ہے 'ہمارے کام دیکھو انجام خود نظر آ جائے گا۔'
یہ خط کسی رضی الدین خان نے لکھا ہے جس نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا ہے کہ 'رضی الدین خان جس کا باپ امریکی میزائل حملے میں شہید ہوا اور باقی گھر والے اپنی فوج کے بموں سے ختم ہو گئے اور رضی سسکیاں اور آہیں بھرنے کے لیے بچ گیا۔'
معلوم نہیں کہ ایسے کتنے بد قسمت رضی ہوں گے جن کو تقدیر ایسے موڑ پر لے آئی ہو گی کہ وہ اپنی زندگی سے ہی مایوس ہوگئے ہوں گے۔ جس کے اپنے پیارے اس سے چھین لیے جاتے ہیں اس سے اور کیا امید کی جا سکتی ہے۔
رضی الدین اپنے خط میں کہتے ہیں کہ 'حکومت اور فوج اپنے ملک کے محافظ و ماں باپ ہوتے ہیں۔ ان کے دکھ درد دور کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔' وہ فوج اور حکومت سے ایک سوال کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: 'جن کے کہنے پر اپنے جوانوں، عورتوں، بچوں کا ان سے دوگنا تین گنا تعداد میں خون کرتے ہو۔ ان سے کہو کہ آپ کے کہنے پر ہم نے کئی ہزار وطنی تہنس نہس کر دیئے۔ (اب تم) ہمارے کہنے پر اپنے ایک ہزار کتے مار دو، اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو ۔۔۔ کیا ہم کتوں سے زیادہ بدترین مخلوق تو نہیں۔ ہم اپنے جگر گوشوں کو خود بھی ماریں اور امریکی میزائلوں سے بھی مروائیں۔ اپنوں کو خاک و خون میں تڑپانے والے نوشہ دیوار پڑھ لیں، انجام پڑھ لیں۔' رضی الدین خان
لال مسجد، سوات، باجوڑ، وانا، مہمند، درہ آدم خیل اور وزیرستان کے علاہ پاکستان کے کئی علاقوں میں پتہ نہیں ایسے کتنے رضی الدین ہوں گے۔ اس رضی نے تو خط لکھ کر اپنے دکھ کا اظہار کر دیا لیکن وہ جو بدلہ لینے کی ٹھانے ہوئے ہیں ان کا کیا ہو گا، انہیں کون تسلی دے گا، انہیں کون سمجھائے گا۔
شمالی وزیرستان میں ایک شخص اپنے تباہ ہوئے گھر کے صحن میں اپنے نو پیاروں کی لاشوں کو لیے بیٹھا، پشاور میں بیٹھے ایک صحافی کو فون کر کے کہتا ہے کہ 'میں طالب ہوں۔'
اسی طرح ایک داڑھی مونچھ سے بالکل صاف بے اے پاس لڑکا بھی شمالی وزیرستان کے بازاروں میں دن بھر یونہی گھومتا پھرتا ہے اور رات ڈھلتے ہی پہاڑوں پر چڑھ کر حکومتی فوج کے خلاف مورچہ زن ہو جاتا ہے۔ اس کا بھی یہی کہنا ہے کہ 'میرا سب کچھ لٹ گیا ہے، کچھ نہیں بچا۔ میں بھی اب طالب ہوں۔'
تبصرےتبصرہ کریں
’ميرے لہو کي اُنہيں قدر کيا وہ کيا جانيں
جنہيں چراغ ملے ہيں جلے جلاۓ ہوۓ‘
عارف شميم صاحب
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گيا ہوگا
کريدتے ہو کيوں راکھ جستجو کيا ہے
ہوا کے دوش پے ہوں آج تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھيں گے ہوا کسی کی نہيں
مخلص و دعاگو
مياں آصف محمود
وار آن آئل يا بقول ان کے وار آن ٹيررنے سوائے دشت گردی کے اور کچھ نہيں کيا۔ بےگناہ قبائلی ہوں يا بے گناہ افغانی مر بچارے عام لوگ رہے ہيں۔ بے جان بتوں کےگرانے پر آسمان سر پر اٹھانےوالے انسانوں کےمرنے پرخاموش کيوں ہيں۔ يا پھر مسلمان انسانی حقوق وغيرہ سے فارغ ہيں۔
عارف شميم صاحب۔ گذارش ہے نوبت يہاں تک آئي کيسے۔ نيٹو اور افواج پاکستان ميں گھرے اس علاقے ميں دہشت گرد زمين سے اگ آئے يا آسمان سے ٹپک پڑے۔ انہيں وسائل اور رستے کون فراہم کرتا رہا۔ کدھر ہے وہ طُرم خان جو امريکيوں کو دس ارب ڈالر کا چونا لگا کر فقط پارليمان ميں ہي مکے تان سکتا تھا۔ وہ بتائے اصل کہانی کيا تھی اور کسے کيا کردار تفويض ہوا تھا۔ احتساب سے عاری اس معاشرے ميں جب تک ايسا ہر مجرم کيفر کردار کو نہيں پہنچتا يہ سلسلہ بند نہيں ہوگا۔
شکوہ ظلمت شب سے تو بہتر تھا
اپنے حصے کی شمع جلاتے جاتے
يہ قوم کے لیے ايک لمحے فقريہ ہے کے ملک کا منتخب وزيراعظم ايک ايسا شخص ہے جو کئی بار ملک کو نقصان پہنچا چکا ہے اور ان سے ملک کو درپيش مسائل سے نکالنے کی کيا توقع کی جا سکتی ہے۔ بس دعا گو ہوں جن معصوم لوگوں کے خاندان تباہ ہوے اللہ ان کو صبر عطا کرے۔
عارف شميم بھائی آج کے بلاگ ميں آپ نے جو بھی لکھا وُہ ايک ايسی خوفناک حقيقت ہے جِس سے ہم ميں سے کِسی کو بھی اِنکار نہيں۔ رضيُ الدين کی کہانی پڑھ کر دِ ل کانپ گيا اور جيسا کہ آپ نے لکھا اُنہيں کون تسّلی دے گا ،اُنہيں کون سمجھاۓ گا وُہ جو بدلہ لينے کا سوچے بيٹھے ہيں عارف بھائی صِرف سوچے نہيں بيٹھے بدلہ لے رہے ہيں۔ بے شک اُن کا بدلہ جِس طرح پُورا ہو رہا ہے وہ طريقہ غلط ہے ليکن بات يہ بھی ہے کہ ’جِس تن لاگے وہ تن جانے‘۔ ايسے ميں بہت کم لوگ ہوتے ہيں جو بُرائی اور بھلائی ميں فرق کر پاتے ہيں اور يہ بھلا بُرا ہے بھی کيا جب پياروں کی لاشوں کی قطار لگی ہو تو بہت مُشکل ہے اپنے پر قابُو رکھنا کہ موت گو برحق ہے ليکن پھر بھی جب اللہ تعاليٰ ہميں اِس آزمائش ميں ڈالتا ہے تو ہم دِنوں نہيں مہينوں سالوں تک اُس دُکھ سے نِکل نہيں پاتے اور قسمت سے شِکوہ کُناں ہو جاتے ہيں۔ جبکہ يہ سب اگر بِلا وجہ اور ناگہاں ہو جائے تو سامنے والا جوکُچھ بھی کر گُزرے کم ہے۔ ہم کِتنا بھی کہيں کبھی اُن کے دُکھوں کی گرد تک بھی نہيں پہنچ سکتے تو کيسے اندازہ کر سکتے ہيں اُن کی کِسی بھی تکليف کا۔ تو ايسی تکليفوں کے بعد کيا ہر کوئی طالِب عِلم ايسا ہی طالِب نہيں ہو جاۓ گا۔ طلب کی بھی تو بہت سی قِسميں ہوتی ہيں بس ہر ايک کی طلب کا رنگ جُدا ہو تا ہے۔ ديکھنا تو اب يہ ہے کہ ہم کيسے کيسے طلبگار خُود پيدا کر رہے ہيں ؟ ايسے ميں قصُوروار کون ہے ؟کِس نے اِن طالِبوں کو طالِب بننے پر مجبُور کرديا ، دُکھوں کی شِدّت نے يا بھرے گھروں کے اکيلے باسيوں کی تنہائی نے۔
سلام، جناب یہ اصلی خط نہیں ہے۔ کسی نے اپنی طرف سے پوسٹ کر دیا ہے۔
لگتا ہے کہ یہ خط صرف جذباتی کرنے کے لیے کسی نے لکھا ہے
ہر درد کی دوا ہو نہيں سکتی ہے کہيں
دعا بھی کچھ نہيں منشاء خدا کے آگے
مـجھے رضی الدین صاحب سے پوچھنا ہے کہ امریکہ نے ان کے گھر خام خواہ حملہ کیا تھا؟ یا پھر پاکستان فوج نے خام خواہ ان کے گھر والوں کو بموں کا نشانہ بنایا تھا؟ میرے نہیں خیال کہ ایسا ہوا ہے۔۔ میں بھی قبائلی علاقے کے ساتھ بارڈر پر رہتا ہوں۔ طالبان کا اصلی چہرہ میں اچھی طرح دیکھ چکا ہوں۔ یہ خود کو مظلوم ثابت کر کے اپنے لوگوں کو مارتے ہیں۔
رنجيت سنگھ اور ھمنوا ’يہ ھم دل کے کالے‘
ايک پشتون/ طالب
تنگ آمد بجنگ آمد
امريکہ جتنی طاقت دکھائے گا اتنا ہي تباہی کی طرف جائے گا
میرے پاس اپنی رائے دینے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ میری آنکھیں آنسوؤں سے نم ہیں۔
سلام۔ ماشا اللہ آپ کا مضمون بہت اچھا ہے۔
یہ ہمارے اپنے اعمال ہیں جو آج ہم بھگت رہے ہیں اور ہم ہی ان سیاستدانوں کو ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں جو بعد میں ہمارا سودا غیر ملکیوں کے ہاتھوں کر دیتے ہیں۔ شاید وہ آخرت کو بھول چکے ہیں۔ آج امریکہ کے بیانات سنیں تو ایسے لگتا ہے کہ ہماری کوئی حیثیت ہی نہیں وہ ہم پر کسی وقت بھی حملہ کر سکتا ہے۔ اس کے بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ اسے ہماری سرحدوں پر حملہ کرنے میں کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا اور نہ ہی اسے کسی اجازت کی ضرورت ہے۔ اس کے قصوروار ہمارے سیاستدان ہیں جو منہ میں انگلیاں لیے بیٹھے ہیں کیونکہ وہ بھکاری ہیں اور بش سے ہی بھیک مانگتے ہیں، وہ بھی صرف اپنے ذاتی مفاد کے لیے نہ کہ قومی مفاد کے لیے اور ہم بھی اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ کوئی بھی ہمیں یا ہمارے ملک کو نقصان پہنچائے ہم پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ لیکن یہ نہ بھولیں کہ اﷲ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں۔ اس کی لاٹھی بے آواز ہے۔
خدايا يہ مظالم بے گھروں پر
کوئی بجلی گرا فتنہ گروں پر
يہ اہل جور يہ ظالم لٹيرے
مسلط جانے کب سے ہيں سروں پر
يہ خوں بچوں کا اور ماوُں کا خوں ہے
پڑا ہےجو سروں کی چادروں پر
خوش و خرم شہ و شہزادگاں ہيں
ہر آفت ٹوٹتی ہے بے زروں پر
ثنا خواں اب بھی ہيں جو قاتلوں کے
خدايا رحم ان دانشوروں پر
(حبيب جالب مرحوم کی غزل)
يہ نہ مذ ہبی جنگ ہے، نہ سياسی، نہ دہشت گردی۔ جس کا پورا خاندان بے گناہ عالمی اور فوجی دہشت گردی کا شکار ہو جائے اور انصاف کی کوئی عدالت بھی نظر نہ آئے تو ايسی انتقامی جنگ ہی نتيجہ ہوتا ہے۔
يہ تو ميں نہيں جانتا کہ ان کے گھر والے کن حالات ميں مارے گئے۔ مگر ايک بات يقينی ہے کہ ہم صرف اپنے اوپر ہونے والے ظلم پر دکھی ہوتے ہيں اور جب دوسرے ان حالات سے گزر رہے ہوتے ہيں تو ہم خرگوش کے بجائے شکاری کے مدح سرا ہو جاتے۔ رضی صاحب يہ سوچيۓ کہ اٌپ اپنے پياروں کے خون کا بدلہ لینے کے لیے بم باندھ ليں گے تو کيا مزيد ناحق خون نہيں بہے گا؟
1_سلام، جناب یہ اصلی خط نہیں ہے۔ کسی نے اپنی طرف سے پوسٹ کر دیا ہے۔
(danial)
2_مـجھے رضی الدین صاحب سے پوچھنا ہے کہ امریکہ نے ان کے گھر خام خواہ حملہ کیا تھا؟ یا پھر پاکستان فوج نے خام خواہ ان کے گھر والوں کو بموں کا نشانہ بنایا تھا؟ میرے نہیں خیال کہ ایسا ہوا ہے۔۔ میں بھی قبائلی علاقے کے ساتھ بارڈر پر رہتا ہوں۔ طالبان کا اصلی چہرہ میں اچھی طرح دیکھ چکا ہوں۔ یہ خود کو مظلوم ثابت کر کے اپنے لوگوں کو مارتے ہیں۔(ریاض)
پہلاتبصرہ توکسی قومیت پرستی کےجذبات سےعاری شخص کا تھاہی، مگرایک قبائلی سرحدی کاتبصرہ پڑھ کرنہایت صدمہ ہواہے۔اگریہی’خواہ مخواہ‘ کاسوال ہی پوچھنا ہے تو یوں بھی پوچھ دیکھیں کہ ’کوئی بی اےکا سٹوڈنٹ ’خواہ مخواہ‘ طالب بننے جا رہاہے؟‘ اورمجھےیہ بتائیں کہ مظلوم بننےکاشوق"خواہ مخواہ"کسی کولاحق ہوجاتاہے؟کیاجب ہمارےوطن میں دہشت گردی ہوتی ہےتواسوقت مظلومیت کی دہائی نہیں دی جاتی؟کیاامریکہ نےFBI اور موساد میڈ ایکشن پر’خواہ مخواہ‘ مظلومیت کے پرچار میں مسلم ممالک کوتہس نہس کر کےنہیں رکھ دیا؟
اگر ان کو لڑنا ہے تو افغانستان ميں جہاد کيوں نہيں کر رہے۔ پاکستانی مسلمان عوام اور افواج سے لڑ کر حرام کی موت مر رہے ہيں۔ ان کہ پاس اسلحہ اور پيسہ کہاں سے آ رہا ہے۔ ان کو دوسرے ممالک اپنے مفاد ميں استعمال کر رہے ہیں۔
کہتے ہيں جيسے عوام ہوتے ہيں انکو ويسے ھہی حکمران ملتے ہيں لیکن ايشا خصوصا پاکستان کے عوام بدقسمت ہیں اس معاملے ميں بھی، جن لوگوں نے بھی پاکستان پر حکومت کی ۔اپنے مفادات دیکھے
اس کی مثاليں موجود ھيں جس حکومت سے آٹابجلی جيسی ضرورتيں پوری نہیں کی جاتيں وہ دنيا کے سامنے کيسے سينہ تان کے کہتے ہیں کہ وہ دنيا کے ليے دھشتگردی کا خاتمہ کر ديں گےان حکمرانوں سے انڈياکے خلاف کسی بات پر احتجاج ھو نہیں سکتا تو امريکہ سے بات کياکرسکیں گے
امريکہ ہمارا وھ حال کرے گا کہ دنيا کو سبق ملے گا۔ انڈيا پانی روکے گا بلوچستان ھم نے بيچ ديا وزيرستان ميں امريکہ اپنی فوجی مشکيں کرتا ھے
ہم تو اپنے ملک کے اچھے دلال بھی نہ بن سکے