'شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات'
اپنے پچھلے بلاگ میں میں نے رضی الدین صاحب کا ایک خط پیش کیا تھا جنہوں نے اپنے اور اپنے خاندان پر ظلم کی بات کی تھی۔ اس پر بہت لوگوں کے ای میل آئے اور انہوں نے اپنے دکھ اور غصے کا اظہار کیا۔
لیکن اس وقت جو بات نہیں آئی یا جس کا تذکرہ بہت کم ہوا وہ تھا ان بے گناہ لوگوں کے لیے اظہارِ ہمدردی یا یکجہتی جو خود کش بمباروں یا شدت پسندوں کے بموں کا نشانہ بنے۔ ان میں وہ پولیس والے یا فوجی بھی شامل ہیں جن کے شدت پسندوں نے گلے کاٹے اور پھر ایک صحافی کو بڑے آرام سے بتایا کہ وہ اس لیے گلے کاٹتے ہیں کہ ان کی موت آسان ہو جائے، ان کو زیادہ تکلیف نہ ہو، کیونکہ روح شہ رگ سے نکلتی ہے۔ کافروں کے گلے تو ہم پیچھے سے کاٹتے ہیں تاکہ انہیں زیادہ تکلیف ہو۔'
ان افراد کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں یہ ان لوگوں سے نفرت کا رشتہ رکھنا بھی جائز نہیں ہونا چاہیئے۔
افسانوں کے لطف کے پیچھے روتی ہوئی تاریخ
ظلم کی تلواروں کے نیچے مظلوموں کے گلے
اس کی ایک مثال سوات میں حکومت کے ساتھ برسرِ پیکار طالبان کا سوات میں ایک سو پندرہ سکول جلانے کا دعویٰ کرنا ہے۔ یہ دعویٰ سوات میں طالبان کے ترجمان حاجی مسلم خان نے کیا ہے۔ ان کا اپنا بیٹا اس وقت پشاور یونیورسٹی میں فارمیسی کا طالبعلم ہے۔ ان کے بقول 'اسلام میں ادویات کے بارے میں علم حاصل کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔'
اب حاجی مسلم خان کو کون بتائے کہ خدا کے بندے تم تو خود جو چاہو کرو مگر جب گاؤں کے غریب لوگوں کو اس کی سہولت ملے تو سکول جلاؤ، گلے کاٹو۔
اسلام میں علم حاصل کرنے پر کوئی ممانعت نہیں، یہ تمہیں بھی معلوم ہے اور مجھے بھی۔
کیسے کیسے سنگھاسن لے کر بیٹھ گئے عیار
ملا، پنڈت، ڈاکو، افسر، ایک سے ایک بھلے
اک پرچم کا نشان کبوتر اور اک کا شہباز
وہی زمین کے خون کے پیاسے ہر پرچم کے تلے
اسی طرح اس ماہ نو اکتوبر کو صوبہ سرحد کے ضلع دیر میں قیدیوں کی ایک وین پر ریموٹ کنٹرول بم حملے میں دس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ہلاک ہونے والوں میں سکول کی چار بچیاں، دو پولیس اہلکار اور چار قیدی شامل تھے۔
دیر مولانا صوفی محمد کا علاقہ ہے اور اس میں ان کا بہت اثر و رسوخ ہے۔ قیدیوں سے بھری بس کو نشانہ بنانا تو طالبان کی 'بہادری' ہے ہی لیکن اس سے زیادہ 'بہادری' ان چار بچیوں کو ہلاک کرنا ہے جن کا سکول شاید جلنے سے بچ گیا تھا۔
کاش کوئی بیٹھ کے سوچے کہ وہ کیا کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے۔
آخر میں میں یہ ہی خواہش ہے: 'شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔'
تبصرےتبصرہ کریں
حاجی مسلم خان کو حاجی بلا کر براہ مہربانی حج کی توہين نہ کريں۔ بی بی سی نے اس سے يہ نہيں پوچھا کہ اگر فارميسی کی تعليم بمعہ کو ايجوکيشن حلال ہے تو کيا بچوں کو پہلی جماعت سے ہی پشاور يونيورسٹی بھيج ديا جائے يا پھر ان کے بيٹے کے يونيورسٹی جانے کے بعد اب سکولوں کی ضرورت نہيں رہی۔ اسليئے جلا رہے ہيں۔ پانچ چھ سال کی معصوم بچياں سر پر چادريں اوڑھے ليڈيز ٹيچر سےعلم سيکھتی ہيں ان کے سکولوں کو جلانے کا مقصد علاقے کی تمام خواتين کو اندھا بہرہ گونگا بنانا ہے ورنہ ان ميں شعور آئے گا تو وہ اپنے حقوق مانگيں گی اور پھر چار چار تو ايک سے شادی کے ليے رضامند نہ ہوں گی۔
ميرے خيال میں اسلام فساد كی اجازت نہيں ديتا۔ ايسا فساد كرنا بالكل غلط اور بے مقصد ہے۔ تعليم حاصل كرنے والے بچوں پر اور مدرسوں بر بم بنانے کی اجازت نہیں ديتا۔
دنيا بھى عجيب ہے۔ كوئى اچھى بات کہے تو دبا ديا جاتا ہے اور اگر كوئى برى بات کہے تو اچھال دى جاتى ہے۔ ايسا كيوں ہے اور كيا لوگوں کو برائى اچھائی كى تميز نہیں۔
محترم عارف صاحب۔ آپکی يہ باتيں يقيناً تبصرے کرنے والوں کے ذہن ميں رہتی ہيں بس وہ اس کا اظہار نہیں کرتے۔ کيونکہ پہلے تو اسليۓ کہ دکھ، رونا دھونا، ہاۓ واۓ، بين بازی کرنا ہمارے معاشرے کا خاصہ بن گیا ہے۔ دوئم یہ کہ آجکل اندھا دھند، بغير ديکھے بھالے، بغير سوچ بچار وغوطہ لگائے صرف ’مظلوم‘ کا ساتھ محض اس نيت سے دينے کا رواج پڑ گيا ہے تاکہ دنيا ديکھے ’سارے جہاں کا درد ہے ہمارے جگر ميں ہے۔‘ نيز آجکل اس روش کو بطور فيشن بھي اپنايا جا رہا ہے۔ نتيجتاً ہمدردي، خدا ترسی کے ووٹ لے کر اپنی دکان چمکائی جائے۔
دل ہو تب بات اترے نا۔ یہاں تو دل کی جگہ پتھر ہیں۔
'حقيقت خرافات ميں کھو گئي
يہ اُمت روايات ميں کھو گئي'
عارف بھائ زِندہ رہنے کے لِۓ آج کل کيا بے ضمير اور مُردہ دِل ہونا ضروری ہو گيا ہے ورنہ ايک زمانہ تھا کہ لوگ محلے کے بھی کِسی بچے کی آرام سے تربيّت کر ديا کرتے تھے اور گھر والے قطعی بُرا نہيں مانتے تھے اب اِنفرادی اور اِجتماعی دونوں دونوں ہی طرح آپا دھاپی کا وہ دور ہے کہ بس صِرف اپنے آپ کو بچانے کی فِکر ہے مارے دہشت کے رونگٹے کھڑے ہو گۓ يہ لفظ پڑھ کر „کہ ہم شہ رگ کاٹتے ہيں تا کہ زيادہ تکليف نا ہو اور کافروں کي„ استغفِرُ اللہ کيا غليظ سوچ ہے جِس کو اوڑھ کر بيٹھ گۓ ہيں اور شرم نام کی کوئ چيز نہيں اپنے لوگوں کو پوليس کے ہوں يا فوج کے نوکری کر رہے ہيں اُن کے ساتھ يہ ظُلم کرتے وقت يہ کيُوں نہيں سوچ آتی کہ کيا يہ ہميں ما ررہے تھے يہ بھي ہماري طرح کے اِنسان ہيں؟چليں اُن کو بھی چھوڑيں قيديوں کی بس پر حملہ ،کيا مِلے گا يہ سب کرکےاور ماری جانے والی معصُوم بچياں جِن کی قِسمت ميں ہی شايد مرنا لِکھا ہے کبھی کيسی اور کبھی کيسی موت ،کبھی جِسمانی اور کبھی جہالت کے اندھيروں ميں گُم ہو کر ،حالانکہ اے کاش کوئ يہ بتاۓ کہ کب کِس جگہ لِکّھا ہے عورت کی تعليم گُناہ ہے يا سب کُچھ صِرف اپنے لِۓ درُست ہے ؟کيا ہم اِنسان اور مُسلمان کہلانے کے حقدار ہيں صِرف نام اِنسانوں اور مُسلمانوں والے رکھ لينے سے کوئ اپنا آپ منوا نہيں سکتا کاش کوئ سمجھے؟
خير انديش
شاہدہ اکرم
افسوس بہت ہوتا ہے مگر يہ صورتحال بھی گزر جائےگی تب انہوں کو بڑھ کر افسوس ہوگا جنہوں نے خرابہ يہ خون اشامی مچائي۔ کبھی وہ زمانہ تھا جب سوات اور دير والے اپنے والی سوات اور نواب دير کی حکمرانی سے نجات پانے کے لیے کلام پاک اٹھاۓ پاکستان کے ہاتھوں ميں اپنی جان و مال و تقدير پکڑوانے کے لیے پکارتے تھے۔اور جب انہيں آزادی کی زيست ملی تو اب اس اندازسے شکريہ ادا کررہے ہيں۔ بيشک سب لوگ ايسے نہيں مگر جو ہيں وہ بھی تو اپنے کل کے جز ہيں؟
شميم بھائی سلام مسنون
يہی تو الميہ ہے اور يہی چيزيں اسلام دشمنوں کو اسلام کے خلاف اکسانے اور بھڑکانے کا باعث بنتی ہيں۔ مجھے اچھی طرح ياد ہے جب ہم چھوٹے سے تھے جب بھي مسجد سے نماز پڑھ کے نکلتے تو باب الداخلے پر غير مسلم خواتين کی ايک طويل قطار ہوتی اور ان کی گودوں ميں بچے ہوتے اور وہ نمازيوں سے گذارش کرتيں کہ ان کے بچے پر پھونک مارديں اتني عقيدت تھي غير مسلموں کو اسلام سے اور اتنا بھرپور اعتماد تھا نمازيوں پر اور آج اپني انتہائی احمقانہ کرتوتوں کي بدولت ہم نے از خود اسلام کي شبيہ بري طرح متاثر کي ہے ۔آج جب ميں اپنے بھانجوں اور بھتيجوں کو يہ واقعہ سناتا ہوں تو وہ حيرت سے ميرا منہ تکتے رہ جاتے ہيں اور غير مسلموں کو کسی نے اگر ہم سے دور کيا ہے تو يہ وہی لوگ ہيں جو ہميشہ غير مسلموں کو انتہائی حقارت سے کافر، جہنمی اور قابل نفرت گردانتے ہيں اور اس کا برملا اظہار کرتے ذرا سا بھی نہيں شرماتے اور خود ان کی حرکتيں کيا ہوتي ہيں طالبان کو تو خير ہم لوگوں نے ديکھا نہيں ہے ليکن علامہ، پيرزادہ، مرشد، مولانا، حضرت قبلہ اور نہ جانے کن کن القاب کے ساتھ يہاں بھي سماج ميں طالبانيوں کا وجود برقرار رکھا ہوا ہے خود تو ايسے فيصلے صادر کرينگے جيسے اسلام کا ٹھيکہ لے رکھا ہو گو کہ ان کی نمازيں مسجد سے نکلنے سے پہلے ہی ميلے کپڑے ميں لپيٹ کر ان کے منہ پر دے ماری جاتی ہوں۔ اب چاہے يہ طالبان کہلائيں يا کوئی اور کيٹگری کے ملا بات تو ايک ہی کہلائے گی نا۔
خيرانديش سجادالحسنين، حيدرآباد دکن
مقام فکر يہ ہے کہ يہ شياطين کيونکر اس قابل ہو گۓ کہ رياست کے اندر رياست بنا ڈاليں۔ انہيں وسائل کون مہيا کر رہا ہے۔اس ضمن ميں حکومت پاکستان اور ميڈيا کی پراسرار خاموشي ان عفريتوں کے جرائم سےبھي زيادہ تشويشناک ہے۔
حديث کے مفہوم کے مطابق علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ ميری سمجھ ميں تو يہ آیا ہے کہ جو علم حاصل نہ کرے وہ قابل سزا ہے۔ اس بات کو عالم سے زيادہ کون سمجھ سکتا ہے؟ اور ہم جنہيں طالبان سمجھتے ہيں وہ علماء ہيں۔ يہ جو اسکول جلا رہے ہيں وہ نہ طالبان ہيں اور نہ ہی مسلمان۔ يہ تو دشمن کا مطلوب پورا کر رہے ہيں۔ انہيں طالبان کہنا يا سمجھنا، طالبان کی ہی نہيں، دين اسلام کی بھی توہين ہے۔
ايك ہو جائیں تو بن سكتے ہیں خورشيد مبين
ورنہ ان بكھرے ہوئے تاروں سے كيا بات بنى۔۔۔
محترمہ اسماء فرانس، كے تبصرے سے ميں متفق
ہوں۔۔۔
کاش کہ دنيا میں امن ہوتا اور ہم سب ايک دوسرے کے دکھ درد ميں شريک ہوتے۔۔۔
بھارت سے جناب سجادالحسنين صاحب کے غيرمسلم ماؤں کے واقعے نے خود مجھے بھي ششدر کر ديا ہے۔ اندازہ کيجيۓ ان اشقياء نے ہميں کہاں لا کھڑا کيا ہے۔ کيا يہ کسی رحم کے مستحق ہيں؟
اور اس بات کی کون ضمانت دے گا کہ جو بھی
قابل اعتراض کام طالبان کے نام سے ہو رہے ہیں
وہ امریکہ اور اس کے ایجنٹ طالبان کے نام سے نہیں کر رہے(تا کہ طالبان اور اسلام کو بدنام کیا جا سکے)۔۔۔
موڈريٹر سے گزارش ہے کہ ميل ذريع جواب ديں کہ ميرا تبصرہ کيوں اپ لوڈنہيں کيا