امریکہ میں ممکن تو پاکستان میں کیوں نہیں؟
پاکستان میں یہ سنتے بڑا ہوا کہ ہمیں ایک لیڈر چاہیے جو آ کر سب ٹھیک کر دے گا۔ لیڈر کے لیے زیادہ تر خمینی کی مثال دی جاتی تھی لیکن کئی دوسرے رہنماؤں کے نام بھی لیے جاتے ہیں۔ ان سب میں قدر مشترک ان کی یہ شہرت ہوتی ہے کہ انہوں نے آہنی ہاتھوں سے اپنے اپنے ملک کو سنبھالا اور سب ٹھیک کر دیا۔
قِصہ مختصر، عام خیال یہ ہی رہا کہ رہنما عام انسانوں سے بالا بالا تیار ہوتے ہیں اور اپنی معجزاتی خصوصیات کی بنا پر اکیلے ہی سب ٹھیک کر دیتے ہیں۔ اس ماحول میں یہ اشارہ بھی کہ بھائی آپ خود ہی کیوں نہیں ملکی مسائل حل کرنے کی ذمہ داری سنبھالتے لوگوں کو ناقابل یقین لگتا ہے۔
باراک اوباما کی جیت سے کم سے کم لوگوں کو یہ سمجھانے کا کام شاید آسان ہو جائے کہ ایسا ممکن ہے کہ کوئی بھی انسان کسی بھی پس منظر سے تعلق رکھتے ہوئے کچھ بھی بننے کا خواب دیکھے اور اسے پورا کر لے۔ کینیا سے آئے ایک تارک وطن کے بیٹے نے سوچا کہ وہ صدر بننا چاہتا ہے اور وہ بن گیا۔ اب امریکی ٹی وی پر ہر دوسری عورت اس اعتماد کا اظہار کر رہی ہے کہ اس کا بچہ بھی ہر طرح کا خواب دیکھ سکتا ہے۔ ہر نوجوان یہ کہتا سنائی دے رہا ہے کہ اسے لگتا ہے کہ وہ کچھ بھی بننے کا سوچ سکتا ہے۔
اوباما کا خواب پورا ہونے میں ملک میں آئینی نظام، اداروں کی مضبوطی اور جمہوریت کی گہری جڑوں نے کام کیا۔ اب بظاہر ایک شخص کی کامیابی نے معاشرے میں مایوسی کے شکار ہزاروں لاکھوں لوگوں میں کامیابی کی امنگ پیدا کر دی ہے اور یہ چیز اس معاشرے کو نئی طاقت اور توانائی بخش سکتی ہے۔
اگر یہ امریکہ میں ہو سکتا ہے تو دنیا میں کہیں بھی ہو سکتا ہے۔ امریکہ بھی فرشتوں نے نہیں بنایا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں جمہوریت ہے۔ پاکستان میں وہ پنپنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پاکستانی کب تک کسی بنے بنائے سخت رہنما یا سپہ سالار کا انتظار کرتے رہیں گے۔ گلیوں، محلوں، تھڑوں، بیٹھکوں پر بیٹھا ہر شخص کیوں امریکی ماؤں اور نوجوانوں کی طرح معجزاتی قوتوں والے رہنماوں کا انتظار چھوڑ کر اپنے اوپر اعتماد نہیں کر سکتا۔
تبصرےتبصرہ کریں
’يونہي ہم تو ڈرتے تھے پرواز سے
گرے گھونسلے تو پر کُھل گئے‘
پاکستانی عوام کی اکثريت امريکہ کے ان ووٹروں کی طرح ہے جو عين ٹائم پر رنگ ديکھ کر اپنا ووٹ تبديل کر ديتے ہيں۔ يہ ہر اليکشن کے بعد درپيش حالات سے تنگ آ کر `خميني` کی دعائيں تو کرتے ہيں مگر ہر اگلے اليکشن ميں ووٹ جدی پشتی ۔۔۔۔ کو ہی ديتے ہيں ميرا ماضی گواہ ہے کہ ميں نے کھبی پيسے کو انسان پر اہميت نہيں دی اور عام لوگوں ميں سے ہوں اسليے دل ميں انکا درد ہے۔ آئيے اگلے بلدياتی انتخاب ميں ميرے ساتھ چليے ميں اور آپ سب انتخاب ميں حصہ ليتے ہيں۔ نتيجہ ديکھ لينا مجھے تو ميرے ووٹ کے علاوہ ميرے شوہر کا ووٹ مل جائے گا آپ کو تو آپکی مسسز بھی ووٹ نہيں ڈالے گی۔ ہماري قوم تبديلی کو کسی صورت قبول نہيں کرتی اس کو سمجھنے کے ليے آپ حضرات آج اپنی اپنی اماں سے اپنے يا کسی بھائی کے ليے برادری سے باہر رشتے کی بات کر کے ديکھيں۔ بدلے ميں اماں کے روئيے سے آپ کو اچھی طرح اندازہ ہو جائے گا کہ اس قوم کو تبديلی کے ليے تيار کرنے ميں کم از کم سو دو سو سال لگيں گے
'خدا نے آج تک اس قوم کي حالت نہيں بدلي
جس کو نہ ہو خيال آپ اپني حالت کے بدلنے کا'
جناب اسد علی صاحب بس اس نيک کام کا آغاز آپ خود اپنے سے شروع کر ديں - ماشااللہ آپ کے نام ميں „اسد„ بھی ہے اور „علی „ بھی
غير معمولی لوگ تو ادھر بھی پيدا ہوئے ہيں اور ہوتے رہيں گے ليکن ہمارے تعصبات اتنے خطرناک اور ہولناک ہيں کہ انہيں اپنے جوہر مکمل طور پر دکھانے سے پہلے ہي نگل ليتے ہيں۔ ذوالفقار علی بھٹو جيسا کرشمہ کس ميں تھا اور ہے؟ کئی اوبامہ مل کر بھی ايک بھٹو نہيں بن سکتے۔ فيض جيسا شاعر ،عبدالسلام جيسا سائنسدان، عمران جيسا کھلاڑی اور فلاحی ورکر، نصرت فتح علی اور نورجہاں جسے فنکار کہيں اور پيدا ہوتے تو ہر چوراہے پر ان کے مجسمے کھڑے ہوتے ليکن يہاں ہر سب کے ساتھ کوئی نا کوئی تعصب برتا جاتا ہے۔
يہ پاکستان ہے بھائی يہاں انصاف نہيں۔ جج صاحبان خود ظلم کی کہانی بن چکے ہيں اب تو آمر نہيں جمہوری حکومت ہے پھر بھی کسی اچھے معجزے کی اميد رکھنا بيوقوفي کي آخري اسٹيج ہے۔ ليڈر بھی تو ہم ميں سے ہی بنتے ہيں تو جب عوام ہی منافق ہو تو فرشتے جيسا ليڈر ہميں کہاں سے ملےگا
ڈئير اسد علي چوہدری صاحب، اسلام عليکم!
آپ نے آج بہت ہی اہم اور حساس سماجي مسئلہ پر قلم اٹھايا ہے اور يقينآ يہ مسئلہ ملک و عوام و فرد و خاندان کی پستي ميں ايک بنيادی رول ادا کر رہا ہے- ماہرين نفسيات کا کہنا ہے کہ خوداعتمادی اصل ميں آدھی کاميابی ہوتی ہے- ليکن بدقسمتی سے ملکی معاشرہ ميں بچوں کو شروع ہي سے دانستآ يا نادانستآ 'جی حضوري' کرنا سکھايا جاتا ہے، دوسروں کي، بڑوں کی منظوری حاصل کرکے، انکی 'توقعات' پر جب بچہ پورا اترتا ہے تو ان کے نزديک ايسا بچہ بہت شريف، نيک، بھلہ مانس، تابعدار اور اچھے خاندان کا چراغ کہلاتا ہے نتيجتآ اس عمل سے بچہ بھي اپني تعريفيں سن کر پھولا نہيں سماتا اور بڑوں کي خوشنودي حاصل کرنے کيلۓ مزيد 'جی حضوري' کرنا شروع کرديتا ہے نتيجتآ بچے ميں خوداعتمادی کی پيدائش رک جاتی ہے- باالفاظ ديگر بچہ اپنی نہيں بلکہ دوسروں کی زندگی جينا شروع کر ديتا ہے- جب بچہ گھر سے سکول پہنچتا ہے تو وہ باقاعدہ دوسروں کی منظوری و خوشنودی حاصل کرنے کی تربيت کا آغاز کرتا ہے- تعليمي اداروں خصوصآ سرکاری سکولوں ميں، امتحانی نظام ميں، اور نصابی کتابوں ميں موجود اسباق وکہانيوں پر اچٹتی سي نظر ڈالنے سے ہی نظر آ جاتا ہے کہ بچے کی اپنی خوداعتمادي، اسکی اپنی سيلف، اسکے اپنے خيالات پر پہرہ بٹھانا ہی ان درسگاہوں کا بنيادی 'ٹارگٹ' ہے تاکہ سرمايہ داروں اور تاجروں کے انگريزی ميڈيم سکولوں ميں پڑھنے والے بچوں کو مستقبل ميں نوکرشاہی اور اہم پوسٹوں پر پہنچنے کيلۓ زيادہ 'مقابلہ بازي' نہ کرنی پڑے اور اسی دوران انکی خدمات کيلۓ سرکاری سکولوں سے مشرف بہ تعليم مخلوق تيار ہوجائے۔ سرکاری سکولوں ميں يہ سکھايا جا رہا ہے کہ کسی معاملے پر اپنے آپ پر اعتماد نہ کريں- ہر بات کيلۓ اجازت طلب کريں- کس ڈيسک پر بيٹھا جائے۔ سر ميں اندر آجاؤں، مس ميں پانی پی آؤں، ميڈم مجھے بخار ہے ميں گھر چلا جاؤں! وغيرہ- يہاں تک کہ نہايت معمولی باتيں بھی استاد کی مرضی کے مطابق کی جائيں- سکول يہ نہيں سکھاتے کہ بچے خود غوروفکر سے کام ليں- وہاں تو صرف ہدايات جاری ہوتی ہيں اور بچوں کو ان پر آنکھيں بند کرکے عمل کرنا پڑتا ہے- وضاحت طلب کرنے کو گستاخی اور بےادبی تصور کيا جاتا ہے- استاد بچوں کو اطاعت شعار بناتے ہيں- طلبہء کا رپورٹ کارڈ بھی اصل ميں انکے والدين کو مطلع کرنے کيلۓ ہوتا ہے کہ بچوں نے کس قدر خوداعتمادی کھو دی ہے اور وہ کس قدر تابعدار ہوگۓ ہيں- ياد رہے ہمارے نظام تعليم ميں تابعداری نماياں ترين خصوصيت اور خوبی کا درجہ رکھتی ہے- ہمارے پاليسی ساز دعوی تو يہ کرتے ہيں کہ وہ تعليم کے ذريعے نئی نسل ميں خوداعتمادی پيدا کرنا چاہتے ہيں، ان کی شخصيت کی نشوونما مطلوب ہے- ليکن ہوتا اسکے برعکس ہے- جو بچے بلا چون وچرا اپنی خودمختاری سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہ ہوں انہيں بدتميز، بےادب، جھگڑالو، لڑاکو، اور الجھنوں کی جڑ بتايا جاتا ہے، ايسے بچوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے جبکہ تابعدار اور 'يس سر يس سر' کہنے والوں کی تعريف کی جاتی ہے اور انہيں مثالی طالبعلم قرار ديا جاتا ہے- کالج ميں داخلہ لينے والوں کو ديکھيں، مضامين کے انتخاب کيلۓ بھی وہ دوسروں کی رائے اور فيصلے کے منتظر رہتے ہيں، وہ خود فيصلہ کرنے سے گريز کرتے ہيں کہ ان ميں انکی اہليت سکول نے باقی ہي نہيں رہنے دي پوتي- سياسی نقطہء نظر سے بھي ديکھا جائے۔تو لوگوں کو تابعدار رکھنا حکومت کے مفاد کا تقاضا ہے- لوگ حکومت کی ہر بات کو خلوص دل کے ساتھ قبول کريں، ہر ہدايت پر، ہر کال پر بلا سوچے سمجھے عمل کريں- فی زمانہ ہر حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ عوام کيلۓ سوچنے اور سمجھنے کی تمام راہيں بند کر دی جائيں، اچھے، وفادار اور محب وطن شہری پيدا کرنے کے بہانے حکومتيں عوام کی تمام صلاحيتيں سلب کرنے کی کوشش ميں رہتی ہيں يہاں تک کہ وہ ہاں کہنے اور سرجھکانے والی مخلوق بن کر رہ جاتے ہيں- دوسری طرف سرمايہ دار کا اشتہاربازی کا فلسفہ بھی يہی کہتا ہے کہ آپ خود کوئی اچھا انتخاب کرنے کے نااہل ہيں لہذا دوسروں کی رائے۔کو قبول کريں، انفرادی فيصلے ناپسنديدہ ہيں، دوسرے لوگوں کی پسند کا خيال رکھنا آپ پر لازم ہے لہذا انکی دلجوئی کيلۓ فلاں فلاں شۓ استعمال کريں- چوہدری صاحب اب آپ خود ہی فيصلہ کر ليں کہ معاشرہ کے ايسے حالات ميں کوئی شخص معجزاتی رہنماؤں کا انتظار کيوں نہ کرے!
دعاگو،
نجيب الرحمان سائکو، لہور، پاکستان
اسد کیا آپ کے خیال میں ہمارے معاشرے میں واقعی مثبت تبدیلی قبول کرنے کی صلاحیت ہے۔ خاص طور پر جب ہم سب اپنی اپنی سطح پر بے ایمان ہیں
اسماء خالہ، ميری اماں نے تو خاندان سے باہر ہم سب بہن بھائيوں کي شادياں کي ہيں- اب پاکستان ميں خاندانی اور وراثتی بيماريوں سے بچنے کيلۓ خاندان برادري سے باہر رشتوں کو پسند کيا جا رہا ہے اسماء خالہ- معلومات کو اپ ٹو ڈيٹ رکھا کريں-
معاف کيجيۓ گا چوہدري آپ بھي ہيں ليکن سچ يہي ہے کہ جب تک سردار، وڈيرے ، چوہدري، ملک اور پوليٹکل ايجنٹ اس قوم کی جان نہيں چھوڑتے يہاں وہ ماحول ہي پيدا نہيں ہو سکتا جو ايک مخلص عوامی قيادت مہيا کرتا ہے- يہ لوگ قومی وسائل چٹ کرکے ملبہ پنجاب پر گراتے چلے آئے ہيں جس کا جواب ان کے ہم نوالہ کسي پنجابي ليڈر نے بھي نہيں ديا۔ حاليہ زلزلہ کو لے ليجيۓ۔ وفاقی حکومت کو کوسنے والے بھول جاتے ہيں کہ صوبائي حکومت کے بھي کچھ فرائض ہوسکتے ہيں۔ بلوچستان اسمبلي ميں کرسيوں پر نيم دراز سرداروں ميں سے کسي ايک کا نام گنوا ديجيۓ جو متاثرہ علاقوں ميں ديکھا گيا ؟ ان طبقات کو غير مؤثر کرکے اقتدار عام آدمی کے پڑھے لکھے قابل اور ايمان دار بيٹے بيٹی کو سونپے بغير يہاں کچھ نہيں ہو سکتا -
طاھر اقبال مجوکہ
سرگودھا پاکستان
چودھری صاحب ، چودھريوں والی بات نہ کريں ـ پہلے عوام کو تعليم ديں۔ ان ميں شعور اجاگر کريں تاکہ وہ ذات برادری کی پابنديوں سے آزاد ہو کر سوچنے کے قابل ہوسکيںـ اور يہی ہمارے سياسی وڈيرےاور چوہدری نہيں ہونے ديں گےـ
يہاں تو ايک منتخب صدرجس نے بے پناہ قربانياں ديں صرف اس لۓ ناقابل برداشت ھے کہ ان کے صدر بننے سے ان مفاد پرستوں کا حلوہ مانڈہ بند ھے جن کا آبائی کام آمروں کے جوتے چاٹنا ھے. کيا کسی بھی مہذب ملک ميں ايک منتخب صدر کے خلاف ايسی غليظ پروپيگنڈہ مہم کا تصور کييا جا سکتا ھے جيسے کہ ہمارے صدر کے خلاف جاری ھے؟ آپ جيسے لکھاريوں کو بھی ايک منتخب حکومت کے آنے پر ھی کيوں تبديلی کے دورے پڑتے ھيں جبکہ دور آمريت ميں آپ لوگ سالوں خاموش رھتے ھيں
انتظار کس کا۔ آ بھی گۓ اور چلتا بھی کر ديا- مثال ھمارے سامنے ھے- ڈاکٹر عبدالسلام،اے کيو خان ، چوھدری افتخار اور لياقت علی خان- ان کا انجام ديکھ کر تو توبہ!ھے
میں تو صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ یہ کسی بھی ملک میں ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں
اسد بھاءی
کيا کريں مشرق ميں ابتدا ہی سے يہی رجحان رہا ہے اور مغرب والے ہر زمانے ميں کچھ الٹا سيدھا کرنے کی شہرت رکھتے تھے اب يہ اور بات رہی ہو کہ اس الٹے سيدھے کے چکر ميں معاملہ کچھ ايسی تاريخيں رقم کرديتا ہے کہ بس ہم مشرق والے ہر زمانے ميں امپريس ہونے کے ہی عادی رہے ہيں۔ اب يہی ديکھيے کہ حال ميں حيدرآباد کا انٹر نيشنل ايرپورٹ دوبارہ بنايا گيا تو ماڈل ہيتھرو تھا اور تمام تر سوبھيداءيں بھی اسی ايرپورٹ کو سامنے رکھ کر بنائی گئيں اور اب اس ايرپورٹ کو شہر سے جوڑنے والی اگر قومی شاہراہ بنائی جارہی ہے تو اس کے لیے
نيو يارک کے ماڈل کو سامنے رکھا گيا ہے اور يہاں ريڈيو کيب کے نام سے جو ٹيکسياں سڑکوں پہ دوڑتی نظر آتی ہيں اس کے لیے بھی کہا يہی جاتا ہے کہ ان کے چلانے کا نظم اور ماڈل يو ايس سے مستعار ليا گيا ہے۔ کوک و برگر پيزا کی شکل ميں کچھ چيزيں ہم ميں سرايت ضرور کرگئی تھيں مگر اب تو ايسا لگتا ہے کہ غير محسوس طور پہ ہم ان کے ازسر نو غلام ہوتے جارہے ہيں * معاف کيجے گا بات چل رہی تھی پاکستان کی اور ميں خواہ مخواہ اپنا مسلہ لے بيٹھا مگر کيا کريں انڈيا ہو يا پاکستان يا ہو سعودی عربيہ ہر جگہ يہی لو گ مسلط ہيں ذہنوں ميں اعصاب پر اور نہ جانے کہاں کہاں
ہاں ان انتخابات نے اور اوبامہ کے عزم اور ثابت قدمی نے يہ ثابت کرديا ہے کہ انسان کے لیے نا ممکن کچھ بھی نہيں ليکن چودہ سو سال سے اسلام عزم حوصلے جہد مسلسل ثابت قدمی صداقت کا درس ديتے آرہا ہے تو پھر ہر بار ہم اس درس کو بھول کيوں جاتے ہيں ہر بار ہميں نئے حوصلوں کے لیے تحريک کی ضرورت کيوں پڑتی ہے ہر روز ہم يہ کيوں بھول جاتے ہيں کہ اسلام نے مايوسی کو کفر قرار ديا ہے ہم اگر واقعی سچے مسلمان ہوتے تو ہميں بار بار کسی نہ کسی کے حوالے سے بيدار کرنے کی ضرورت کيوں پڑتی ؟؟؟؟؟
خير انديش سجاد الحسنين حيدرآباد دکن
ايک جيسے دو نام اور پھر تبصرے۔ ميں نے کوئی اسماء خالہ والا تبصرہ نہيں لکھا ہے
آخر ہم لوگ کب تک ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے رہیں گے۔ تبدیلی ہمیں اپنے گھر سے شروع کرنا ہے۔ انسان نیت کرے تو عمل خود بخود ہوتا چلا جاتا ہے۔ آللہ پاک ہم سب کو سدھرنے کی توفیق دے۔ آمین
اِس طرح پا کِستا ن میں بھی ہو سکتا ہے۔ جب میں ا پنے ایک ساتھی کو پورے تین سا ل بعد پا کِستان کے لیے سو چنے اور کچھ کرنے پر مجبو ر کر سکتا ہو ں جو کہ کہتا تھا کہ چھوڑو، اِس ملک کا کچھ نہیں ہو گا، جس طرح چل رہا ہے چلنے دو۔ لیکن آج وہ جب پا کِستا ن کیلئے بو لتا ہے تو میری ہمت اور بڑھ جاتی ہے۔ با ت صِر ف تھو ڑی سی ہمت ا ور جذبے کی ہے۔ ہم پا کِستان چرا غ ڈھو نڈ تے ہے۔ کو ئی اچھا کا م کر ر ھا ھے تو بجا ئے مدد اور حو صلہ دینے کے، مفت کے مشوروں سے سِسٹم میں موجود خرا بیو ں سے ڈراتے ہیں۔
خِرد کو غلا می سے آ زا د کر جو ا نو ں کو پیر و ں کا اُ ستا د کر