اگر جرنیل واقعی ہی عظیم ہوتا
آجکل جنگ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ جنگوں میں قومیں اپنی عظمت کی دلیل بھی تلاش کرتی ہیں اوربہت سی جنگوں کی شاید صرف یہی ایک وجہ ہوتی ہے۔ کتابوں کے اوراق بھرے پڑے ہیں جن میں جرنیلوں، سپہ سالاروں فوجیوں کے لیے عظیم، بہادر، ذہین جیسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔
دشمن کو کاٹ دینا، سپاہیوں کو تہِ تیغ اور ملیا میٹ کر دینا اور فوجوں کا نام و نشان مٹا دینا کارناموں کے طور پر بیان ہوتے ہیں۔ امن کی تمام تر تحریکوں اور معاہدوں کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
ایک سوال ہمیشہ ذہن میں ابھرتا ہے کہ کیا انسانوں کو مارنا اور اتنے کم وقت میں اس تعداد میں مارنا جیسا کہ جنگ میں ہوتا ہے اتنا ہی اچھا کام ہے جیسے بیان کیا جاتا ہے؟
کیا یہ لوگ اتنے ہی عظیم ہیں جو جنگ کے نئے سے نئے طریقے وضع کرتے ہیں، نیا سے نیا اسلحہ تیار کرتے ہیں جس سے دور بیٹھے ایک ہی وار میں زیادہ سے زیادہ لوگ مر جائیں۔ کیا فوج کے سربراہ کا عہدے رکھنے والے سربراہان مملکت کے لیے جنگی رویہ ہی کامیابی کی ضمانت ہے؟ کیا فوجی اکیڈمیاں واقعی ہی عظیم تربیت گاہیں ہیں جیسا کہ وہاں داخلے کے متمنی سمجھتے ہیں؟
شاید ایسا ضروری نہیں۔ کچھ دن پہلے ایک چینی فِلم دیکھی جس میں ایک جرنیل جو جنگ جیتنے پر مبارکباد دی گئی تو انہوں نے جواب میں کہا کہ اگر میں اتنا ہی قابل ہوتا تو جنگ کے بغیر مسئلہ حل کروا دیتا۔ ایک اور چینی فِلم میں ایک جنگجو بادشاہ کو مشورہ دیا گیا کہ ایک جنگجو کی معراج یہ ہے کہ وہ ہتھیار رکھ دے۔
امریکہ نے عراق پر حملہ کرتے ہوئے انگریزی زبان کے الفاظ 'شاک اینڈ آ'(ڈرانا اور مرعوب کرنا) اور اس لڑائی کو دِل و دماغ کی لڑائی قرار دیا۔ جب لڑائی اس کے محرک امریکی صدر جارج بش حال ہی میں عراق گئے تو ایک صحافی نے ان پر جوتے برسائے۔
تمام تر اسلحہ داغنے، طاقت کی نمائش اور تباہی مچانے کے بعد بھی نفرت کا سلسلہ جاری ہے۔ نہ کوئی مرعوب ہوا نہ کسی کا دل جیتا گیا۔ انڈیا اور پاکستان کے لیے اس میں سبق بھی ہے اور ایک موقع بھی۔ پہلی جنگ عظیم کے دنوں میں ہندوستان میں اردو زبان میں ایک کتابچہ شائع ہوا جس میں یورپ کی فوجی اکیڈمیوں کو قتل عام کی تربیت دینے والے ادارے کہا گیا۔
یہ بھی کہا گیا کہ یورپ میں جنگ سے اس کے تہذیب کی نئی منازل طے کرنے کے دعوے جھوٹ ثابت ہو جاتے ہیں۔ قصہ مختصر کتابچے میں سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ کوئی بھی معاشرہ جب تک جنگ کے بغیر اختلافات حل کرنے کا طریقہ دریافت نہیں کر لیتا اپنی تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود اتنا ہی پسماندہ ہے جتنا کہ دوسرے معاشرے۔
انڈیا اور پاکستان کو چاہیے کہ وہ جنگ کے بغیر اختلافات حل کرنے کا عہد کر کے مہذب رویے کی ایک مثال قائم کریں۔
تبصرےتبصرہ کریں
’خون اپنا ہو يا پرايا ہو
نسلِ آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق ميں ہو کہ مغرب ميں
امنِ عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گريں کہ سرحد پر
روح تعمير زخم کھاتی ہے
کھيت اپنے جليں کہ اوروں کے
زيست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹينک آگے بڑھيں، کہ پيچھے ہٹيں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی ميتوں پر روتی ہے
جنگ تو خود ہی ايک مسئلہ ہے
جنگ کيا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتياج کل دے گی
اس ليے اے شريف انسانو !
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن ميں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
برتری کے ثبوت کی خاطر
خوں بہانا ہی کيا ضروری ہے
گھر کی تاريکياں مٹانے کو
گھر جلانا ہی کيا ضروری ہے
جنگ کے اور بھی تو ميدان ہيں
صرف ميدانِ کشت و خوں ہی نہيں
حاصلِ زندگی خِرد بھی ہے
حاصلِ زندگی جنوں ہی نہيں
آؤ اس تيرہ بخت دنيا ميں
فکر کی روشنی کو عام کريں
امن کو جن سے تقويت پہنچے
ايسی جنگوں کا اہتمام کريں
جنگ، وحشت سے، بربريت سے
امن، تہذيب و ارتقاء کے ليے
جنگ، مرگ آفريں سياست سے
امن، انسان کی بقاء کے لیے
جنگ، افلاس اور غلامی سے
امن، بہتر نظام کي خاطر
جنگ بھٹکي ہوئي قيادت سے
امن، بےبس عوام کي خاطر
جنگ، سرمائے کے تسلط سے
امن، جمہور کي خوشي کے ليے
جنگ، جنگوں کے فلسفے کے خلاف
امن، پُرامن زندگي کے ليے‘
(ساحر لدھيانوي)
زیادہ بہتر ہوگا کہ جنگ سے دور رہنے کا مشورہ بھارت کو دیا جائے۔ آپ کی تحریر سے بھی وہ ہی بو آرہی ہے جو مکھرجی کی باتوں سے آتی ہے۔
جناب نا سور کا علاج یہی بچ جاتا ہے کہ عضو کو کاٹ کر پھینک دیا جایے۔ اگر یکطرفہ چاہت یا کوشش سے مسئلے حل ہو سکتے تو انڈیا پاکستان کے معاملے میں تو پاکستان چیمپین ہوتا۔
سب سے پہلے اپنے موڈريٹر صاحب کو مجبور کريں کہ وہ مہذب رويے کی مثال قائم کريں اور ذاتی پسند کی بنياد پر تبصرے شائع کرنے کی بجائے سب کے تبصرے شائع کر ديا کريں وگرنہ ميرے اور موڈريٹر کے بيچ ايسی جنگ شروع ہونے کا احتمال ہے جسے حکومت برطانيہ اور حکومت فرانس بھی ملکر نہيں روک سکيں گی اور اسميں جيت ميری ہی ہو گی کيونکہ ميرے ساتھ حقوق نسواں والے بھی ہوں گے
اس بلاگ کا مرکزي خيال: جيو اور جينے دو-
سب سے پہلے محترمہ اسماء صاحبہ کو دلی خراج تحسين - ہمارے ہاں لاہور ميں کہا جاتا ہے ، ” واللہ ، کيا کھڑاک کيا ہے ! ” - موڈريٹر صاحب سے تو ہميں بھي کچھ کہنا ہے -
اس کے بعد آپ سےگذارش ہے کہ فريقين کو ايک ہي مشورہ دے کر فارغ البال مت ہو جايۓ - مصلحت کوشی چھوڑيۓ اور کہہ ہي ديجيۓ کون بيٹھ کر بات کرنے سے انکاري ہے اورساٹھ برس سے ٹال مٹول ہي کرتا رہا ہے -
بلاگ لکھنا آسان ہوتا ہے، پاکستان نے تو ہمیشہ ہی دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ کچھ اپنے چہیتوں کو بھی سبق دو۔ ممبئی میں جو ہوا برا ہوا، لیکن یہ کیا کہ ابھی ان حملوں پر قابو پایا نہیں اور الزام تراشی شروع کر دی۔ امن کا سبق اپنے چہیتوں کو سمجھاؤ۔ اسماء جی تسی چھا گئے او۔
اسماء ميں ہوں تو جنگ مخالف ليکن موڈريٹر کے ساتھ جنگ ميں آپ اکيلی نہيں ميں آپکے ساتھ ہوں کيونکہ ميرے نام سے پہلے ہی بونگے سے تبصرے موجود ہوتے ہيں کئی دفعہ لکھا پر موڈريٹر کے سرپر جوں تک نہيں رينگی گنجے ہيں شايد بس ميں تيار ہوں چپليں پھينکنے کيلۓ
جنگ میں قتل سپاھی ھوں گے۔۔۔ سرخروء ظل الہی ھوں گے
اسد بھائی آپ نے میرے دل کی بات لکھ دی۔تقریبا دنیا کے سبھی ملکوں کے عوام جنگ نیہں چاہتے، تو پھر یہ کون لوگ ہیں جو ہم {عوام} پہ جنگ مسلط کرتے ہیں۔ چند بوڑھوں نے ساری دنیا کو آگ کے گولے میں تبدیل کردیا ہے۔ ہمارے وزیراعظم صاحب اگر جوان نہیں ہے تو بوڑھے بھی نہیں، اسلیے وہ انڈیا کے ساتھ امن کی باتیں زیادہ کرنے لگے ہیں۔ باقی جتنے بھی بوڑھے صدور ہیں وہ بے لگام ہوتے جارہے ہیں۔ ان بدمست ہاتھیوں کو نوجوان طبقہ ہی لگام ڈال سکتا ہے۔اب اگر دنیا کو امن کی طرف لے آنا ہے تو ورلڈ یوتھ آرگنائزیشن کے ذریعے ان بوڑھوں سے نجات ضروری ہے۔۔۔
جنگ کی ٹنشن سے بچنے کا صرف ايک راستہ تھا کے ھم کچھ لے دے(ڑالر) کر لشکر کے لوگوں کو بھارت کے حوالے کر ديتے۔ اخير يھی تو ھم اٹھ سال سے فاٹا ميں کر رہے ھیں۔ وھاں روز غير ملکی جھاز ھمارے بے گناہ شھريوں کو شھيد کرتے ھيں اور ھم کو شرم تک نھيں آتی۔ اخير پھارت تو ھمارا پڑوسی ہے۔ اس سے مک مکا کيوں نہی ھو سکتا-
جنگ کسی کے مفاد میں نہیں، لیکن محسوس ہوتا ہے انڈیا جنگ کا ماحول مکمل گرم کر رہا ہے
جیو اور جینے دو پلیز حکمرانو
یہ ایک خونی ڈراما ہے ، جس سے دونو ممالک کی فراڈی حکومتوں کے علاوہ باقی سب کو نقصان ھے. اور کوئی مانے یا نہ مانے ھند و پاک کی ءوام 61 سال سے صرف ڈگڈگی کی آواز سمجھ سکی ھیں. جاگو، تماشہ ختم کرو.
جنگ سے فائدہ نہیں ہو گا لیکن جنگ سے ہندوستان اور پاکستان کی تباہی ہو گی چاہئے وہ جانی ہو یا مالی ۔
زاہد بشیر (جموںو کشمیر انڈیا)
تمام تبصرے عمدہ ہیں۔لیکن بہتر ھوتا کہ کوئی
صاحب الرئیے،دانشور اور ماہر فوجی محب
الوطن اس اھم ایشوئ پر ٹھوس اور مظبوط بنیاد پر
اھم حقائیق سامنے لاتے۔ ندیم رحمان ملک
محترم يہ باتيں وہاں اچھی لگتی ہيں جہاں تہذيب ہو-آج کی دنيا ميں تو جس کی لاٹھی اس کی بھينس-امريکہ نے بلا ثبوت افغانستان اور عراق کو کھنڈر بناديامگر پھر بھی وہ مہذب ہے اور اس ناجائز قبضہ کے خلاف لڑنے والے دہشت گرد-يہی کہانی امريکہ کا لے پالک فلسطين ميں دہرا رہا ہے- اگر پاکستان اور انڈيا ميں طاقت کا توازن مزيد انڈيا کے حق ميں ہو جاۓ تو يہاں بھي وہی صورتحال بنتے دير نہيں لگے گی اور دنيا as usual طاقت کا ساتھ دے گی يا خاموش رہے گي- بےگناہ مريں گے اور ”مہذب” دنيا مزمت کرے گي-