آج کے ڈیوڈ اور گولائتھ
فلسطین کے نو فٹ لمبے جن نما انسان گولائتھ سے سب ڈرتے تھے۔ وہ بار بار آ کر پکارتا: 'ہے کوئی جو میرے سامنے آئے۔' اسرائیل کے لوگ پریشان تھے کہ کریں بھی تو کیا کریں، کس طرح اس جن کا مقابلہ کریں۔
فلسطین کی فوج نے اسرائیل کا گھیراؤ کیا ہوا تھا اور دارز قد خونخوار گولائتھ اپنی پوری ذرہ بکتر پہنے چالیس دن تک ہر روز باہر آتا اور اسرائیلیوں کو للکارتا۔
اسرائیل کا بادشاہ سول پریشان تھا کہ کس طرح اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرے۔ ایک دن ایک چھوٹا سا لڑکا اس کے پاس آیا اور گولائتھ سے لڑنے کی اجازت چاہی۔ اس لڑکے کا نام ڈیوڈ تھا۔ بادشاہ نے پہلے تو صاف انکار کیا لیکن ڈیوڈ کے بے حد اصرار پر اسے لڑائی پر جانے کی اجازت دے دی۔
جب اپنے سادہ سے کپڑوں میں ملبوس ڈیوڈ جن نما گولائتھ کے سامنے آیا تو اس کے پاس ہتھیاروں میں صرف چند پتھر، غلیل کے لیے دھاگہ اور ایک چھڑی تھی۔ گولائتھ اپنے 'حقیر' سے حریف کو دیکھ کر بھنّا گیا۔ اس نے ڈیوڈ سے کہا کہ 'تم نے مجھے کیا سمجھ رکھا کہ مجھ سے اس حالت میں لڑنے آ گئے ہو۔ میں تمہیں مار کر تمہاری بوٹیاں پرندوں اور درندوں کو کھلاؤں گا۔'
ڈیوڈ کا جواب تھا کہ 'تم میرے ساتھ لڑنے تلوار، نیزا اور برچھا لے کر آئے ہو لیکن میں تمہارے سامنے خدا کا نام لے کر آیا ہوں۔۔۔ آج ساری دنیا کو پتا چلے گا کہ اسرائیل میں خدا ہے۔'
یہ سن کر گولائتھ غصے میں بھرا ڈیوڈ کی طرف بھاگا۔ ڈیوڈ نے اپنی چھڑی پھینکی اور اپنی جیب سے پتھر نکالا اور غلیل میں ڈال کر گولائتھ کی طرف داغ دیا۔ پتھر سیدھا فلسطینی دیو کے سر پر لگا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔'
یہ قصہ صدیوں پرانا ہے لیکن آج کل بھی مشرقِ وسطیٰ کی اس سرزمین پر ہر روز یہ کہانی دہرائی جاتی ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ اب کردار اور ان کے نام ذرا بدل گئے ہیں۔ فلسطین اب ہاتھوں میں پتھر اور غلیل سے لڑنے والا مظلوم ڈیوڈ ہے اور گولائتھ جو پچھلی کہانی میں فلسطین تھا اب جن نما اسرائیل بن گیا ہے جو ہر وقت خون کا پیاسا رہتا ہے۔
آج کی دنیا کے ڈیوڈ اور گولائتھ کی یہی کہانی ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
ايسا لگتا ہے کہ اب احتجاج اور UN جيسی اشياء ناپيد ہوگئی ہيں۔ انارکی کے جيسی صورت ہے اس سمے اس میں اگر چند ہٹ دھرم جلد باز معاملات اپنے ہاتھوں ميں نہ ليں تو کيا کريں۔ پھر پوچھتے ہيں کہ آخر دہشت گردی کے اسباب کيا ہيں۔
تمام مسلمانوں سے اپيل ہے کہ فلسطين کے مسلمانوں کے ليے دعا کريں اللہ ان کو کاميابی عنايت فرمائے۔ آمين۔
مجھے حيرت ہے کہ کسی زمانے ميں کيا واقعي فلسطينی حاوی تھے اسرائيل پر جو ديو شيو کی کہانی بن آئی ويسے آجکل تو لگتا ہے خدا بھی آنکھيں اور کان بند کرچکا ہے ظلم کی طرف۔ تو پھر ڈيوڈ گولائتھ لڑائی نتيجہ صفر اور موڈريٹر آپ مجھے گولائتھ بننے ميں مجبور نہ کريں فيورزم سے پرہيز کريں۔
ہزاروں سال سے اسرائيلی قوم جس سرزمين پر بس رہی تھی اب وہ ان کاگھر نہيں ہو سکتی کيونکہ بعد از اسلام وہ ذمي اور محکوم کی حيثيت سے تو وہاں رہ سکتے ہيں ليکن مالک اور حاکم کی حيثييت سے نہيں۔ اسلام کا يہی فلسفہ، برتری مڈل ايسٹ ميں بحران کا ذمہ دار ہے۔ اسرائيل اب بھی ڈيوڈ ہے اور خطےکا اسلامی ِجن گولائتھ اس کو مٹانے کے درپے ہے ـ ( يہ تبصرہ شائع نہيں ہو گا کيونکہ يہ ايک کڑوی حقيقت ہے۔)
جناب عارف شميم صاحب سلام مسنون
آپ آج کےڈيوڈ کي مجبوری نظرانداز کر گۓ ہيں ، عارف شميم صاحب۔ اس کے پير اس کےبادشاہوں نے باندھ رکھے ہيں جن کے تاج اسی گولائتھ کےمرہون منت ہيں۔ اقبال کے ’نادان ترک‘ کي کوتاہ بيني کي سزا کل امت مسلمہ نے بھگتي ہے۔ وقت کي ايک عالمي قوت سلطنت عثمانيہ چھوٹی بڑی عرب بادشاہتوں ميں بانٹ کر بےاثر کر دي گئي۔ تب سے عوام اور حکمرانوں کا موقف ايک نہيں رہا۔ ڈيوڈ تو مائل بہ پرواز ہے ليکن پر کٹے پڑے ہيں۔ بقول اقبال :
قافلۂ حجاز ميں ايک حسين بھي نہيں
گرچہ ہے تابدار ابھی گيسوۓ دجلہ و فرات!
بی بی سی کے ملک کے مفادات امريکہ و اسرائيل نوازی سے وابستہ ہيں اور يہی وجہ ہے کہ ’روشن خيالي‘ کی آڑ ميں يہ ’صيہونيت پسندي‘ پر مشتمل بلاگز کی ايک سيريز لے کر وارد ہوا ہے اور يکطرفہ اور اندھا ’پراپيگنڈہ‘ کر رہا ہے۔ بی بی سی محض ’فارميلٹي‘ پوری کر رہا ہے اور محض ہمدردياں سميٹنا ہی اس کا مقصد و منشاء ہے! موڈريٹر صاحب سے گذارش ہے کہ فدوی کے اس تبصرہ کو شائع کيا جائے تاکہ کچھ اندازہ ہوجائے کہ بی بی سی ميں حقائق پسندي کا تھوڑا بہت مادہ ابھی تک باقی ہے۔ شکريہ۔
پتہ نہيں يہ کہانی کس نے لکھی کيسے وجود ميں آئی ليکن ايک بات ضرور ہے ہر زمانے ميں ڈريکولا معصوم انسانوں کا خون پيتے رہے ہيں، ہر زمانے ميں جنگيں ہوتی رہی ہيں اور ہر زمانے ميں خون بہتا رہا ہے۔ ليکن حيرت کی بات يہ ہے کہ اکيسويں صدی کا يہ انسان جو اپنے آپ کو بہت مہذب مانتا ہے کيسے دن دہاڑے اور سر عام ہونے والے اس قتل عام پر خاموش ہے، کيسے يہ اس بات کو محسوس نہيں کرتا کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ انسانيت کی ايک بد ترين شکل پيش کررہا ہے۔ افسوس ناک اور المناک پہلو تو يہ ہے کہ تہذيب يافتہ انسان کا يہ سياہ پہلو آنے والی صدی کے ايک اور انسان کے سامنے کيا تصوير پيش کرے گا۔
خير انديش، سجادالحسنين، حيدرآباد دکن
محترم عارف شميم صاحب پھِر ايسا بھی ہوتا تھا کہ اس طرح کی افسانوی داستانوں ميں کِسی خُونخوار جِن کی جان اکثر ايک طوطے ميں ہُوا کرتی تھی اور کہانی کے جانباز ہِيرو شہزادے کا واحد مطلُوب و مقصُود، اپنی جان جوکھوں ميں ڈالنے اور گُونہ گُوں دُشوار گزاريوں کے بعد اس طوطے تک پہنچنا اور اُسے پکڑ کر اُس کی گردن مروڑ دينا ہُوا کرتا تھا ـ صِرف يہی نہيں، شہزادہ يہ کارنامہ کر گزرتا تھا! ليکن يہاں مسئلہ يہ ہے کہ کہانی کے خونخوار ’جِن اسرائيل‘ کی جان ’طوطا انکل سام‘ کے اندر ہے۔ اب آپ ہی بتائيے، بھلا کِس ميں اِتنی ہِمت ہے کہ ’طوطا سام‘ کی گردن مروڑ کر اُسے ڈھير کر دے!!!
مُخلص، نديم اصغر
اس کہانی ميں يہ سبق ہے کے آج کے ڈیوڈ کو بھی کوئی ايسا ہی انوکھا ہتھيار ايجاد کرنا ہو گا جو آج کے گولائتھ کو ايک ہی وار ميں ہلا دے۔ ليکن اس کام کے ليے ڈيوڈ کو ايک اچھا مسلمان بن کر قرآن ميں تفکر کرنے کے ساتھ ساتھ دنيا کے علوم حاصل کرنا ہونگے، پھر دنيا اس کے قدموں ميں ہو گی۔
اگر يہ واقعہ درست ہے تو سوچنے کی بات ہے کہ سب کچھ ممکن کيوں ہوا۔ مسلمانوں اور ترقی يافتہ اقوام ميں صديوں کا فاصلہ پيدا ہی کيوں ہوا؟ جب تک اس سوال پر غور کرکے اپنے آپ کو درست نہيں کرتے، يہ کہانی دہرائی جاتی رہے گي۔
جناب ہماری معلومات ميں اضافے کا شکريہ، مگر اب يہ بھی بتا ديجيئے کہ ساری دنيا اسی کہانی کو سن کر ہی خاموش ہے بلکہ خواب خرگوش ميں گم ہے يا پھر کوئی اور وجہ ہے۔ اس بار بچارے ديود کی مدد کو کوئی اور کيوں نہيں آتا۔ کہانی اور حقيقت ميں بڑا فرق ہے سرکار۔
عارِف بھائی آپ کا بلاگ ہے يا دِل کے جلے پھپھولے ،ليکِن يہ بھی تو ديکھيں نا دونوں صُورتوں ميں فتح حق کی رہی اب اگر وُہی پتھر، وُہی غُليليں معصُوم فلسطينيوں کے ہاتھوں ميں ہيں تو دُنيا کی ہمدردياں اور دُعائيں بھی اُنہی کے ساتھ ہيں اب چاہے وہ نو فُٹ طويل گولائتھ کی خُونخواری ہو يا ڈيوِڈ کی کمسِنی کے باوجُود کی گئی ہِمّت ہو۔ اصل بات يہ ہے کہ بہادری کِسی کے جِسم وقد کی مُحتاج نہيں ہوتی جب تکليف ہو تو اپنے سے کِتني بڑي جسامت رکھنے والے ہاتھی کو چيُونٹی بھی پلٹ کر کاٹنے سے دريغ نہيں کيا کرتی۔ وقت کے فِرعونوں، نمرُودوں کے لیے ايک چھوٹا سا بچہ بھی پريشانی کا باعث بن جايا کرتا ہے، ايک چھوٹا سا مچھر وقت کے بادشاہ کے لِۓ کيسی تکليف کا باعث بن جاتا ہے سب جانتے ہيں۔ شايد اِسی کو وقت کا پہيہ کہا جاتا ہے ليکِن کہانی کا لُبِّ لُباب يہی ہے کہ ہر دور ميں ظُلم اور ظالِم خواہ کِتنا بھی تنومند کيُوں نا ہو آخری فتح ہميشہ حق کی ہوتی ہے ہاں اور اِس مد ميں جو آخری بات ميں ضرُور کہنا چاہُوں گی وہ يہ ہے کہ آپ کی آواز کے فورم ’غزہ پر اسرائیلی حملے‘ ميں نا ہی اپنا تبصرہ شامِل کريں کا لِنک رہا ہے بلکہ فورم بند کا بورڈ نظر آرہا ہے اور اِتنے بڑے سانِحے کی پوسٹس کو فورم بند کرکے اپنے زور آور ہونے کا ثبُوت ديا گيا ہے اور يقينی ميرا يہ تبصرہ بھی اِس زور آوری کی نظر ہو گا کہ جِس کا جہاں زور چلتا ہے وُہ ضرُور چلاتا ہے۔
چليں يہ تو ثابت ہوا کہ يہ علاقہ ہزاروں سال سے اسرائيليوں کا بھی وطن ہے۔ ہونا تو يہ چاہيۓ کہ يہ دونوں اقوام مل جل کر آپس ميں پيار و محبت سے رہيں، ليکن ان کی ڈورياں چونکہ مغرب اور عرب ممالک کے ہاتھ ميں ہيں، اس ليۓ ان کی مرضی کے بغير يہاں کبھی امن قائم نہيں ہوسکتا۔ بلکہ اب تو ايران بھی اپنی پراکسی وار يہاں سے لڑنا چاہتا ہے۔ اسرائيلی کارروائی وقتی طور پر رک بھی گئی تو پھر کسی واقعہ کے بعد شروع ہو جائے گي۔
تہذيب يافتہ قوم ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کو آج اسرائيليوں کا فلسطين کے معصوم بچوں پر ہونے والا ظلم و ستم تمہيں نظر نہيں آتا ۔ کہاں رہ گئی تمہاری انسانيت کہاں رہ گئی تمہاری تہذيب۔ تمام اسلامی ممالک مل کر اسرائيل کو دہشت گرد ملک قرار دے کر اسرائيل پر پابندياں لگائيں اور ہر اس ملک کے سفارتی بائيکاٹ کا اعلان کريں جو اسرائيل کے ظلم و ستم کی حمايت کر رہا ہے۔
او آئی سی کے بزدل حکمرانوں يا تو بزدلی چھوڑ دو يا پھر او آئی سی ختم کر دو۔
اعجاز اعوان کراچی
اللہ تعالے سے دعا ہے کہ وہ مظلوم اور نہتے فلسطينيوں کی مدد فرماۓ اور غاصب، ظالم ، وحشی اور درندہ صفت اسرائيليوں کی بربريت سے ان معصوموں کی حفاظت فرماۓ۔ آمين
جلتی پر تيل چھڑکنے کے برابر کا کام کر رھے ہو۔
محترم دوستو! آپ سب نے بڑی اچھی باتيں لکھی ہيں جسکا خلاصہ کچھ يوں ہے
نورخدا ہےکفر کي حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے يہ چراغ بجھا يا نہ جائيگا
سچ کو چھپانے کيلیے آپ بھی قصے کہانيوں کا سہارا لے رہے ہيں محترم ۔ ليکن جناب سچ تو سچ ہے چھپتا نہيں چھپانے سے۔ جس کہانی کا آپ نے ذکر کيا اس قسم کی کوئی کہانی عرب تاريخ ميں نہيں ملتی ہاں يہوديوں يا آپ کی گڑھی ہوئی ضرور ہو سکتی ہے۔ میں نے محسوس کيا ہے بی بی سی والے اتنی بڑے ظلم (صحافتی زبان ميں خبر) کو کم کرنے کی کو شش کررہے ہيں۔ ادھر ادھر کی باتيں زيادہ اور کام کی بات کم ہو رہی ہے۔ جناب مجھے يقين ہے کہ آپ کے آقاؤں نے اس موضوع کے لے اس قسم کی پاليسی بنائی ہوگی۔ ايسے موضوعات کا نتيجہ يہ نکلتا ہے کہ دل جلوں کا غصہ اسرائيل کے بجائے آپ جيسے مجبور وفاداروں پر نکلتا ہے يعنی آپ اسرائيل کے بجائے خود کو پيش کر رہے ہيں۔ ايسی صورت حال ميں ميرا دوستانہ مشورہ ہے کہ جناب خاموشی اختيار کرليں يہ ايمان کاسب سے کمزور درجہ ہے اميد ہے کہ باقی وفادار بھی اس پر مخلصانہ غور اور عمل فرمائينگے۔ شکريہ، محمد فيضان توصيف صديقی، کراچي
اسلام عليکم
ان لوگوں کی معلومات کے ليے کہ جنہيں اس کہانی کی حقيقت کے بارے ميں معلوم نہيں ميں يہ بتانا چاہوں گا کہ يہ کہانی نہيں بلکہ ايک تاريخی واقعہ ہے جس کا ذکر قرآن مجيد اور بائبل دونوں ميں موجود ہے۔ ڈيوڈ (داؤد عليہ سلام) نے واقعی اس وقت کہ فلسطين کے بادشاہ اور انتہائی طاقتور انسان گولائتھ (جالوت) کو صرف ايک غليل سے مارا تھا۔ ڈيوڈ اور گولائتھ ميں جسمانی طاقت سے بھی بڑا فرق ايمان کی طاقت کا تھا اور جس کے پاس وہ طاقت تھی وہ جيت گيا۔ آج کے ڈيوڈ کو بھی اسی طاقت کی ضرورت ہے۔
خدا جسے چاہے اسے عزت دے اور جسے چاہے اسے ذلت سے نوازتا ہے۔ عرب ملک اپنی ناکامی کے ذمہ دار خود ہيں۔ ميں وارنٹي دے کر کہتي ہوں جتنے مرضي سروے کر ليۓ جائيں ان کا نتيجہ يہي نکلے گا کہ عربوں نے عياشی کے سوا کسی کام ميں بھي ترقی نہيں کي۔
اب يہ اصل ہيں يا کوئی اور ليکن تبصرہ نمبر 20 والي باجی ثنا نے جو کہہ ديا ہے وہی اصل مسئلہ ہے۔ چھين لے يا رب عربوں سے ان کا تيل ذرا، پھر ديکھيں خالی پيٹ عياشی سوجھتي ہے کيا!