بچوں کے قتل کا بدلہ بچوں کے قتل سے؟
ایک خبر کے مطابق غزہ میں حماس کے ایک رہنما نے ٹیلی ویژن پر سے خطاب میں کہا کہ 'اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کے بچوں کو مار کر اپنے بچوں کا قتل جائز کر دیا ہے'۔
دو چار روز سے ٹیلی ویژن پر اور دیگر ذرائع ابلاغ پر بھی کٹے پھٹے خون آلودہ بچوں کی تصاویر نظر آ رہی ہیں۔ کہیں کوئی باپ اپنے بچے کو گود میں اٹھائے خاموشی سے دفنانے لے جا رہا ہے کہیں ہسپتال کا عملہ فرش پر یا سردخانے میں قطار میں رکھی بچوں کی لاشوں کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
جنہوں نے یہ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوں گے یا ایسے کسی بچے کو دفنایا ہو گا اپنی تکلیف کا صرف خود وہی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ان بچوں کی اس گھناؤنی موت کے ذمہ دار لوگوں کے بچوں کے بارے میں بھی ایسے ہی سوچنا کیا ٹھیک ہے۔
وہ بچے تو ابھی شاید دنیا میں آئے بھی نہیں۔ ان کے بڑوں کو ان کے کیے پر تکلیف پہنچانے کے لیے، ان کے بچوں کو مارنے کی حمایت نہیں ہو سکتی۔ عین ممکن ہے کہ مذکورہ بیان جس نے بھی دیا وقتی جذبات میں آ کر دیا ہو اور وہِ خود اس کو غلط سمجھے۔
انسانی تاریخ بدلے کے اسی جذبے کے تحت بہائے گئے خون سے سرخ ہے۔ لیکن جب جب انسانی سوچ نے ترقی کی منزل طے کی اور نئے نظریات آئے اس جذبے کی مذمت کی گئی ہے۔ قانون کی بالادستی کی بات ہوئی اور یہ بھی کہا گیا کہ ایک شخص کے جرم کی سزا کسی دوسرے کو نہیں مل سکتی۔ باپ کو بیٹے کے کیے کی سزا نہیں مِل سکتی اور بیٹے کو باپ کے کیے کی۔ اور اس کے بعد بھی معاف کر دینے کے لیے کہا گیا ہے۔ لیکن ان نظریات پر عملدرآمد ایک خواب ہے۔
ابھی دو روز قبل ہی ایک عربی ٹیلی ویژن چینل پر صومالیہ کی الشباب نامی تنظیم کے ایک رہنما کا انٹرویو تھا۔ وہ ملک میں شرعی نظام لانا چاہتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ جب ان کی جماعت حکومت میں آئے گی تو وہ ان سب گروہوں اور ملکوں سے بدلہ لے گی جو ان کے ملک میں تباہی اور لوگوں پر ظلم کے ذمہ دار ہیں۔ اس میں یقیناً ایسے افراد بھی سزا پائیں گے جن کا مظالم سے شاید کوئی تعلق نہ ہو۔
انہوں نے ایتھوپیا اور ایک دو اور ہمسایہ ممالک کا نام لے کر کہا کہ ان سے بدلہ لیا جائے گا اور اس وقت سکون سے نہیں بیٹھیں گے جب تک حساب پورا نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ بدلے کے اس جذبے کو ہر قیمت پر زندہ رکھا جائے گا اور سکولوں میں بچوں کو بتایا جائے گا کہ انہوں نے کیا کرنا ہے۔ یعنی نفرت کا سلسلہ چلتا رہے گا۔ یعنی ظلم کرنے والے نکل جائیں گے اور آئندہ آنے والے نشانہ بنیں گے، اور پھر وہ یہی بدلے کا سلسلہ آگے بڑھائیں گے۔
ایک روز ایک امریکی چینل پر ایک ماں کا انٹرویو تھا جس کا پینتیس سالہ بیٹا چند سال قبل قتل ہو گیا تھا۔ مجرموں کو معاف کرنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ 'میں ایک کرسچن ہوں۔ کئی بار اس بارے میں سوچتی ہوں، اپنے آپ کو سمجھاتی ہوں لیکن ایسا ممکن نہیں'۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ قاتلوں نے ان سے کیا چھینا ہے، کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ لیکن یہ مثال مختلف ہے جہاں سزا انہی کو ملنے جا رہی جنہوں نے قتل کیا تھا۔
اس بحث کے کئی پہلو ہیں۔ کئی بار ملکوں کی دشمنی میں حکومتیں باقاعدہ جنگ کرتی ہیں اور اسے عوامی حمایت حاصل ہوتی۔ ایسے میں دونوں ممالک کے افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ کیا رویہ رکھنا چاہیے؟ اور جب میں یہ لائنیں لکھ رہا ہوں سامنے سکرین پر ایک بار پھر ایک ہسپتال میں تین بچوں کی لاشیں ساتھ ساتھ پڑی ہیں اور ارد گرد غم سے نڈھال لوگ۔ ان لوگوں کے لیے کیا راستے کھلے ہیں۔ کیا ٹھیک ہے کیا غلط۔
تبصرےتبصرہ کریں
حماس کے جس رہنما نے يہ بيان ديا ہے اسکو ہم تبھی سمجھ سکتے ہيں جب اوپر تصوير ميں ان تين بچوں کی جگہ اپنے بچے فٹ کر کے ديکھيں۔ رہی بات يہ کہ بدلہ ان بچوں پر لينا جو ابھی اس دنيا ميں آئے ہی نہيں تو اسرائيلی بچے ان بچوں سے انوکھے لاڈلے تو نہيں کہ ان کے آباؤ اجداد تو ہمارے بچوں کا قتل عام کريں اور فلسطين والے چپ کر کے مار کھاتے رہيں اور بدلہ نہ ليں کہ يہ انسانيت کے خلاف ہے۔ حماس کے بجائے سوچنے کي ضرورت ان اسرئيليوں کو ہے جو اندھا دن فلسطينيوں کے بچوں کو قتل کر رہے ہيں کہ انکی آنے والی نسليں اپنے اجداد کا بويا کاٹيں گی جب وہ خود اپنے آنے والے بچوں کے بارے ميں نہيں سوچ رہے تو حماس يا فلسطين نے کيا ٹھيکہ اٹھايا ہے ساری سوچ و بچار اور انسانيت کا
چودھری صاب ھمارے بچے قتل ہو رہے ہيں تو کچھ نہيں اور اگر انکے بچوں کے بارے ميں ابھی صرف کہا ہی گيا ہے تو ايسا نھيں سوچنا چاہيے
'ميرے لہو کی انہيں قدر کيا وہ کيا جانيں
جنہيں چراغ ملے ہيں جلے جلائے ہوئے'
چوہدري صاحب، آداب! مودبانہ عرض ہے کہ دوران جنگ باہم برسر پيکار دونوں ممالک کے افراد، افواج، اور گوريلا وجاسوسی گروہوں کو ايک دوسرے سے وہي رويہ رکھنا چاھيۓ جو اسلامي غزوات ميں ہوتا تھا يعنی بچوں، عورتوں، بوڑھوں کو نہ چھوا جائے، انہيں تنگ نہ کيا جائے- اسلام نے جو جنگوں کے قواعدوضوابط مرتب کيۓ ہيں، ان پر عملدرآمد سے خون خرابہ ميں کمي ہوسکتي ہے، بہت سے چراغ بجھنے سے بچائے جاسکتے ہيں- دوران جنگ صرف انہيں کے خلاف ايکشن ليا جانا چاھيۓ جن سے کسی بھی فريق کو اپنی جان کا خطرہ ہو- يا ديگر الفاظ ميں دوران جنگ بھی 'دفاع' کرنا چاھيۓ 'حملہ' نہيں- ليکن چونکہ جنگ ايک انتہائی منفی جذبہ ہے اور اسکے نقصان ہی زيادہ ہوتے ہيں لہذا بہتر يہي ہے کہ جنگ سے حتي المقدور بچا جائے- اسکے ليۓ ضرورت اس امر کی ہے کہ جنگ پيدا کرنے والے عوامل مثلآ شان وشوکت، طاقت و دولت، چودھراھٹ، حسد، احساس کمتری و احساس برتری وغيرہ کا جائزہ ليا جائے اور ان کو انسان ميں وقوع پذير ہونے سے روکا جائے- جھگڑا ہو، لڑائی ہو، معرکہ ہو يا جنگ ہو، ان ميں کودنے والوں ميں سے لامتناہي تباہي وبربادي سے بچنے کيلۓ کسی ايک کو لچک دکھانی ہوگي، کسی ايک کو پاؤں پيچھے کرنا ہوگا، ادلے کا بدلہ تھيوري کو بھولنا ہوگا- جس طرح فصل بونے کيلۓ کھيت کو سب سے پہلے تيار کيا جاتا ہے، اس ميں سہاگہ پھير کر زمين ہموار کي جاتي ہے، زہريلي بوٹيوں و پودوں کو باہر نکالا جاتا ہے، ہل چلا کر زمين کو گہرا اور نرم بنايا جاتا ہے، پاني ديا جاتا ہے اور پھر آخر ميں فصل کا بيج ڈالا جاتا ہے- بالکل اسي طرح جنگوں کے خاتمے، صلح جوئی وافہام وتفہم سے مسائل حل کرنے کيلۓ پوری دنيا ميں ايک جيسی 'فضاء' پيدا کرني ہوگي، دولت کي تقشيم کو يکساں بنانا ہوگا- سادگي، اخوت، بھائی چارہ، ضبط نفس، خوش خلقی و خوش گفتاري، ہمدردی وغم خواري، قناعت، صبر وشکر، فياضي، تحمل، برداشت، احتساب ذات، رحمدلي، خدا ترسي، کی تعليمات کو بہم پہنچانا ہوگا- اور ساتھ ہی تخريب و جنگ پيدا کرنے والے لوازمات مثلآ شان وشوکت، نفرت وحسد، بُغض وعداوات، غروروتکبر، بندہ وآقا ميں تفريق، شکست وفتح، راسخ العتقادي، فکري و مذہبي تنگ نظري، نسل پرستي، وطن پرستي، مذہب پرستي، فرقہ پرستي، لسانيت پرستي، مادہ پرستي، اور جاہ و املاک پسندي کو ترک کرنے کيلۓ 'جہاد' کرنا ہوگا، اور ايسے حالات پيدا کرنے ہوں گے کہ رياستوں کے شہری نہيں بلکہ دنيا کے شہری پيدا ہونا شروع ہوں-
'خدا نے آج تک اس قوم کي حالت نہيں بدلي
جس کو نہ ہو خيال آپ اپني حالت کے بدلنے کا'
مخلص، نجيب الرحمان سائکو، لاہور، پاکستان
محترم اسد صاحب آداب- جی بالکل بجا فرمايا آپ نے- جرم کی سزا صرف اور صرف مجرم کو ملنی چاہيے- ليکن ايک لمحے کے ليے اپنے آپ کو اگر ان والدين کی جگہ رکھيں جن کے ہنستے کھيلتے بچے چھن گيے ہوں تو شايد انکےکرب کا کچھ اندازہ ہو سکے اور اس بات کا بھي کہ ان جيسے والدين کو استعمال کرنا کتنا آسان ہو جاتا ہے- باجوڑ ميں جب ايک مدرسے پر بمباري کر کےلوگوں کے بچوں کو مارا گيا ان ہي بچوں کے والدين نے ہتھيار اٹھائے اور بطور خودکش استعمال ہو رہے ہيں- ہم نيويارک اور لندن ميں اپنے بچوں کے ساتھ محفوظ بھيٹے ان لوگوں کا دکھ شايد ہی سمجھ سکيں
چوہدری صاحب ساری دنيا بشمول فلسطين اور بڑھ کر پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر جو صورتحال بن گئی ہے اس سے خوف آتا ہے اب ضرورت امن کی ناگزيريت کو عام کرانے کی ہے تاکہ امن کی بہار بھر سے آن پہنچے۔ اہل قلم لکھاری اور فنکار اس بابت کافی پيش رفت کرانے کے متحمل ہيں
اسرائیل اور امریکہ ایک ہی ہیں اور بچوں کے قاتل ہیں
اسلام علیکم، اگر مسلمان بچوں کے مرنے پر ان کو احساس نہیں ہو رہا، امریکہ کے صاحب بہادر کہتے ہیں کہ اسرائیل کی مذمت تک نہ ہو۔ یہ سب مسلمانوں کے خلاف اور مسلمانوں کی نسل کشی کی کوشش ہے اور کچھ نہیں۔ اور سائیکو صاحب آپ صبر کی تلقین کس کو کرتے ہیں۔ فلسطین کے لوگوں کو یا ’معصوم اسرائیلوں‘ کو ۔ معصوم اسرائیلی اور ظالم فلسطینی۔
ڈیئر مسٹر چوھدری، میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں اتنی خودکش بمباری کیوں ہو رہی ہے۔ لیکن جب میں ان تصاویر کو دیکھتا ہوں تو مجھے معلوم ہو جاتا ہے کہ لوگ خودکش حملہ آور کیوں بنتے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل سمجھتے ہیں کہ وہ طاقتور ہیں لیکن انشا اللہ غزہ میں ان کو شکست ہو گی۔ اب تو حد ہو گئی ہے۔ تمام مسلمان غزہ کے لوگوں کے لیے دعا کریں۔
اپنی بکواس بند کرو
چوہدري صاحب نے جو کچھ لکھا ہے، سمجھ ميں آنے والا ہے۔
حماس اور فلسطينيوں کي حمايت کرنے والے حضرات سے گزارش ہے کہ وہ جذباتي باتيں چھوڑ ديں۔
جب جذباتي حضرات کوبھي گھر بيٹھے بٹھائے اوندھي سيدھي لکھنے کے مناسب پيسے مليں گے تو وہ بھي سب بھول جائيں گے۔
آپ تاريخ اٹھا کر ديکھ ليجيے، شاہ سے زيادہ شاہ کے وفادار بننے اور مسلسل بنے رہنے اور غلامي ميں مگن، بلکہ فخر محسوس کرنے کي جتني پکي روايت ہند و پاک کے مسلمانوں کي ہے، دنيا کے کسي اور حصے کے مسلمانوں ميں نظر نہيں آئے گي۔
اوپر کسي صاحب نے لکھا ہے کہ تصوير ميں موجود بچوں کي جگہ اپنے بچوں کو فٹ کر کے ديکھيں۔ ميري طرف سے اتنا اضافہ کر ليجيے کہ تصوير ديکھنے سے پہلے يہ بيان پڑہيں کہ ’اس حملے کي مشق گزشتہ ڈيڑہ سال سے کي جا رہي تھي‘ اور ساتھ ساتھ وہ تصويريں بھي ديکھين کہ جن ميں اسرئيلي فوجي حملے سے پہلے سر پہ اپني مزہبي ٹوپي پہنے تورات کي تلاوت کر رہے ہيں۔
واہ رے امن پسندي واہ ۔ بلکہ ، واہ رے پيسہ واہ !!
آپ کا مضمون پسند آیا۔ غیر مسلم جو مرضی کریں۔ اگر ہم نے بھی اس کی پیروی شروع کر دی تو ہم میں اور اس میں کیا فرق رہ جائے گا۔ ہمارا اپنا مذہب ہے اور وہ ہمیں اس قسم کی باتوں سے منع کرتا ہے۔
اسماء خالہ اور محی الدين چاچو آپ سب جذباتی باتيں کر رہے ہيں۔ جب عشق اور جنگ ميں سب کچھ جائز ہوتا ہے تو پھر بچوں کے کندھوں پر سوار ہو کر اخلاقی مبلغ بننے کا کيا مطلب؟ پتا نہيں کيوں ہماری قوم ہميشہ مظلوم ہی بننا پسند کرتی ہے۔ اس نے کبھی حالات کو ديکھ کر انہيں سمجھنے کی کوشش نہيں کی بلکہ جيسے بھی حالات ہوں ان ميں خود کو ايسے فٹ کرتے ہيں جيسے ان سے بڑا درد دل رکھنے والا دنيا ميں کوئی اور نہيں ہے۔ صرف سائکو بھائی اور فيصل بھائی کے تبصرے حالات کو ديکھ کر لکھے نظر آتے ہيں۔ فيصل بھائی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوۓ ياسرعرفات کا ايک قول لکھنا چاہوں گی کہ شايد اسماء خالہ اورمحی الدين چاچو جذباتیت کی بجائے حقيقت پسندی کا مظاہرہ کرنا شروع کرديں۔ ياسر عرفات لکھتے ہيں ’تم ايک اچھے مسلمان نہيں بن سکتے جب تک تم ايک اچھے يہودي اور اچھے عيسائي نہ بن جاؤ‘
يقيناً بچوں کے قتل کا کوئی جواز نہيں ہے مگر محترم چوہدری صاحب کيا اس سارے المیے ميں يہی بيان ہی آپ کی طپع پر نا گوارگزرا؟ کہ آپ اس بارے ميں لکھنے پر مجبور ہوئے؟ باقی سب کچھ آپ کو مناسب لگا؟ تشدد ہميشہ تشدد کو ہی جنم ديتا ہے۔
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ھو تو اب حشر اُٹھا کيوں نہيں ديتے
ہماری بندگی کا بھی کيا کہنا کہ ابھی تک ہمارے بچوں کا خون بھی نہيں جما، ابھی تک ہمارے بچوں کی قبريں بھی نہں کھديں، ابھی تک ہمارے بچوں کی لاشوں کی گنتی بھی مکمل نہيں ہوئی، ابھی تک ہمارے بچوں کے زخموں کے لیے مرھم پٹی بھی دستياب نہيں ہوئی اور ہم ہيں کہ ايسے بچوں کے غم ميں نڈھال ہوے جا رہے ہيں جو ابھی دنيا ميں آئے تک نہيں۔
جناب آپ کالم مکمل طور پر خيالی ہے۔ اس نے کہا کہ ميں يہ کردوں گا ،اگر يہ ہوا تو وہ ہوجائے گا- حضرت آپ اصل مسئلے کی طرف توجہ نہيں دے رہے يا يہ کہيں کہ دينا ہی نہيں چاہتے اگر کسی کے سامنے اس کے بچے مر رہے ہوں تو ظاہری سی بات ہے کہ اس کا فوری ردعمل تو يہی ہوگا کہ ميں بھی يہی کرونگا۔ اکثر بھارتی وزير کہتے رہتے ہیں کہ ہم پاکستان کی اينٹ سے اينٹ بجا دينگے پاکستان کو ختم کردينگے کيا ايسا ہوسکتا ہے؟ نہيں ہرگز نہيں بلکہ يہ بھی جزباتی بيان ہوتے ہيں اور غصے ميں کہی گئی بات کی اہميت بہت کم ہوتی ہے۔
اب آتے ہيں دوسری طرف کہ لڑائی ميں معصوم لوگ بھی مارے جاتے تو جناب يہاں بھی آپ ڈنڈی مار رہے ہيں اور اسرائيل کی بمباری کو نظر انداز کر کے يہ ظاہر کرنے کی کوشش کررہے ’اگر‘ حماس نے کچھ کيا تو يہ ہوگا۔ محترم اسرائيل نے بحثيت ايک قوم عزہ پر حملہ کيا ہے اور اگر حماس کے پاس اللہ کرے کے اتنی طاقت آجائے تو وہ پوری اسرائيلی قوم سے بدلہ لے سکتی ہے يہ بالکل جائز ہوگا۔ بس کوشش يہ ہو کہ خواتين اور بچے اس کی زد ميں نہ آئيں۔ تيسری اور آخری بات يہ کہ حضرت آپ نے مسئلے سے توجہ ہٹانے کيلۓ ادھر ادھر کی باتيں تو بہت کريں ہيں مگر پورے کالم ميں اسرائيل کا ذکر ايک دفہ کيا ہے اور وہ شروع ميں۔ سرسری طور پر مثاليں مسلمانوں کي دي ہيں وہ بھي منفي پہلو ميں۔ ميرا آپ کو مشورہ ہے کہ آپ اسرائيل کا منفی پہلو بھی ديکھيں آپ کو اس ميں کہانياں بنانے کی ضرورت پيش نہيں آئے گی اور يقيناً يہ کہنے کو مجبور ہونگے
دامان باغبان سے کف گل فروش تک
بکھرے پڑے ہيں سينکڑوں عنوان ميرے لیے
محمد فيضان توصيف صديقي،کراچي
جناب اسد صاحب آپ کو يہوديوں کہ بچوں کہ مارے جانے کا کتنا دکھ ہے جو يہ معصوم مارے جا رہے ہيں انکا کيا قصور تھا ان پر بھی دو آنسو بہانے کی فرصت ملی آپ کو؟ دشمن دشمن ہی ہوتا ہے اور ظالم کو ظلم کا حساب دينا ہی ہو گا افسوس ہوا کہ آپ ظالموں کے لیے اتنا نرم گوشہ رکھتے ہيں۔
اسرائيل پوری کوشش کرتا ہے کہ بچوں اور عورتوں کا کم سے کم نقصان ہو۔ اسی ليے بے پناہ قوت ہونے کے باوجود اتنا کم جانی نقصان ہوتا ہے۔ ورنہ قوت حماس کے پاس ہوتی تو وہ يہوديوں کے تمام بچے مار ديتے۔ کوشش تو وہ پوری کرتے ہيں، مگر تھکے ہوئے راکٹ نشانے پر ہی نہيں بيٹھتے۔ مسلم دہشت گرد، دو طرح کے جرم کرتے ہيں۔ ايک تو لڑائی ميں دشمنوں کے بچوں کی پرواہ نہيں کرتے، اور پھر اپنے بچوں کے پيچھے چھپ جاتے ہيں۔ جو لوگ خوشی اور فخر سے اپنے بچوں کو خودکش بمبار بنائيں، انکا اس طرح رونا دھونا، سوائے ہمدردی حاصل کرنے کے اور کچھ نہيں۔ عرب دنيا کی اکثريت يہ ڈرامہ سمجھ چکی ہے، اسی ليے مصر نے بھی اپنی سرحديں بند کر دی ہيں۔
چودھری جی کے بیان پر کوئی تبصرہ کرنا ہی بیکار ہے۔ چودھری صاحب نے بتا دیا کہ وہ واقعی میں چودھری ہیں۔ اللہ پاک جناب کو سمجھ عطا فرمائے کہ جب دو بھائی کسی دشمن سے لڑ رہے ہوں اور ایک بھائی دشمن کو گالی دیدے اور دوسرا بھائی پہلے بھائی کو مار دے (کہ اسلام میں دشمن کو گالی دینا جائز نہیں) تو یہ دانشمندی نہیں کہلاتی۔ لہذا کھوکھلی دانشمندی چھوڑ دیں اور اپنے بھائیوں کی غلطیوں کو نظر انداز کر کے دشمن کے مقابلے میں اپنی صفوں کو مضبوط رکھیں (آپ کی بے وقت کی بات نے مسلم امہ کو کوئی فائدہ نہیں پہچانا ہے لہذا بے وقت کی راگنی سے پرہیز کریں)۔ امید ہے کہ عاجزانہ گزارش قبول کی جائے گی۔
اسد صاحِب بات جذباتی ہو کر سوچنے کی تو نہيں ہے ليکِن ہر روز ايسی تصويريں ديکھ کر دِل لگتا ہے پھٹ جائے گا۔ کوئی بھی درد مند دِل رکھنے والا اِن تصويروں کو ديکھ کر خُود پر قابُو نہيں رکھ سکتا۔ ہر صاحِبِ اولاد اِن بچوں کی جگہ خُود کے بچوں کو تصّور کر ليتا ہے۔ بے شک مُعاف کر دينا ايک قابِلِ تحسين عمل ہے ليکِن بہت مُشکِل ہے اپنی اولاد کو اِس حال ميں ديکھ کر صبر کرنا اور ايسے حالات ميں جو صبر کر کے کُچھ نا کہيں وہ يا تو اولاد والے نہيں ہيں يا بہت بڑا دِل رکھتے ہيں۔ ميں خُود کِسی کے بھی دُکھ پر اپنے گھر ميں شور مچائے رکھتی ہُوں کہ خُون خواہ کِسی کا بھی ہو پُوری اِنسانِيّت کا خُون ہوتا ہے ليکِن بچپن سے ہم نے جو کُچھ پڑھا ہے کہ جنگوں ميں يا کِسی طرح کے بھی حالات ميں ہر مذہب کے لوگ اِس بات کا خاص خيال رکھتے ہيں کہ بچوں اور خواتين کی حِفاظت کی جائے اور اُن پر جنگی ہتھياروں کا اِستعمال نا کيا جائے پھر اِسرائيل کا تعلُق خواہ ہمارے مذہب سے نا ہو ميرے خيال ميں کِسی بھی مذہب ميں يہ سب جائز نہيں ہوگا اور حُرمت کے مہينوں کو تو شايد وُہ بھی مانتے ہوں گے جِن ميں جنگيں جائز نہيں ہوتيں۔ کوئی بتائے گا مُجھے اِس بارے ميں کيا؟ ليکِن ہم يہ بھی جانتے ہيں کہ لوگ يہ بھي کہتے ہيں کہ ’جنگ اور مُحبّت ميں سب جائز ہے‘۔
سو ايسے ميں اپنے دُکھوں کی تيزلہر ميں جو بيان بازی ہُوئی ہے وُہ ايک باپ کے دِل کی پُکار ہے۔ ويسے بھی ہميشہ ہی ايسی باتيں تو سُننے ميں آتی ہی رہتی ہيں کہ بدلوں کے سِلسِلے جب چلتے ہيں تو پھر نسلوں کو بُھگتنا ہی ہوتا ہے اور جو بھی بُھگتتے ہيں وہ ہميشہ بے قصُور ہوتے ہيں۔ کيا ہم اِن معصُوموں کی پُھول سي صُورتيں بُھول سکتے ہيں ہمارا جِن سے خُون کا کوئی ناتا بھی نہيں تو خُود بتائيں جِن کے يہ جِگر کے ٹُکڑے ہيں وُہ يہ غم کيسے برداشت کريں گے کہ جِس تن لاگے وُہ تن جانے کہ آگ کِتنی ہے اور کِتنی تيز ہے۔ ايسے ميں سُدھ بُدھ کوئی کيسے قائِم رکھ سکتا ہے کاش کہ جنگوں کی بِناء ڈالنے والے دِل رکھتے ہوتے تو يہ سب نا ہوتا تو کو ن نہيں کہے گا کہ ايسے ہی حالات ہوتے ہيں جو کِسی کو بھی خُود کُش حملہ آور کا رُوپ دے ديتے ہيں يعنی وقت اور حالات کِسی کو بھی مُجرِم بنا سکتے ہيں، بنا سکتے ہيں نہيں بلکہ بنا بھی ديتے ہيں اور پھر لوگ جُرم ديکھتے ہيں جُرم کی وجہ نہيں۔