ہندوستانی جمہویت کا چہرا
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں جمعرات کو پارلیمانی انتخابات کے پہلے مرحلے کے لیے ووٹ ڈالے گئے۔ اس دوران کم سے کم سترہ لوگ ہلاک ہوئے اور حزب اختلاف کے رہنما لال کرشن اڈوانی پر جوتا پھینکا گیا۔ ہندوستانی جہموریت کا ان میں سے ایک چہرہ پرانا اور ایک نیا ہے۔
لیکن اس طویل انتخابی ایکسرسائز کے دوران میں یہ سوچنے پر مجبور ہوا ہوں کہ کیا واقعی ہندوستانی جمہوریت صحیح سمت میں گامزن ہے؟
کہیں امیدواروں نےکھلے عام ووٹ خریدنے کی کوشش کی ہے تو کہیں مذہبی جذبات بھڑکانے کی۔ اعلیٰ ترین رہنماؤں نے ایک دوسرے کے لیے ایسے کلمات کا استعمال کیا، جو کسی صورت شائستگی اور تہذیب کے دائرے میں نہیں آسکتے۔
میرے خیال میں ہندوستانی جمہوریت ایک نئے لیکن خطرناک دور میں داخل ہو رہی ہے۔ الیکشن جیتنے کے لیے ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دینے کا رجحان بڑھ رہا ہے جن کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر سنجے دت یا پھر محمد اظہر الدین۔ سیاست میں ان دونوں کا ہی کیا کانٹریبوشن ہے؟
یا پھر نکسل وادیوں کو ہی لے لیجیے۔ اکیاون اضلاع ایسے ہیں جہاں وہ انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جمعرات کو انہوں نے سترہ لوگوں کو ہلاک کیا۔ کیا واقعی ان علاقوں میں پولنگ کو آزادانہ اور منصفانہ کہا جاسکتا ہے؟
لیکن ایک حوصلہ افزا بات بھی ہوئی۔ ماؤ نواز باغی کئی پولنگ سٹیشنوں سے الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں بھی لوٹ کر لے گئے۔شاید ان کی سوچ بدل رہی ہے اور وہ پولنگ کے جمہوری عمل کی پریکٹس کرنا چاہتے ہیں!
تبصرےتبصرہ کریں
چہرہ کيا ديکھتے ہو، دل ميں اتر کر ديکھو
پھر بھی ميں نہ مانوں اور ميں مہان
آگے آگے ديکھیے ہوتا ہے کيا۔ بہرحال جمہوريت ایک طرز حکومت ہے جس ميں بندوں کو گنا کرتے ہيں تولا نہيں کرتے۔ ليکن لوگوں سے ووٹ لينے کے بجائے زندگی کا حق ہی چھين ليا جانا بذات خود لمحہ فکريہ اور جموری عمل کے ماتھے پر خون آلود داغ ہے۔
بھارت کے چراغ تلے تو ہميشہ ہی اندھيرا رہا ہے۔ بالی وڈ کی چمک دمک سے چندھيائی ہوئی مغربی دنيا کے ليے بھارت ميں ہوتا ظلم و ستم، مذہبی نسلی اور علاقائی تعصب اور انتہا غربت کے ستائے ہوئے لوگوں کی حالتِ زار ديکھنا شائد ممکن نہيں رہا۔ تاہم ہميں اچھے کی اميد رکھتے ہوئے يہی خواہش کرنی چاہیے کہ جو بھی حکومت بھارت ميں آئے وہ نہ صرف غریبوں کے لیے اچھا کام کرے بلکہ علاقائی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے آسام، کشمير، سِکم اور ماؤ آبادی کے لوگوں کو ان کے بنيادی جمہوری حقوق يعنی حق خود اراديت دينے کے لیے اقدام کرے۔ بلآخر يہی تو جمہوريت کا حسن ہے۔ شائد ايسے ہی بھارت کی اونچی دکان کے پھيکے پکوان ميں کسی قدر شيرينی آنے کی شنيد ہو جائے۔
آپ نے عوام کا ذکر نہيں کيا۔ جمہوريت عوام سے، عوام کی اور عوام کے لیے ہوتی ہے۔
ہندوستانی عوام نے ہميشہ کوشش کی ہے کہ وہ ملک ميں جمہوريت کو زندہ رکھیں۔ يہی سبب ہے کہ وہ اور ميں صالحہ عرشی سے اتفاق کرتا ہوں کہ جمہوريت عوام سے/عوام کی اور عوام کے لیے ہوتی ہے۔