'تنہائي کے ہزار سال'
'کیا تم گیبرئیل گارسیا مارکیز کو جانتے ہو؟' نہ جانے کیوں میں ہر ملنے والے کولمبین سے یہی سوال کرتا ہوں، اگرچہ میں خود بھی اس محلے میں رہا ہوں جسے نیویارک کا لٹل کولمبیا کہتے ہیں۔
میرے ملک کے برعکس جہاں اچھے بھلے لکھاری کو پھاٹک والا بھی نہیں جانتا، مارکيز کو تقریباً اس کے تمام ہم وطن جانتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ بہت سے ان کے ہم وطن مارکيز سے متفق نہیں یا بہت سے ان سے اتنے متاثر نہیں جنتے میرے ملک کے بہت سے لکھاری اور ادب کے پڑھنے والے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر کولمبیائي لوگ کیتھولک مذہب کے ماننے والے ہیں جبکہ مارکيز کی کیوبا کے رہنما فیڈل کاسٹرو جیسے کمیونسٹ سے پکی دوستی ہے۔
'تم گیبو (مارکيئز اپنے ملک اور لاطینی امریکہ میں اسی نام سے مشہور ہے) کو کیسے جانتے ہو؟' الٹا بہت سے کولمبیائي مجھ سے پوچھتے ہیں۔ 'دراصل میں نے اپنے ملک میں تو پہلے مارکيز اور پھر کولمبیا کا نام سنا تھا'، میں اکثر گیبو کے ہم وطنوں سے کہتا ہوں۔
'تم نے آج کیا کیا؟' مجھ سے ٹیکسی ڈرائیور نے پوچھا۔ 'میں آج مشرف سے ملا'، میں نے اس سے کہا۔ 'ناقابل یقین'، اس نے شیشے سے پہلے مجھے اور پھر میرے ساتھ سیٹ پر دس کلو آٹے کی وہ تھیلی دیکھی جسپر 'گولڈن ٹیمپل' لکھا تھا۔ پھر اس نے کہا، 'ہاں ایک دفعہ میں نے اپنی ٹیکسی میں سپین کے وزیر اعظم کو اٹھایا تھا جب وہ اقوام متحدہ میں جنرل اسبملی کے اجلاس میں شرکت کرنے آیا تھا۔ میں نے اس سے کہا تھا 'جناب وزیر اعظم! پلیز آپ سگریٹ نہ پئیں۔' مجھے اس کی بات پر پورا یقین تھا کیوں کہ یہ نیویارک ہے، جہاں کے ٹیکسی والے کہتے ہیں کہ انہوں نے جو سواری گرانڈ سینٹرل سے اٹھائي تھی وہ ایلوس پریسلے تھا۔ 'مسٹر پریسلے! سٹی ہال کیا تم کسی شو میں شرکت کرنے جا رہے ہو؟' 'نہیں شادی کا سرٹیفیکیٹ لینے'، ٹیکسی ڈرائيور ایلوس پریسلے سے اپنی بات چیت کا بتاتے۔۔۔ نیویارک کے صحافیوں کی طرح نیویارک کے ٹیسکی ڈرائیوروں کے پاس بھی اپنی کہانیاں ہوتی ہیں۔
'کیا تمہارا تعلق سپین سے ہے؟' 'نہیں۔ میں کولمبیا سے ہوں۔' اس نے جواب دیا۔ فطری طور پر میرا اگلا سوال تھا۔۔۔ 'کیا تم گیبرئیل گارسیا مارکيز کو جانتے ہو؟'
'ہاں، جس نے 'تنہائي کے ایک ہزار سال' لکھی ہے!' کولمبین ٹیکسی ڈرائیور نے کہا۔ 'نہیں 'تنہائي کے ایک سو سال'' میں نے اسے درست کرنے کی کوشش کی۔
کولمبیائي ٹیکسی ڈرائیور نے سنجیدگی سے کہا 'تنہائي کے ایک سو سال' تو کولمبیا میں ہم بہت بچپن سے سنتے آئے تھے، اب تو وہ تنہائي کے ایک ہزار سال ہوگئے ہونگے۔۔۔'
تبصرےتبصرہ کریں
’کيا اہلِ شرف کيا اہلِ ہنر، سب ٹکڑے ردی کاغذ کے
اس شہر ميں ہے وہ شخص بڑا جو روز خبر میں رہتا ہے‘
‘مجھ کو تنہائی کا احساس تو پاگل کردے
جاگتی آنکھوں میں گر خواب اتارا نہ کروں‘
محترم حسن مجتبٰی صاحب، گیبریل گارشیا مارکیز کو ان کے گراں قدر ناولوں کی وساطت سے خاکسار اچھی طرح جانتا ہے اور ان کے تین ناولز بعنوان ’تنہائی کے سو سال‘، ’وبا کے دنوں میں محبت‘، اور ’محبتوں کے آسیب‘ کا مطالعہ کر کے پِسی ہوئی مخلوق کو قریب سے دیکھ چکا ہے۔ باقی یہ کہ ازرائے مہربانی بلاگ آسان لکھا کریںگ شکریہ۔۔۔
کيا آپ مشرف پاجی سے آٹے کا تھيلا لينے گئے تھے؟ کاش آپ ان سے بھی ايک سوال کر ليتے کہ يہ ڈاکٹر عافيہ صديقی کون ہے؟
ديدہ و دل ميں کھول رہے ہيں درد کے اوقيانوس
مجبوروں کے ايشيا اور مزدوروں کے روس
تنہائی ميں جل اٹھے ہيں يادوں کے فانوس
ياد کی جوت جگائی
تنہائی ، تنہائی
اور ٹيکسی کے پيچھے لکھا تھا ’جيۓ اسامہ۔۔۔!‘
کیا آپ نے سندھی لکھاری علی بابا کو پڑھا ہے؟ اگر ان کے ناولوں کا انگریزی ترجمہ ہو جائے تو وہ بھی مارکیز سے کم نہیں ہیں۔
حسن بھائي! آپ کے اس بلاگ کا تو يہ حال ہے کہ کاش! کچھ نہ سمجھ پائے کوئی
حسن بھائی، یہ بالکل اچھی بات نہیں کہ ہمارے ملک میں کوئی اچھے لکھاریوں کو نہیں جانتا۔ آپ کا تو کافی نام ہے۔ خاص کر حیدرآباد آپ کو بہت یاد کرتا ہے۔ میں تو عنوان دیکھ کر ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ آپ کی تحریر ہے۔ ہم تیس سال سے نہیں ملے، مگر مجھے آپ اب بھی یاد ہیں۔ ’گاڈ بلیس یو!‘
آپ مشرف کو چھوڑيں آگے کی فکر کريں۔۔۔ بلاگ آسان اور باربط لکھا کريں مہربانی ہوگی۔۔۔