'جہاں جوانی منع ہے'
تہران سمیت ایران کے بڑے شہروں کی سڑکوں پر صدر احمدی نژاد کے خلاف ہزاروں افراد کے احتجاجی مظاہروں کی جو تصاویر کسی نہ کسی طرح میڈیا پر پہنچ رہی ہیں انہیں دیکھ کر انیس سو اناسی کے وہ مناظر یاد آتے ہیں جب ایران کے عوام شاہ ساواک کیخلاف تہران کی شاہراہوں پر 'مرگ بر شاہ ' کہتے ہوئے نکل آئے تھے۔ ایران کی شاہراہیں و خیابان تھے کہ لوگوں کا احتجاج در احتجاج، انبوہ در انبوہ، سمندر در سمندر تھے۔ میری نسل ایران میں ایسے عوامی جوار بھاٹا سے بڑی متاثر ہوئی تھی۔
لیکن وہ خواب بھی شیشوں کی طرح جلد چکنا چور ہوئے جب ملاؤں اور آیت اللہ حضرات نے ایرانی عوام کے لیے درختوں اور لیمپ پوسٹوں پر پھانسیاں سجانی شروع کی تھیں۔ اگر پاکستان میں ضیاالحق تو ایران میں خمینی تھے۔
انہی دنوں میں میرے دوست اور شاعر حسن درس نے اپنی مشہور نظم لکھی تھی: 'خانم گوگوش کی تصویر کے فریم میں ایک ملک بند ہے جہاں کی سرحدوں میں جوانی منع ہے۔' پتہ نہیں کسی نے زوروں پر یہ افواہ اڑائی تھی کہ ایرانی مغنیہ گوگوش کو بھی خمینی کے پاسداران انقلاب نے پھانسی دے دی تھی (ایران کی یہ عابدہ پروین گوگوش تا حال حیات ہیں اور آجکل لاس اینجلس میں آباد ہیں جہاں ان کا شو بھی ہوا تھا۔ لاس اینجلس میں اتنے ایرانی ہیں کہ کئی ایرانی اسے کہتے ہی 'لاس ایران ' ہیں)۔ پی ٹی وی پر گوگوش کے شو اور بلوچـستان میں بلوچ باغیوں پر کوبرا ہیلی کاپٹر اور ان کے ایرانی پائلٹ بھٹو حکومت لائی تھی۔
ایران کی سرحدوں میں جوانی یقیناً اب بھی ممنوع ہے۔ لیکن 'عشق آزادی برابری' کے نعرے لگاتے ہوئے ایران کے لوگ اکثر جوان ایک بار پھر سخت گیر احمدی نژاد کی مبینہ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف نکل آئے ہیں۔
شاہ ایران پر آج تک لکھی گئی سوانح عمریوں میں سب سے مستند مانی جانی والی حال ہی میں شائع ہونیوالی کتاب 'دی لائف اینڈ ٹائمز آف دی شاہ' میں مصنف اور ایرانی سکالر غلام رضا افخانی لکھتے ہیں کہ کس طرح اپنی حکومت کے آخری دنوں میں شاہ نے اپنے محل میں اس میز پر جس پر وہ لنچ کرتے تھے اپنے خلاف نعرے لکھے پائے تھے۔
ڈھول بجے اور دوست محمد نہ ناچے ! والی سندھی کہاوت کے مصداق امریکی میڈیا میں ایران میں حالیہ احتجاجی لہر کے مناظر شد و مد سے دکھلائے جا رہے ہیں۔ اچھی بات ہے۔ لیکن کتنی بری بات نہ تھی، جب اسی طرح کے احتجاجی ہجوم پاکستان میں سڑکوں پر شاہ اور سموزا جتنے لاڈلے مشرف کے خلاف وکلاء اور سول سوسائٹی کے امڈ آئے تھے تو امریکی میڈیا ایسی تصاویر شاذ و نادر ہی دکھاتی تھی۔
تبصرےتبصرہ کریں
پس يہ ثابت ہوا کہ کبھی کبھی آپ بھی نہ صرف اچھا لکھتے ہيں بلکہ پورا سچ! آپ بھی جيتے رہيں حسن بھائي۔
آداب عرض! امریکی میڈیا کا ایرانی احتجاج کو کوریج دینا اور مشرف کے خلاف مظاہروں کو کوریج نہ دینا دونوں ’امریکی مفاد‘ کو ظاہر کرتے ہیں۔ مشرف کے خلاف مظاہروں کو کوریج نہ دینے کے پیچھے دراصل ’اتحادی افواج‘ کو ’سانس‘ لینے کا موقع مہیا کرنا تھا۔ دوسری طرف ایرانی احتجاج کو کوریج دینے ہی کی خاطر یہ احتجاج ’ظہور پذیر‘ کروایا گیا ہے۔ احمدی نژاد کی جیت پر دھاندلی کے الزامات و مظاہرے کروانے کے پیچھے جو مقصد پوشیدہ ہونے کا امکان ہے وہ احمدی نژاد کو بدنام کرنا اور ان کی سیاسی ساکھ کو خراب کرنا ہے اور ان مظاہروں میں ’ایجنسیاں‘ ملوث ہیں۔ اسی طرح کا احتجاج جو امریکی مفاد کو تقویت دیتا ہو مثلاً ’طالبانائزیشن ڈھول پیٹنا‘ ایم کیو ایم بھی ملک میں اکثر و بیشتر کرتی رہتی ہے۔ خاکسار کے خیال میں دھاندلی کے الزامات محض الزامات ہی ہیں، کیونکہ احمدی نژاد کی کامیابی اسی فیصد یقینی ہی تھی کہ ان کی خارجہ پالیسی ’نوجوان‘ عوام کی امنگوں و جذبات کے عین مطابق رہی ہے۔
حسن بھائی! آپ امريکہ جا بسے ہيں اور ميڈيا سے آپ کا گہرا و قريبی تعلق ہے لہذا يہ باريکياں آپ سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ امريکی ميڈيا کہاں ڈنڈی مار رہا ہے۔ ويسے اگر پتے کی يہ بات بھی بتا ديتے کہ امريکہ اپنے عزيز دوست مشرف کے نامقبول ہو جانے کے باوجود بھی ايسا کيوں کرتا رہا تو قارئين کو ايک اور انکشاف پڑھنے کو ملتا۔
جناب حسن مجتبيٰ صاحب،
امريکی اور برطانوی ميڈيا ہميشہ صرف وہی دکھاتا اور سناتا ہے جو ان کے اپنے مفاد ميں ہو۔
’بدل کر بھيس ہم فقيروں کا غالب
تماشائے اہل کرم ديکھتے ہيں‘
حسن مجتبيٰ صاحب بہت اچھا بلاگ ہے، خصوصاً آخری پہرے ميں تو دريا کو بلکہ ميں تو کہوں گا پورے سمندر کو کوزے ميں بند کر ديا ہے۔
حيرت انگيز، بی بی سی اور اتنا کڑوا سچ۔ بہتر ہوتا اگر معصوم برطانوی ميڈيا کا بھی نام ليا جاتا۔
’اِدھر ضياالحق تھا تو اُدھر خمينی ...‘ خدا ہدايت دے آپ کو، کس کو کس سے ملا رہے ہيں۔ ايک نے فرقہ واريت اور دہشتگردي کے رستے پہ ڈال کر ملک بربادي کے گھاٹ اتار ديا ہے جبکہ دوسرے نے استحصال کی ماري ايک قوم کو سر اٹھا کے جينا سکھا ديا۔ انقلاب جناب کا پسنديدہ موضوع سہی ليکن گوگوش کے حسن کا جادو تاحال حاوي نظر آتا ہے جو يہ انقلاب نظر ہی نہيں آتا۔
امريکی ميڈيا وہ دوست محمد ہے جو صرف اسی وقت ناچے جب اس کے اپنے پيٹ ميں درد ہووے۔
کبھی کبھی آپ کا قلم بھی سچ لکھتا ہے۔ آج اس کا يقين ہوا ہے۔
جناب اعلیٰ ايران پر خمينی کے قبضے کو اسلامی انقلاب کا لقب بھی ديا جاتا ہے حالانکہ اس ’انقلاب‘ کے بعد وہاں مخصوص طبقے اور مخالفين سے جس بے دردی سے نمٹا گيا اس کی اسلامی تاريخ ميں مثال ملنی مشکل ہے۔ اگر اسے اسلامی انقلاب کہتے ہيں تو شايد ہميں اسلامی انقلاب کی تعريف ہی بدلنی پڑے گی۔ شاہ ايران سے خمينی گروپ کے ہاتھ اقتدار آنا آسمان گرا اور کھجور ميں اٹکا والی بات ہے۔ اب جو پر تشدد مظاہرے ہورہے ہيں اس کے نتيجے ميں اگر موسووی آبھی جاتے ہيں توگويا کھجور سے گر کر دوبارہ کھجور ميں اٹک جائيں گے ايرانی کيونکہ ايران ميں کوئی بھی ايسا ليڈر فل وقت موجود نہيں ہے کہ جو خمينی کے نظريات سے ہٹ کر نظام چلانے کا خواہشمند ہو۔ اس ميں کوئی شک نہيں کہ ايرانی نوجوان نسل نام نہاد انقلابيوں سے تنگ آچکی ہے مگر وہاں حزب اختلاف ہو يا حزب اقتدار دونوں ہی کے نظريات کی انتہا ايک ہی ہے۔ اس لیے بہتری اسی ميں ہے کہ کوئی نيا خون ہی معاشی زبوں حالی کا شکار ايرانی عوام کی قيادت کرے۔
امریکی میڈیا بھی بیچارہ کیا کرے۔ دراصل وہاں سے کچھ جمہوریت نواز ٹیکسٹ میسیج موصول ہو جاتے ہیں۔ جبکہ شمالی کوریا کے عوام لگتا ہے جمہوریت نہیں چاہتے۔ وہاں سے کوئی ایک ٹیکسٹ میسیج بھی وہاں کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف موصول نہیں ہوتا۔ ورنہ وہاں کے بارے بھی تقریر کرنے کے لیے گورڈن اور کمپنی اسی طرح بے چین ہوتی