فیشنی صوبائیے !
جب مرزا جواد بیگ نے انیس سو ستر میں پاکستان کو بیس صوبوں میں بانٹنے کی بات کی تو ان پر مملکتِ پاکستان سے غداری کا مقدمہ بنا دیا گیا۔ جب اسی زمانے میں بہاولپوریوں نے نعرہ لگایا کہ وہ ریاست کہاں گئی جو ون یونٹ کے پیٹ میں چلی گئی تھی۔ تو ان بہاولپوریوں پر لاٹھی، آنسو گیس اور سرکاری بندوق استعمال کی گئی۔
لیکن آج پاکستان میں نئے صوبوں کی بات کرنا فیشن ہے۔ محمد علی درانی سے لے کر فاروق لغاری تک اور جماعتِ اسلامی سے لے کر پیپلز پارٹی تک ہر ایک کو اچانک احساس ہوگیا کہ پنجاب کا دو یا تین حصوں میں تقسیم ہونا کتنا ضروری ہے۔
مجھے بالکل تشویش نہیں تھی جب تک عبدالمجید کانجو سے لے کر تاج محمد لنگاہ تک سینتالیس چھوٹے بڑے دھڑے سرائیکی صوبے کے نقشے پھیلائے بیٹھے تھے۔ لیکن مجھے آج یوں تشویش ہے کیونکہ اب سرائیکی صوبے کا جھنڈا ان غریب مسکین گروہوں سے وہ تنومند لوگ چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں جو کل تک بیت الخلا بھی اسٹیبلشمنٹ سے پوچھ کر جاتے تھے۔
ایسے لوگوں کے لیے ہی صغیر ملال یہ کہتا مرگیا کہ
پہلے دیتے ہیں دلاسہ کہ بہت کچھ ہے یہاں
اور پھر ہاتھ میں کاسہ نہیں رہنے دیتے
ان سے بچنا کہ بناتے ہیں پناہیں پہلے
پھر یہی لوگ کہیں کا نہیں رہنے دیتے
اور انہی فیشنی، شیمپوزدہ، منرل واٹریے، موسمی سیاستدانوں کے لیے سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی نے کہا ہے کہ
اعتبار نہ کر انہاں سوہنیاں دا
اج کجھ ہوندن، کل کجھ ہوندن
منہ زور مزاج دے مالک ہن
گھڑی کجھ ہوندن، پل کجھ ہوندن
انہاں حسن دیاں بھریاں بوتلاں دے
تل کجھ ہوندن، گل کجھ ہوندن
لہذا یہ مت دیکھیے کہ کیا کہہ رہا ہے۔ یہ دیکھیے کون کہہ رہا ہے۔ مائیں اپنے بچوں سے یوں ہی نہیں کہتیں کہ کسی اجنبی سے کچھ مت لینا چاہے مٹھائی ہی کیوں نہ ہو۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترم وسعت اللہ خان صاحب،
بيس صوبوں ميں حرج ہی کيا ہے۔ سچ بات جو بھی کہہ رہا ہو اسکو زيادہ دير جھٹلايا نہيں جا سکتا۔۔۔
غالباً شیخ سعدی کا قول ہے کہ جب
جھوٹا شخص سچ بولنے پہ اتر آئے تو فورًا سمجھ لو کہ سچ خطرے میں ہے۔ یہاں بھی کچھ ایسا سلسلہ لگ رہا ہے۔
جب تاتاريوں نے عراق پر حملہ کيا تھا تو وہاں کے مذہبی راہنماؤں ميں مسواک کے سائز پر مناظرہ ہو رہا تھا۔ ہمارے ہاں بھی کچھ ايسے سياستدان ملک کو درپيش نازک صورتحال ميں صوبوں کی تقسيم کا موضوع لے کر بيٹھ گئے ہيں جو کسی خاص اشارے کے بغير بيان تک نہيں ديتے۔ ويسے ان ميں سے اکثريت سابقہ آمريت ميں آمر کے خاص الخاص درباری رہے ہيں۔ تو پتہ نہيں آمر کے ڈر کی وجہ سے يہ تجويز نہ پيش کرسکے يا ان کی عقل پر اقتدار کے پردے چڑھے ہوئے تھے کہ يہ خاموش رہے اور آج جب ان کے اختيار ميں کچھ بھی نہيں تو يہ اس ايشو پر اپنی سياست چمکا رہے ہيں۔
جي جي ۔۔ اور آپ اس فيشن کي آگ کو اپنے بلاگ کے پٹرول سے بجھانے کی کوشش کر رہے ہيں۔
بالکل پنجاب کے تین صوبے ہونے چاہیے۔ کم از کم ہر برائی کا سہرا تو پنجاب پر نہیں پڑے گا نا۔ اب تو يہ صورتحال ہے کہ کھاؤ بھی پنجاب کا اور گالی بھی پنجاب کو دو۔ ميں تو کہتا ہوں کہ اگر پاکستان کا استحکام چاہتے ہو تو بلوچستان، سرحد اور سندھ کے بھی مزيد صوبے بنا دیئے جائیں۔ کم از کم بلوچستان کو ضرور تین حصوں ميں تقسيم کيا جائے۔
جب عام لوگ يہ بات کريں تو سمجھو عوام کے دل کی بات ہو رہی ہے ليکن جب دوسرے لوگ ايسی باتيں کريں تو سمجھو ڈور کوئی اور ہلا رہا ہے۔
محترم وسعت اللہ صاحب
جب سے یہ دنیا قائم ہوئی ہے تب سے یہی ہوا ہے۔ جب تک غریب کا مسئلہ امیر کے لیے حرص بڑھ جانے کا وسیلہ نہ بن جائے غریب کا مسئلہ غریب کی طرح غریب ہی رہتا ہے۔ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ چار صوبوں کو سبنھالنا حکومت کے لیے عذاب بنا ہوا ہے تو باقی صوبوں کا کیا ہوگا۔
اگر تقسيم ہی کرنا ہے تو صرف پنجاب ہی کيوں۔۔۔
پاکستان کے قيامت تک چار ہی صوبے رہيں گے کيا يہ کوئی اوپر سے لکھوا کر لايا گيا ہے۔ ارے بھائی اگر مزيد صوبے بننے سے ملک کے انتظامی امور اور آپس کے تعلقات ميں بہتری آنے کا امکان ہے تو ضرور مزيد صوبے بنائے جائيں بلکہ ممکن ہے اور مجھے تو يقين ہےکہ يہ کام کرنے سے پاکستان کو توڑنے کی تمام سازشيں خودبخود دم توڑ ديں گی۔
جنوبی پنجاب ايک ذرخيز علاقہ ہے۔ اس کے بل بوتے پر لاہور پل رہا ہے۔۔۔ بہرحال آپ نے سرائيکی شاعر شاکر شجاع آبادی کا مصرع ڈال کر ہمارا جزبہ بڑھا ديا ہے۔۔۔
اور صوبہ بن بھی جائے تو کیا حرج ہے؟
دنيا کو ديکھيں تو ہر طرف گلوبلائزيشن کا چرچہ ہے اور ترقی يافتہ ممالک باہمی مفادات کے تحفظ کے ليے باہم ضم ہو رہے ہيں۔ يورپ ميں جہاں وطنوں کی وجہ سے خونی جنگيں ہوتی تھيں اب وہاں ملکی سرحديں صرف نقشوں پر باقی رہ گئی ہيں اور ايک ہم ہيں کہ تقسيم در تقسيم ہوئے جا رہے ہيں۔ جنوبی پنجاب کی پسماندگی کی وجہ يہی سياستدان ہيں جو ووٹ تو جنوبی پنجاب سے ليتے ہيں ليکن ان کی کوٹھياں لاہور اور اسلام آباد ميں ہيں۔ اگر ترقی چاہيے تو ووٹ اس کو ديں جو آپ کے درميان رہے اور آپ کے ليے کام کرے۔ نئے صوبے کے انتظام کے ليے کونسا فرشتے آسمان سے اتريں گے۔ يہی بارہا آزمائے ہوئے ہوں گے۔
جو قوم 60 سال سے پاکستانی قوم کی بجائے سندھی، بلوچی، پختون بنتی جائے اسے مذيد صوبوں کی آفاديت گائے کے آگے بين بجانا ہے۔ علاقائی انتظامی تقسيم يعنی مزيد صوبوں ميں ہی پاکستان کی بقا اور ترقی کا راز چھپا ہے۔ کائنات کی تقسيم اور زمان و مکان کی تقسيم کا معنی کچھ بھی لے ليں مگر خدائے بزرگ و برتر کا وجود اس ايک اٹل محور و محرک ہے۔ زمين پر ہی رہيں تو ذرا جرمنی، امريکہ، کينڈا، انڈيا اور آسٹريليا کو ديکھ ليں۔ ان کے ہر صوبہ کے شہری کو اپنی قوم اور ملک پر فخر ہے۔ پاکستانيوں 60 سال بعد اگر عقل کے استعمال کا موقع مل رہا ہے تو کر ديکھو۔ دوڑو زمانہ چال قيامت کی چل گيا۔ اب چال کا مطلب دھوکہ نہ سمجھ لينا۔ نہ پتہ ہو تو آگے تاگے پوچھ لينا۔
صوبوں کی جگہ ضلعوں کو صوبے بنانا زيادہ مناسب ہے۔ مگر اتنے صوبوں کا انتظام سنبھالنے کے لیے خواص ميسر نہیں۔ کچھ سال بعد شايد يہ بھی ممکن ہوجائے۔ لہذا انتظار کيجیے۔
کراچی سے کشمیر تک کے ہر پاکستانی کو یکساں وسائل کی فراہمی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ جو لوگ محرومی کا شکوہ کرتے ہیں انکی محرومیوں کا ازالہ کرنا چاہیے۔ اور یہ ازالہ حکومت کے ساتھ ساتھ وحدت پسند پاکستانیوں کے ذمہ بھی ہے۔ ملک بھر کے صاحب وسائل لوگوں کو ان محروم علاقوں میں روزگار، تعلیم اور صحت کے مواقع پیدا کرنا چاہیئں تاکہ ان کے ذہن میں علٰیحدگی کا احساس جاگنے نہ پائے۔
حلانکہ مواصلات کي ترقی اور اليکٹرانک انقلاب کے بعد سب کا مطالبہ صوبوں سے پاک ايک واحدانی رياست ہونا چاہيے تھا۔
ان لوگوں کا جھک کر ملنا اور برا ہے، بڑے پرندوں کی نیچی پرواز سے ڈر
محترم آپ کے لیے بھی ميرا مشورہ ہے ’یہ مت دیکھیے کہ کیا کہہ رہا ہے۔ یہ دیکھیے کون کہہ رہا ہے‘۔ لہذا ايک کان سے سنیں اور دوسرے سے نکال ديں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کے پاکستاں کو نئے صوبوں کی ضرورت ہے لیکن اس مسئلے کو موجودہ صورتحال میں اٹھانا بے وقت کی راگنی ہے۔
اگر صوبوں کی تقسيم انتظامی وجہ سے ہے تو يہ ڈويژنوں کی سطح تک ہونا چاہيے اور اگر لسانی يا نسل کی وجہ سے ہے تو پھر گلگت، ہزارہ، پوٹوہار يا اردو بولنے والوں کو بھی يہ حق ملنا چاہيے۔ قائد سے لے کر زرداري تک ہميشہ اقتدار ميں رہنے والے خود ساختہ مظلوم يعنی سندھ اور ديگر صوبوں کے نا اہل سياستدانوں کے غير جمہوری رويوں سے اگر کہيں کمی ہے تو اس کا ذمہ دار پنجاب نہيں ہے۔ يہ فيشنی صوبائيے اپنی اقوام کو صرف دھوکے ديتے رہے اور اب سياسی بقا کے ليے پنجاب کی ’چير پھاڑ‘ پر متحد ہو رہے ہيں۔ ايک صاحب فرماتے ہيں کہ جنوبی پنجاب کے بل بوتے پر لاہور پل رہا ہے حالانکہ لاہور تو تب بھی پل بڑھ رہا تھا جب پنجاب کاجنوبی حصہ بيرونی حملہ آوروں کے رستے سے زيادہ کچھ نہ تھا اور يہ تب بھی خوشحال تھا جب کراچی صرف کلاچی اور مچھيروں کی بستی ہوا کرتا تھا۔