ہم جنس پرستو، تمہیں سلام!
ہم جنس پرستی صحیح ہے یا غلط، فطری ہے یا غیر فطری، قانون کے دائرے میں یا باہر، ان سب سوالوں پر تو دلی ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد نہ جانے کب تک بحث جاری رہے گی۔
لیکن میں ایک بات وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہم جنس پرستی سے اتحاد بڑھتا ہے۔ کیا ہم جنس پرستوں میں بھی، یہ تو مجھےمعلوم نہیں، لیکن ان لوگوں میں ضرور جو کمر کس کر اس کی مخالفت میں آکھڑے ہوئے ہیں۔
اس کی مثال جمعرات کو دلی پریس کلب میں نظر آئی جب ہم جنس پرستی کے خلاف ایک دوسرے کے سر (پیش کے ساتھ) میں سر ملانے کے لیے ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور جین مت کے رہنما ایک ہی سٹیج پر جمع ہوئے۔
دنیا میں بڑے بڑے سمندری طوفان آئے، سونامی میں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنے، زلزلوں میں نہ جانے کتنے زندہ دفن ہوگئے، کتنے بچے آج بھی کبھی دوا تو کبھی خوارک نہ ملنے سے بچپن میں ہی دم توڑ دیتے ہیں، کتنی عورتوں کی عزت ہر گھڑی نیلام ہوتی ہے۔۔۔
لیکن کیا آپ کو یاد ہے کہ آخری مرتبہ ہمارے مذہبی رہنما بلا لحاظ رنگ و نسل، قوم و مذہب کب ایک ہی سٹیج پر جمع ہوئے تھے؟ یہ کام ہمارے ان بھائی بہنوں نے ایک ہی جھٹکے میں انجام دے دیا جن کی جنسی پسند ہم سے ذرا مختلف ہے۔
ہم جنس پرستو، تمہیں سلام!
تبصرےتبصرہ کریں
محترم تسلسل کے ساتھ شائع ہونے والے سماجی و معاشرتی توعيت کے مباحثے نہ ہمارے اہم مسائل ميں سے ايک ہيں اور نہ ہمارے اقدار کے عکاس۔ اگر آپ کے نزديک اس قسم کا اتحاد قابل ديد ہے تو ميں اسے نہيں مانتي اور کہاں آپ اس طبقے کے اتحاد کو مذہبی رہنماؤں سے ملا رہے ہيں۔ آپ کو ايک بلاگ لکھنا تھا جس ميں آپ کامياب ہوئے!
سہيل حليم صاحب
بے شک کہ ہم جنس پرستوں کے بارے ميں دلی ہائی کورٹ کے فيصلے نے مذہبی رہنماوؤں کو ايک ہی چھت تلے سر جوڑ کر اتحاد کا مظاہرہ کرنے کے لیے مجبور کرديا ہے پھر بھی خدارا خوش فہمی کا شکار مت ہو جائیے گا۔ انہيں دست و گريباں ہونے ميں ايک پل کا بھی وقت نہيں لگے گا وہ بھی بنا کسی وجہ۔
آپ نے درپردہ ہم جنس پرستوں کی حمايت کی ہے۔ مختصر يہی کہوں گا کہ فطرت سے بغاوت ممکن نہيں۔
محترم اس سے مجھے کوئی سروکار نہیں کہ اس تحریر میں آپ ہم جنس پرستوں کی حمایت کر رہے ہیں یا مخالفت۔ میں خود اس طبقے کو کافی حد تک قابل رحم سمجھتا ہوں۔ مگر یہ بھی نہیں مان سکتا کہ ان کے تعلق کو ایک قانونی حیثیت دے دی جائے۔ اس فیصلے کے خلاف ہر اٹھنے والی آواز کی ہم لوگ حمایت کرتے رہے ہیں چاہے وہ کسی مولوی کی ہو یا کسی پادری کی۔
بھارت خود کو آزاد خیال ثابت کر کے دنیا کی بڑی قوموں کی صف میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ یہ میڈیا کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے جو بھارت اور بھارتیوں کی ثقافت کو پروموٹ کرنے میں ذرا سی بھی شرم نہیں کرتا۔ ہر معاشرے کی کچھ ترجیحات اور روایات ہوتی ہیں۔ ان سے چشم کشائی کر کے کسی قوم کو ذلت کے اندھیروں میں تو پھینکا جاسکتا ہے لیکن اس سے عزت و وقار حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
سہيل حليم صاحب! بات اصول پسندی کی اور ماورائے فطرت اعمال و افعال کی ڈٹ کر مخالفت ہے۔ اس اکٹھ کا مقصد نيک ہے تو اس کی تائيد و حمايت کی جانی چاہيے۔
آپ کے آخری جملے سے ہمیں ذرا کچھ اختلاف ہے۔ کيا خوب فرمايا آپ نے ’جن کي جنسی پسند ہم سے ذرا مختلف ہے‘۔ ہمیں ’ذرا‘ سی ہنسی بھی آئی۔ رات اور دن ميں بھی تو ’ذرا‘ ہی سا اختلاف ہے خصوصاً بجلی کے مسئلے کے بعد۔
مارشل لاء اور جمہوری حکومت ميں بھی تو بس ’ذرا‘ سا ہی فرق ہے خصوصاً نظريہ ضرورت کے بعد۔ سچ کہہ ديں تو آزادي اور غلامی ميں بھی تو ’ذرا‘ سا ہی فرق ہے امريکی ڈرون حملوں کے بعد۔
ميں تو يہی کہوں گا کہ ا للہ کرے يہ اتحاد ہميشہ قائم رہے، چاہے ہم جنسی کي وجہ سے ہی کيوں نہ ہو۔