میرا نے ایسا کیا کیا؟
چند روز سے انٹرنیٹ پر اداکارہ میرا کی ایک وڈیو گردش کر رہی ہے جس میں وہ کسی پروگرام سے پہلے ریہرسل میں مصروف ہیں۔ وڈیو پاکستان کے انٹرنیٹ صارفین میں بہت مقبول ہوئی ہے اور بظاہر ان کے لیے انتہائی تفریح کا باعث بنی ہے۔
وڈیو پر لوگوں کے تبصروں سے اندازہ ہوا کہ اسے دیکھتے ہی یقیناً اکثر پر ہنسی کے دورے پڑے ہوں گے۔ کچھ نے بے ساختہ توبہ استغفار کا ورد شروع کیا ہوگا اور زیادہ تر نے اس بات پر شکر ادا کیا ہو گا کہ انہیں انگریزی آتی ہے۔
وڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ میرا پروگرام ریکارڈ کروا رہی ہیں جس میں انہوں نے انگریزی زبان میں کسی مہمان کا انٹرویو کرنا ہے۔ میرا کی مشکل یہ ہے کہ انہیں انگریزی کے سوال یاد نہیں ہو رہے اور وہ جب بھی کوئی جملہ بولنے کی کوشش کرتی ہیں ان کی انگریزی غلط ہو جاتی ہے۔
اس غلطی کی پاداش میں لوگوں نے وڈیو کے لنک کے ساتھ تبصروں کے لیے مخصوص جگہ پر 'میرا تیرا خانہ خراب'، 'دماغ گھوم گیا'، 'ہا ہا ہا ہا'، 'اف خدایا'، 'کیا بکواس ہے' جیسے بیانات کی یلغار کر دی ہے۔ کچھ ناقابل اشاعت باتیں بھی لکھی گئی ہیں۔ میرے خیال میں باتیں صرف اس کو سنائی جانی چاہیے تھیں جس نے ریہرسل کی یہ وڈیو عام کیں۔
انٹرنیت پر جو وقت گزارتے ہیں اور تبصرے لکھتے ہیں انہوں نے سکول کالج کا منہ تو یقیناً دیکھا ہوگا اور عام ترکیب میں انہیں تعلیم یافتہ بھی کہا جاتا ہوگا۔ ان کے تعلیمی معیار کا اندازہ ان کے تبصروں سے بخوبی ہو سکتا ہے۔
دنیا کے کامیاب معاشروں میں علم کو فوقیت دی جاتی ہے اور پاکستان میں یہ مقام انگریزی زبان کو دیا گیا ہے۔ ٹی وی کے اکثر اردو کے پروگرام صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہیں انگریزی زبان سے واقفیت ہے۔ کئی پروگراموں میں معلومات ہوں نہ ہوں انگریزی کا تڑکا ضرور رہتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں کسی بھی شعبے میں کامیابی کا دروازہ انگریزی زبان کے بغیر نہیں کھلتا اور اچھے انگریزی میڈیم سکول کی تعلیم کا خرچ آٹے میں نمک برابر لوگ ہی اٹھا سکتے ہیں۔ ایک ایسا نظام قائم ہو چکا ہے جس میں صرف انگریزی ہی آپ کو ممتاز کر سکتی ہے۔ اور بظاہر ان لوگوں کے نزدیک غلط انگریزی سے بڑی کوئی غلطی نہیں۔
میرا کے قصے کی اہم بات یہ ہے کہ ان کی وِڈیو پر تبصروں کا نشانہ تو صرف مِیرا خود تھیں، لیکن معیار اگر انگریزی بولنے کی صلاحیت ہے تو مِیرا کو دیے گئے تمام اچھے برے القابات پاکستان کی ایک غالب اکثریت پر صادق آتے ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
‘جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے‘
مجھے تو خود معلوم نہیں کہ میں نے ایسا کیا کیا ہے کہ موڈریٹر میرے تبصرے کھا جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں خاکسار کیسے جان سکتا ہے کہ میرا نے کیا کیا ہے؟
انگريزی آئے يا نہيں تفريح توآتي ہےنا! ياد رہےکہ ميراکي مادري زباں انگريزي نہيں
چودھری صاحب نے اچھا لکھا ہے۔ میرے خیال میں آجکل کی تمام اداکاراؤں میں سے میرا سب سے بہتر ہے۔ میرے خیال میں الٹے سیدھے تبصرے کرنے والے لوگ اگر کیمرے کے سامنے آئیں تو ان کی سیٹی گم ہو جائے۔
اگر میں گاڑی نہیں چلا سکتا تو میں ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں بیٹھوں گا۔ اگر میرا انگریزی نہیں بول سکتی تو وہ پروگرام کرنے کی کوشش کیوں کر رہی ہیں۔ میرے خیال میں لوگوں کا سوال کرنا درست ہے۔
لوگ میرا کی انگلش سے کیوں محظوظ ہو رہے ہیں کیونکہ وہ اپنی عام زندگی میں اور دوسرے ٹی وی شو میں اپنے آپ کو بہت شو آف اور پڑھا لکھا دکھاتے ہیں ۔ یقین کریں اگر میرا شو آف نہ کرے اور کہہ دے کہ اسے انگلش نہیں آتی تو لوگ اس کے انگلش سیکھنے اور غلطیوں کی بھی حوصلہ افزائی کریں گے اور کوئی اس کی انگلش پر نہیں ہنسے گا۔
اسد صاحب سچ بتائیے آپ کو میرا سے زیادہ ہمدردی ہے یا اردو زبان سے۔؟ میرے خیال میں آپ میرا کے بہت ہی بڑے فین واقع ہوئے ہیں اور اگر آپ کے پاس پیسہ ہوتا تو ’’عتیق الرحمان‘‘ کی جگہ آپ لیتے۔ آپ کو شاید یہ بھی یاد ہو گا کہ اسی اداکارہ نے بھارت میں جا کر جو کام کئے اس سے ملک و قوم کی کتنی بدنامی ہوئی تھی۔ آپ نے لکھا ہے کہ مہذب معاشروں کے لوگ ایسی حرکتیں نہیں کرتے ذرا برطانیہ اور امریکہ کے مہذب معاشروں پر نظر دوڑائیے ان لوگوں نے کس قدر اخلاق سوز چیزیں انٹرنیٹ پر جاری کر رکھی ہیں اور جتنی گالیاں انگریزی زبان میں ہیں شاید دنیا کی کسی اور زبان میں نہیں ہوں گی۔ یہ ہےان ’’مہذب معاشروں‘‘ کی حقیقت۔ ویسے انگریزی نہ آنا کوئی غلط بات نہیں ہے اور یقینا ہمیں اپنی زبان اردو کو انگلش پر ترجیح دینی چاہیے مگر ارباب اقتدار کو یہ بات سمجھانا مشکل ہے ویسے اب ہمیں اپنے بچوں کو چینی زبان بھی سکھانی چاہیے کیونکہ آئنہدہ آنے والا دور تو چین کا ہی ہے۔
میرے خیال میں میرا کو انگلش بولنے سے پہلے کچھ انگلش ساتھ کے ساتھ پڑھنا چاہیے
چوھدي صاحپ-
آپ نے بجا فرمايا مگر کيسے پتہ چلے گا کہ ھم تعليم يافتہ ھیں- کہنے سے تو اردو ھماری قومی زبان ہے مگر فخرانگريزی زبان پہ - مِيرا يک ادارہ ہے اور اس نے يہ ثابت کرديا ہے (خاص کر حاليہ شادی کے معاملے ميں) -
ميں تنگ نظر نھيں ھوں اور کئی سالوں سے اقوام متحدہ ميں کئی ممالک ميں کام کررھا ھوں مگر کاش ھم انگريزی پر فخر کرتے وقت ذرا اپنی قومی زبان اردو اور دينی زبان عربی کو بھی ذھن ميں رکھيں کہ وہ کہاں ثک ھميں آتی ھيں-س
جناب آپ نے جو فرمايا وہ اپنی جگہ درست ہے، ليکن اگر ميرا صاحبہ کسی ترجمان کے ذريعے اپنے مہمان کے ساتھ گفتگو کرتيں تو ان تبصروں کی نوبت نہ آتي- ليکن شايد آج ہمارے ليۓ اردو سے ناواقفييت جبکہ انگريزی پر عبور فخر کا باعث ہےـ
میرا بیچاری کیا کرے جب فلمی صنعت کا حال بالکل بدحال ہو۔ کام ناپید ہو تو پیٹ پالنے کے لیے کچھ تو کرنا ہی ہوگا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس جدید دور میں چینلوں کی بھرمار ہو تو اس کو کسی پنجابی یا اردو چینل کا کمپیئر بننا
لیکن سازشی لوگوں کا کمال ہے اس کو ایکسپوز کرنے کا انہوں نے نیا طریقہ ڈھونڈا اور ایک بار پھر میڈیا میں اس کی واٹ لگا دی
چودھری صاحب ، کيا آپ نے کسی عرب ، ايرانی يا ترک ٹيليويژن چينل پر ان زبانوں ميں انگريزی يا کسی اور زبان کا تڑکا لگتے ديکھا ہے ؟ يہ اعزاز صرف ہم پاکستانيوں ہی کو حاصل ہے - يہ لوگ اپنی نجی گفتگو ميں بھی اپنی زبان کی خالصيت برقرار رکھتے ہيں اور اس پر فخر کرتے ہيں - شاید اس لۓ کہ قديم تہذيبوں کے وارث ہيں جبکہ ہمارا ثقافتی قبلہ تو بمبئی منتقل ہو چکا ہے -
مين دبئی كورٹ مين عربى اور اردو كا مترجم هون , اكثر باكستانى حضرات انكريزى مين جواب دينے كو ترجيح ديتے ہين , ليكن جب ان سي پوجهتا هوں كه هم دونوں میں كون انگريز هے ؟؟ تو جواب گول كرديتے هيں ,
یہ شہرت کے لیے ٹوپی ڈرامہ ہے
اسد بھائی ميرا کے بڑے پرستار لگتے ہيں آپ تبھی ايک سنجيدہ موضوع کو ميرا کے ساتھ فٹ کرديا- ميرے خيال ميں دونوں کی الگ الگ وضاحت کی جائے تو بہتر ہوگا- جہاں تک انگريزی کا تعلق ہے تو ميں آپ سے اتفاق کرونگا کہ ہماری قوم کو انگريزی کا شوق نہيں بلکہ بيماری ہے -آتی ہو يا نہ آتی ہو بس بکے جاؤ- اردو يونيورسٹی ميں مطالعہ پاکستان کا ليکچر انگريزی ميں--- اگر انگرزی ہی معيار ہوتی تو جرمن اور جاپانی کبھی ترقی نہ کرتے- انہوں نے اپنی قومی زبان کو اپنا کر ترقی کري اور ہم ساٹھ سال بعد بھی يہ فيصلہ نہيں کرپائے کہ استاد انگريزی ميں پڑھائے کہ اردو ميں-
اب آتے ہيں ميرا کی طرف تو جناب ميرا پر لعن تعن کی وجہ وہ ويڈيو نہيں بلکہ انکے سابقہ کار نامے ہيں ويڈيو تو بس وسيلہ بن گئ-ميرے خيال ميں پاکستاني انٹرنيٹ صارفين کی ايک بڑی تعداد نے گزرے عرصے ميں ميرا کو”سرچ” کيا ہوگا اور اسی ميں يہ ويڈيو ان کےہاتھ لگ گئی - شايد ان حضرات نے اپنی ”محرومي” پر ميرا پر جملے کسے نہ کہ ان کی انگلش پر-ايک اور ذکر کرتا چلوں کہ فيس بک ميں شاہد آفريدی کے پرستاروں کا ايک گروپ ہے جسميں کافی عرصے سے ميرا کے حوالے سے چٹ پٹی خبريں لگائی جارہيں تھيں- ناچيز کو بہت ناگوار گزرا اور ايک احتجاجی نوٹ لکھ ڈالا پر حيران ہوں کہ اکثريت کا مشورہ تھا کہ اگر آپ کو غلط لگ رہا ہے تو گروپ سے الگ ہوجائيں -- پر ابھی تک سوچ ہی رہا ہوں مشورے پر-
جناب زبان کسی بھی معاشرے کی پہچان ہوتی ہےـ دنيا بھر کے لوگ اپنی قومی يا مادری زبان بولنے ميں فخر محسوس کرتے ہيں اور ہم ہيں کہ اپنی ہی زبان بولنے ميں شرم آتی ہےـزبان اور کلچر کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور دونوں کا ارتقائی عمل معاشرے کی کثيرالجہت مظبوتی کے لۓ ضروری ہےـ يوں لگتا ہے کہ پاکستان ميں سرکاری اور غير سرکاری اداروں نے اردو کے سر سے ہاتھ اٹھا کر، يتيم بنا کر انگلش کے سپرد کر ديا ہےـ
میرے خیال میں اس ویڈیو میں تفریح کی وجہ انگریزی نہ آنے سے زیادہ انگریزی نہ آنے کی صورت میں زبردستی انگریزی بولنے کی کوشش کرنا ہے ...
جناب چوھدری صاحب۔
اگر میرا جی کو انگلش نہیں آتی تو انکو یہ پروگرام بھی نہیں کرنا چاہیے تھا۔
عزيزم اسد علی چوہدري صاحب
کسی بھی قوم ميں اخلاق تب رائج ہوتا ہے- جب اہل اخلاق آپکی قيادت کر رہے ہوں جبکہ ہمارے ليڈر کرپٹ ، مغرور اور شائستہ زبان سے کوسوں دور ہيں۔ ہمارے ہيرو مولانا روم، جمال الدين (افغاني) اسدآبادي، ابن سينا ،علی شريعتی يا يعقوب کندی نہيں بلکہ ٹي وی سينما کے اداکار ہيں جن کے لباس عرياں اور سرگرميا ں يہاں لکھنے کے قابل ہی نہيں -
رہی بات انگريزی کی تو اس ميں بھی قيادت اور ميڈيا سے سب کچھ بدل سکتا ہے- اگر ہمارے ليڈر اردو زبان جس پر انکي مکمل گرپ بھي ہوتي ہےکی بجائے انگريزی غلط لہجے غلط گرائمر اور حتي غلط الفاظ تک بول کر بھی راحت محسوس کرتے ہيں اسی طرح يہ قائدين اپنے قومی لباس سے سخت اکتاہٹ اور گھن محسوس کرتے ہيں جبکہ تھری پيس سوٹ مع ٹائي (جو کہ صليب يا کراس کی عيسائيوں کی نشانی ہے ) کو پہنتے ہی نخوت و تفاخر محسوس کرنے لگتے ہيں - اس احساس کمتری نے ہمارا اعتماد خودی، خودداری سب کچھ چھين ليا ہے-
تو جناب اگر ہم واقعا” مہذب ،اخلاقی و بلند شعوری معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہيں تو قيادت اور ثقافت کو اپنی اصليت کی طرف پلٹانے کيلئے ايک زبردست سياسی و سماجی وثقافتی انقلاب برپا کرنا ہو گا -
میرا کی انگلش ہمارے کرکٹروں کی انگلش کی طرح ہے۔ میرا کو انڈیا کے اداکاروں سے کچھ سیکھ لینا چاہیے
کيا ہوا اگر ميرا کو انگلش نہيں آتی ہے- بہت سے دانشوروں کا تو اردو کا تفجل تک ٹھک نہيں ہے مگر ان کو شرم نہيں آتی ہے تو پھر ميرا اپنی انگلش پر کيوں شرمائے--
اردو زبان جس پر انکي مکمل گرپ بھي ہوتي ہے----حسن صاحب یه گرپ کونسی زبان کا لفظ هے
جناب حسن عسکری صاحب کے خيالات قابل قدر ہيں ليکن ديگر بہت سے افراد کي طرح ان کا بھي ٹائی کو عيسائيت يا صليب کا نشان قرار دينا سمجھ ميں نہيں آيا - ٹائي کالر ميں پہننے سے قبل يا پہننے کے بعد کسی بھی حالت ميں صليب يا کراس کا نشان نہيں بناتي - ٹائي پادری حضرات کا جزو لباس بھي نہيں جبکہ مشرق وسطٰی ميں بعض علماء کرام عمامے اور جبے کے ساتھ ٹائی بھی زيب تن فرماتے ہيں - اس پر کيا کہيۓ گا - اور اگر اسے مغربی لباس کہہ کر رد کرنا ہي ہے تو پھر کوٹ اور پتلون کا کيا ہو گا - راقم کے نزديک ٹائي اور دور حاضر کے ديگر مقبول ملبوسات فقط ثقافتی حيثيت رکھتے ہيں - ميرے خيال ميں ان ميں کسی قسم کا کوئی مذہبی پہلو نہيں نکلتا -
مسئلہ انگریزی بولنا نہیں، لیکن ایک میٹرک پاس بھی جملے سیکھ سکتا اور انگریزی بول لیتا ہے۔ اس کا مطلب ہے میرا میٹرک پاس بھی نہیں۔ ایسے لوگ اتنا پیسہ کما رہے ہیں اور گریجویٹ بغیر نوکری کے ہیں۔
ميرا نے ايسا كحه نہين كيا هے.
لو لوگ کسی بات پر تو ہنستے ہیں اور وہ بھی پاکستان کے حالات میں