برلن اور تقسیم کے زخم
برلن وال کے خاتمے کو پورے بیس برس ہو گئے ہیں۔ سرد جنگ کی سب سے ظاہری نشانی نے خاندانوں، قوموں اور دنیا کی سیاسی قوتوں کو تقسیم کیا ہوا تھا۔
عوامی طاقت اور حذبے نے اس دیوار کو گرا تو دیا لیکن کہانی کا ایک زیادہ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سرمایہ دار دنیا کے دولت مند ملک مغربی جرمنی نے اپنے کمیونسٹ اور غریب پڑوسی مشرقی جرمنی کو کس طرح سنبھالا اور وہاں کس طرح سرمایا کاری کے ذریعے ترقیاتی کام کیے۔
برلن میں ہر طرف آپ کو اس کی تقسیم کی تاریخ دکھائی دیتی ہے۔ کمیونسٹ ممالک والے مخصوص مجمسے اور عوامی تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ یہ علاقہ کبھی مشرقی برلن کا حصہ ہوگا۔ نئی نئی عمارتوں کی تعمیر بھی زیادہ تر شہر کے مشرق میں ہوئی۔
دیوار کے کھنڈرات بھی سرمایہ داروں کے نام ہو گئے۔ اس کی اینٹوں کے ٹکرے پیپر ویٹ، 'کی چین' اور دیگر شکلوں میں فروخت ہو رہے ہیں۔ کمیونسٹ جرمنی کی فوجی وردیاں بھی دیوار کی تاریخ سے وابسطہ سیاحتی کاروبار کے تماشے کا حصہ بن چکی ہیں۔
جرمنی کی کمیونسٹ تاریخ کو جرمن دکاندار خوب بیچ رہے ہیں۔ لیکن اس تقسیم کی اصل انسانی قیمت کا آپ کو اس سے متعلق عجائب گھر میں جا کر پتہ چلتا ہے۔
'دا وال میوزیم' میں جرمنی کی تقسیم کی ایک انتہائی تکلیف دہ کہانی ظاہر ہوتی ہے جس میں سینکڑوں ہزاروں افراد نے اپنی جانیں دے دیں۔ ان افراد کی فہرستیں ہیں جو مشرق میں لا پتہ ہو گئے، جنہیں حکومت کی مخالفت کے جرم میں ایسے کیمپوں میں لے جایا گیا جہاں سے وہ زندہ نہ لوٹے۔
ان لوگوں کی کہانیاں ہیں جو کسی نہ کسی طریقے سے دیوار کی دوسری طرف آنا چاہتے تھے، گاڑیوں کی ڈّگیوں میں چھپ کر، بھاگ کر یا تیر کر۔ ان لوگوں کی کہانیاں ہیں جو مشرق سے نکلنے والوں کی مدد کرتے تھے، اور جنہیں ہر وقت خطرات اور دھمکیوں کا سامنا تھا۔
عجائب گھر میں ظلم کی کہانیاں ہیں اور ہمت کی بھی۔ تقسیم شدہ خاندانوں کی، ٹوٹے ہوئے خوابوں کی۔اس میں آکر آپ کو صحیح اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تقسیم اس شہر ۔۔ اور ملک۔۔۔ کے لیے کتنی اذیتناک ثابت ہوئی۔
مجھے برلن جاکر ہی اس تکلیف دہ انسانی تاریخ کا احساس ہوا۔ لیکن ملک نے اپنے آپ کو جس طرح سنبھالا ہے وہ بھی متاثرکن ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
تہذيب يافتہ قوموں کی يہ ہی ريت ہوتی ہے کہ مشکل وقت خندہ پيشانی سے نبھاتے ہيں اور جونہی موقع ملے تو اس کی قيمت وصول کرليتے ہيں۔ ليکن برصغير کے لوگوں کا ماضی اور حال آپس کی چپقلش اور خودغرضی کی وجہ سے کبھی بھی خوشحالی کی منزل کو نہيں چھوسکا۔آپ کا يہ بلاگ لکھنے کا مطلب ان لوگوں کے شامنے بالکل بھينس کے آگے بين بجانے والی بات ہے۔
محترمہ عنبر خیری صاحبہ، آداب! سکھوں کی اپنے مذہبی تہواروں پر لاہور آمد اور پاکستانیوں کی بھارت یاتراؤں، واہگہ بارڈر تقریبوں سے دونوں ملکوں کے عوام کے جذبات دیکھ کر مجھے بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جرمنی کی تقسیم اور ہندوستان کی تقسیم میں عوام کے جذبات و احساسات و خیالات و پریشانیاں و مسائل و اذیتیں و پشیمانیاں ایک جیسی ہیں اور ان جذبات و مسائل کا اگر تصویری خاکہ دیکھنا ہو تو سعادت حسن منٹو کا افسانہ بعنوان ‘ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ شکریہ۔
‘دیے بُجھاتی رہی، دل بُجھا سکے تو بُجھائے
ہوا کے سامنے یہ امتحان رکھنا ہے‘