'مقدمہ در مقدمہ'
گیارہ ستمبر کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد اور دیگر چار کے خلاف مقدمہ نیویارک میں ایک سرکس کی طرح آنے والا ہے جو امریکہ کی تاریخ کا شاید سب سے بڑا اور انتظامات کے لحاظ سے مہنگا ترین مقدمہ ہوگا۔
نیویارک میں جہاں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا گراؤنڈ زیرو ہے وہاں سے چند بلاکوں پر وفاقی کورٹ ہاؤس ہے جہاں یہ مقدمہ چلے گا۔ لیکن اس مقدمے کے ساتھ ساتھ فیڈرل کورٹ کے باہر ایک بڑا مقدمہ اور بھی ہوگا۔ یعنی کہ میڈیا ٹرائل، جو جج، استغاثہ، وکلاء اور ملزمان سے بھی آگے آگے دوڑتا چل رہا ہوگا۔ ایک اور مقدمہ یادوں اور انسانی جذبات کا ہوگا۔۔۔ اور شاید ریشتاغ مقدمے کے بعد یہ اب تک کا بڑا مقدمہ ہو۔ کورٹ روم ڈراموں میں شاید یہ براڈوے ڈراموں سے بھی بڑا ڈرامہ ہو۔
امریکی عجیب غریب لوگ ہیں۔ گراؤنڈ زیرو پر آنے والے مقامی امریکی سیاحوں سے جب مقدمے کے بارے میں پوچھا گیا تو کئی کو خالد شیخ محمد کے نام کا بھی پتہ نہیں تھا۔
گیارہ ستمبر کی صبح دہشت گردانہ حملے میں مارے جانے والے نہتے تین ہزار لوگوں میں امریکیوں سمیت ہر قومیت، نسل و مذہب کے لوگوں میں سے پاکستان کے چودھری محمد وسیم، سلمان ہمدانی، شعبان علی، رحیم، شبیہ احمد، محد خالد شاہد، بھارتی نژاد ہنس مکھ پرمار، وشنو رام، اور ریڈی فقط چند نام ہیں۔ ورلڈ ٹریڈ ٹاورز کے پاس لوگوں کی مدد کو جانے والا نوجوان سلمان ہمدانی کئي ماہ تک ایک 'مشتبہ' اور پھر اپریل دو ہزار دو میں ایک امریکی ہیرو کے طور پر مانا گیا۔
اور یہ جو سازشی نظریہ ہے کہ اس دن ورلڈ ٹریڈ سینٹر مییں کام کرنے والے تمام یہودی چھٹی پر تھے، اس کے برعکس مارے جانے والے یہودی عقیدے کے لوگوں میں ایک سماجی کارکن ابراہیم اولووٹز بھی تھا۔
یادوں کے، آنسوؤں کے بند بھی ٹوٹیں گے۔ گيارہ ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین اپنے پیاروں کی یاد میں، وہ بھی جو سمجھتے ہیں کہ یہ حملہ ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں نے کیا، وہ بھی جو سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کا کوئي مذہب نہیں ہوتا، اور وہ بھی جو سمجھتے ہیں یہ حملہ 'انسائیڈ جاب' یا اندرونی کام تھا۔
میڈیا کے اراکین اور کیمرہ مینوں کے غولوں کے غول، انسانی حقوق والے، جنگ مخالف بھی اور جنگ پرست بھی، وہ بھی جو سمجھتے ہیں کہ دنیا چکی کے دو پاٹوں کی طرح بش اور بن لادن جیسی دو انتہاؤں کے بیچ میں پھنسی ہوئي تھی/ ہے۔ جس کا شکار وہ کئي پاکستانی بھی ہوئے جو بروکلین سے باب خیبر تک 'کرے کوئي اور بھرے کوئي' کی مثال بنے ہیں۔ سب کے قدم اور نظرین اس طرف ہونگي۔
اور سب سے بڑا ٹرائل خود امریکی نظام انصاف کا ہوگا جسے ثابت کرنا ہے کہ وہ ایک 'روالوِنگ ڈور' نہیں اور نہ ہی مینہیٹن کا جزیرہ گوانتانامو بے۔۔۔
تبصرےتبصرہ کریں
کاش کہ کوئى ان لوگوں کے جذبات بھی سمجھ لے جن کے اقربا عراق ، افغانستان اور پاکستان میں بلاوجہ مارے گئے اور غائب کر دیئے گئے، کاش کوئى ان پر بھی مقدمہ چلانے والا آجائے۔
آپ نے تو ٹينشن ميں ڈُل ديا ہوگا مقدمہ امريکہ ميں ليکن براہ راست فارغ سوالوں اور سنسنی خيز آوازوں پر مبنی تجزیے ہونگے ہمارے لکی ايرانی سرکس نما نيوزچينلز پر
يہ بات اب تک سمجھ ميں نہيں آئی کہ پوری دنيا پر جنگ مسلط کر کے بھی آخر امريکہ اتنا خوفزدہ کيوں ہے کہ گوانتاناموبے ميں پہلے سے مرچکے يا پھر زندہ درگور لوگوں کے لیے اسے اتنا کچھ کرنا پڑرہا ہے۔ رہی بات امريکی نظام انصاف کی تو پوری دنيا ميں يہ بات روز روشن کی طرح عياں ہے کہ امريکی نظام انصاف سازش خودغرضئ مفاد پرستی اور عياری کی منہ بولتی تصوير ہے -
بہت پتے کي بات کہہ دی کہ اب دنيا بھر کا آزاد ميڈيا بھی سب کچھ ديکھ کر دکھائے گا۔ واقعی امريکييوں کا کڑا متحان ہوگا۔ ديکھیے کيا ہوتا ہے
‘منیر اس زمانے میں رہبر بہت ہیں
حقیقت کو اُلجھن بنا دینے والے‘
عجب اس زمانے کے لوگ ہیں گھر کی آگ بجھاتے نہیں دوسروں کا دل بہلانے چلے۔
گيا ر ہ ستمبرکے سا نحے ميں مر نے و ا لو ں کے نا مو ں کے ساتھ ان افغانوں، عراقیوں کے بھی نا م لکھنے چاہیئں جو انکل سام کے ساتھ جنگ ميں بے مو ت ما ر ے گۓ۔ امر يکہ کا عد ا لتی نظا م گو انتا نا مو بے بگر ا م ا ور ابو غر يب کے مظا لم کے بارے میں کيا کہتا ھے
امريکی ميڈيا امريکی مفادات کی نگہبانی کرے گا نہ کہ پيشگی سزا کاٹتے ہوے ملزموں کے حق کی بات يا غير جانبداري
اور اگر جرم ثابت نہ ہوا تو کوئی بش اور اس کے حواريوں پر افغان، عراق اور پاکستان جنگ کے مقدمے کی بات کرے گا؟