ٹوپی کے پیچھے کیا ہے؟
گزشتہ چھ دسمبر کو نیویارک کے ٹائمز سکوائر سے لے کر پاکستان میں خیرپور میرس کے مریم توپ تک 'سندھی ٹوپی' یا سندھی ثقافت کا دن منایا گیا۔ یہ سارا میلہ جیو ٹی وی چینل کے اینکر کی صدر آصف علی زرداری کے گزشتہ دنوں افغانستان کے دورہ پر سندھی ٹوپی پہن کر جانے پر دئیے جانے والے ریمارکس کے نتیجے میں شروع ہوا ۔
مبارک باد کے مستحق ہیں وہ سب لوگ جنہوں نے 'سندھی ٹوپی اور اجرک' کی لاج رکھ لی۔ اور یقیناً زیادتی پر ہیں وہ لوگ جنہوں نے صدر آصف علی زرداری کی ٹوپی پر جملہ معترضہ بولا اور پھرگرتی ہوئی دیواروں کو ایک سہارا دے دیا۔
بہت کچھ اس ٹوپی اور اجرک کے نیچے چھپ گیا۔ لوگ خوش ہیں کہ سندھی ثقافت کے نام پر وہ کینیڈا سے کشمور تک متفق و متحد ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان لاکھوں ہزاروں لوگوں میں سے کسی نے بھی اس سندھی اور پاکستانی مرد یا عورت سے یکجہتی کا اظہار کیا جسکی بقول فیض احمد فیض 'پگ زور والوں کے پاؤں تلے دھجیاں ہوگئیں۔۔۔'
پاکستان میں ہر سال تین سے ساڑھے چار ہزار عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں اور ان میں سب سے بڑی تعداد صوبہ سندھ میں 'کارو کاری' کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کی ہے۔ کیا ان ثنا خوان تقدس مشرق نے کھبی کوئی ایک دن ان کارو کاری یا نام نہاد غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کے ساتھ یکجہتی میں منایا؟ تھانوں پر پولیس اور وڈیرہ خانوں، چودھریوں کی اطاقوں ڈیروں پر ہاری و مزارعے کی پگ میں ہر روز ہاتھ پڑتے ہیں۔۔۔ کیا ان ہزاروں لاکھوں لوگوں نے کبھی جاگیردارانہ نظام کے خلاف بھی کوئي دن منایا؟
کیا کسی نے جانا ہے کہ یہ سندھی ٹوپی زیادہ تر سندھ کے ان اضلاع میں وہ عورتیں بناتی ہیں جہاں عورتوں کو کارو کاری میں سندھی 'غیرتمند' قتل کرتے ہیں۔ ٹوپیاں بنانے والی اکثر ان محنت کش عورتوں کو مڈل مین، بنیا اور بیوپاری ٹھگ لیتا ہے۔
کیا کسی بھی ٹوپی اور اجرک کی عظمت گانے والے نے سندھ کی اس بیٹی ڈاکٹر شازیہ خالد کو بھی یاد کیا جس کے ساتھ مبینہ طور ایک فوجی میجر نے جنسی زیادتی کی تھی اور پھر بقول ڈاکٹر شازیہ اسی ٹی وی اینکر نے مبینہ طور پر اسے سابق فوجی حکمران کے کہنے پر زیادتی کی شکار ڈاکٹر شازیہ اور ان کے شوہر کو وطن چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔
واقعی مردہ قوم مقاموں (قبرستانوں) سے واپس آگئي ہے اور صدر آصف علی زرداری نے کسی جادوگر کی طرح اپنی ٹوپی کےنیچے سے سفید کبوتر بر آمد کر لیے ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
آداب عرض! بال کی کھال اتارنا ‘صحافی‘ ہونے کی پہلی اور بنیادی علامت ہوتی ہے۔ غیرت کے نام پر قتل، 'کارو کاری' کے نام پر قتل ہونے والی خواتین، جاگیردارانہ نظام کے خلاف ۔۔۔۔۔۔ ‘یکجہتی‘ اگر نہیں منائی جاتی تو اس کا یہ مطلب ہے کہ ‘سندھی ٹوپی‘ کا دن بھی نہیں منانا چاہیے تھا؟ یا پھر ان سماجی برائیوں سے یکجہتی کرنے کے بعد ‘سندھ ٹوپی‘ کا دن منانا چاہیے تھا؟ کیا گارنٹی ہے کہ اگر ایسا کر بھی لیا جائے تو آپ صحافی لوگ ‘خاموش‘ ہو جائیں گے اور یہ نہیں کہیں گے کہ یکجہتی منانے سے پہلے عوام نے کبھی ‘دہشتگردی کے خلاف یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے؟ ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے یکجہتی کا کوئی جلوس نکالا ہے؟
یہ دن قوم کو متحد کرنےمیں پہلا قدم بنے کاش
نام نہاد دانشوروں کی شرارتیں قوم کو متحد کرنے بھی معاون ہو سکتی ہیں۔ اگر ان اینکرز کو اس مثبت پہلو کا خیال آگیا تو شاید ان کی نیندیں بھی حرام ہو جائیں۔
کبھی پاکستان کی بھی تعریف بھی کردیا کریں۔.پاکستان کے نام پر تبصرے کر کے پئسے کمانے والے۔
میرا تعلق 'آزاد کشمیر' سے ہے مجھے بھی کوئی ٹوپی تجویز کیجیے۔
۔
ہر کسی کو اپنی ثقافت کی تشہیر کرنے کا حق ہے۔لیکن ہمیں یہ سب کچھ کرنے سے پہلے سوچ لینا چاہیے کہ ہم سب پاکستانی ہیں اور ہم سب کو پاکستانی ثقافت کو فوقیت دینا لازمی ہے , کیونکہ پاکستان میں صرف ایک صوبہ نہیں اس میں چار صوبے ہیں اس لیے سب سے پہلے پاکستان کو یاد رکھیں۔
حسن بھائي لگتا ہے آپ زرداری دشمنی میں پاکستانی میڈیا سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں
اگر یہ ٹوپی زرداری کی نہیں ہوتی تو شاید آپ یہ تبصرہ بھی نہیں کرتے۔.
حسن بھائي کبھی تو کوئی ڈھنگ کا بلاگ لکھا کرو۔ اب سندھی ٹوپی کا دن منانے میں کیا خرابی ہے بھلا؟ تم خود تو بی بی سی جیسی انفرمیشن انڈسٹری میں کام کرتے ہو اور یہ بی بی سی انفرمیشن کی کارپوریٹ میڈیا ہے جسکا اپنا ایجنڈہ ہوتا ہے۔ اگر ابھی میں یہ کہوں کہ بی بی سی نے یہ خبر نہ دی وہ خبر نہ دی وغیرہ اچھی بات کی ہمت افزائي کرو حسن بھائی ، اور خدارا کبھی کبھاراچھا بلاگ بھی لکھ بھی لکھ لیا کرو۔
ٹوپی يا اجرک يا کوئی خاص قسم کا فيشن کرنا ثقافت کے زمرے ميں آتا ہے جبکہ کاروکاری يا دہکتے کوئلوں کے اوپر سے گزارنا معاشرتی برائياں ہيں ۔اس سے ملتی جلتی برائياں پاکستان کے اور صوبوں ميں بھی مليں گيں جيسا کہ عورت کی قران سے شادي، طلاق نہ لے سکنا،بغير رضا مندی کے شادي، اور عورتوں کوشادی کے نام پہ فروخت کرنا وغيرہ۔ مسۂلہ يہ ہے کہ وسائل کی کمی اور بے تحاشا آبادی اور جاگيرداروں کی خودغرضی کی وجہ سے پاکستانی معاشرہ زبوں حالی کا شکار ہے ۔ايسے ميں اگر پاکستان کے کرتا دھرتا عوام ميں قومی سطح پر مختلف قسم کے فنکشنز يا اينٹرٹينمنٹ کا کوئی سلسلہ بنائيں تو مردہ چہروں ميں جان آسکتی ہے جو ترقی کی طرف لے جانے ميں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
انصاف کی فراہمی کو اوليت حاصل ہونی چاہيے
حسن بھائی ديکھا کيسے بلا وجہ لو گ فر حت اللہ با بر بننے کی کو شش کر رھے ھيں„„کا ش ان لو گو ں نے ماضی سے کچھ سيکھا ھو تا„„„اسی غلط رويو ں کی بد و لت ھم ا س نہج پہ ھيں
اب تو بس خواہش ہی رہ گئ ہے کہ آپ کا کوئي ايسا بلاگ پڑھيں جس ميں” آ بيل مجھے مار ”والی بات نہ ہو- ايسا ہوا تو ويسا کيوں نہيں ہوا کے بجاۓ اگر غور کريں تو علم ہوگا کہ اس” ٹوپی ڈے” کو منانے کا مقصد ہی ڈاکٹر شازيہ سے زيادتی کرنے والوں کو اپنی طاقت دکھانا تھا کيونکہ وہ سمجھ بيٹھے تھے کہ حکومت اب اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ اب اسے گرانے کيلۓ ہلکا سادھکا ہی کافی ہے اور وہ پھر سے جمہوريت کو بوٹوں تلے روند کر انسانی حقوق کو پامال کرسکتے ہيں - يہاں کراچی ميں ميں ان سياسی تنظيموں کے کارکنوں کو بھی ٹو پی اور اجرک پہنے اکھٹا ديکھا جن کے سر براہان عيد کے روز بھی ايک دوسرے پر کيچڑ اچھالنے سے باز نہيں رہتے- اس دن سے يہ سبق ملتا ہے کہ ايک صوبے ميں رہنے والے ايک ٹوپی اور اجرک تلے اکھٹے ہوسکتے ہيں تو کيا ايک ملک ميں رہنے والے مختلف قوميتوں کے لوگوں کو ايک جھنڈے تلے اکھٹا کرنا کيا کوئي مشکل کام ہے؟نہيں ہر گز نہيں ۔پر اس کيلۓ ہميں بال کي کھال اتارنے والے، ہر عمل ميں سے تخريبی مواد نکالنے والے پاکستانيوں کے بجائے مخلص پاکستانيوں کی ضرورت ہيں - اگر ايسا ہوگيا تو جاگيردار،وڈيرے اور ڈاکٹر شازيہ کے مجرم ايک قوم کے سامنے ريت کی ديوار ثابت ہونگے-
حسن صاحب ٹوپی کے پیچھے آپکی جہالت ہے۔ یہ کالم آپنے بی بی سی کے مہاجر اور پنجابی ایڈیٹروں کی چاپلوسی میں لکھ ڈالا کہ تم یہ بتا سکو کہ تم کتنے روشنخیال ہو اور تم کتنے صوبائي تعصب سے دور ہو۔ جو وسعت اللہ کو سمجھ میں آئی ہے تم اسپر پر شرمندہ ہو۔
بہت سے خیالات یہاں بتاتے ہیں کہ ہم لوگ ابھی تک ایک بالغ قوم نہیں بنے۔تو پھر ایک ایسے صدر سے کیا متوقع ہو سکتا ہے جو ہم ایسوں میں سے ہے اور جو اپنا ڈوبتا چہاز بچانے کیلیے ملک کی یکجتی کی قیمت پر سیاست کھیل رہا ہے۔ اگر آپ آصف
علی زرداری کے ماضی پر قریبی نظر کریں تو ہمیں انکے موجودہ اعمال پر تعجب ہر گز نہیں ہونا چاہیے۔ .
مگر میرا سوال ان لوگوں سے ہے جو اس بلاگ پر تبصرہ کر ر ہےہیں، آپ لوگ دنیا کی جمہوری اور بالع قوموں کو کیسے دیکھیں گے کہ اگر ان میں سے امریکہ کے سابق صدر جارج بش اپنے آبائي ٹیکساس ریاست کی ڈریس پہنکر اپنے چین کے دورے پر جاتے یا براک اوباما اپنے برطنوی دورے کے دوران افریقی قبائیلی لباس پہنتے۔
ہر کسی کو اپنی ثقافتی
تقریبات منانے کا پورا پورا حق ہے۔ کوئی سندھی ہے، پنجابی ہے ، بلوچ پہے کہ پحتون۔ اور سب جو پاکستان میں اپنی اپنی ثقافت و روایات رکھتے ہیں اگر اپنی ایسی تقریبات منعقدد کرتے ہیں تو اسپر
ااتنا واویلا کیوں؟
انہی ثقافتوں اور اکائیوں کی وجہ سے تو پاکستان ہے۔
حسن مجتییٰ ! آپ كا بلاگ اور جیو ٹی وی چینل کا اینکر وه عناصر ہیں جو چاروں صوبوں كے ايک ہونےكى راه مين ركاوٹ ہیں .
میرا خیال ہے کہ لکھنے والے نے بہترین طریقے سے ایک 'مردہ قوم' کو جگانے کی کوشش کی ہے۔ او ریہ جو لوگ میڈیا اینکرز پر تنقید کررہے ہیں انکو شاید یہ احساس نہیں ہے کہ ميڈیا اپنی تمامتر خرابیوں کے باوجود صحیح سمت میں جا رہا ہے۔ یہ میڈیا ہی ہے جس نے لوگوں کو جمہوریت کے بنیاد اصول سکھائے اور سمجھایا ہے۔ 99 فی صد پڑہے لکھے لوگوں کو آرٹیکل چھ کے بارے میں پتہ نہیں تھا ، کس نے بتایا
کہ یہ کیا ہوتا ہے؟ .
ایک صاحب نے لکھا ہے کہ اگر یہ دن نہیں منایا جاتا تو آپ ہی کہتے کہ یہ دن کیوں نہیں منایا گیا؟ ایک نے کہا ہے کہ آپ میڈیا والے کھال کا بال اتارتے ہیں۔ مختصر یہ کہ اس دن کا مقصد سندھی
ٹوپی کی لاج رکھنا نہیں
جاگیردارانہ نظام کو سہارا دینا ہے۔
پختونخواہ 'پشاوری چپل' کا دن کب منا رہا ہے؟
زرداری سندھی نہيں بلوچ ھيں اور يہ بات خود انہوں نے امريکہ ميں سندھيوں کے فورم ميں کہی تھي اور يہ جو سندھی بنے ھوئے ھيں سب سے زيادہ نقصان سندھيوں کا ہواہے۔