تصویر کی تبدیلی
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے ایوانِ صدر میں پاکستان کے سیاستدانوں اور فوجی حکام سے جب بھی ملاقات کی ہے وہ ایک خاص کمرے میں کی ہے۔ اس کمرے کا کیا نام ہے اور آیا کوئی نام ہے بھی یا نہیں یہ تو معلوم نہیں۔
صدر زرداری کی ملاقات خواہ وزیر اعظم سے ہو یا عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی سے ہو یا پھر پاکستا ن فوج کے سربراہ جنرل پرویز اشفاق کیانی سے ہو، یہ ملاقاتیں ایک ہی کمرے میں ہوتی ہیں۔
ایوانِ صدر میں اگست دو ہزار آٹھ میں آنے کے بعد سے صدر زرداری نے کئی ملاقاتیں کیں۔ ان تمام ملاقاتوں کی جو تصاویر سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی سے جاری کی گئیں ان میں ایک مماثلت تھی۔ وہ مماثلت یہ تھی کہ صدر اور مہمان کے درمیان میں سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی تصویر آویزاں تھی۔
لیکن سولہ دسمبر کو ایک تصویر اے پی پی سے جاری کی گئی جس میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی صدرِ پاکستان سے ملاقات کر رہے ہیں۔ اس ملاقات کی تصویر میں بیچ میں پڑی تصویر بینظیر کی نہیں بلکہ قائد اعظم محمد علی جناح کی ہے۔
پہلے تو سوچ آئی کہ ہو سکتا ہے پچیس دسمبر کی مناسبت سے یہ تصویر تبدیل کر لی گئی ہو اور واقعہ گزر جانے کے بعد دوبارہ تبدیلی دیکھنے میں آئے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ سات جنوری کو صدر اور جنرل کیانی کے درمیان ملاقات میں بھی قائد اعظم کی ہی تصویر آویزاں ہے۔
آخر اس تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟
تبصرےتبصرہ کریں
تصویر کی تبدیلی سے ایک خیال تو یہ بھی خیال کیا جا سکتا ہے کہ شاید شیری رحمان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
‘میں اکیلا بہت دیر چلتا رہا
مگر سفر زندگانی کا کٹتا نہیں
جب تلک کوئی رنگین سہارا نہ ہو
یہ وقت کافر جوانی کا کٹتا نہیں ۔۔۔۔۔۔‘
سیاسی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو عین ممکن ہے کہ بینظیر کی تصویر کی جگہ قائداعظم کی تصویر لگانے کے پیچھے ‘اسٹیبلیشمنٹ‘ اور ‘ملائیت‘ معہ اسکی پیدواروں کو خوش کرنا ہو کہ سولہ دسمبر کے بعد سے ‘ہز ایکسیلینسی‘ صدرِپاکستان کی ذات خصوصآ جبکہ حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی عمومآ چاروں اطراف سے سخت تنقید کا نشانہ بن رہی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایک اہم ترین خیال یہ بھی ہے کہ تصویر بدلنے کی وجہ صدرِ پاکستان کا پنجاب کا عنقریب کیا جانے والا دورہ ہو کہ پنجاب میں نہ صرف بیک وقت بلکہ خالصتآ ملائیت و آمریت کی پیداوار ن لیگ اور جماعتِ اسلامی کی سیاست کا دارومدار و اہمیت و دائرہ سیاست زیادہ تر قائداعظم کی تصویر کے اردگرد ہی گھومتا ہے کہ پنجاب کے عوام بحثیتِ مجموعی روایت پسند، سیدھے سادھے، بھولے بھالے اور ملنگ ٹائپ واقع ہوئے ہیں۔
بال کی کھال نہ اتارا کریں، بہتری کی دعا کریں
آخر ہم کب تک چھوٹی چھوٹی باتوں پہ ايشوز بناتے رہيں گے۔ہوسکتا ہے ايک کمرے ميں بےنظير کی اور دوسرے ميں قائداعظم کی تصوير ہو۔
سوچا کوئی خفیہ ایجنسی کا اہلکار ہی یہ نوٹ کرسکتا ہے لیکن پھر آپ کی تصویر دیکھی تو شک یقین میں تبدیل ہوگیا۔
ھم بڑی عجیب قوم ھیں۔ ھم ھمیشہ ایشوز کو بہت پسند کرتے ھیں۔ھم کو ھمیشہ ٹائم پاس کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ ایسے کی ضرورت ھوتی ھے جس کا ھماری زندگی سے دور دور تک کوئ تعلق نہیں ھوتا۔کبھی ھم اس بات پہ شور مچاتے ھیں کہ قائد آعظم کی تصویر کہا گئ اور کبھی ھم اس بات پہ شور مچاتے ھیں کہ بے نظیر کی فوٹو کہا گئ۔۔شاید ھم فوٹو کے چکر میں اتنی دور چلے گۓ ھیں کہ ھم کو کچھ نظر نہیں آتا۔اک بندے کو ھم کرسی پہ بیٹھا کے پہلے مٹھائ تقسیم کرتے ھیں پھر اس آدمی کو کرسی سے گرتا دیکھ کے مٹھائ تقسیم کرتے ھیں۔یہی ھمارا دوغلا پن ھے جس سے ھم ختم ھوتے نظر آرھے ھیں۔اللہ ھی حافظ ھے ھمارا۔۔
صدر صاحب نے کرسی صدارت پرفائز ہونے کے بعداور ايوان صدر ميں داخلے کے بعداس تصوير کونماياں کياتھا۔ظاہر ہے يہ ان پر قرض وفرض سب کچھ ہی تھا کيونکہ وہ اسی شہيد کرشماتي شخصيت کے طفيل اس عہدہ پر براجمان ہوئے۔ پھر انہوں نے پارليمنٹ سے پہلےخطاب اوريو اين اسمبلی سے خطاب کےموقعہ پر بھی اس تصوير کوسامنےرکھا۔ مقصدشايد بی بی کو بتانامقصود ہو کہ جيالا ايوان صدر پہنچ گيا۔ساتھ جب باريک بينوں نے تصاوير ہير پيرديکھا توباني پاکستان کی تصوير کی واپسی ممکن ہوسکي۔ اب وجہ کچھ بھي ہو عوامی رائے يہی ہے کہ شايد ايوان کے مکين کوخيال آگيا ہو کہ عظيم وغريب پرور شخصيت کی تصوير تلے ہم کس قسم کے غريب کش فيصلے کررہے ہيں جس سے شہيد کی روح تڑپتی ہوگی يہی وجہ ہے کہ يہ تصوير اس مقام سے بلکہ منظر عام سے ہی ہٹادی گئی ہے
ايوان صدر ميں ضروري نہيں کہ صدر کا حکم اور مرضی چلتی ہو، اس ليۓ ہوسکتا ہے کہ اگر صدر محترم کو ڈرانا ہو تو محترمہ کی تصوير رکھ دی جاتی ہو، بات نوٹوں کی ہو تو قائداعظم کی تصوير درميان ميں آ جاتی ہو- اس طرح کا اشارہ ہم نے خود ايک سرکاري دفتر ميں ديکھا ہے کہ ايک ہيڈ کلرک نے اپنے ٹيبل پر قائداعظم کی تصوير رکھي ہوئی تھي- دفتر ميں آنے والے ہر سائل کو مين گيٹ پر حکم مل جاتا تھا کہ پہلے قائد اعظم والی ٹيبل تے جا اور نوٹ جمع کرا- اسی طرح اسٹيبلشمنٹ کی ايمبولينس ميں جانے والی دھمکی نہيں چلی تو شايد نوٹوں پر بات آ گئی ہو-
ایوان صدر اور عہدہ صدارت پاکستان کے وفاق کی علامت وار قومی امانت ہے ۔ قاید اعظم کی تصویر کا صدر مملکت کے سرکاری دفتر میں ہونا قومی تقاضا ہے ۔ اگر یہ نہیں تھی تو غلط تھا اگر ے تو یہی ٹھیک ہے ۔ اسے برقرار رہنا چاہیے ۔ رہی بات کسی بھی دوسری تصویر کی تو اگر وہ اسے اخلاقاً ، قانوناً اور روایتاً درست سمجھتے ہیں تو بے شک آویزاں کر لیں ۔ بلکہ میری تجویز تو یہ ہے کہ مملکت کے کرنسی نوٹ پر بھی بابائے قاید اعظم کی تصویر کی جگہ یا اس کے ہمراہ اپنی بسند کی تصویر لگا لیں ۔ اسی مملکت میں ہم نے ماضی قریب میں سرکاری دفاتر خصوصاً پنجاب کے اعلٰی ترین دفتر میں پرویز مشرف کی تصویر آویزاں دیکی ہے ۔ ۔ رہی بات ایشو کی تو یہ بہت بڑا ایشو ہے ۔ جس شخص نے اسکو اٹھایا ہے وہ ہماری قوم کا محسن ہے ۔ قومیں جب اپنے تشخص کو روندنا شروع کردیں تو مٹ جاتی ہیں ۔ قومی پرچم ، قومی ترانہ اور قاید اعظم علیہ الرحمتہ پاکستانی قومی تشخص کی علامات ہیں ۔ ان میں تصرف اور تحریف سنگین جرم ہے ۔ اسے معمولی بات ک ہہ کر رد کردینا میرے نزدیک کوئی مثبت رویہ نہیں ہے ۔
‘دل کے بہلانے کی تدبیر تو ہے
تو نہیں ہے، تِری تصویر تو ہے‘
زرداری کا کوئی عمل ايسا نہين ھوتا جس سے زرداری کو نقصان اور دوسرون کو فائدہ ھو۔وصيعت بنا کر اپنے بيٹے کو چيئرمين خود کو شريک چيئرمين بنايا،اپنے بچون کو بڑا ڈراما بنا کر زرداری بھٹو بنايا جو سب ناٹک ھے اخر مين صدارت کو بھی نہين بخشا۔زرداری نہ بڑا زميندار تھا نہ صنعتقار ليکن اج يے پاکستان کا اميرترين شخص ھے يے امير کيسے بنا ؟،بے نظير کی جو حکومتين گرين صرف اس کے اعمالون کی وجا سے،تصوير ھٹانا لگانا سب زرداری کے ڈرامے ھين جن مين وھ اب تک کامياب ھوتا ارھا ھے
زرداری کا کوئی عمل ايسا نہين ھوتا جس سے زرداری کو نقصان اور دوسرون کو فائدہ ھو۔،وصيعت بنا کر اپنے بيٹے کو چيئرمين خود کو شريک چيئرمين بنايا،اپنے بچون کو بڑا ڈراما بنا کر زرداری بھٹو بنايا جو سب ناٹک ھے اخر مين صدارت کو بھی نہين بخشا۔زرداری نا بڑا زميندار تھا نا صنعتقار ليکن اج يے پاکستان کا اميرترين شخص ھے يے امير کيسے بنا ؟،بے نظير کی جو حکومتين گرين صرف اس کے اعمالون کی وجا سے،تصوير ھٹانا لگانا سب زرداری کے ڈرامے ھين جن مين وھ اب تک کامياب ھوتا ارھا ھے