یہ دیس ہوا بیگانہ!
مجھے اس وقت جنرل ضیا الحق کے عقوبت خانے کے تین کردار یاد آرہے ہیں۔
ملیر کا ناصر بلوچ ۔۔۔آخری رات کال کوٹھڑی میں 'چل اڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ' گاتا رہا۔ جب تختہ دار پر لے جایا جارہا تھا تو اس نے باقی قیدیوں کو قسم دی کہ اگر جئے بھٹو کے نعرے کا جواب نہ دیا تو یہاں تو میں تمہارا کچھ نہیں کرسکوں گا لیکن اوپر تم سب کا گریبان پکڑ کر خوب ماروں گا ۔ناصر بلوچ ایک قدم بڑھاتا، رقص کرتا، جئے بھٹو کا نعرہ لگاتا پھر دوسرا قدم بڑھاتا۔۔۔۔۔
لیاری کا ایاز سموں۔۔۔۔۔جب پھانسی سے پہلے آخری ملاقات آئی تو اسکی بھاوج نے اسے گھونگھرو دئیے۔ پھانسی گھاٹ پر روانگی سے پہلے جیل حکام نے آخری خواہش پوچھی تو کہا گھونگھرو باندھنے دو۔ جب تک رات کے سناٹے میں آگے بڑھتے قدموں سے گھونگھرو بجنے کی آواز آتی رہی کوٹھڑیوں میں بند قیدی جئے بھٹو کے نعرے لگاتے رہے۔ جب گھونگھرو کی آواز تھم گئی تو قیدی بھی اپنی اپنی سسکیوں میں ڈوب گئے۔۔۔۔۔
لاہور کا عثمان غنی۔۔۔۔۔آخری ملاقات میں عثمان نے اپنی بہنوں سے کہا۔کوئی نہیں روئے گا۔میرا جنازہ بینڈ باجے کے ساتھ کھلی چارپائی پر گھر تک جائے گا۔عثمان کی لاش گھر پہنچی تو بینڈ باجے کی دھمک نے استقبال کیا۔ بہنیں چارپائی کو کندھا دے کر گھر میں لے گئیں۔
یقین نہیں آتا کہ ایک ڈکٹیٹر کے منہ پر تھوکنے والے ایسے پاگل دیوانے عشاق کی پارٹی ایک اور ڈکٹیٹر کے دئیے گئے این آر او کی زنجیر ٹوٹنے پر ملول ہے ؟
یقین نہیں آتا کہ پھانسی کے بعد تیسری دفعہ اقتدار میں آنے والی جماعت ذوالفقار علی بھٹو کے ری ٹرائیل میں ناکام ہوگئی۔
یقین نہیں آتا کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے دو برس بعد بھی ایف آئی آر کےنامعلوم 'معلوم' میں تبدیل نہ ہو سکے۔
کاش ناصر بلوچ کا نام رحمان ملک، ایاز سموں بابر اعوان اور عثمان غنی کا نام فاروق نائیک ہوتا!!
تبصرےتبصرہ کریں
اسلام علیکم! وسعت صاحب، بات یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا فلسفہ ہمیشہ سے ‘سب سے پہلے پاکستان‘ اسکے بعد ‘مَیں‘ رہا ہے۔ یعنی یہ وہ واحد پارٹی ہے جسکو ذاتی مفادات، ذاتی مشہوری، نمبر بنانے، ووٹ بینک بڑھانے سے پہلے پاکستان کی بہتری، سلامتی، بقاء و ترقی عزیز رہی ہے۔ اس کی ایک زندہ مثال تو یہ ہے کہ ایک ڈکٹیٹر کے منہ پر تھوکنے والے ایسے پاگل دیوانوں عشاق کی پارٹی نے اسی ڈکٹیٹر کی تخلیق‘ایم کیو ایم‘ کو سینے سے لگایا ہوا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس تخلیق کا اولین و آخر مقصد صرف پی پی کو سندھ میں ختم کرنا تھا۔ دوسری مثال ن لیگ کی ہے کہ پیپلز پارٹی نے اسکو بھی کُھلی چھوٹ دے رکھی ہے اور اسکے مطالبات مانتی رہتی ہے جسکا ایک ثبوت تو گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ‘خاموش‘ رہنے اور ‘اِن ایکشن‘ نہ ہونے دینا سے عیاں ہے۔ حالانکہ یہ ن لیگ جو آئی جے آئی سے سفر کرتی ہوئی یہاں تک پہنچی، بھی اسی ڈکٹیٹر کی پیداوار ہے جس نے ‘ایم کیو ایم‘ کو پیدا کیا۔ ن لیگ کی تخلیق کا مقصد پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹ تقسیم کرنا تھا اور یہ اس میں کافی حد تک کامیاب بھی رہی۔ لیکن یہ کامیابی نظریاتی سطح پر ہرگز قرار نہیں دی جا سکتی۔ بلکہ تاجروں، آڑھتیوں، بزنس مین، بینکروں اور صنعتکاروں کو مراعات دے کر ان کی افزائش نسل کرکے گویا ‘بزنس‘ کرکے کامیابی حاصل کی اور پی پی کے ووٹ بینک کو متاثر کیا۔ ان دو مثالوں کے لکھنے سے یہ تو واضح ہو گیا ہے کہ پی پی نے ذاتی عزائم کو کبھی گھاس نہیں ڈالی بیشک اسکی ووٹ پاور کا گراف نیچے ہی کیوں نہ گرے بلکہ ہمیشہ اوورآل پاکستان کے مفاد کو مقدم رکھا ہے جیسا کہ حکومت کی پرویز مشرف کی ‘طالبانائزیشن‘ بابت پالیسوں کو شد و مد سے جاری سے بھی عیاں ہے۔ لہذا یہ بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ اگر ‘این آر او‘ پاکستان کے اوورآل مفاد میں ہے تو پی پی کے سوا این آر او کی زنجیر ٹوٹنے پر اور کون اور کیونکر ملول ہو سکتا ہے؟ دیکھا جائے تو ‘این آر او‘ ملک میں سیاستدانوں اور عوام میں یکجہتی و اتحاد قائم کرنے کا ایک ‘روڈمیپ‘ تھا اور خاکسار سمجھتا ہے کہ ایسے روڈ میپ کے بغیر ‘دہشتگردی کے خلاف‘ جنگ اور ملک کی بقاء و سلامتی و ترقی میں کامیابی سوائے معجزہ کے حاصل نہیں کی جاسکتی۔ علاوہ ازیں، ‘این آر او‘ کھولنے اور کھلوانے سے ایک بات تو یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ نہ صرف بیک وقت بلکہ خالصتاً ملائیت و آمریت کی پیداوار ن لیگ ور جماعتِ اسلامی کو ملک کی بقاء و سلامتی و ترقی سے زیادہ ذاتی مفادات، نمبر بڑھانے، ‘نو سو چوہے کھا کے بلی چلی حج کو‘ کو عملی جامہ پہنانے ارو ووٹ بینک کو بحال رکھنے یا اس میں اضافہ کرنے سے ہی غرض و غائت ہوتی ہے۔ اب جب کہ ‘این آر او‘ کالعدم ہونے کے بعد سیاستدانوں نے عدالتوں کا سامنا کرنا شروع کر دیا ہے تو یہی جماعتیں اب اس ‘این آر او‘ ایشو کو جلد از جلد لپیٹنا چاہتی ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی نے جسطرح سے اپنے ‘سیاسی ورثہ‘ کو برؤئے عمل لا کر ‘این آر او‘ کو ڈیل کرنا شروع کیا ہے اس سے تو ‘این آر او‘ کا ‘ری اوپن‘ ہونا ان کے لیے کسی بھی طرح ‘رحمت‘ سے کم نہیں دکھائی دیتا۔ ملک میں ‘این آر او‘ سے زیادہ مسئلہ دہشتگردی، بھارت سے چپقلش، ڈراون حملے اور تیس ہزار فوجیوں کی آمد آمد کے نتیجے میں متوقع ‘ایکشنز‘ ہیں اور یہی وہ مسائل ہیں جن کو اگر اولیت نہ دی گئی تو جلد یا بدیر ‘خدا حافظ پاکستان‘ ہو سکتا ہے۔ رواں حالات میں، این آر او کو انا کا مسئلہ بنانا ایسے ہی ہے کہ جیسے ‘آئین‘ اور ‘اسلامی نظام‘ کے نفاذ کے لیے تو جدوجہد کرنا لیکن جس جگہ پر ان کا نفاذ ہونا ہو، اس جگہ کی سلامتی اور وہاں پر ‘در اندازی‘ کے خدشے کو گھاس نہ ڈالنا۔ گھر کے محفوظ ہونے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اسکی چار دیواری مضبوط ہو۔ چار دیواری کے اندر کے رولوں سے تب ہی خشوع و خضوع سے نبٹا جا سکتا ہے جب کہ ‘باہر کے حملہ آوروں‘ سے محفوظ ہونے کا بندوبست کیا جائے بصورت دیگر گھر میں ‘نفاق‘ سے ‘دشمن‘ بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی ایک بہت بڑی اور مضبوط پارٹی تھی۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ لیڈر ہی پارٹی کو بناتے بھی ہیں اور تباہ بھی کرتے ہیں۔
وسعت بھائي! پيپلز پارٹی کايہ الميہ ہے کہ اسے اقتدار راس نہيں آتا اور نہ ہی اس کی لیڈرشپ کواچھی اندازحکمرانی کےاسرارورموز سے آشنائي ہے۔جو نام آپ نےبطورتقابلی جائزہ لکھے ہيں وہ سب سرگرم کارکنان تھے تو انکا ليڈروں سے کياموازنہ؟ آپ نےتوکوشش کی کہ عقلمند را اشارہ کافي است مگرايسے ليڈراورانکےسربراہ ايسے مشوروں اورمشورہ دينے والوں کو پسنديدگی کی نگاہ سے نہيں ديکھتے۔
جیالے تو آج بھی زندہ ہیں لیکن لیڈر ہی مر چکے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے لاہور میں ایک جیالا مشرف کا پتلا جلاتے ہوے مرگیا۔ مشرف کو سزا تو دار کنار زرداری صاحب نے اس جیالے کا افسوس تک نہیں کیا۔.
بس دو آنسو بي بي صاحبہ کے ليے اور ان کے لیے بھي جنہوں نے پچھلي برسي پر کہا تھا کہ ’مجھے بي بي صاحبہ کے قاتلوں کا پتا ہے۔‘
جناب يہ آج کی پيپلز پارٹی ہے جس کا بھٹو کی پارٹی سے تعلق صرف نام کا ہے۔ يہ پہلے پاکستان، روٹی کپڑے يا کوڑے کھانے والی کہانی تو کب کی ختم ہو چکی حتی کہ اس وقت بھی نہيں تھی جب بےنظير تھيں۔ شخصيت پرستی نے نظريات کی اہميت ختم کی اور جہاں نظريات ختم ہوتے ہيں وہاں سے مفادات شروع ہوتے ہيں۔ آج کے بابر، رحمان بھی ناصر بلوچ يا عثمان غنی جيسے ہوتے اگر پيپلز پارٹی نے بھٹو کے نام کی بجاے بھٹو کے نظريات کو پکڑ رکھا ہوتا۔ امريکہ کي آنکھوں ميں آنکھيں ڈالنے والي بھٹو کي پارٹي سياسي حيات کيليے اب اجرک و ٹوپي کو استعمال کرے تو بھٹو اور زرداري کي پارٹي کا فرق محسوس ہوتا ہے۔ ميں زرداری کی حمايت صرف اس ليے نہيں کر سکتاکہ وہ بھٹو کا نام ليتا ہے ميں نواز شريف کی حمايت اس ليے کروں گا کہ وہ بھٹو جيسے کام کرتا ہے۔-
جناب وسعت خان صاحب۔ آپ نے بہت خوبصورت طريقہ سے حقيقت بيان کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن کسے سنا رہے ہیں؟ قوم تو پہلے ہی سو رہی ہے!
تم لکھتے جاؤ ميں پڑھتا رہوں اور روتا جاؤں۔ تم سوالوں کے جوابات ڈھنڈو ميں جئے بھٹو کہتا رہوں۔ جئے بھٹو، جئے بے نظير، جئے پيپلز پارٹي۔ تم عقل تلاش کرو ميں ابھی عشق ميں گم ہوں۔تیرے عشق نچايا کرکے تھيا تھيا۔-
مکار اور منہ زور لوگ اس قوم کے نمائندے ہیں۔ خود پرستی کے چنگل میں سب گھرے ہوئے ہیں۔ اس کی تیز ترین مثال مولانا فضل الرحمان ہے۔ حق کہے اور اس پہ ڈٹ جائے طالبان کا نمائندہ کہلاتا ہے۔ جس معاشرے میں مکمل اور خالص کی گنجائش نہ ہو وہ معاشرہ ایسے ہی رحمان ، اعوان اور نائیک پیدا کرتا ہے۔ عمران خان ایک حقیقت ہے۔اب خان صاحب کی باری ہے۔بہانے بنتے ہیں صفائی کے لیے تھوڑا انتظار کرو۔-
شا يد وقت کا پھيرا ور عر و ج و ز و ا ل اسی طر ح چلتے ہيں۔قربانی ہميشہ ناصر جيسے لو گ دیتے او ر رحمان ملک جيسے مز ے کر تے ہيں۔شا يد اسی کو سب کچھ کہا جا تا ہے۔ بھولی اور احمق غر يب مخلو ق اس راز کو کب جانے گي۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
وسعت صاحب ناصر بلوچ کا نام رحمان ملک، اياز سموں بابر اعوان اور عثمان غنی فاروق نائيک يقيناً ہوتے اگر ہميں اس مافيا سے چھٹکارا مل جاتا جس نے فوج کے اندر سرايت کرکے عوام کو مختلف نظريات ميں دھکيل دي۔ جب يہ پتہ چل جائے کہ عوامی مساوات کی بات کرنے والے بھٹو ايک ايک کرکے شہيد کرديے جائيں گے اور کچھ کو ايجنسياں گھروں سے اٹھا کر غائب کرديں گي تو ايسے ميں کوئی بھی جان کی بازی نہيں لگائے گا۔
بےنظير کی سياست ميں بھی خاميان تھيں۔ انہوں نے ان لوگون کو اپنے پارٹی ميں ليا جو اس کے باپ کے قتل ميں ملوث تھے۔ بے نظير کے اردگرد بھی ايسے لوگ تھے جو بہت کم لوگون کو اچھے لگتے تھے اور يہی وہ لوگ تھے جو قتل کے وقت تو وہان تھے۔ ليکن ماری صرف بے نظير گئي۔ آج کی پي پی ايک پيسے بنانے والی پارٹی بنی ہوئے ھے جہاں ایم پی اے کی سيٹ کے ليے کروڑوں ليے جائيں اور پھر منسٹر بننے کے ليے اور کروڑ۔ بے نظير کے مرنے سے نقصان سندھيوں کا ہوا۔ بے نظير کے آبائے سندھ نے موجودہ پی پی حکومت ميں جتنا بھگتا ہے اتنا شايد کبھی نہیں۔ سندھ ميں آباد بلوچ قبيلوں کو آگے لايا جا رہا ہے۔ ايسا لگتا ہے کے بالائی سندھ کو بلوچ اپنے کنٹرول ميں کيے ہوئے ہيں اور يہ سب زرداری کے لوگ کروا رہے ہيں۔ ايسا لگتا ہے بےنظير ايک سازش تحت مروائي گئيں اور ملوث لوگ اس حکومت ميں بڑے عہدوں پر موجود ہيں۔ ايک کہاوت ہے جو اپنوں کا خير خواہ نا ہو وھ سندھيوں يا ملک کا خيرخواہ کیسے ہو سکتا ہے۔
بےنظير کی سياست مين بھی خامياں تھيں انہوں نے ان لوگون کو اپنے پارٹی مين ليا جو اس کے باپ کے قتل مين ملوث تھے،بے نظير کے اردگرد بھی ايسے لوگ تھے جو بہت کم لوگون کو اچھے لگتے تھے اور یہی وہ لوگ تھے جو قتل کے وقت تو وہان تھے ليکن ماری صرف بے نظير گئي،اج کی پي پی ايک پيسے بنانے والی پارٹی بنی ھوئے ھے جہان mpa سيٹس کے ليئے کروڑون ليئے جائيں اور پھر منسٹر بننے کے ليئے اور کروڑ،بے نظير کے مرنے سے نقصان سندھيون کا ھوا۔ بے نظير کے آبائی سندھ نے موجودھ پی پی حکومت مين جتنا بھگتا ھے اتنا شايد کبھی نہی ،سندھ مين آباد بلوچ قبيلون کو اگے لايا جا رھا ھے ايسا لگتا ھے کے بالائی سندھ کو بلوچ اپنے کنٹرول مين کيئے ھوئے ھين اور يہ سب زرداری کے لوگ کروا رھے ھيں،ايسا لگتا ھے بےنظير ايک سازش تحت مروائيں گئين ،ايک کہاوت ھےجو اپنون کا خير خواہ نا ھو وھ سندھيوں يا ملک کا خيرخواہ کیسے ہو سکتا ھے
یہ پیپلز پارٹی ہی ہے جس نے ناصر بلوچ ،ایاز سموں ،عثمان غنی اور فاروق نائیک پیدا کیے باقی پارٹیوں میں تو پاؤں پر گرنے والے سیف الرحمن اور ابا جی کے ساتھ بھاگنے والے ہی بن سکے ھیں۔
پاکستان پيپلزپارٹی شھيدوں کی پارلٹی ہے جس کا ماضی شاندار ہے
پیپلز پارٹی کے بڑے رہنماؤں سے آج کی پارٹی کے سیاستدانوں کا موازنہ یقیناً تذلیل کے مترادف ہے. روٹی کپڑا مکان کی بات کرنے والے یہ حکمران آٹا، بجلی اور گیس بھی اپنے ساتھ لے گیے. انھوں نے سواے شہروں، چوکوں اور ہوائی اڈوں کے نام تبدیل کرنے کے سوا کونسا کام کیا.. IMF اور ہماری غیرت کے سودے کی مد میں امریکی "امداد" کہاں جا رہی ہے-- کچھ معلوم نہیں."جان ہے تو جہاں ہے" کے مصداق کرپشن کے مقدمات سے اپنی دامن پاک کریں یا جیالوں کی داد رسی..