میڈیا کی سازش
صحافت میں راقم کی پہلی ایڈیٹر اور استاد رضیہ بھٹی مرحوم نے ایک دفعہ مجھے آزادیِ صحافت کے بارے میں لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ آزادیِ صحافت کوئی چیز نہیں ہوتی، پریس کبھی آزاد نہیں ہوگا۔ صرف صحافی آزاد ہوسکتا ہے۔
مرحومہ نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ انکی پیش گوئی یہ رنگ لائے گی۔ کیونکہ اس دہائی میں میڈیا نے صحافیوں کی ایک ایسی قسم ایجاد کی ہے جو کہ نہ صرف جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہتے ہیں بلکہ سلطانی جمہور کو بھی صلواتیں سناتے ہیں۔ اور وہ کلمۂ حق ایسی زبان میں سناتے ہیں جو نہ اردو ہے نہ پنجابی، نہ فارسی نہ پشتو بلکہ یہ تو وہ زبان بھی نہیں ہے جس میں رات کو الو ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں۔
ان آزاد صحافیوں میں سے کچھ نے تو اپنی ڈگریاں انٹرنیٹ سے خریدی ہیں لیکن ان کا کلمۂ حق بھی کسی ایسے کمپیوٹر پروگرام سے برآمد ہوتا ہے جس میں نہ گرامر کا سوفٹ وئیر ہے نہ تاریخ کا۔ آزادی صحافت کے ان نئے نقیبوں کو نہ صحافت کے بنیادی اصول تنگ کرتے ہیں اور نہ ہی انکے مالکان۔ ان مجاہدین کے نشانے پر نہ صرف انکے نظریاتی دشمن ہیں بلکہ ہر وہ شخص یا ادارہ بھی جو انکی زبان درست کرنے کی کوشش کرے۔ یہ الیکٹرانک صحافی جب سکرین پر نمودار ہوتے ہیں تو بعض دفعہ ٹی وی پر یہ بتا دیا جاتا ہے کہ ادارے کا اینکر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ISPR کی پریس ریلیز البتہ اب بھی صحیفہ مقدس ہے کیونکہ اگر اس سے متفق نہ ہوں گے تو یا تو شہیدِ صحافت بنیں گے یا 'مِسنگ پرسن۔'
اس قافلے کا سالار کون ہے اور وہ علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر کیسے دیکھتے ہیں، پڑھیئےگا اگلے بلاگ میں۔۔۔
تبصرےتبصرہ کریں
بات تو آپ نے دل کی کی ہے یہ صحافی جب بھی ملک میں کچھ ہوتا ہے یہ پورا ہفتہ اس بات کو پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہ کس کی ترجمانی کر رہے ہیں قوم کی یا دہشتگردوں کی کہ تم مزید مارو اس قوم کو اپنے بموں سے اور ہم ان کو ذہنی ٹینشن سے ماریں گے۔ ان کا جرم یہ ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔
حنيف صاحب آپ کا اشارہ کس کی جانب ہے۔ اس الجھن ميں بڑے بغير ميں بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ گزرتے وقت کے ساتھ قدريں دھيرے دھيرے مٹی ميں ملتی جارہی ہيں۔ آپ کی مشفق استاد نے صحافت کی قدروں کی تفصيل کيسے بيان کی، صحافت کی آزادی پر کس نوعيت کا ليکچر ديا اور پھر وہ زمانہ کونسا تھا۔ ان سب باتوں سے پرے کيا ہم يہ نہيں کہہ سکتے کہ بچے بڑوں کا احترام نہيں کرتے بلکہ الٹا بڑوں سے بدتميزی سے پيش آتے ہيں اور قدروں کو دقيانوسی قرار دينے ميں ايک پل کی بھی دير نہيں لگاتے۔ کيا يہ قرب قيامت کی نشانی نہيں ہے اگر ہے تو پھر ہم کيوں سالار کو تلاشيں اور علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبير کا خواب ديکھيں؟ براہ کرم اگلے بلاگ ميں يہ بھی وضاحت کيجيے گا کہ علامہ اقبال جماعت اسلامی سے متاثر تھے يا پھر جماعت علامہ سے ۔ ويسے تو مجھے ہر علامہ ابن صفی کے ناول کی طرح دہشت ناک ہی نظر آتا ہے ۔
حنيف بھائی ان صحافيوں کے بارے کيا کہنا چاہیے جو اپنی انا کی تسکين کے لیے نہ فقط غلط بيانی کرتے ہيں بلکہ غلط پروپیگنڈا سے بھی باز نہيں آتے۔ ان صحافيوں کی بھی پروفيشنل خدمات کا پردہ چاک ہونا چاہیے جو اپنے چاہنے والوں کو خوش کرنے کے لیے اپنی پروفيشنل ذمہ داريوں کو پيچھے چھوڑ کر ہر وہ کام کرنے پر تيار ہو جاتے ہيں جو ان کو کہا جاتا ہے۔ صحافت آزاد ہے يا نہيں وہ تو آپ کی بات مان ليتے ہيں ليکن خدارا کوئی يہ تو سمجھائے کہ يہ کونسی صحافت ہے کہ اپنی انا کی تسکين کے لیے آپ جس کی چاہيں پگڑی اچھالتے رہيں۔ ذرا يہ بھی سمجھا ديں کہ ہم ان صحافيوں کو کس کھاتے ميں رکھيں جو کرپشن کے خاتمے کے نام پر اپنے پيشے سے بدديانتی کر رہے ہيں اور مسلسل کر رہے ہيں۔ کيا وہ جو اپنا پروگرام کرنے سے پہلے يہ کہتے ہيں کہ آج ميں فلاں کو اپنے پروگرام ميں نہيں چہوڑوں گا کيا اس کو بھی صحافت مان ليں؟ پھر لوگ پری پيڈ اور پوسٹ پيڈ صحافت کا طعنہ بھی مارتے ہيں نا۔
آج کل کا صحافی تو ناخدا بن گیا ہے اور اپنے آپ کو عقل کل جانتا ہے۔ اب اس جن کو بوتل میں کون بند کرے گا؟ ویسے آج کل ہر مرض کی دوا ایک ہی ہے! چیف جسٹس!
حنيف صاحب! آپ سے توقع نہ تھی کہ اس حساس مسئلے پر اتنا پھيکا اور اشارے کنائيوں والا بلاگ لکھيں گے۔ مجھے يہ کہنے ميں کچھ عار نہيں کہ ابلاغ عامہ کی باريکيوں سے نابلد چند ايک ڈاکٹر کہلوانے والے اينکرز نے خوب قبضہ جما رکھا ہے اور وہ کامياب بھی جا رہے ہيں۔ آپ جيسے مستند و ماہر صحافی تو باريکيوں کے پيش نظر الجھے رہتے تھے کہ يہ بات منظر عام پر لائيں يا نہيں مگر يہ تو بريکينگ نيوز اور بازی لے جانے کے چکروں ميں سب کچھ کہہ ڈالتے ہيں اور کسی بھی حد تک جانے سے دريغ نہيں کرتے۔
آپکی پہلی ایڈیٹر اور استاد رضیہ بھٹی مرحوم نے آپ کو درست ہی کہا تھا۔ مکھی سے شاہین تک کی کہانی اور نظریہ ضرورت کو سچ سمجھنے والوں سے اور توقع ہی کیا کی جاسکتی ہے۔
اتنے مختصر بلاگ ہيں کہ پانچ ميں ہی کام چل جاتا۔ اس ميں بھی کوئی سازش لگتی ہے۔
آئی ایس پی آر سے متفق ہونا اس ليے پھی ضروری ہے کيونکہ بعض صحافيوں کی استاد بھی وہ ہوتی ہے۔
اس دفعہ تو ایسا لگتا ہے کہ آپ نے مجھ پر طنز کیا ہے لیکن میں تو صحافی نہیں بلاگر ہوں
اور اردو کے بلاگروں میں صرف ایک میں ہی ہوں جس کے پاس کوئی ڈگری نہیں ہے، جس کی گرائمر بھی ٹھیک نہیں ہے، جس کی املا بھی غلط ہوتی ہے، تاریخ جغرافیے کا علم بھی نہیں ہے۔ لیکن جی میرے پاس ایک کمپیوٹر ہے اور اس پر اردو لکھنا ممکن ہے اس لیے کوئی کچھ بھی کہے میں تو جی اپنی علم نما بے علمی بکھارتا رہوں گا۔ بے شک نام لے کر لکھو جی میرے پاس بہت سی عزتیں بھی ہیں۔ ایک دو دفعہ کی بے عزتی سے ان کا کچھ بگڑتا ہے جن کی صرف ایک عزت ہوتی ہے ، بیچارے ساری زندگی اسی ایک عزت کو بچاتے پھرتے ہیں۔ میری دو چار دفعہ اگر بے عزتی ہو بھی جائے تو چند دن میں پھر ری چارج ہو جاتی ہے۔
محمد حنيف صاحب آپ کے اب تک جتنے بھی بلاگ شائع ہوئے ہيں ان ميں ميڈيا کی سازش سب سے زبردست ہے۔ ديکھنے اور بولنے والے صحافی آجکل ايک ہی گانے کو مختلف راگوں ميں سنائے جا رہے ہيں۔ جناب يہ صحافی ہميشہ ہی سے سلطانی جمہور سے بغض رکھتے ہيں جبکہ جابر سلطان کے سامنے نو رتن بن جاتے ہيں۔ آگر آپ کے خيال ميں ان صحافيوں نے سابق ڈکٹيٹر کے سامنے کلمۂ حق کہا تو آپ کی بے خبری پر حيران ہوں۔ سابق ڈکٹيٹر کا آخری وقت جب لال مسجد والے بھی اسلحہ تان کر مقابلے پر آگئے جنہوں نے اسی ڈکٹيٹر سے گاڑی سے اسلحہ برآمد ہونے پر معافی مانگی تھی اور وہ بھی شير بن گئے جو رات کے اندھیروں ميں دس سال سياست نہ کرنے کا وعدہ کر کے اور سزائيں معاف کرا کے شہنشاہيت کی آغوش ميں چلے گئے تھے اور تو اور وہ بھی سينہ تان کر انکار کرنے لگے جنہوں نے سر جھکا کر کہا کہ ڈکٹيٹر کا حکومت کرنا اور اپنی مرضی کا قانون و آئين بنانا جائز ہے۔ ايسے بدلے ہوئے ہوا کے رخ کو صحافی حضرات بھی محسوس کر چکے تھے کيونکہ ڈکٹيٹر نے اپنے آقاؤں سے ڈبل کراس کيا اور اس کے اقتدار کو ختم کرنے کا فيصلہ ہوگيا تو صحافی بھی اپنا قبلہ تبديل کر کے کلمۂ حق کا جھنڈا ليکر آگئے۔
ان صحافی نما حضرات سے يہ توقع رکھنا کہ يہ گرائمر تاريخ اور صحافت کے اصولوں کو مدنظر رکھيں گے فضول ہے۔ يہ صحافی بنے نہيں بلکہ بنائے گئے ہيں۔ ان کا جمہوريت اور جمہوريت کيلئے قربانی دينے والوں کو صلواتيں سنانا بھی ان ہی آقاؤں کا ايجنڈہ ہے جو جمہوريت کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہيں۔ ويسے ان لوگوں کی سنتا کوئی نہيں ہے اور جو سنتا ہے اس پر ان باتوں کا اثر نہيں ہوتا۔ ماضی ميں بھی ان جيسے لوگوں کو کروڑوں روپے ديئے مگر نتيجہ کيا نکلا سب جانتے ہيں۔ آخر ميں آپ کو اپنے گريبان ميں جھانکنے ميرا مطلب ہے اپنے ہم پيشہ جو صحافت پہ داغ ہيں کے بارے ميں لکھنے کا شکريہ
پاکستان ميں فقط سياستدان نہيں ہیں ايک اور بھی وائٹ کالر طبقہ ہے جو پسند کرتا ہے ان مقتدر قوتوں سے ڈکٹيشن لينا جن کا يہ کام نہيں اور کہلاتے وہ بھی صحافی ہیں۔ نوکری کسی اور کی کرتے ہيں ليکن کہتے يہ ہيں کہ قوم کی خدمت کر رہے ہيں۔
آپ صحافی کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں یا صحافت کو؟ اس کی وضاحت بھی کردیتے۔۔
حنيف صاحب! ميرا تبصرہ بی بی سی کبھی نہيں شائع کرتا ليکن ايک آخری کوشش ہی صحيح ويسےمي نے آپ کي live in Q&A پڑھا تھا ذرا ایمانداری سے بتائیے کہ آپ نے صرف اپنے پيارے پيارے لوگوں کے ہی تعريفی کلمات کيوں شائع کیئے۔ آپ نے تو سوالوں کے جواب دينے تھے تعريفوں کے کوئی جواب نہيں ديتا صرف شکریہ کہا جاتا ہے۔
محمد حنيف صاحب، سلطانی جمہور نہ صرف يہ سب ديکھتي سنتي ہے بلکہ ٹيليفون لائن پر شامل حال بھي ہو جاتي ہے۔ کيا ان کے پاس کرنے کو اور کچھ نہيں رہ گيا ہے۔ اسی نوعيت کا ايک معاملہ اور بھی ہے۔ منتخب نمائندگان کی نالائقی کا رونا رويا جاتا ہے ليکن انہيں منتخب کون کرتا ہے؟ متبادل ميسر نہيں تو پولنگ کے دن گھر بيٹھ کر ايک واضح پيغام تو ديا جا سکتا ہے۔ اگر يہ بھي نہيں کر سکتے تو پھر جس کے مستحق ہيں وہی ہو رہا ہے۔