کرکٹ کی ڈاکٹر عافیہ نہ پیدا کریں
پاکستان کرکٹ بورڈ نے کم از کم سات پاکستانی کھلاڑیوں کے خلاف سخت انضباطی کارروائی کرتے ہوئے یونس خان اور محمد یوسف پر غیر معینہ مدت کے لیے پابند لگائی ہے، رانا نوید اور شعیب ملک پر بیس لاکھ روپے تک جرمانہ اور ایک سال تک کھیلنے پر پابندی اور اکمل برادران، کامران اور عمر، پر تیس لاکھ اور بیس لاکھ جرمانہ اور شاہد آفریدی پر گیند چبانے جیسے الزامات کی وجہ سے تیس لاکھ روپے جرمانہ کی سزائیں سنائی ہیں۔
کرکٹ کا کھیل جنٹلمینوں کا کھیل ہے اور جنٹلمینوں کو نہ تو گیند چبانا زیب دیتا ہے اور نہ میچ گنوانا۔ لیکن کرکٹ بورڈ نے گیند چبانے کا ذکر تو کر دیا لیکن باقی لوگوں کو سزائیں دیتے ہوئے یہ نہیں بتایا کہ کیا کسی نے میچ گنوایا تھا یا پیسہ کمایا۔ کرکٹ بورڈ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ بس یہاں ذرا مسئلہ ہے۔ یہ ذرا ہضم نہیں ہوتا۔
اگر آپ نے گیارہ کھلاڑیوں کی ٹیم میں سے سات کو چن کر سزائیں دے دیں تو باقی کیا رہ جاتا ہے۔ باقی چھپانے سے کیا ہو گا، بلکہ اس کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اگر کوئی بدعنوانی میں ملوث ہے تو اسے سامنے لائیں۔ کیا پہلے کبھی کوئی کمیشن نہیں بیٹھا، کیا پہلے کبھی کسی کھلاڑی پر پابندی نہیں لگی، کیا پہلے کبھی جرمانہ نہیں ہوا۔ سنہ دو ہزار کا جسٹس قیوم کمیشن کیا تھا، وسیم اکرم، سلیم ملک اور عطا الرحمن کے متعلق بھی تو فیصلے کیے گئے تھے۔ تو اب کیا بات ہے کہ کرکٹ بورڈ کچھ نہیں کہہ سکتا۔
کیا صرف کچھ کھلاڑیوں کو ہی نشانہ بنانا مقصد تھا۔ محمد یوسف اور یونس خان کے خلاف سخت سزا سے تو بظاہر یہ ہی تصور ملتا ہے۔ کیا ساری دنیا کے سامنے گیند چبانا چھوٹا جرم اور ڈریسنگ روم میں ایک دوسرے کے خلاف کچھ کہنا بڑا جرم ہے۔ شاہد آفریدی تو آئی سی سی کی طرف سے بھی سزا بھگت چکے ہیں اور اس طرح تو وہ ذرا بڑے یا 'عادی' مجرم نظر آتے ہیں۔ لیکن یونس اور یوسف، ان کا قصور کیا ہے۔ اگر ہے تو اسے صاف صاف سامنے لانا چاہیئے۔ کیوں کرکٹ کی ڈاکٹر عافیہ پیدا کی جا رہی ہے کہ لوگ سڑکوں پر نکل آئیں اور ان کے حق میں مظاہرے کریں۔
ہاں اگر یہ بات ہے کہ محمد یوسف کی کرکٹ ختم ہو چکی ہے اور یونس کو قابو کرنا مشکل ہے تو پھر بھی اسے پاکستانی کرکٹ کو بدنام ہونے سے بچانے کے لیے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیئے تھا۔ دونوں کو کرکٹ کی 'سزائے موت' دینے کے لیے کم از کم سزا کی وجہ تو بتانی چاہیئے تھی۔ اگر ایسا ہوتا رہا تو لوگ کرکٹ کھیلنے سے ڈریں گے۔ امید ہے کہ بورڈ یہ نہیں چاہے گا۔ کھیلوں میں کرکٹ سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہے اور کوئی نہیں چاہے گا کہ اس مرغی کو مار دیا جائے۔
ہاں اگر آئی سی سی نے ان کھلاڑیوں کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت دیے ہیں تو ان کو بھی سامنے لانا ضروری ہے۔ بظاہر لگتا تو یہ ہی ہے کہ شاید پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت ہیں اور ان کے متعلق کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اعجاز بٹ پہلے 'ہاں' اور پھر 'ناں' بھی کر چکے ہیں۔ جب بھی دنیا میں کسی کو سزا سنائی جاتی ہے تو اس کے جرم بتائے جاتے ہیں، چاہے سزا کم ہو یا زیادہ، جرم چھوٹے ہوں یا بڑے۔ انہیں بتانا ضروری ہے۔
باقی رہ گئے اکمل برادران تو اگر بات یہ ہے کہ چھوٹا بھائی بڑے کو کھلانے کے لیے بورڈ یا سلیکشن کمیٹی کو 'بلیک میل' کرتا ہے تو میرے خیال میں وہ سب سے بڑی سزا کا مستحق ہے۔ کیونکہ اگر ان بچوں کو نہیں بھی پتا تو انہیں بتانا ضروری ہے کہ کرکٹ بہرحال جنٹلمینوں کا کھیل ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔
سبق ضروری تھا ليکن اتنا کچھ کرنا بھی احمقانہ اقدام ہے۔ اميد ہے فيصلہ بدلتے دير نہيں لگے گی۔
بھائی صاحب آپ کی زيادہ تر باتوں سے اختلاف ممکن نہيں ليکن دو باتوں سے ضرور اختلاف کروں گا۔ ايک تو يہ کہ کرکٹ اب جينٹل مينوں کا نہيں جواريوں اور ميچ فکسروں کا کھيل بن گيا ہے۔ دوسرے یہ کہ کرکٹ کی عافيہ کی اصطلاح عافيہ کے ساتھ زيادتی ہے۔ تيسری بات يہ کہنا چاہوں گا کہ 11 کھلاڑيوں ميں سے 7 کو نشانہ بنانے سے يہ بہتر نہ تھا کہ ہٹلر کی طرح پوری ٹيم کو گولی ہی مار دی جاتي؟
کرکٹرز نے جو غلطیاں کی ہیں انہیں منظر عام پر لانا ضروری ہے تاہم میرے خیال میں ان کرکٹرز کو ڈاکٹر عافیہ سے ملانا درست نہیں کیونکہ قریب قریب ساری قوم ان کھلاریوں کے کرتوت جانتی ہے اور یہ سب کچھ اخبارات میں چھپ چکا ہے اور ٹی وی پر بھی آ چکا ہے اور یہ بھی پتا لگ گیا ہے کہ کامران اکمل اور عمر اکمل کے علاوہ رانا نوید بھی جوئے میں ملوث ہے تاہم پھر بھی پی سی بی کو حقائق چھپانے کی بجائے ہر کھلاڑی کی غلطیاں بتا کر واضح اعلان کرنا چاہیے۔
تنزليوں کا سفر جاري و ساري ہے۔ سياست دان ہوں يا مُلا حضرات ، فوجي ہوں يا جج اور وکلاء، کھلاڑي ہوں يا ان کے منتظمين اعلٰي، ايک سے ايک شتر بے مہار اس ملک کو تماشہ بنائے رکھنے کی سعی ميں کوشاں نظر آتا ہے۔
پاکستان میں جو بندہ جس سیٹ پر ہے وہ خود کو اس سیٹ پر بادشاہ سلامت سمجھتا ہے کہ جس کو چاہے نواز دے اور جس کو چاہے سزا دے دے۔ سسٹم، اصول، قانون اس بندے کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے ہوں۔ مجھے کرکٹ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن سسٹم سے دلچسپی ہے اور یہ بات پاکستان کے انداز فکر کی علامت ہے۔ رکشے میں بچہ پیدا ہو یا پھر کوئی بھی واردات ہو جائے تو متاثرین کو انصاف کی بجائے انعام دے دو کہ انہوں نے ظالم کا ظلم برداشت کیا ہے۔
کھیلوں میں بھی شدت پسندی آگئی ہے۔ ہاکی گئی، اسکواش کا نام لینے والے بھی نہ رہے۔ موت سے کس کو رستگاری ہے۔ لگتا ہے اب کرکٹ کی باری ہے۔
ميری گزارش ہے ان تبصروں پر جن ميں ڈاکٹر عافيہ کے ذکر پر تبصرہ کرنے والے جذباتی ہو رہے ہيں کيونکہ ڈاکٹر عافيہ کا کريکٹر اس وقت سپرہٹ ہے اور برادرانِ عافيہ اپنی بہن کو شہادت کے درجے پر فائز کر کے اپنے لیے سامانِ سياست ملنے کے انتظار ميں ہيں۔ اب ايسا نہ ہو کہ برادرانِ يوسف اور برادرانِ يونس انہيں بھی شہادت کے درجے پر نہ لے جائيں خيال رہے کہ سزائے موت کی تو معافی ہوسکتی ہے ۔بات سمجھ آگئی کہ کرکٹ ميں ڈاکٹر عافيہ پيدا نہ کرو۔
سزا اور جزا دونوں بہت ضروري ہيں ليکن سارا نزلہ صرف کھلاڑيوں پر نکالنا کہاں کا انصاف ہے۔ مینجمنٹ بھی تو اس ميں برابر کا قصور وار ہے اور پھر سزاؤں ميں اتنا خليج وجہ بتاۓ بغير کيوں؟ عافيہ صديقی کے ساتھ موازنہ بلکل درست نہيں۔
عارف صاحب پتا نہيں کيوں مجھے ايسا لگتا ہے کہ بی بی سی والوں کو ڈاکٹر عافيہ سے ايسی کيا دشمنی ہے کہ آپ لوگ ہر معاملے ميں انہيں ہی کيوں بيچ ميں لاتے ہيں خدا را اگر آپ ان کے ليے کچھ نہيں کر سکتے تو اس قوم کی بہادر بيٹی کا موازنہ ہمارے نالائق کرکٹر سے ہرگز نہ کريں۔ ميرا اگر بس چلتا تو ميں يہ کام بہت پہلے کر چکا ہوتا اور کڑی سے کڑی سزا ديتا مجھے اس سارے کھيل ميں محمد يوسف اور يونس خان کا کوئی رول نہيں لگتا يہ بے قصور ہيں باقيوں کو سزا بالکل درست ملی ہے بلکہ اس سے بھی زيادہ ملنی چاہیئے خاص طور پر آفريدی اور عمر اکمل کو۔
اس اچھے مضمون کو ڈاکٹر عافیہ جیسی معصوم و مظلوم خاتون پر طنز کے لیے کیا استعمال کرنا ضروری تھا۔ عارف صاحب آپ نے بلا وجہ دودھ میں مینگیاں ڈال دی ہیں۔
عافيہ کی مثال نے مزا دے ديا۔
اسلام علیکم، میرے خیال میں یہ سزایں نا کافی اور نا مکمل ہیں اس میں دیگر عادی مجرم جو بورڈ کا حصہ بن کر پارسای کا روپ دھارے بیٹھے ہیں ان کو بھی سخت سزائیں ملنی چاہیئں
عارف شميم صاحب۔ سب سے پہلے تو آپ کا شکريہ کہ دير سے ہی سہی ہميں سازش کے اس گويا نا ختم ہونے والے مايا جال سے آزاد کروايا، دوسرے يہ کہ بے شک کرکٹ جنٹلمينوں کا کھيل ہے مگر افسوس ناک پہلو تو يہ ہے کہ اس کھيل کو کھلانے والے اب جنٹلمين نہيں رہے۔ وہی ہيں جو کھيلتے تو نہيں بس بيٹھے بٹھائے سازشيں کرتے رہتے ہيں جيسے يہ کھلاڑی نہ ہوں بلکہ شطرنج کے مہرے بن کر رہ گئے ہوں۔ اظہر الدين اور کپل ديو جيسے جنٹلمين ميں نے آج تک نہيں ديکھے مگر ان کے ساتھ کيا ہوا ايک بھيانک سازش اور اب وہاں بھی وہی ہو رہا ہے ہم آپ کيا کرينگے، بڑھيا سے مذمتی بلاگ لکھيں گے، تبصرے کريں گے اور بس۔ کھيل کو جاری ہی رہنا ہے کيونکہ يہ زندگی کے ميلے دنيا ميں کم نہ ہونگے۔ افسوس صد افسوس۔
کرکٹ کی عافيہ کی اصطلاح استعمال کرنا ڈاکٹر عافيہ کے ساتھ بہت سخت زيادتی ہے۔
اسلام علیکم! آسٹریلیا میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کو شکست کا ذمہ دار قرار دیکر اور ڈسپلن کو بنیاد بنا کر کرکٹ ٹیم کے ٹاپ سات کھلاڑیوں کے خلاف اندھا دھند سخت تادیبی کارروائی کرکے پاکستان کرکٹ بورڈ نے خود کو غیر مہذب، غیر سنجیدہ، غیر پیشہ وارانہ اور جذبات سے معمور ثابت کیا ہے اور ظاہر ہے جہاں جذبات حکمرانی کریں وہاں پر عقل و دانش و خردمندی کی موجودگی کا قیاس بذات خود عقل سے پیدل ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ ٹاپ سات کھلاڑیوں اور جن کے ٹیم میں وجود سے ہی دنیا میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے، کو مکھن میں سے بال نکلانے کی طرح اس طریقے سے اچانک ایک سائیڈ پر کر دیا گیا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے فیصلہ سے ‘سازش‘ کی بُو آتی ہے۔ دہشتگردی کے خوف کے سائے میں رہنے والی عوام کو یہ دیکھ کر کچھ حوصلہ ہوتا تھا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم، دنیائے کرکٹ سے وابستہ ہے۔ سات کھلاڑیوں پر ‘ہلہ‘ بولنے سے پاکستانی عوام میں دنیا سے کٹ کر یکا و تنہا ہو جانے کا مایوس کن اثرات کا پیدا ہونا غیر یقینی نہیں ہو سکتا۔ کرکٹ بورڈ نے بظاہر تو کھلاڑیوں پر ‘حملہ‘ کیا ہے لیکن درحقیقت کھلاڑیوں سے زیادہ عوام اس ‘حملہ‘ کا نشانہ بنے ہیں۔ لہذا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ کرکٹ بورڈ نے اپنے فیصلہ سے دانستہ یا نادانستہ کھلاڑیوں کو کرکٹ کی ‘عافیہ صدیقی‘ بنا ڈالا ہے۔ اور یہ بات اس لیے بھی درست نظر آتی ہے کہ سات کھلاڑیوں میں سے صرف شاہد آفریدی ہی سزا کے حقدار تھے کہ ان کا جرم ‘گیند چبانا‘ بذاتِ خود ‘سپورٹس مین شپ‘ کی عدم موجودگی کو ثابت کرتا ہے اور ظاہر ہے کہ جس کھلاڑی میں ‘سپورٹس مین شپ‘ نہ ہو، اس کو سپورٹس فیلڈ میں رکھنا کرکٹ کے ساتھ کرکٹروں کی بھی توہین ہوتی ہے۔ باقی چھ کھلاڑیوں کو بھی ایک ہی ترازو میں تولنے پر ہر باشعور شخص پاکستان کرکٹ بورڈ کی عقل پر ماتم کرنا فرض سمجھتا ہے۔ پی سی بی کے کرتا دھرتا کی اس سے بڑی جاہلیت، نادانی، کم عقلی، لڑکپن، اور غیر سنجیدگی کی انتہا اور کیا ہو سکتی ہے کہ پی سی بی نے کھلاڑیوں کے خلاف فیصلہ صادر کرنے سے پہلے دورانِ انکوائری کھلاڑیوں کے جرم و قصور اور نوعیت، عمر و صحت، تجربہ و پختگی، سنجیدگی و غیر سنجیدگی، بالغ پن و الھڑ پن اور کئیریر کو مدِنظر ہی نہیں رکھا اور سب کھلاڑیوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا۔ بالا سطور کو مدِنظر رکھ کر خاکسار اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ آسٹریلیا میں شکست کا ذمہ دار کھلاڑیوں سے زیادہ سلیکٹرز، گورننگ باڈی اور مینجمنٹ ہے۔ ظاہر ہے کہ پڑھانے اور گائیڈ کرنے والا خود ‘بونگا‘ ہو تو اس کے شاگردوں سے ‘کشمیر‘ فتح کر لینے کی امیدیں وابستہ کر لینا عقل سے ماورا ہوتا ہے۔
یہ سب سلمان بٹ کو کپتان بنانے کے لیے کيا جا رہا ہے
اعجاز بٹ جنٹلمين اسپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے استعفی کيوں نہيں دے سکتے، اکمل برادران کو سليم ملک والی سزاضرور ملنی چاہيۓ۔ ڈاکٹر عافيہ تو بناديا گيا ہے يونس کو بہرحال جسکا فائدہ خود يونس و يوسف کو ہی ہو گا۔
محمد يوسف اور يونس ہميشہ کے ليے آؤٹ آف فارم ہو چکے ہيں لہذا ان کی رخصتی نئے آنے والوں کے لیے اور ان کی تربيت کے لیے ضروری ہے۔ فيصلہ بالکل درست ہے يوسف کے لیے تبليخ کے راستے مکمل طور پر کھل گئے ہيں۔ عافيہ کی مثال کی داد ديتا ہوں۔
جب اتنے بڑے کھلاڑيوں کے ساتھ یہ سلوک ہوگا تو پاکستان کی پاس کھيلنے کے ليے کون بچے گا۔
شميم صاحب! انہوں نے توملک وقوم کی ناک کٹوادی ہے۔غضب خدا کا آدھےدرجن سے زائدسابق کپتان بےقاعدگيوں بدعنوانيوں ميں ملوث ہيں۔ کوئی پاور پلے کا حصہ ہے تو کوئی سٹے بازی کا اور تو اور ايک توگيندچباتے رنگے ہاتھوں پکڑاگيا ہے۔