جنرل نالِج۔۔۔
پتہ نہیں پاکستان مسئلہ ہے کہ حل جہاں منتخب حکومتیں تو اپنی معیاد شاذ و نادر پوری کر پاتی ہیں لیکن جنرل ریٹائرمنٹ کی مدت تک پہنچنے سے بھی پہلے توسیع پا لیتے ہیں۔
پاک فوج کے جرنیل بھی سدا سہاگن ہوتے ہیں۔ موجودہ منتخب جمہوری حکومت نے آئی ایس آئی کے ریٹائر ہوتے ہوئے جنرل شجاع پاشا کے عہدے میں توسیع فرماکر خود کو کچھ دنوں کے لیے آکسیجن مہیا کر دی۔
اب صدر زرداری اپنی خواب گاہوں کی کواڑوں کو مقفل کرلینے کی زحمت نہ کریں کہ اب قلم اور بندوق کی سازشیں ان کے لیے ذرا تھمنے لگی ہیں۔ اب وہاں کوئی نہیں آئے گا کہ عظیم جرنیل امریکہ پدھار کر آنے والے ہیں۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل شجاع پاشا کی امریکہ آمد کو پاکستانی میڈیا اور 'اعلی مگر گمنام ذرائع' رکھنے والے صحافی ایسے ڈھول تاشوں سے پیش کر رہے ہیں کہ جیسے نیپولین وزیرستان سے 'وار آن ٹیرر' جیت کر آمریکہ آرہے ہوں۔ یا جیسے کسی زمانے میں لیاقت علی خان اور صدر ایوب امریکہ آتے ہونگے۔
مانا کہ جنرل کیانی اور شجاع کوئی فلوریڈا میں نارنگیاں کھانے تو نہیں آرہے اور نہ ہی بِیچوں پر نہانے یا لاس ویگاس میں جوا کھیلنے بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی نقشہ بازی کرنے۔ لیکن جو نقشہ بازی صحافی کر رہے ہیں اس سے تو لگتا ہے جنرل شجاع اور جنرل کیانی کے اس دورے سے پاکستان کی قسمت بدل جائے گی۔ یعنی کہ دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ کی قمست کا تمام دار و مدار جنرل کیانی کے تمغوں سے بھرے کندھوں پر آن پڑا ہے۔
یہ بھی کہ صدر زرداری سے دفاعی امور پر بات چیت کے اختیار اب کیانی نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ نیز امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں چار چاند لگ جائيں گے۔
دہشتگردی کے خلاف جنگ میں نہ جانے کتنے امریکی نیٹو اور اتحادی فوجوں کے جنرل آئے اور ریٹائر ہوکر چلے بھی گۓ ۔ اگر پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے جرنیلوں کی توسیع ضروری ہوتی تو پھر بطور جنرل پرویز مشرف میں کیا خرابی تھی۔
بات یہ ہے کہ دس سال تک جرنیلوں کا قیدی رہنے والے آصف علی زرداری نے پاکستان کی سیاسی تاریخ سے یہ سیکھ لیا ہے کہ جج ہوں کہ جرنیل ان کے قلم کے لیے ایک سال کی توسیع کی مار ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
جب نا اہليت اپنے عروج پر ہو تو يہی کچھ ہوتا ہے معيشت سے لے کر کرکٹ ہاکی سب کا برا حال کرديا ہے
ہر شاخ پہ الو بيٹھا ہے انجام گلستاں کيا ہوگا
ذرداری ذندہ باد
حسن صاحب!اصل طاقت کا منبع تو يہی عناصر ہيں۔ايوان اقتدار ميں رہنے کا گر بھی يہی ہے۔انہی کی بدولت نيزے،نشتر،سنگينيوں کی جانب اشارہ ہوتا ہے انہی کی بدولت لانگ مارچ ہوتے ہيں ۔مارچ،دسمبر اورستمبر کی تاريخيں بيان کی جاتی ہيں۔آپ نے درست سمت ميں اشارہ کيا ہے کہ لوگ اب بھلائی اسی ميں سمجھتے ہيں کہ ان سے متھا لگائے بغير عافيت اسی ميں ہے کہ توسيع دے ڈالو ورنہ بارہ اکتوبر اور ميرے عزيز ہم وطنوں ہوتے دير نہيں لگتی
صاب جي کيا تبصرہ کرنا ہے ليکن يہ بات روزروشن کی طرح عياں ہےکہ امريکہ کا دورہ معنی خيز يا کوئی چھپے ھوۓ مقاصد لے ھوۓھوگا„„امریکہ اور اسکے نان نيٹو اتحاد آنے والے دنوں کيا حکمت عملی اختيار کرتے ہیں اس دورے سے منظرنامہ ذرا ذيادہ واضح ہوگا۔آگے آگےديکھۓ ہوتا ہے کيا
محترم يہ پاکستان ہے نہ کہ امريکہ اور نہ ہی يورپ ـ
بڑے دنوں کے بعد ہم وطنوں کو جمہوريت ميسر آئی ہے ہميں بھی انجوائے کرنے ديں جمہوريت کو ـ پنگا نہ لو سلولی سلولی يہ گاڑی سيدھے راستے پر آجائے گی
جج ہوں يا جنرل سب کی سمجھ ميں آجائے گا جمہوريت ہی ميں پاکستان کا فائدہ ہے۔
پاکستان ميں اگرچہ جمہوری حکومت ہے ليکن فوج اور آئی ايس آئی کا پلڑا ابھی تک بھاری ہے کيونکہ ان کے پيدا کردہ عناصر يعنی مذہبی جماعتيں يا نيم مذہبی ليڈر بشمول ن ليگ کا اثر مکڑي کے جالے کی طرح موجود ہے ايسے ميں ظاہر ہے مرکزی حکومت کو اپنی حفاظت کے ليۓ جو حربہ بھی نظر آئے گا کرے گی بالکل اس بچے کی طرح جو کبھی اپنے کسی دوست کو کہتا ہوگا يار مينوں ذرا ايس گلی توں نگاہ دے او منڈا مار دا اي۔ دوسری طرف حکومت مخالف بھی کہتے ہوں گے پتر دساں گا ای ذرا اينوں يعنی جنرل نوں تے رٹير ہو لين دے۔
اگر جرنیلوں کی مدت ملازمت بڑھانے سے منتخب حکومتوں کو استحکام ملتا تو ہمیں ایک کے بعد ایک منتخب حکومت ریت کے گھروندوں کی طرح گرتی دکھائی نہ دیتی. پاکستانی فوجی جنرل ہمیشہ اس تاک میں رہتے ہیں کہ کب منتخب حکومتیں ان کو اقتدار میں آنے کا موقع فراہم کریں اور ان کو کبھی بھی زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا. پچھلے پچیس سالوں میں چاہے پیپلز پارٹی کی حکومت ھو تو چاہے مسلم لیگ کی، انہوں نے کب اور کیسے کیسے فوجی جرنلوں کو خوش کرنے کی کوشش نہیں کی. لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ یا تو پھانسی کا جھولا یا پھر زھر کا کٹورا. کبھی پولیس مقابلہ تو کبھی بم دھماکہ اور یا پھر سعودی عرب کے شاہی محل کا طویل حج. آج بھی یہ منتخب حکومتیں اپنے پیروں پر خود کلہاڑا مارنے کو بیتاب ہیں. بدقسمتی یہ ہے کہ جب بھی جمہوری حکومتوں کو جمہوری ادارے مضبوط کرنے کا موقع ملا انہوں نے سب سے پہلے انہی کو ذبح کیا. اور غیر جمہوری اداروں کو مضبوط کیا. زرداری صاحب جتنی بھی جرنیلوں کی مدت ملازمت بڑھا دیں یا اپنے صدارتی محل میں کنڈیاں تالے لگوا لیں جب جرنیلوں نے ان کو نکالنا ھو گا، چوہے کی طرح روشن دان سے کھینچ کر نکال لیں گے.
جب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے، کسی بھی جرنيل کو ريٹائر نہيں کرنا چاہيے- کيونکہ جب بھی کوئی جرنيل ريٹائر ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ تو امريکہ کا زبردست مخالف اور طالبانی نظام کا پرزور حامی ہے- ايسے جرنيلوں اور افسروں کو نوکری کی مجبوريوں سے باندھ کر رکھنا ضروري ہے، ريٹائر کرنے سے دشمن کا پلڑہ بھاري ہوجاتا ہے-
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کي ـ حسن صاحب آپ نے بہی بيٹھے بيٹھے کيا قصہ چھيڑ ديا ہے اب بات کہاں سے شروع کريں ـ تحريک پاکستان ميں پاک فوج کے قصہ سے کريں کيونکہ کچھ لوگ تو يہاں تک کہہ جاتے ہيں کہ پاک افواج کا پاکستان کی تحريک ميں اہم کردار ہے ليکن حقيقت تو يہ ہے کہ جو فوج ہمارے حصے ميں آئی اس نے 13 آگست کو يونين جيک کو سلام کيا جب 14 آگست کو ملک آزاد ہوا تو ہماری فوج نے پاکستان کے جھنڈے کو سلام کيا ـ يہ تھا پاکستان بنانے ميں ہماری فوج کا اہم کردارـ اب اگر ہم انڈيا سے لڑنے والی جنگوں کا ذکر کريں گے تو قصہ ذرا لمبا ہی ہو جائے گا اس لئے بس يہ ہی کافی کہ ہماری فوج دہشتگردی کے خلاف جنگ ميں مصروف ہےـدہشتگردی کے خلاف جنگ کے علاوہ ہماری کاميابياں ہميں ڈھونڈنا پڑيں گی ايک طرف صورتحال يہ ہے دوسری طرف اصل اقتدار کے اصل مزے لوٹنے کی پرانی روايت اب بھی برقرار ہےـ صدر زرداری نے قلم اور سنگين کا اشارہ اس لئے ديا تہا جو اسے بہی يہ پيغام ملا تھا کہ قلم اور سنگين کبھی بھی مل کر ايک ہو سکتے ہيں ان کا آپس ميں پرانا تعلق ہے اب مسئلا کوئی نہيں بات ژرداری کی سمجہ ميں يہ آئی ہے کہ جو سمجہتے ہيں کہ اقتدار کرنا ان کا حق ہے اور حق رہے گاان کو يہ سوچنے بھی دو اور کرنے بھی دو يہ دو تين سال تو نکل ہی جانے ہيں ليکن يہ صدارت کی پل صراط پر بيٹھا زرداری کل جب اقتدار ميں نہيں ھوگا تب يہ کيا کرےگا يا کر سکتا ہے يہ سوچنا ضروری ہے اور يہ بہی کہ کيانی کو ملازمت ميں توسيع باوجود اس کی کياگارنٹی ہے کہ زرداری کی صدارت اور گيلانی کی حکومت کے لئے تمام خطرات ٹل گئے ہيں کيونکہ کئی معاملات اب بھی التوا ميں ہيں سنگين کے اشارے سےقلم کو جنبش آ گئی تو؟
ایک مشہور کہاوت ہے کہ اگر چھت گرنے لگے تو بھاگ جاؤ اور اگر آسمان گرنے لگے تو ٹھہر جاؤ۔ ‘ہِز ایکسیلینسی‘ صدرِ پاکستان نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرتے وقت غالبآ اسی کہاوت کو ذہن میں رکھا ہو گا۔ پاکستان کی تریسٹھ سالہ تاریخ، مارشل لاءز کی بھرمار اور بھٹو خاندان کے قتل کو مدِ نظر رکھ کر بھی یہ بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ بالا کہاوت میں پاکستان پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جس کے لیے پاکستان کی زمین، ‘چھت‘ سے زیادہ ‘آسمان‘ کا درجہ رکھتی ہے اور یہاں پر بھاگنے کی بجائے ٹھہر جانا ہی دانشمندانہ قدم ہے۔ سندھ میں ایم کیو ایم، پنجاب میں ن لیگ، ق لیگ، اور جہادی تنظیمیں، سرحد میں ‘ملائیت‘، اور بلوچستان میں ‘اندھی قوم پرست‘ جماعتیں، بھٹو کے عدالتی قتل سے، ‘نظریہ پاکستان‘ سے لبریز ‘اسٹیبلیمشنٹ‘ اور ‘میڈیا‘ کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کا فلسفہ ء سیاست یعنی ‘سوشلزم‘ ایک ایسے ‘سمندر‘ پر یکا و تنہا ہے کہ اسکے وجود و بقاء کے لیے ضروری ہے کہ سمندر میں رہتے ہوئے مگرمچھ سے بیر نہ رکھا جائے۔
ہماری فوج کس کام کے قابل ہے یہ تو آپ کو یقینا پتہ ہی ہوگا اور اگر اسکو امریکی استعمال کے قابل کچھ جرنیل بنانے میں کامیاب ہو ہی گئے تو آپ کو ذاتی طور پر کیا مسئلہ ہے ۔اگر تو ریٹائیرڈ پاکستانی جرنیلوں کو امریکہ کچھ ذیادہ ہی پیسوں پر نوکری دیتا ہے تو یہ بات آپ ان جرنیلوں کے کان میں بھی کہہ سکتے تھے جن سے آپکو ہمدردی محسوس ہورہی ہے ۔
ذرا زرداری صاحب کی اپنی قابلیت اور صلاحیت پر بھی روشنی ڈال دیں کہ وہ کیسے "وصیت" کے سہارے اس عہدے تک پہنچے ہیں؟
حسن بھائی کافی دنوں کے بعد لکھا ہے لیکن بات سو آنے سچ لکھی ہے.
حکومت نے فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہان کی مدت ملازمت میں توسیع کرنا کیوں بہتر سمجھا؟ آپ خود ہی بتا ديں۔اس بابت جنرل نالِج ذرا کمزور ہے اپنا۔
ريٹائر کرنے سے دشمن کا پلڑہ بھاري ہوجاتا ہے
میرے خیال میں زرداری صاحب آرمی کے دبائو میں ہیں۔.
حسن صاحب! آپ تو سب کو اچھی طرح جانتے ہو۔ اگر بینظیر صاحبہ ہوتیں تو وہ شاید ایسا نہ کرتیں۔