نئی نسل کا دشمن کون
جہاں بغیر ڈاکٹری نسخے کے دوائیاں کھلے عام فروخت ہوتی ہیں وہاں اگر بارہ سے بیس برس کے لڑکے کھانسی کی دوائی کی پوری بوتل دماغی سرور آنے کے لیے پینے کے عادی بن جائے تو اس کا الزام کس کو دیا جائے؟
دوائی فروخت کرنے والوں کو، بچوں کو یا حکومت کو؟
چند ہفتے قبل کشمیر کی بعض گلیوں میں مجھے ایسا ہی تجربہ ہوا جہاں نہ صرف ادویات کی دکانیں نشہ آور دوائی چوری چُھپے فروخت کرتی ہیں بلکہ سبزی فروش مرغی فروش اور دودھ فروش بھی نشہ آور ادویات کو بیچنے لگے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ سکول کے بچوں کو سگریٹ کے نشے کی طرح اس دوائی کی لت پڑ رہی ہے۔
کشمیر کا ہر طبقہ اس مسئلے سے واقف ہے اور اس کے اثرات بھگُت رہا ہے مگر مجال ہے کہ کوئی کھل کر سامنے آجائے کیونکہ کوئی پتہ نہیں کہ ایسی حرکتوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔
سول سوسائٹی کے بعض لوگ معمول کی طرح اس کا الزام بھارتی فوج پر ڈالتے ہیں جو بقول ان کے جان بوجھ کر ذہنی طور پر نئی نسل کو مفلوج بنا رہی ہے مگر خود بچے اپنی ذہنی پریشانی اور گھریلو دباؤ کو اس نشے کی لت پڑنے کی ذمہ داری ڈالتے ہیں۔
حکومت سول سوسائٹی کی بات کو رد کرتی ہے اور اس معاملے کو اتنا سنگین نہیں مانتی کہ جس سے نئی نسل خراب ہو جائے وہ آزادی نواز عناصرکو اس کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔
ستم یہ کہ سبزی فروشوں، مرغی فروشوں اور دوسرے فروشوں سے یہ پوچھنے کی کوئی جرات نہیں کرتا کیونکہ ان میں بیشتر خود کوآزادی کے متوالوں میں تصور کرتے ہیں۔ وہ ہر بربادی کی ذمہ داری حکومت پر ڈالتے ہیں، اپنےجان و مال کی تباہی کی دہائی دیتے ہیں۔ خود جس طرح وہ معاشرے کو کھوکھلا بنا رہے ہیں اور چند پیسے کماکر نئی نسل کو دو دو ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اس کا شاید انہیں ادراک نہیں یا اس پر اپنی آنکھ بند رکھنا چاہتے ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترمہ میں صوبہ سرحد کے ایک چھوٹے سے شہر سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرے گاؤں کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔ تقریبا ہر دوسرا نوجوان اس لت میں مبتلا نظر آتا ہے۔ نشہ آور گولیاں اور کھانسی کے شربت کا کاروبار زوروں پر ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ ہماری گاؤں کا عطائی سال میں تین مہینے دین کی خدمت کے لیے تبلیغ کے لیے ضرور جاتا ہے مگر اس کے کی غیر موجودگی میں بھی اس بیٹا ان بوتلوں کی فروخت میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتتا۔دراصل ہم ایک بیمار نسل پروان چڑھا رہے ہیں جس کے ہاتھ میں کھانسی کی بوتل اور پیٹ میں نشہ آور گولیاں ہیں۔
نعيمہ جي!جب قانون کی حکمرانی نہ ہواورقانون شکنی کی حوصلہ افزائی کی جائے تو ايسے ہی حالات وواقعات جنم ليتے ہيں۔جب ادويات بلا خوف وخطر بڑے دھڑلے سے بلا اجازت پان کے کھوکھے پر بک رہی ہوں اور بغير کسی مستند فرد کے نسخہ پر باآسانی دستاب ہوں تو کس کودوشی ٹہراياجائے؟
ہم کس کو کہيں ؟ ہماری فرياد کون سنے گا سب سے بڑا سوال يہ ہے ۔ آپ نے ايک بات کر دی ميں نے پڑہ لی بات ہو گئی ختم ـ بچے اسکول نہيں جاتے پڑہتے نہيں، نشہ آور ادويات استعمال کرتے ہيں اور اس طرح کی برائيوں ميں پہنستے جا رہے ہيں ليکن کوئی روکنے والا ہے نہ ٹوکنے والا ـ آپ نے سارہ نزلہ ان سبزی فروشوں، مرغی فروشوں اور دوسرے فروشوں پر ڈال ديا ہے ٹہيک ہے ان کو يہ غير قانونی کام بند کرنے چاہئيں ليکن وہ يہ سب کام جہاں کہيں کر رہے ہيں کيا وہاں کوئی قانون اور اس کا رکہوالا نہيں ؟اگر بات ايسی ہی کہ جس کے ہاتہ لگتا ہے شيشا وہ چل نکلتا ہے بيچنے تو ان کو روکنے کے کئی قانون بہی ہيں تو طريقے بہي، جس رياست ميں قانون کے رکہوالے جرم کرنے والوں کو پکڑنے کے بجاءِ سارا زور جرم کا اعتراف کرنے کے لئے چہترول کے استعمال پر کرنے لگيں وہاں کے بچے دوا تو کجا زہر بہی پی سکتے ہيں، بس ہم آپ ان کو بچانے کے لئے دعا کے سوا کچہ بہی نہيں کر سکتے۔
اگر ہيروئين چرس اور افيون وغيرہ مہنگی ہوگی اور غير قانونی بھی نيز سگريٹ کی بو سے گھر ميں پٹائی ہونے کا خدشہ ہو تو يہ ادويات کافی آسان ذريعہ بنتی ہيں۔بات ادويات کی نہيں بلکہ تمام برائيوں کی ہے کہ کوئی معاشرہ اس سے کيسے نمپٹتا ہے۔
خدا نے کبھی اس قوم کی حالت نہيں بدلی
نہ ہو شوق جسے اپنی حالت بدلنے کا
فوج ميں فرشتے کام نہيں کرتے اس زيادہ برائياں تو فوج کے اندر موجود ہوتی ہيں جن کا عام لوگوں کو علم بھی نہيں ہوتا اور يہ دوکاندار يا کيمسٹ جو اس دھندے ميں ملوث ہيں وہ يقينا” ان کو منتھلی بھی ديتے ہونگے۔
اسکے ذمہ دار ماں باپ ہيں نہ کہ مرغي،سبزي،ايمان فروش آخر بچے اس حد تک پہنچے کيسے جہاں انھيں بھی ڈپريشن ہوگيا ہے ماں تو ونڈرز کرسکتی ہے چاہے غريب ہو يہ امير اپنے بچوں کيلۓ ، کشميری ماؤں کو چاہيۓ کے اپنے بچوں سے دوستی کريں زبردست والی نشے کا حل و اسباب خود پتہ لگ جايئں گے
نیعمہ احمد صاحبہ آپ صرف کشمیر کی بات کررہی ہیں۔ہیاں تو ہر جگہ یہ ہی حال ہے۔صرف کراچی پر اگر نظر ڈالیں تو شہر کے پوش علاقوں سے لیکر مضافاتی علاقوں تک ادویات ایسے فروخت ہورہی ہیں جیسے بچوں کی کوی عام سی چیز ہو۔شہر میں ڈرگ انسپیکڑ اول تو نظر نہیں آتے اور اگر خدا نہ کریں مل بھی جایں تو وہ اپنے گھر والوں کے لیے ادویات لینے کو ترجیح دیتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں نہ کے ہفتہ جاے پر مفتہ نا جاے۔دوسری بات یہ کے بدقسمتی سے کوی قانون نا ہونے کے باعث شہر میں درجنوں
غیر رجسڑڈ میڈیکل اسٹور دن دوگنی رات چگنی ترقی کررہے ہیںاور سونے پر سوہانا کے تعلیم کی کمی اور بے شعوری کے بڑی بڑی کھڑکیاں ہونے کے باوجود ہر فرد بہت ہی آسانی سے ادویات کی ترسیل عام آدمی تک پہچانے میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔حکومت کی جانب سے باراں شہر میں غیر قانونی ڈرگ اسٹور
کے خلاف قانونی قاروای کرنے اور میڈیکل اسٹورز پر کام کرنے والے لوگوں کو متعدد بار ڈسپینسر کا کورس کرانے کا وعدہ تو کیا جاتا ہے مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجاے۔
اپ کی بات درست اور ايک اھم اور سنگين مسئلے کی طرف توجہ دلائ„„يہ مسئلہ ازادی جيسے مسئلے جتنا اھم ھے„„سب جماعتوں کو „حکومت اور سول سوسائٹی کو اس سنگين چيلنج سے نمٹنے کی کوشش کرنی چاھےے„„
‘مجھے پینے کا شوق نہیں
میں پیتا ہوں غم بھلانے کو ۔۔۔۔۔ ‘