صحرا کی سختی
چولستان کے صحرا اور اس کا سینہ چیر کر رزق کمانے والے کاشتکاروں کے درمیان زمین پر قبضے کی لڑائی شدت اختیار کر رہی ہے اور بعض بیرونی عوامل کی مداخلت کے باعث کاشتکار صحرا کے ہاتھوں اپنی زمین کھو رہے ہیں۔
ہزاروں کی تعداد میں کاشتکار ضلع بہاولپور سے متصل چولستان کے صحرا کے سرحدی علاقوں میں ریگستان کی سختی سے لڑتے ہوئے عشروں سے کھیتی باڑی کر رہے ہیں۔
ان محنت کشوں نے اپنے خون پسینے سے ان ریتلی زمینوں کو سینچا اور صحرا سے چھین کر اس بنجر اراضی کو قابل کاشت بنایا۔ کھیتی باڑی سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ صحرائی زمین کو قابل کاشت بنانا کتنی جان جوکھوں کا کام ہے جس میں بعض صورتوں میں ایک سے زائد نسلوں کی محنت اور قربانی درکار ہوتی ہے۔
لوگ مختلف علاقوں سے آکر یہاں بسے اور اب ان کی دوسری اور تیسری نسلیں صحرا سے اپنی روزی کشید کر رہی ہے۔ اب تک تو سب ٹھیک چل رہا تھا لیکن مقامی کاشتکاروں کے بقول چند سال پہلے موسم میں اچانک تبدیلی نظر آنا شروع ہوئی۔
ان زمینوں کے لیے سال میں دو بارشیں کافی ہوتی ہیں لیکن سات برس ہوئے ایک بھی ڈھنگ کی بارش ادھر نہیں برسی۔ اوپر سے گرمی کی شدت اتنی بڑھی کے سخت جان درخت بھی جھلسنے لگے۔ تیز ریتلی آندھی جب چلتی ہے تو کھڑی فصلیں اجاڑ دیتی ہے۔
ایسے میں کئی برسوں کی محنت سے تیار کی گئی زمین دوبارہ صحرا میں تبدیل ہو رہی ہے۔ ہر سال کئی سو ایکڑ قابل کاشت اراضی صحرا کی نذر ہوتی ہے۔ گاؤں کے گاؤں روزی کی تلاش میں شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔
ان زمینوں سے بے دخلی میں صحرا کا ساتھ صرف موسمی تبدیلیاں نہیں کچھ انسان بھی دے رہے ہیں۔
نواب کے خانوادوں کی داستان ابھی باقی ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
‘سانسوں کے سلسلے کو نہ دو زندگی کا نام
جینے کے باوجود بھی کچھ لوگ مر گئے‘
يہ بات ہم سے بہتر اور کون جانتا ہوگا کے ضلع ٹھٹے کی بارہ ايکڑ زمين روزانا سمندر ليتا ہے اور اس کی وجہ قدرتی نہيں انسانی ہے وہ وقت دور نہيں جب حيدرآباد بھی اےک بندرگاہ ھوگا
ميرے خيال ميں صحرا ميں جاکر بسنے کی ضرورت ہی کيا ہے صحرا کو صحرا ہی رہنے ديا جائے تو اس ميں سب کی بہتری ہے کيونکہ قدرت نے مختلف قسم کے جانداروں کے ليۓ اور زمين کا درجہ حرارت اور توازن قائم رکھنے کے لئے جغرافيائی تقسيم کی ہوئی ہے۔يہ کيسے دانا ہيں جو روزی کی تلاش ميں صحرا کا رخ کرتے ہيں جبکہ ديہاتوں سے شہروں کو جانا تو سنا تھا۔انسان کی آبادی بڑھنے سے ديگر جانداروں کی آبادی متاثر ہوتی ہے اس ليۓ يہ زلزلے سيلاب اور ديگر قدرتی آفات سميت يہ انسانی نظرياتی و غير نظرياتی لڑائياں سب سسٹم کو بيلنس رکھنے کے ليۓ قدرتی طور پر رونما ہوتی ہيں اس ليۓ ہميں وسائل جانچ کر آبادی کی منصوبہ بندی کرنی چاہيۓ۔
زیرکاشت رقبے کو بچانے کے لیے حکومتی اداروں کو عوام کے تعاون سے کام کرنا چاہئے۔ ریت کے ٹیلے ہوا کے رخ آہستہ آہستہ چلتے رہتے ہیں اور ان کے راستے میں آنے والی ہر شے عمارت ، کھیت ، باع ، نہر ، سڑک اور ریلوے لائن وغیرہ ریت میں دب کر بےکار ہو جاتی ہے۔ اس مسئلہ کا بہترین حل ٹیمارکس نامی پودے کی حفاظتی باڑ فرام کرتی ہے۔ اس طریقہ کے بلوچستان کے ضلع مستونگ، نوشکی ، خاران میں کا میاب تجربات ہو چکے ہیں۔
فاروقی صاحب!اس بات ميں کوئی شک يا دو رائے والی بات ہو ہی نہيں سکتی کہ عالمی حدت ميں اضافہ اور اس کے نتيجے ميں ہونے والے موسمی تغيرات حضرت انسان کے کارناموں اور اس کی ماحول دشمن کارستانيوں کا کيا دھرا ہے۔ بے چارے تپتے صحرا والے کيا جانيں کہ يہ کيا ماجرا ہےان پر تو جو بيت رہی ہے وہی جانتے ہيںـہاں البتہ اس کے ذمہ دار شہری اپنی من موجی ميں جتے ہوئے اس بات سے بے خبر ہيں کہ ہم سب کس تباہی کے دہانے پر کھڑے ہيں۔نام نہاد ماہرين خصوصا” وزارت ماحوليات کہاں ہے؟
اتھے کوئ ھک مسئلہ ھے„„مسئل کا حل دينت داری کی کو کھ سے پھوٹتا ھے„„„عوام کو جھنم کے حوالے اور خود اين ار او کےرکھوالے„„راہنما ھی راہزن ھيں„„اب کس کس مسئل پہ ماتم کرے يہ بھوکی ننگی اور مسائل ميں لتھڑی عوام
‘بستی بستی آندھی جھکڑ، صحرا صحرا جل تھل طوطے
ویرانے میں کریں ٹھکانا، اس بستی سے اُڑ چل طورے‘
چولستان کے صحرا میں حکومت پاکستان مصنوعی بارش کیوں نہیں کروادیتی؟۔
سڈنی سے علی گل کا تجزيہ بلکل بجا ہے- ميں ان سے مکمل اتفاق کرتا ہوں