وہ بات جس کا سارے فسانے میں ذکر نہ تھا۔۔۔۔
یہ سوال سن سن کر کان پک گئے ہیں۔ پاکستان میں جب بھی کوئی خود کش حملہ ہوتا ہے یا کسی مزار، مسجد یا بازار میں معصوم لوگوں کا خون بہایا جاتا ہے یا پھر ملک کے سکیورٹی اداروں پر حملہ ہوتا ہے تو کئی لوگ یہ گھسا پٹا سوال پوچھتے ہیں۔ میں اب تک سمجھ نہیں پایا کہ کہ لوگ بھولپن میں یہ سوال پوچھتے ہیں یا حقائق پر بات کرتے ان کے پر جلتے ہیں
مجھے یقین ہے آپ نے بھی یہ سوال یا تو خود کسی پوچھا ہوگا یا پھر کسی نے آپ سے کبھی نہ کبھی ضرور پوچھا ہوگا کہ، 'آخر پاکستان میں آج جو کچھ ہورہا ہے، وہ کیوں ہو رہا ہے، کون لوگ ہیں جو اس میں ملوث ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟
میں سوال پوچھنے والوں کا چہرا تکتے رہ جاتا ہوں۔ پچھلے دنوں امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں کئی پاکستانیوں نے بڑے افسردہ چہروں کے ساتھ مجھ سے یہی سوال پوچھا اور پھر جواب سننے کے بجائے خود ہی جواب دینا شروع کردیا۔ ان کے جواب کا لب لباب یہ تھا کہ یہ حملے کرنے والے مسلمان تو نہیں ہو سکتے، ضرور امریکہ، بھارت، موساد، بلیک واٹر، سی آئی اے وغیرہ کی پاکستان اور اسلام کو کمزور کرنے کی سازش ہے۔
میں ان سے کہنا چاہتا تھا (لیکن کہہ نہیں سکا اس لئے اب کہہ رہا ہوں) کہ بھائیو آپ سب لوگ ونوتو جزائر سے لیکر جبوتی تک ہر ملک کو اور سی آئی اے سے لیکن سینیٹری ورکرز ایسوسی ایشن تک سارے اداروں کو پاکستان کے حالات کا ذمہ دار ٹھراتے ہو لیکن یہ سمجھنے سے قاصر ہو کہ ایک ریاست، اس کے سیاستدان، اس کے ریاستی ادارے، حکمران طبقات، میڈیا اور مساجد سب اگر ساٹھ برس سے اپنے شہریوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر کررہے ہوں کہ یہ ملک اسلام کے لئے بنا ہے، مسلمان سب سے افضل ہیں، جہاد ہماری زندگی کا لازم جز ہے، ہندوستان، اسرائیل اور امریکہ سمیت تمام کافروں کی شکست تک بے تیغ بھی لڑتا ر ہے گا مومن تو ایسے ملک میں کس طرح کی فصل کاٹی جائے گی؟
جب ریاستی ادارے جہادیوں کی کھیپیں تیار کرتے رہے ہوں، پارلیمان شہریوں کے گروہوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرتی رہی ہو، سیاسی جماعتیں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف قیادت کرنے کے بجائے مذہب کو سیاسی حربے کے طور پر استعمال کرتی رہی ہوں، انسانی حقوق کے معاملات کو تنگ نظر عینکوں سے دکھانے کی کوشش کی جاتی رہی ہو، ریاستی ادارے عالمی شدت پسندی کے ملزمان کی پشت پناہی اور تعاون کرتے رہے ہوں اور اس طرح کے اقدامات کے خلاف بولنے والوں کو اسلام اور پاکستان کا دشمن قرار دیکر برسوں تک قید و بند کی صعوبتوں کی بھینٹ چڑہایا جاتا رہا ہو تو یہ سوال کتنا مذحقہ خیز لگتا ہے کہ 'بھائی وطن عزیز میں آج جو کچھ ہورہا وہ کیوں ہورہا ہے اور کون کر رہا ہے؟'
یکے بعد دیگرے آنے والی سول اور فوجی حکومتوں، آمروں اور فوج کے اداروں نے کبھی قومی مفادات کے لبادے میں تو کبھی ملک و قوم کی بقا کے جھانسے میں تو کبھی نظام مصطفیٰ کے نفاذ کے نام پر دھیرے دھیرے تمام جدید اقدار، نظریات، سائنسی علوم، انسانی حقوق اور عوام دوست سوچ کو ملک بدر کردیا۔ اس خلا کو ظاہر ہے کسی نہ کسی سوچ، کسی طرح کی اقدار اور کسی سماجی ڈھانچے کو تو پر کرنا ہی تھا اور وہ پر ہوئی۔
آج بھی ملک کے ارباب و اختیار، سیاسی اور فوجی قیادت، سیاستدانوں کی فوج ظفر موج اور میڈیا کے چہیتے جہادی ماضی سے سبق سیکھ کر ریاست کی بنیادی سوچ میں تبدیلی کی کوشش کے بجائے سطحی لیپاپوتی کے ذریعے بدنما داغ چھپانے تک ہی اکتفا کرنا چاہتے ہیں۔ کوئی بعید نہیں کہ کل یہی پھر پوچھیں گے کہ 'بھائی پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ کیوں ہو رہا ہے اور کون کر رہا ہے؟'
تبصرےتبصرہ کریں
‘کچھ اور بھی دے گیا لُطف
انداز تمہاری گفتگو کا‘
بہت خوب
محترم جاوید سومرو صاحب، اسلام علیکم! آپ کی تقریر بالکل بجا اور درست! لیکن اگر آپ ذرا دیر کے لیے خود کو بی بی سی اردو ڈاٹ کام کا نمائندہ سمجھنے کی بجائے بطور ایک باشعور، حقیقت پسند اور خرد پسند پاکستانی کی حیثیت سے غور و فکر کریں تو ایک سوال آپ کے ذہن میں بھی لازمی آئے گا کہ جہادی و ملائی تعلیم، ‘دو قومی نظریہ‘، نظریہ پاکستان‘ اور ‘مودودی ازم‘ تو پاکستان کے بنتے ہی پورے زور و شور سے ‘حرکت‘ میں آ گیا تھا لیکن جو اور جس کثرت سے دہشتگردی ملک میں آج ہو رہی ہے، وہ ‘نائن الیون‘ سے پہلے کیوں نہیں تھی؟ جب سے اتحادی افواج نے عراق سے افغانستان کا رُخ کیا ہے، تب سے ہی پاکستان میں دہشتگردی راتوں رات کیوں آسمان پر چڑھ گئی ہے؟ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب لینے کے لیے را، موساد، سی آئی اے، خار اور ان کے ملکی و غیرملکی ایجنٹوں کی طرف ازخود نظر پڑ جاتی ہے۔
جاويد صاحب! اٌپ کا دکھ بيشک صحيح` مگر اٌپ ہميشہ بندر کی بلا طويلے کے سر تھوپنا کيوں چاہتے ہيں- دہشتگرد اپنے مفاد ميں اسلام کا چوغہ اوڑھ کر محفوظ ہو رہے ہيں تو اسلام کو قصوروار ٹہرانا کيا صحيح ہے؟ جہاد کے متعلق قراٌن ميں بہت واضح احکامات ہيں اس لۓ جہاد کا فساد سے تعلق جوڑنا بھی مناسب نہيں ہے- رہا اٌپکا بنيادی دکھ کہ احمدی اسلام کے داۂرے سے خارج کيوں؟ تو اسکے لۓ بندہ صرف اتنا کہ سکتا ہے کہ اپنے ساختہ عقيدے کو اپنا نام ہی دو تو بہتر رہے گا-
پاکستان کو بنگلہ دیش سے سبق حاصل کرتےہوئے دو کام کرنے چاہییں۔ اسلام کا نام استعمال کرکے سیاست پر پابندی اور مودودی ٹائپ لٹریچر پر بھی پابندی لگانی چاہیے۔
آپ نے بالکل سچ لکھا ہے- ليکن عام پاکستانی بھی کيا کرے، اس نے تو راہنمائی کے ليۓ ليڈروں کی طرف ديکھنا ہوتا ہے- جبکہ ليڈروں کا يہ حال ہے کہ غريب قوم کے خرچے پر قلعہ بند ہوکر بيٹھے ہيں، يا حالات مزيد بگڑے تو ملک چھوڑ کر بھاگنے کي مکمل تياري بيک اپ پلان کے طور پر موجود ہے- کوئی معجزہ ہوگيا تو پھر آ دھمکيں گے-
سومرو صاحب!يہ ہماری بدقسمتی نہيں تو اور کيا ہے کہ ہم ايک ہی سوال کی گردان کرتے چلے آرہے ہيں۔کوئی بھی گھمبير سے گھمبير مسلہ ہو ہم غير سنجيدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چند ايک اداروں اور ملکوں کو مورود الزام ٹہرا کر اپنے آپکو بری الذمہقرار دے کر خوش و مطمين ہوجاتے ہيں۔جانے يہ ہماری سوچ اور پختہ عادت کب بدلے گي۔
آپکے خیال میں اگر پاکستان کو سیکولر ریاست قرار دے دیا جاءے تو سارے مسائل حل ہو جائی گے؟ بات کچھ بنی نہیں۔
سومرو صاحب سب جانتے ہیں یہ سب کون کر رہا ہے لیکن بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لینے کے مصداق کوئی بھی یہ ماننے کو تیار نہیں یہ دہشت گرد بھی ہمیں میں سے ہیں اور ایک مخصوس گروہ سے ہی تعلق رکھتے ہیں ۔ یہاں یہ بات یقیناً کہنی چاہیے کہ اچھے اور برے لوگ ہر معاشرے اور ہر فرقے میں موجود ہوتے ہیں اور دہشت گردی کا مذہب یا فرقے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ رائیونڈ سے لیکر محلے کی مسجد تک دیکھ لیں، نماز اور اعمالِ صالح کی تبلیغ تو ملے گی لیکن دہشت گردی اور خودکش دھماکوں کی مذمت میں ایک لفظ بھی نہیں ہو گا اگر کوئی ذکر سننے کو ملے گا بھی تو وہ امریکہ اور بھارت کو کوسنے اور جھادی تنظیموں کے لیے چندے کی اپیلیں۔
جاويد سومرو صاحب آپنے تو سب کچھ کھول کر رکھ ديا- اب ديکھيں تبصرہ نگار کسطرح آپکو بھی دائرہ اسلام يا دائرہ حب الوطنی سے خارج کرتے ہيں- ويسے بھی آپ سندھ سے ہيں، سب سے بڑے صوبے سے ہوتے تو پورے محب وطن سمجھے جاتے-
جناب والا!جہادی تو اس ملک ميں 80 کی دہائ سے موجود ہيں---خودکش حملے اب (2003)کيوں شروع ہوۓ؟
ميرے خيال ميں تو حکومت اس ميں ملوث ہےـاگر حکومت نہيں تو پھر آج تک کسی پکڑا کيوں نہيں۔ جب بھيکوئی واقعہ ہوتا تو ہم اسے نا معلوم افراد کے سر تھوپ ديتے ہيں۔ آج تک کوئي حملہ آورمعلوم نہ سکا۔دال ميں کچھ کالا ضرور ہے
جناب ، کب تک نہيں مانيں گے - يہ ديگ جو چڑھا رکھي ہے ايک دن پک کر تو اترے گي ہي - پھر ڈھکنا اٹھتے ہي چودہ طبق روشن ہوں گے - سب سامنے کھڑا نظر آۓ گا تو پوچھنے کو کيا رہ جاۓ گا -
يہ کون لوگ ہيں؟يہ وہی لوگ ہيں جو بڑی بڑی داڑھی رکھ کر لگژری گاڑيوں ميں بيٹھتے ہيں ايک سے زيادہ شادياں کی ہوتی ہيں اور مسجد ميں آکر غريبوں کے معصوم بچوں کو جہاد کی ترغيب ديتے ہيں اور ان کو باور کراتے ہيں کہ اس دنيا ميں آپ خامخواہ آئے ہيں آپ کا تو حوريں جنت ميں انتظار کررہی ہيں۔دنيا ميں ہر جگہ نوجوانوں کی تربيت جذبے سے ہی کی جاتی ہے ۔ترقی يافتہ ملکوں کے کرتا دھرتا اس معاملے ميں انتہائی مخلص جبکہ ہمارے ہاں يہ ہی لوگ اپنے مفاد کی خاطر ان نوجوانوں کو غير ضروری نظريات ميں الجھا کر ان کو قربانی کا بکرا بناتے ہيں اور خود اپنے ليۓ دنيا جنت بنائی ہوئی ہے اور حوروں کی بھی انہيں کوئی کمی نہيں۔