اس طرح کے قتل کا بدلہ کیا ہو سکتا ہے
پاکستان کے وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ سیالکوٹ میں پولیس کی موجودگی میں ہلاک کیے جانے والے دو سگے بھائیوں کے ملزموں کو بھی اسی جگہ لٹکایا جائےگا جہاں پر مقتول بھائیوں کو وحشیانہ تشدد کر کے ہلاک کیا گیا ہے۔
اس طرح کے جذبات کے اظہار میں وہ اکیلے نہیں بلکہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ تو کہتے ہیں اس واقعے کے ذمہ دار افراد کو بھی اسی طرح مارے جانا چاہیے جیسے دونوں بھائیوں کے ساتھ ہوا۔
ہو سکتا ہے وزیر داخلہ نے یہ بات صرف وقتی طور پر لوگوں کےجذبات کو دیکھتے ہوئے کی ہو، لیکن ذمہ دار عہدوں پرفائز لوگوں کا کام آئندہ کے لیے روشنی دکھانا بھی ہوتا ہے صرف لوگوں کی مرضی کی بات کرنا نہیں۔
ملک کے قانون میں قتل کی سزا تو ہے لیکن یہ قتل جس طرح کیا گیا اس کی سزا کا تعین کیسے ہوگا۔ کیا ریاست کی سطح پر بھی وہی 'درندگی' دکھائی جائے گی جو ان بچوں کو مارنے والوں نے دکھائی۔ کیا لاشوں کی توہین کی جائے گی۔
یہاں پر یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ آخر کس کس کو موت کے حوالے کیا جائے گا؟ کیا اس میں وہ نو عمر لڑکا بھی شامل ہوگا جو وڈیو فلم میں بڑوں کی دیکھا دیکھی لڑکوں کو مارتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اور پھر وہ جس نے خبروں کے مطابق بچوں کی ٹانگوں پر رسیاں باندھی۔ ان کا کیا ہوگا جو اس واقعے کو روک سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا۔
میری اہلیہ کو یہ پریشانی ہے کہ اگر ان سب کو سر عام لٹکا دیں گے تو اتنے خاندان اور تباہ ہو جائیں گے۔ ان کا تڑپنا کس طرح اس بات کی ضمانت ہے کہ آئندہ ایسا واقعہ نہیں ہوگا۔ اس واقعے کی مختلف وڈیو کو بار بار دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بات ان مارنے والے چند لوگوں کی نہیں بلکہ مرض بہت گہرا ہے۔
لوگ مجرموں کے لیے عبرتناک سزا کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن خبروں کے مطابق کوئی آواز دونوں بھائیوں کو مارنے کی ترغیب دیتے ہوئے ان کو بھی عبرت کا نشان بنانے کی بات کر رہی تھی۔
ہلاک ہونے والے لڑکوں کے لواحقین کا دکھ بجا ہے۔ بلکہ جس حوصلے سے وہ ٹی وی پر بات کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں وہ بے مثال ہے۔ ان کا سزا کا مطالبہ بھی درست ہے۔
لیکن سزا کے مطالبے کے ساتھ ساتھ ہر طرف سے لٹکا دینے اور بالکل وہی سلوک کرنے کی باتیں پریشان کن ہیں۔ اور شاید ان ہی میں اس سوال کا جواب پوشیدہ ہے جو سب پوچھ رہے ہیں کہ آخر بات یہاں تک پہنچی کیسے۔
پاکستان میں ایسا شاید پہلی بار ہوا ہے کہ وہ فعل جو ملک کی انتہائی بدنامی کا باعث بن سکتا ہو، اسے بھارتی یا مغربی یا سیہونی سازش قرار نہیں دیا گیا۔ اس سے کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔
سیالکوٹ کا واقعہ ایک دن کی پیشرفت نہیں۔ انسانی جان کو ارزاں کرنے میں بہت وقت لگا ہے۔ کیا لوگوں میں انسان کی عزت اور اہمیت صرف ڈرا دھمکا کر ہی پیدا کی جا سکتی کیا یہ مقصد ان کے اندر انسان کی عزت پیدا کر کے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
تبصرےتبصرہ کریں
اصل میں پاکستان میں لوگ گورنمنٹ سسٹم پر اتنا یقین نہیں رکھتے، اور پولیس ڈیپارٹمنٹ پہ تو بالکل بھی نہیں۔یہی بنیادی وجہ بنی اس سب کام کی۔ سب نے یہی سوچا کہ پولیس تک بات گئی تو کیس چلے گا، انصاف ملے گا بھی کہ نہیں پتا نہیں۔ ایک قتل بھی تو ہو گیا تھا ڈ کیتی میں۔ وہ تو یہ سب اس لئے کر رہے تھے کہ ڈاکو ڈر جائیں اور آئندہ ایسے کام نہ ہوں۔ اصل کام تو عوام کے دل میں اعتماد بنانا ہے، اگر انصاف ٹھیک سے ملے تو میرا نہیں خیال کہ لوگ ایسا کرتے۔ ہاں جو بے قصور تھے دونوں بھائی وہ کوئی موقعہ پہ نہ بتا سکا۔ مسٹر موڈریٹر کبھی میرا تبصرہ بھی شامل کر دیا کرو،
کسی کو ان مجرموں کے ساتھ نرمی نہیں دکھانی چاہیے۔ سیالکوٹ کا واقعے انہیں لوگوں کی وجہ سے ہوا ہے جن میں ٹی وی اینکر، جج اور پولیس والے شامل ہیں جن کے دل میں مجرموں کے لیے ہمدردی اور جو قاتلوں کے لیے سخت سزا نہیں چاہتے۔ ایسے واقعات روکنے کے لیے ہمیں ماضی سے سبق سیکھنا ہو گا اور سعودی عرب اور ایران جیسے ملکوں سے سبق سیکھنا ہوگا۔ اس واقعے میں ملوث لوگوں کو بری طرح مارا جانا چاہیے تاکہ پوری قوم سبق سیکھ سکے۔
انسانيت کی الف بے تو وہاں سکھائی جاتی ہے جہاں دماغ و دل موجود ہوں جبکہ يہ تو جانور ہيں۔ يہاں لاتوں سے کام چلتا ہے باتوں سے نہيں لہذا انکو عبرت کا نشان بنانے سے ہی باقی سبق سيکھيں گے اور مائيں ساس نندوں کا پيچھا چھوڑ کر بچوں کی تربيت پر توجہ کے ليے چند منٹ نکاليں گی
آداب - پتھر کے دور کا انسان بھی ھم سے زيادہ مہزب ہوگا- وافعہ اتنا دلخراش اور دردناک ہے کہ دل خون کے آنسو رو رہا ہے- مسلمان ہونے بر شرمندگی محسوس ہونے لگی ہے- اللہ ربالعزت کی طرف سے جو عذاب ہم بر نازل ہو رہے ہيں ان کی بنيادی وجہ ھماری معاشرتی پستی ہے-
اس اندوہناک سانحے کو گو کہ يفتے سے اوپر ہو گيا ہے مگر عقل ابھی تک اس بربريت کو تسلہم کرنے سے قاصر ہے- انسانيت کی اتنی تذليل اور وہ بھی قانون کے محافظوں کی موجودگی ميں قيامت سی قيامت ہے- محکمہ پوليس کو ختم کر کے ملّری پوليس لائی جائے
اصل میں ہمارے اندر کا انسان مر چکا ہے۔ انسانیت ختم ہو چکی ہے۔ اس واقعے سے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں درندگی پروان چڑھ چکی ہے۔ پاکستانی معاشرہ بالکل بے حس اور جاہل ہو چکا ہے۔
تہمارے بھائی بیٹوں کے ساتھ ایسا ہوا ہوتا تو تم کیا کرتے۔ یہ بھی لکھ دو کبھی۔ لکھنا، بولنا اور تبصرے کرنا سب سے آسان کام ہے۔
وزير داخلہ کا بيان بھی اس واقعہ سے ملتا جلتا دکھائی ديتا ہے کہ ايک برائی کو ختم کرنے کے ليۓ مزيد برائی کی جائے۔ تو حکومت اور ملزموں ميں کيا فرق رہ گيا۔اگر ايسا واقعہ مغربی ممالک ميں ہوتا اور وزير داخلہ يہ ہی بيان ديتا تو شايد اگلے دن اسے استعفی دينا پڑجاتا کيونکہ يہاں کے عوام تحمل مزاج ہيں بلکہ اگر يہ کہا جائے کہ وزير نے اصل ميں لوگوں کے ذہنوں کی ترجمانی کی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ ايسے واقعات کو روکنے کے ليۓ نصاب ميں تبديلی کی جائے اور جارہانہ موضوعات کو ختم کيا جائے اور سياستدان اور حکومت مثبت تنقيد کا ذريعہ اپنائيں اور اداروں بالخصوص عدليہ اور پوليس کو مضبوط کيا جائے۔ ہمارے وزراء آئے دن غير ملکی دورے کرتے رہتے ہيں ادھر آکر کبھی کبھار ان کے سسٹم کو ہی پڑھ ليں اور پاکستان آکر اس کا تجربہ ہی کرليں۔
پھانسی دی جائے سب کے سب کو جو اس میں ملوث ہیں۔ کل کوئی دوسرا ایسا کام نہ کر سکے۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں اور پاکستان کی بے عزتی ہو۔ سب کو پھانسی دے کر ایک مثال بنا دیا جائے۔
سکریہ
بالکل غلط ہوا ہے۔ سب کو بشمول پولیس ایسی سزا ملنی چاہیے تاکہ آیندہ ایساواقعہ رونما نہ ہو۔ ایک پاکستان کی آواز۔
آپ گندی ذہنیت کا دفاع کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں ان کو وہی سزا ملنی چاہیے جو انہوں نے دونوں بھائیوں کے ساتھ کیا۔ اسلام یہی سکھاتا ہے۔ جرم کا بدلہ جرم کے برابر ہونا چاہیے۔
انہیں سخت سزا ملنی چاہیے لیکن غیر انسانی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ میں یہ ضرور کہوں گا کہ ’سرکاری ڈاکو‘ پولیس
کو نئے سرے سے قائم کرنا چاہیے ابھی والوں میں انسانیت نہیں۔
.
جیسے انہوں نے یہ دونوں بھائی قتل کیے حکومت کو بھی انہیں ایسے ہی مارنا چاہیے
رمضان کريم ، اسد علی صاحب - ديکھ ليجيۓ اس مقدس مہينے ميں ”اسلام کے قلعے” ميں يہ کيا ہو رہا ہے - گلے کاٹو ، بموں سے اڑاؤ ، تہس نہس کر دو - بس اب يہي کچھ کرنے کو رہ گيا نظر آتا ہےاس قوم کے پاس - آپ نے درست کہا کہ يہ صورتحال راتوں رات تو مرتب نہيں ہوئی - جنوبي پنجاب ميں مخالفين کی برہنہ خواتين کےجلوس نکالےجاتے رہے- کسی ملا ، کسی افسر يا حکمران نے کيا کر ليا - نام نہاد عوامي دور سے ملاازم اور کرپٹ فوجي و سول حکومتوں تک تين دہائيوں سے چلےآ رہے اخلاقي انحطاط نے اعلٰي قدروں کا جنازہ نکال ديا ہے - جن پستيوں ميں يہ قوم جا گري ہے وہاں سے نکلنا ايک معجزہ ہی نظر آتا ہے -
جتنا نقصان ہوا ہے وہ والدین کا ہوا ہے جن کے جوان سال بیٹوں کو ظالموں نے سر عام بربریت کا نشانہ بناتے ہوئے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اور لاشوں کی بے حرمتی کی۔ رہی بات انصاف کی تو میں نہیں سمجھتا کہ وہ مظلوم فیملی کو ملے گا۔ کیونکہ پاکستان میں ظلم و ناآنصافی کا دوردورا ہے۔ غریب کو لوگ چیونٹی سے بھی ابتر سمجھتے ہیں۔ اگر موجودہ حکومت اپنی لیڈر بےنظیر بھٹو کے قاتلوں کو جانتے ہوئے بھی کیفرکردار تک نہ پہنچا سکی تو ان سے عوام کیا توقع رکھیں۔ ہماری عدلیہ بھی نا اھل اور سست ہے۔ ہاں یہ ظالم اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کبھی بچ نہیں سکیں گے۔اور اللہ کی ذات مظلوموں کو پورا پورا انصاف دے گی۔ انشاءاللہ یہ اس کا وعدہ ہے۔
کیا لوگوں میں انسان کی عزت اور اہمیت صرف ڈرا دھمکا کر ہی پیدا کی جا سکتی کیا یہ مقصد ان کے اندر انسان کی عزت پیدا کر کے حاصل نہیں کیا جا سکتا
اس سارے مجمع میں کوئی بھی انسان نہیں تھا۔ اور اگر سارا مجمع گندی بدبودار لاشیں تھیں تو پھر اس قوم کو ایسے ہی ذلیل و خوار ہونا اور مٹنا ہے جیسے ابھی ہو رہے ہیں۔
بات بہت گہری ہے۔ مرض پورے جاسم میں پھیل چکا ہے۔ سوال یہ بنتا ہے کہ اتنے سارے لوگوں سے کوئی بھی آدم زاد نہیں تھا جو اس کو رو سکتا۔ اتنے ہم گر گئے ہیں کہ ایک چھوٹا سا بچہ بھی بھی یونہی راہ میں ڈمڈہ اٹھا کر مارتا ہے۔ یا اللہ اس قوم پر سیلاب نہیں آئے گا تو کس پر آئے گا۔
جس طرح کسی کو بھی مرتکب توہین رسالت یا توہین قرآن قرار دے کر موقع پر تشدد کر کے ہلاک کیا جا سکتا ہے اور اس میں لوگ بھی جوش و خروش سے آپ کا ساتھ دیتے ہیں اسی طرح اب آپ ڈاکو قرار دے کر بھی مار سکتے ہیں۔ بعد میں کوئی بےقصور ہوا تو کیا ہوا۔
جس معاشرے ميں سب جانور ہوں وہاں انسانيت يا انسان کی عژت کہاں سے ملے گي؟
بچوں کے علاوہ باقی تمام ملزمان کو وہی سزا ملنی چاہیے جیسے ان دو بھائیوں کے ساتھ ہوا۔ کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔
جناب اسد علی صاحب اس طرح کے واقعات اس سے پلے بھی ہو چکے ہیں۔ اگر ایسے کرنے والوں کو عبرتناک سزا ملی ہوتی تو یہ ظلم شاید نہ ہوتا۔ لوگوں کے ذہن میں قانون کی دہشت ہوتی۔ اگر آپ نے ظلم روکنا ہے تو ظلم کرنے والوں کو سزا دینی پڑے گی چاہے ان کو ویسے ہی لٹکایا جائے جیسے انہوں نے کیا۔
مظلوم کا حق ہے کہ وہ ظلم کا بدلہ لے سکے۔ تو ایسے میں ظلم کرنے والوں کے گھر اجڑتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔
قاتلوں کو سر عام سزا ملنی چاہیے انہیں اسی جگہ فوراً سے فوراً الٹا لٹکنا چاہیے
اگر سما نہ دی گئی تو لوگ ایسا پھر کریں گے۔ یاد رکھیں خون کا بدلہ خون ہے۔ دو کو لٹکاؤ گے تو آئندہ کوئی یہ کرنے سے پہلے ضرور سوچے گا۔
میرے خیال میں ہمیں دونوں تربیت اور خوف کی ضرورت ہے۔ دنیا کے مہذم ترین معاشروں میں انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ قانون کا خوف بھی پیدا کیا جاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کو ان میں سے ایک صرف ایک چیز سے قابو نہیں کیا جا سکتا۔
جب آپ اس طرح ماورائے عدالت قتل کرنے والے پولس افسروں کو میڈل دیں گے تو پھر يہی کچھ ہو گا
اسد علي صاحب اكر آبكى بهائيون كو اس طرح قتل كيا جاتا تو كيا بهر بهي آب يهي بات كهتى، شايد نهين
واقيعہ بڑا المناک ہے۔ اس کو جنونيت، حیوانيت، سفاکي، درندگي يا کچھ بھی نام دو سب حقير سے لگتے ہيں
جناب اساد صاحب
اتنا تو آپ بھی جان گئے ہوں گے کہ انسانی جانوں کا معاملہ بھیڑیوں کے جذبہ رحم کے سپرد نہیں کیا جاسکتا ۔اگر بھیڑیے کا جذبہ رحم کسی وقت جوش میں آسکتا ہوتا تو ان معصوموں زندگی کی بھیک کے ۔آٓگے ضرور ہی پسیج جاتا اور ناکردہ گناہ کے عوض ان کی زندگی بخش دیتا۔ ان کے کیے کی سزا انھیں یوں دی جاسکتی ہے کہ ان کے انگ انگ کو ڈنڈوں سے سیکا جائے اور ان کی موت واقع ہونے سے ۵ منٹ پہلے انھیں وہیں چوک میں لٹکا کر پھانسی دیجائے۔ ہاں ریاست کو اتنا رحم دل ضرور ہونا چاہیے کہ ان درندوں نے معصوموں کو الٹا لٹکایا تھا ریاست کے کرتا دھرتا انہیں سیدھا لٹکا کر موت کی نیند سلادیں ۔رہ گیا مجرموں کے لیے امریکہ اور برطانیہ اور مغرب کا جذبہ رحم۔ دنیا اس کا حسین نظارہ جاپان ،اور اب عراق اور افغانستان میں دیکھ ہی چکی ہے اور روزانہ پاکستان میں ڈرون اٹیک کی شکل میں نظرآ رہا ہے۔
اس طرح سوچتے تو جتنے بی قاتل حوالات میں بند ہیں سب کو چھوڑ دینا چاہےکیوکہ سب کی فمیلی تو ہو گی ایک گھر تو تباہ ہوا دوسرے کو کرنے کی کیا ضرورت ہ ندیم (سپین )
اس گھناؤنی حرکت کرنے والوں سے یا ان کے خاندان والوں سے اظہار ہمدردی کرنا اور یہ باور کرنا کہ قاتل کو دی جانے والی سزا کسی اور خاندان کے لیے تباہ کن ہوگی، مقتول کے لواحقین کے ساتھ سنگین مزاق ہے۔
قاتل گروہ نے جہالت، سفاکیت، بربریت اور حیوانیت کی تمام حدود کو پار کیا تب وہ ہوش اور حواس میں رہتے ہوئے اس جرم کے کرنے کی سزا بخوبی جانتا اور سمجھتا تھا۔ لہٰذا قاتل عبرت ناک سزا کا ہی مستحق ہے۔ تاہم آئندہ ایسے واقعات سے بچنے کے لیے تربیت پر بھی توجہ ضروری ہے، لیکن واقعہ میں ملوث قاتلوں کے ساتھ ہمدردی دیگر درندوں کے لیے باعث راحت ہوگی۔
میں سمجھتا ہوں کہ سب سے پہلے ان والدین سے بات کی جائے ان کی مرضی کیا ہے۔ قصاص کا بدلہ قصاص ہے۔ اگر بدلہ لینا چاہتے ہیں تو بالکل لے سکتے ہیں اگر معاف کرتے ہیں تو بھی ان کی مرضی۔ لیکن ہوا بہت ہی غلط
ان سفاک لوگوں نے جو پوليس کی موجودگی ميں يہ سب کچھ کيا اور پوليس کو خاموش تماشائی پا کر وہ مزيد حوصلہ پاگۓ اور اس وحشت کو انجام تک لے گۓ_ ورنہ اگر پوليس اپنے فرض کو نبہاتی جسکی يہ قوم کے ٹيکس پر تنخواہ پاتے ہيں تو ملزم شاہد يہ سب کچھ نہ کرتے- پوليس جس کی يہ ڈيوٹی ہوتی ہے کہ وہ امن عامہ کے ليۓ قانون کے مطابق اقدام کريں- مگر پاکستان کی پوليس رشوت کے سوا کرتی ہی کيا ہے - مجرم ذہنيت کے لوگ جب سفارش کے ذريعے پر پوليس جيسے ادارے ميں آئيں گے تو ان سے کيا توقعہ رکھی جا سکتی ہے- ميرے خيال ميں اب وقت آگيا ہے کہ پوليس کے ادارے کو پرانے کلچر کو ختم کرکے ايک جديد ادارہ قائم کيا جائے- کيونکہ موجودہ پوليس کلچر انگريزوں نے ايک غلام قوم کو قابو رکھنے کی ليۓ بنايا تھا- امريکہ ميں پوليس قانون کے مطابق اپنا کام کرتی ہے اور اگر کوئی بھی قانون کی خلاف ورزی کرے چاہے وہ کوئی اعلی عہدہدار ہو يا کوئی بھی سے اسی طرح پيش آتی ہے جيسے وہ کسی عام آدمی سے- مگرايک فرق ہے پاکستانی پوليس سے وہ يہ ہے کہ سب کے ساتھ احترام کے ساتھ پيش آتی ہے تاآنکہ ملزم گرفتاری مزاحمت کرے تو پھر اسکے ساتھ سختی برتی جاتی ہے مگر زبان کو غليظ الفاظ سے تب بھی پاک رکھا جاتا ہے- کيونکہ پوليس کا کام کسی کو بے عزت کرنا نہيں نا ہی اسی کوسنے دينا ہوتا ہے- سزا اور نصيحت دينا عدالت کا کام ہوتا ہے- وہ تو گرفتاری کے وقت بھی سر اور ميم کے الفاظ استعمال کرتے ہيں _ يہ لمبی بحث ہے ـ اس طرح نہ صرف پوليس کرتی ہے بلکہ عام آدمی بھی احترام کو ہاتھ سے جانے نہيں ديتا- پورے معاشرے کا گھريلو اور اجتماعی سطح پر پرورش ميں غصے کا نہ ہونا اور بہت زيادہ نرمی کا استعمال ہے- تو جس معاشرے ميں غصے بڑھکوں اور مرنے مارنے کا کلچر شروع ہی سے سکھايا جاتا ہو تو اس معاشرے سے چاہے وہ کوئی بھی ہو آپ ايک معزب معاشرے کی توقع کس طرح کرسکتے ہيں- پھر چاہے وہ پوليس ہو يا کوئی بھی
یہ جو بھی ہوا جب معاشرہ بہت بگڑتا ہے تو وہیں سے کوئی ایک روشنی کی کرن اٹھنا شروع ہوتی ہے۔
اگر کوئی قانون ہے اور اگر کوئی حکمران ہے تو اس واقعے کواپنے لیے وارننگ سمجھے۔ بڑہ گنہگار وہ لوگ ہیں جنہوں نے یہ سب کچھ دیکھا۔ اس سارے مجمع کو بھی علامتی سزا ہونی چاہیے۔
‘کچھ اور بھی دے گیا لطف
انداز تمہاری گفتگو کا‘
آداب عرض! سب سے پہلے تو خاکسار اپنے اسد علی چوہدری جی کا بہت مشکور و ممنون ہے کہ انہوں نے ‘شہرِ اقبال‘ سیالکوٹ کے انسانیت سوز واقعہ اور اس واقعہ پر حکومتی، عوامی اور سول سوسائٹی کے ردِ عمل کو ایک منفرد اور الگ تھلگ اندازِ نظر سے دیکھ کر قارئین کی سوچیں جو کہ واقعہ ہذا پر سیاسی شخصیات کے تابڑ توڑ بیانات اور پرنٹ، الیکٹرانک اور سائبر میڈیا کے ‘جذباتی شور‘ تلے دَب کر رہ گئیں تھیں، انہیں باہر نکالا اور ہمیں جذبات کے غلبہ سے آزادی دلواتے ہوئے سیالکوٹ کے واقعہ کو دیکھنے، پرکھنے، جانچنے، تولنے اور سمجھنے کی طرف راغب کیا۔ آپ نے ایک ماہر امراض کی طرح مرض کے علاج سے پہلے مرض کی تشخیص و اسباب و وجوہات کی جانب توجہ دلواتے ہوئے بالکل بجا فرمایا ہے کہ بات مارنے والے چند لوگوں کی نہیں بلکہ مرض بہت گہرا ہے۔ خاکسار سمجھتا ہے کہ اس ‘حیوانیت‘ کی جڑیں نظام تعلیم اور نصابِ تعلیم سے پھوٹتی ہیں۔ سیالکوٹ کا واقعہ اس جانب توجہ مبذول کرواتا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام اور تعلیمی نصاب نسل میں کردار سازی، ذہن سازی اور اخلاق سازی پیدا کرنے میں بُری طرح ناکام ہے اور یہ صرف ‘جہادی نسل‘ پیدا کرنے میں لگا ہوا ہے اور جس کی شروعات ضیاءالحق نے ملک کو ‘اسلامائز‘ کرنے کے عمل سے کی۔ آج جو میڈیا، پولیس، محکمہ تعلیم اور دیگر اداروں میں اہم پوسٹوں پر جو لوگ فائز ہیں وہ ضیائی تعلیمی نظام سے ہی فیضیاب ہو کر آئے ہیں لہذا ان اداروں کی لاپرواہیاں، پولیس کی دادا گیری، ریسکیو کی خاموشی، ہجوم کی بے حسی بھی دراصل نتیجہ ہے ‘ضیائی تعلیمی نظام‘ کا۔ باقی یہ کہ چونکہ سیالکوٹ کا واقعہ بہت ہی دلخراش اور ناقابلِ وہم و گماں تھا، اس لیے اس واقعہ میں بلواسطہ و بلاواسطہ ملوث تمام افراد کو پہلے کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے اور عبرت ناک سزا دی جائے۔ وجہ یہ کہ ‘حال‘ کو ‘شانت‘ کیے بغیر ‘مستقبل‘ کی تیاری درست طریقے سے نہیں کی جا سکتی۔ مجرموں کو سزا دینے کے بعد اس طرح کے ‘اجتماعی قتل‘ کا ‘حقیقی بدلہ‘ لیا جائے جو کہ ایک ‘لانگ ٹرم‘ عمل کو پورا کر کے ہی لیا جا سکتا ہے۔
حکام کے ساتھ ساتھ پوری قوم مجرم ہے
اس واقعے کی سزا ڈیوٹی پر موجود پولس اہلکاروں افسران اور خصوصاً ڈی پی او کو ضرور ملنی چاہے ۔
اگر سزا نہ دی گئی تو لوگ ایسا پھر کریں گے۔ یاد رکھیں خون کا بدلہ خون ہے۔ دو کو لٹکاؤ گے تو آئندہ کوئی یہ کرنے سے پہلے ضرور سوچے گا۔
مجھے اگر اپنے انسان ہونے کا دکھ ہوا ہے، پاکستانی ہونے پر ندامت ہوئی ہے اور مسلمان ہونے پر شرم آئی ہے تو آج آئی ہے۔ انسانیت کی ایسی تذلیل شاید پتھر کے زمانے کے انسان بھی نہ کرتے ہوں گے۔قدرت کے بھی عجیب کرشمے ہیں، ڈوب مرنےکے لیے سیلاب بھیج دیا، ہمارے لیے تو چلو بھر پانی بھی بہت ہے۔
معاشرہ جس اخلاقی تنزلی کی طرف رواں دواں ھےیہ ہمارے لیےلمحھ فکریھ ھے۔خود ہی تفتیش کا ر خود ہی پراسیکیوٹر خود ہی جج کا کردار ادا کرتےیھ بپھرے ھجوم اس بات کا ثبوت ھےکہ عوام کا اداروں پر سے اعتماد اٹہھ چکا ہے مگر ایسے کسی بھی فعل کی مہذب معاشروں میں نہ تو کو ئی گنجائش ہےاورنھ ہی کو ئی قانونی واخلاقی جواز۔۔۔مغیث بٹ اور منیب بٹ کےورثاء سے اس اندوہ ناک سانحے پرجتنا بھی افسوس کیا جائےکم ہےمگر پنجابی فلموں کے ھیرو کی طرح بڑھکیں مارتے ان وزیروں اور مشیروں سےمودبانھ التماس ھےایک بھیانک جرم کا مداوا کسی دوسرےجذباتی قدم سے نہیں کیا جا سکتا۔۔۔۔۔۔۔ذمہ داروں کو ایسے ہی ماریں گے اور ایسے ہی لٹکائیںگےجیسے وعدے کرتے ان سیاسی رہنماؤں سے دست بستہ عرض ہےکہ اس واقعے سےپاکستان کاامیج بری طرح مجروح ھوا اب اور رسوائی کا سامان مت کیا جائے۔ غمزدہ خاندان کوفوری انصاف کی فراہمی سےجہاں ان کےزخموں پر مرہم رکھا جا سکتا ہے وھیں پاکستان کا امیج بھی بہتر کیا جا سکتا ہے
پنجاب کے دو سپوتوں کی موت پر پاکستان لرز اٹھا، انسانيت جاگ اٹھي` بنگاليوں سے ليکر بلوچستان کےگيارہ سالہ اسکولوں کےبچوں کو کون ياد کريگا خدا کاغضب نہيں تو يہ کيا ہے ،پاکستان کے ساتھ سرحديں ملنے والی کسی ملک کو سيلاب نام کی چيز نہيں آئی۔ يہ طوفان نوح صرف اس مملکت طلبان پرآئي،پٹھانوں سندھيو مرتے رہو، تماری موت کا رو کر دنيا سے جتنا بھيک مليگا اس سے ايک نيا پنجاب بنےگا،
اس سارے واقعے کا سارا الزام مرحوم جنرل ضیاءالحق کے دور میں مرتب ہونے والے تعلیمی نصاب کو ٹھراناسراسر زیادتی ہے۔ ضیاء دور پاکستان کی تاریخ کا ایک سنہرا دور تھا جہاں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے تھے۔ پنجاب میں حکومت وڈیروں اور چودھریوں کی رہی ہے جنھوں نے حالات کو اس نہج تک پہچایا۔ ضیاءالرحمان لاہور ؛- یہ سارا تعلیمی نظام تو آپکے سابق وزیراعلٰی پرویزالہیٰ نے بنایا تھا جس کا مشہور نعرہ تھا پڑھالکھاپنجاب ہمارا۔ پنجاب میں لوگ خصوصا دیہی علاقوں میں 95 پرسنٹ ان پڑھ ہیں۔ اس واقعے کو مد نظر رکھ کر وزیر اعلٰی کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ اور ظالموں کو اسی جگہ پر پھانسی دی جانی چاہیے یہ پاکستانیوں کی آواز ہے۔
ان لوگوں کا آپ کو خيال ہے کے ان کے گھر تباہ نہ ہوں اور ان کا خيال نہيں جن کا گھر تباہ ہو گيا جس معاشرہ ميں انصاف نہ ہو وہ پورامعاشرہ مٹ جانا چاہيے۔ان لوگوں کی درندگي کو کسی نے بھی نہ روکا وہ احا ديث اور آيات کہاں دفن کر ديں۔ کيا ان دو انسا نوں کا درد کسی نے محسوس نہيں کيا۔ کيا ان مارنے والوں کی مائيں اس ايک ماں کی ممتا محسوس نہيں کر سکتيں۔ اگر نہيں تو ان کی گود بھی خالی ہونے دو۔ کيا ہم آپ کی بات مان ليں تاکہ کل کسی اور کی گود ايسے اجڑجائے۔ سزا ملنی چاہيے جب ايک انسان اپنی خصلت چھوڑ دے تو اسے سزا تو ملنی چاہيے بے شک.
سیالکوٹ میں جو ھوا اسکی وجہ ہمارے معاشرے میں بدتریج داخل ہو جانے والا غصہ بھی ہو سکتا ہے- اگر ھم غور کریں تو غصہ اور بے حسی ھمارے معاشرے کا حصہ بنتے جا رھے ھیں جس کی وجہ ظالم حکمران، دین سے دوری یا ھمارے ارد گرد موجود محرومیاں کچھ بھی ھو سکتے ھیں- دو انسانوں کا قتل ھو جانا یا بیہمانہ قتل ھو جانا ھمارے معاشرے کے لئے کوئی نئی بات نہیں ھے اور نہ ہی یہ پولیس کی زیادتی کا پہلا واقعہ ھے- نئی چیز درحقیقت عام عوام ، نوجوانوں اور بزرگوں کا یوں دائرہ بنا کر دو انسانوں کے سسک سسک کر مرنے کا تماشہ دیکھنا ھے۔ سو اصل خوفناک اور دل دہلا دینے والی بات تو یہ ھے۔ باقی جہاں تک قاتلوں کو سر عام پھانسی دینے کا مطلابہ ھے تو یہ کوئی غلط بات نہیں اسلئے کہ ھمارے دین میں ایسی ھی سزا کا حکم ملتا ھے تاکہ مثال قائم ھو جائے لیکن کیا ایسا کبھی ھوگا؟ پاکستان میں فوری اور صحیح انصاف کی کون سی تازہ مثال یاد ھے اٌپکو؟
بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج بھی ہمارا پورا زور صرف اور صرف مجرموں کو بچانے پر ہے۔ اسد علی صاحب آپ جیسے لوگوں کو قاتلوں کے خاندانوں کا دکھ نظر آتا ہے مگر مقتولوں کا دکھ نظر نہیں آتا؟ مجھے یہ منطق سمجھ میں نہیں آتی کہ لوگ یہ فضول دلیل کیوں دینے لگتے ہیں کہ قاتلوں کو مارنے سے ان کے خاندان تباہ ہو جائیں گے؟ کیا قتل کوئی اتنا چھوٹا جرم ہے کہ صرف ’’سوری‘‘ کہنے سے کام چل جائے گا؟ کیا مقتول کی زندگی کی صرف یہی قیمت ہے کہ اس کے قاتل کو محض اس لئے چھوڑ دیا جائے کہ اس کا خاندان تباہ نہ ہو جائے؟ کیا اکیسویں صدی میں انصاف کے یہی تقاضے ہیں جو قاتلوں کو معاف کرتے ہیں اور مقتولوں کو چھوڑ دیتے ہیں؟ کیا قاتل قتل کرنے سے پہلے نہیں جانتا کہ جب قانون اسے پھانسی کے پھندے پر لٹکائے گا تو اس کے خاندان کا کیا ہو گا؟ جب وہ نہیں سوچتا تو ہم اس کی فکر کیوں کریں؟ ظالم کو معاف کرنا مظلوم کے ساتھ ظلم اور سرا سر نا انصافی ہے قاتل کے خاندان کے دہائی دے کر قاتل کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔ قاتل کو معاف کرنے کا دوسرا مطلب معاشرے میں جرائم کو فروغ دینا ہے جب قاتلوں کو یقین ہو جائے گا کہ نام نہاد انسانی حقوق کے چیمپئن انہیں بچانے کیلئے موجود ہیں تو ہر شخص دوسروں کے خون میں ہاتھ رنگ کر اپنے خاندان کی دہائی دے کر جان بچا لے گا۔ اسد صاحب آپ جیسے لوگ پورے معاشرے کو خون میں نہلانا چاہتے ہیں اور اس کی اجازت ہر گز نہیں دی جائے گی۔ میں اعلیٰ حکام سے گزارش کرتا ہوں کہ تمام قاتلوں کو سر عام پھانسی دی جائے اور ڈی پی او وقار چوہان سمیت تمام پولیس اہلکاروں کو دس سال قید با مشقت اور ملازمت سے برطرف کیا جائے۔
جہاں تک اس ’’نوعمر‘‘ لڑکے کی بات ہے تو میرے خیال میں اب تو بچہ بچہ قتل کی بات اور اس کے نتائج و عواقب کو بخوبی سمجھتا ہے اس لئے اسے رہا کرنے کے بجائے کم از کم دس سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا جائے تاکہ آئندہ زندگی میں وہ قتل کے نام سے بھی خوف کھائے۔ ایک انڈین فلم کا بڑا مشہور فقرہ ہے ’’جانور کو مارنے کیلئے جانور بننا پڑتا ہے‘‘ بے گناہ انسانوں کو وحشیانہ انداز میں قتل کرنے والوں کو اتنی ہی عبرت ناک موت دی جائے تو نا صرف مقتول خاندان کی تسلی ہوتی ہے بلکہ معاشرے میں جرائم بھی کم ہوتے ہیں۔ میں پوری پاکستانی قوم سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ قاتلوں کے خاندانوں کا بھلا سوچنے کے بجائے مقتول خاندان کا بھلا سوچنے پر زیادہ توجہ دیں ورنہ یاد رکھیں کہ جرم بڑھتا رہے گا اور ہر قاتل رہا ہو کر بڑھکیں مارتا ہوا کوئی نیا قتل کرنے چل پڑے گا مجھے یقین ہے کہ اگر تمام قاتلوں کو سیالکوٹ میں چوک پر لٹکا دیا گیا تو آئندہ کئی برسوں تک سیالکوٹ میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہو گا۔
ویسے اس مرض کے مکمل خاتمے کیلئے مزید کوششوں کی ضرورت ہے اور بڑے پیمانے پر سخت سزائیں نافز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تمام لوگ عبرت پکڑیں اور لوگوں کے دلوں میں قانون کا رعب بیٹھ جائے
آداب، جناب اتنی کلیئر وڈیو کے بعد بھی اگر ان قاتلوں کو سزا نہیں ملتی تو پھر اس ملک کا اللہ حافظ ہے۔ انہیں اسی جگہ لٹکایا جانا چاہیے۔
بلاشبہ ان جانوروں کی سزامتعين کرناايک پيچيدہ مسُلہ ھے- کيا پوليس والے قاتل نہيں جوان کوروک سکتےتھے؟وہاں موجودہروہ شخص گنہگارہے جس نے ان درندوں کو روکنےکی کوشش نہيں کي- سب کے سب تماشہ ديکھتے رہے- مرنے کے بعد الٹا لٹکانےوالےکاجرم کيا کم ہے؟ کيا ٹريکٹر ٹرالی ڈرائيور کا کوئی قصور نہيں؟ پھانسی تو بند کمرے ميں ہی ملنی چاہئے ان درندوں کو ليکن ايسا سلوک نہيں جيسا اِنہوں نے کيا-کيونکہ ہم بہت ساری ماؤوں کو مرتے ہوئے بيٹوں کی ويڈيو ديکھتے ہوئے نہيں ديکھہ سکين گے-
کيااس سانحہ کی وڈيو ديکھ کر تبصرے کرنے والے وہاں موجود وحشيوں سے مختلف ہيں ميں تو خبر پڑھکر سو نں سکا
اسلام علیکم
جناب میری تو توبہ ، میری پہچان پاکستان تھا ، اب جنگلستان بن چکا ہے
ضرورت وقت ہے کہ اپنی پہچان بدل لوں
ایک گزارش ہے کہ اپنے عطیات پاکستان مت بھیجیں۔ آپ انسانوں کی نہیں جانوروں کی مدد کر رہے ہیں
شکریہ