یہ کوئی اور دریا ہے !
زمیں پر ہر طرف یوں شور برپا ہے
کہ لگتا ہے کسی لمحہ قیامت آنے والی ہے
نہائیت سنگ دل مصروف دنیا ہے
کسے فرصت ہے ، یہ آہوں کا دکھڑا کون سنتا ہے
ہمیشہ گھومتی ہے چاندنی آباد گلیوں میں
وہ اس ٹوٹے ہوئے آنگن میں کس کے پاس آئے گی
اب اس نامرد سورج سے کلی کوئی نہیں کھلتی
اسے تو رقص کرنے سے کبھی فرصت نہیں ملتی
درختوں کو کسی سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی
ہوا اوروں کی خاطر ایک آنسو بھی نہیں روتی
پرندوں میں ازل سے گفتگو کی جنگ جاری ہے
بیابانوں میں ہر جانب عجب وحشت سی طاری ہے
بہت اونچا ہے نیلا آسماں مجبور ہاتھوں سے
کہے گا کیا کوئی ان اجنبی بے درد راتوں سے
میں اپنا درد کس کے پاس لے جاؤں
یہ دریا بھی مجھے لگتا ہے پاگل ہے
کسی چشمِ غزالی کا بے چارہ سخت گھائل ہے
ہمیشہ راہ میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے لڑتا ہے
کسی کو گالیاں دے کر گریباں سے پکڑتا ہے
کسی کا منہ چڑاتا ہے کسی کے پاؤں پڑتا ہے
کبھی آنکھیں دکھاتا ہے
کبھی بے چارگی سے سر جھکاتا ہے
کبھی دیوانگی میں اٹھ کے دامن چاک کرتا ہے
مسلسل آہیں بھرتا ہے
کبھی وحشت میں ہر رہ گیر کو آواز دیتا ہے
کبھی چپ سادھ لیتا ہے
ہمیشہ چلتے چلتے منہ ہی منہ میں بکتا رہتا ہے
کبھی غصے میں آتا ہے تو صدیوں کی روائت چھوڑ دیتا ہے
کناروں کی کلائی موڑ دیتا ہے
کبھی اس کی طرح ہنستا ہوا آباد لگتا ہے
کبھی بالکل میرے دل کی طرح برباد لگتا ہے
کہیں سنگیں چٹانوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا
کہیں مجبور مٹی سے نظر کترا کے چلتا ہے
کبھی سرگوشیوں میں مجھ سے کہتا ہے
چلو اک ساتھ جائیں ہم
کبھی چپ چاپ بہتا ہے تو لگتا ہے
یہ کوئی اور دریا ہے
( سیلاب سے اجڑے سوات سے احمد فواد)
تبصرےتبصرہ کریں
بہت اعلٰی نظم ہے۔ شکریہ۔
‘اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا‘
اس جیسی ہزاروں نظمیں بھی شاید ان کا کرب نہ بیان کر سکیں۔
سیلاب بہت بڑی مصیبت ہے، لیکن ساتھ ساتھ انسان کے عزم حوصلے اور جذبہ خدمت خلق کا امتحان بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس امتحان میں سرخرو کرے۔
ہم دونوں کی موت ميں اتنا فرق ہے
مجھے پياس نے مارا تجھے سيلاب نے
اک اور دريا کا سامنا تھا مجھ کو
ايک دريا کے پار اترا تو ميں نے ديکھا
نجيب الرحمن
محترم بہتر تھا اس شعر کی تشريح بھی کرديتے۔ احمد فواد نے اتنی اچھی نظم لکھی مگر ميں نہيں سمجھتا کہ آپ کا يہ شعر اسی فکر ميں لکھا گيا تھا جو کہ اب احمد فواد کو ہے۔ ويسے آپ تريمو يا پنجند يا ايسا مقام جہاں دو دريا آپس ميں ملتے ہوں تو تھوڑا سا پہلے ايک دريا پار کريں تو آگے دوسرا آجاتا ہے۔ برائے مہربانی ايک شعر ايک دفعہ لکھنا ہی کافی ہوتا ہے بار بار تب لکھيں اگر کوئی ارشاد کہے۔ معذرت کے ساتھ
دريا کم اور طالبان زيادہ لگتا ہے۔
فواد صاحب نے بہت جاندار نظم لکھی ہے، شايد وسعت صاحب کی ڈائری کے اس صفحے کو نظم ميں بيان کيا ہے، جس ميں انہوں نے درياؤں پر ہونے والے ظلم کو نہايت دکھی طريقے سے بيان کيا تھا۔ جنت نظير وادی سوات اور اس کی مانگ ميں بہتے دنيا کے خوبصورت ترين دريا پر بھی اتنے ہی ظلم توڑے گئے ہيں، جتنے باقی ملک کے درياؤں پر۔ ليکن اصل سوال يہ ہے کہ آيا ہم اپنی خوبصورت دھرتی پر ظلم ختم کريں گے يا نہيں۔ اگر جواب ابھی بھی ناں ميں ہے تو ابھی فواد صاحب کا دکھڑا ختم نہيں ہوا۔
‘دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا بیچ بھنور رہے‘